
ْْ ِْْ’’عمران خان، طاہر القادری اور آئی ایس آئی ہمارے بہترین دوست ہیں۔‘‘ یہ بات ہمیں پاکستان سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامے ’’ایکسپریس ٹریبیون‘‘ کی ہفتہ وار ادارتی میٹنگ میں مزاحیہ انداز میں بتائی گئی، یہ ۱۴؍اگست ۲۰۱۴ء کا دن تھا کہ جب دونوں رہ نما لاہور سے اسلام آباد کی جانب الگ الگ لانگ مارچ شروع کرنے والے تھے اسی لانگ مارچ کے بعد ملک سیاسی بحران کا شکار ہوگیا۔ایڈیٹر کا کہنا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ آسان کام نہیں ہے لیکن فی الحال ہمیں ایسا ہی کرنا ہے۔ البتہ اتنا وہ کہہ سکتے ہیں کہ جلد ہی حالات ٹھیک ہوجائیں گے۔ یہ اجلاس ایڈیٹر کی جانب سے وقتی طور پر پاکستان کی حکومت کو مفلوج کردینے والے اس دھرنے اور احتجاج کے دوران میڈیا گروپ کی ادارتی پالیسی واضح کرنے کے لیے بُلایا گیا تھا۔
چوں کہ مجھ سمیت سینئر ادارتی اسٹاف کی ملازمتیں داؤ پر تھیں، لہٰذا ہم سی ای او کی جانب سے دیے گئے ان احکامات پر عمل کرنے کے لیے بادلِ نا خواستہ راضی ہوگئے۔پاکستان میں میڈیا گروپس خاندانی ملکیت ہیں اور اپنے فیصلوں میں بااختیار۔ یہ فیصلے چاہے مارکیٹنگ سے متعلق ہوں یا مالیاتی یا ادارتی پالیسیوں سے متعلق، میڈیا مالکان اِن طاقتور میڈیا کے اداروں کو استعمال کرتے ہوئے یہ سارے فیصلے اپنے ایجنڈے کے مطابق ہی کرتے ہیں۔ میڈیا اداروں کے مالکان اور سربراہوں کی اکثریت کاروباری ہے، جن کا نہ تو صحافتی پسِ منظر ہے اور نہ ہی انہیں صحافتی اقدارسے کوئی دلچسپی۔ میڈیا مالکان اور پبلشروں نے اپنے نیوز روم اور ایڈیٹر سمیت تمام اسٹاف پر یہ اچھی طرح واضح کردیاہے کہ کسی بھی جانب جھکاؤ یا بے جا حاشیہ نگاری ناقابل قبول ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ میڈیا کے لوگوں پر تشدد اور ڈرانے دھمکانے کے امکانات بہت زیادہ ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سال ۲۰۱۴ء میں جاری کی گئی بین الاقوامی آزادی صحافت کی فہرست میں پاکستان دنیا کے ۱۸۰ ممالک میں ۱۵۸ ویں نمبرپرہے۔
پاکستان کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ اور قومی سطح کے بڑے میڈیا اداروں کے درمیان ملی بھگت بھی ملکی صحافتی منظر نامے پر ایک مبہم مسئلے کی صورت موجود ہے۔ اس کا براہ راست تجربہ مجھے اُس وقت ہوا جب میں مقبول کرکٹر سے سیاستدان بننے والے عمران خان اور پاکستانی کینیڈین صوفی علامہ طاہر القادری کے حالیہ احتجاج کے دوران ’’ایکسپریس ٹریبیون‘‘ میں صحافی کے طور پر کام کررہی تھی۔ اس دوران پاکستانی میڈیا کے طاقتور اداروں مثلاً اے آر وائی نیوز، ایکسپریس میڈیا گروپ اور دنیا نیوز کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ’’اختلاف رائے‘‘ رکھنے والے سیاستدانوں اور اُن کے دھرنے کی حمایت کرنے کی ہدایات ملیں۔ شاید فوج میڈیا کی طاقت نواز شریف کا قد کم کرنے کے لیے استعمال کررہی تھی۔
میڈیا کی ذمّہ داری
عمران خان اور طاہر القادری سے متعلق جو بھی خبر ہوتی وہ ایکسپریس میڈیا گروپ میں خلافِ مصلحت پہلے صفحے پر لیڈ اسٹوری یا ہرگھنٹے کے نیوز بلیٹن میں جگہ حاصل کرتی رہی۔ میں خود اس بات کی شاہد ہوں کہ جب نوازشریف کی حمایت میں سروے کی خبرکو سنسر کیا گیا اور عمران خان اورطاہر القادری کے مظاہرین کے غلط طرز عمل اور مظاہرین کی تعداد بتدریج کم ہونے کے ثبوت سے متعلق خبروں پر قینچی کا استعمال کیا گیا۔ جب بی بی سی طاہر القادری کے مظاہرین کو رقم کی مبینہ ادائیگی سے متعلق خبریں شائع کررہا تھا اور پاکستان کے سرکردہ انگریزی اخبارات اور ایکسپریس ٹریبیون کے حریف سیاسی بحران میں فوج کے کردار سے متعلق زوردار اداریے شائع کررہے تھے، اس وقت ہم مظاہرین سے متعلق کوئی منفی بات شائع نہ ہونے کو یقینی بنا رہے تھے۔
مجھے میرے قومی ایڈیٹر نے بتایا کہ روزانہ رات گئے مضطربانہ ٹیلیفون کالیں موصول ہوتی تھیں کہ آنے والے دن کونسی خبر کو نمایاں کرنا ہے یا مضامین کو کس زاویے سے پیش کرنا ہے ۔ پہلے ہمیں بتایا گیا کہ عمران خان کو زیادہ توجہ کا مرکز بنانا ہے۔ ان کو شہ سرخی میں رکھنا ہے اور بڑی تصویر رکھنی ہے۔ یہ سی ای او کی طرف سے دی گئی مخصوص ہدایات تھیں۔ کچھ ہی عرصے بعد نیوز گروپ کے مالک طاہر القادری کو مناسب کوریج نہ دینے پر مضطرب تھے۔ ہمیں بعد میں پتا چلا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ دونوںرہ نماؤں کی یکساں طور پرحمایت کررہی تھی اور میڈیا سے بھی یہی توقع کی جارہی تھی۔
اپنی پیشہ ورانہ حیثیت میں ایڈیٹر اور ڈیسک ایڈیٹرنے مزاحمت کی کوشش کی۔ انہوں نے ہوشیاری سے کچھ کالم احتجاج کے خلاف لگا نے کی کوشش کی۔ انہوں نے عمران خان اورطاہر القادری کے خلاف خبریں نہ شائع کرنے کی پابندیوں کو اخبارات کے ویب ایڈیشن تک توسیع نہیں دی اوراخبار کی خصوصیت یعنی تحقیقاتی اور تجزیاتی رپورٹوں کے لیے رپورٹروں کی حوصلہ افزائی کی۔ لیکن سی ای او کی مداخلت اور اسٹیبلشمنٹ کی ہدایت کے مطابق کام کرنے کے احکامات نے عملے کو آزادی سے کام نہیں کرنے دیا۔اوپر سے ہدایات کبھی بھی سینئر ادارتی اسٹاف جس کا میں حصہ تھی، کو نہیں آتی تھیں، بلکہ یہ براہ راست سی ای او کے ذریعے ایڈیٹر یا قومی ایڈیٹر، جو مرکزی قومی ڈیسک کی نگرانی کرتے تھے، کے پاس آتی تھیں اور پھر ہمیں ملتی تھیں۔
لوگ اکثر فوج اور میڈیا کے گٹھ جوڑ کے بارے میں اندازے لگاتے رہتے ہیں، لیکن وفاقی دارلحکومت میں حالیہ سیاسی تعطل کی طرح جیو نیوزکا تنازعہ بھی ہے کہ جب فوجی اسٹیبلشمنٹ انتہائی طریقوں کا سہارا لیتی ہوئی دیکھی گئی۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے دوسرے میڈیا گروپوں کو جیو کے خلاف نیوز اسٹوریز شائع کرنے کے لیے دباؤڈالا۔ جب جیو کے ایک پروگرام کے سب سے مقبول میزبان حامد میر پر قاتلانہ حملے کا الزام اُس وقت کے آئی ایس آئی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام پر لگائے جانے کے بعد ملک کے سب سے بڑے اورسب سے زیادہ دیکھے جانے والے چینل کی نشریات معطل کرنے کے لیے کیبل آپریٹروں کو مجبور کیا گیا۔اس پورے عرصے میں میڈیا اور فوج نے ایک ساتھ کام کیا۔
بیشتر معاملات میں عام طور پر یہ جانا جاتا ہے کہ بڑے ٹی وی اینکرزکے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور وہ ذاتی طور پر ہدایات لیتے ہیں اور اپنے متعلقہ میڈیا گروپ کے مالکان تک پہنچاتے ہیں۔ ان کی کوریج میں یہ جھکاؤ نظر آتا ہے۔
اینکرز نہ صرف غلط رپورٹنگ میں ملوث ہوتے ہیں بلکہ حقیقی سیاسی حالات کو بھی توڑ مروڑ کر منتخب جمہوری حکومت کے خلاف رائے عامہ تشکیل دیتے ہیں ۔ سابقہ حکومتی حکام کے بیان کردہ تجربا ت سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے ۔ ایک سینئرآفیشل نے مجھے بتایا کہ ٹی وی اینکرز اگر وزارت اطلاعات ونشریات سے نہیں توفوجی اسٹیبلشمنٹ سے فنڈ وصول کرتے ہیں۔ آج تمام پاکستانی خفیہ ایجنسیوں اورفوج کے اپنے میڈیا کے شعبے ہیں جو بظاہر اطلاعات اور پریس بریفینگ مہیا کرتے ہیں، درحقیقت یہ طویل مباحثوں کو چھیڑتے اور قومی اندازفکر کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ اندازِ فکر فوج کی حمایت میں ہوتا ہے۔ خاص طور پر ایک مثال پر غور کیجیے۔
۳۱ اگست کو جب عمران خان اور طاہر القادری کے مظاہرین نے پارلیمان کے دروازوں پر دھاوا بولا تو ’’اے آر وائی نیوز‘‘ کے اینکر مبشر لقمان نے براہِ راست نشریات کے دوران فوج کو سلام پیش کیا اور مظاہرین اور ملک کو بچانے کے لیے حکومت کا تختہ اُلٹنے کی بات کی۔ واضح رہے کہ جب جیو نیوز کی نشریات غیر قانونی طور پر بند کروائی گئیں تو اے آر وائی نیوز ملک میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والا چینل تھا۔ اس سے قبل ۲۵ اگست کو بھی مبشر لقمان ’’فوجی بوٹوں‘‘ کو یہ کہتے ہوئے خوش آمدید کہہ چکے تھے کہ اُنہیں ملک لوٹنے والے بد عنوان سیاست دانوں سے کوئی ہمدردی نہیں۔
شاید یہ ناکافی تھا اسی لیے ’’اے آر وائی‘‘ پر مبشر لقمان اور ان کے ساتھی اینکرز، جن میں سے کچھ فوج اور آئی ایس آئی کے ساتھ مضبوط تعلقات کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، نے براہ راست فساد ات سے نمٹنے والی پولیس پر سات افراد کو ہلاک کرنے کا غیر تصدیق شدہ الزام لگایادیا۔ جب کہ دیگر خبری ذرائع تین افراد کی ہلاکت کی تصدیق کر رہے تھے جن میں سے ایک ہلاکت کسی حادثے کے نتیجے میں ہوئی تھی۔ مزید برآں یہ کہ جب پاکستان تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی نے یکم ستمبرکوپارٹی سے علیحدگی کا اعلان کرنے کے بعد عوام کے سامنے یہ انکشاف کیا کہ عمران خان نوازشریف کی حکومت کے خاتمے کے لیے فوج اور عدلیہ پر انحصار کررہے ہیں، تو مبشر لقمان نے جاوید ہاشمی پر شدید تنقید کی۔ جب کہ اُن کے ساتھی اینکر فواد چوہدری نے اس بات پر اصرار کیا کہ ہاشمی کو نواز شریف کے قریبی ساتھیوں نے پی ٹی آئی میں پلانٹ کیا تھا۔
جاوید ہاشمی جو اپنی اصولی سیاست کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں، برسوں جیل میں گزار چکے ہیں اور فوجی تشدد کا سامنا بھی کرچکے ہیں۔ جاوید ہاشمی نے ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ عمران خان نے کہا تھا کہ ہم بغیر فوج کے تعاون کے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اُنہوں نے مزید انکشاف کیا کہ عمران خان کا کہنا تھا کہ تمام معاملات طے ہوچکے ہیں اور ستمبر میں انتخابات ہوں گے۔
جاوید ہاشمی کے ان انکشافات کے بعد جلد ہی ایکسپریس ٹریبیون میں ہمیں فوج کے تعلقاتِ عامہ کے شعبے انٹر سروسز پبلک ریلیشن (آئی ایس پی آر) کی جانب سے سیاسی بحران میں فوج کے فریق نہ ہونے کے اعلانات کو نمایاں کرنے کی ہدایت ملی ۔اس دوران فو ج دفاعی پوزیشن میں تھی اور جاوید ہاشمی کے انکشافات کی تردید جاری کررہی تھی۔ اسی دوران ہمیں فوج سے ملنے والی ہدایات بھی کم ہوگئیں ۔ پاکستان کی تاریخ میں میڈیا کے مباحثوں پر ملک کے سب سے طاقتور ادارے یعنی فوج کا اثر رہا ہے۔ بعض اوقات سول حکومتوں کی جانب سے بھی میڈیا کواُس وقت تک سختی یا دباؤ کا سامنا کرنا پڑاجب تک فوج نے اُنہیں اقتدار سے باہر نہیں کردیا۔ پاکستان میں منتخب نمایندوں اور جمہوری اداروں کے خلاف ایک دانستہ تعصب پایا جاتا ہے۔ اس طرح کے مباحثے غیر ارادی طور پر قوم پہ یہ تاثر چھوڑتے ہیں کہ جمہوریت کام نہیں کررہی اور فوج کے بہتر انتخاب ہونے کا تاثر پیدا ہوتا ہے ۔
میڈیا مالکان فوجی اسٹیبلشمنٹ کا انتخاب کرتے ہوئے ہی معلوم ہوتے ہیں کیونکہ صرف یہی پاکستان کی سیاست میں تسلسل کے ساتھ طاقت ور ادارہ رہاہے۔ ملک کی سیاسی طاقت کا نظام افراد اور اداروں کو اپنے سے دور بھگاتا رہا ہے ۔ یہ نظام فوج اور اُس کی اعلیٰ ترین خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے شروع ہوتا ہے اور اُسی پر ختم ہوتا ہے۔ لیکن گھمبیر مسائل کی تاریخ رکھنے والے اس ملک میں حالیہ مداخلت چونکا دینے والی ہے۔
موجودہ سیاسی تصادم سے پہلے۲۶ مئی ۲۰۱۴ء کو بھی جب نواز شریف اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے لیے بھارت کے دورے پر تھے، اسٹیبلشمنٹ خبری سرخیوں اورادارتی پالیسوں پر ہدایات جاری کرتی رہی ہے۔ مجھے نواز شریف اور نریندر مودی ملاقات کی شہ سرخی کومنفی رُخ دینے کے احکامات دیے گئے، اور یہ لکھنے کو کہا گیا کہ بھارتی وزیر اعظم نواز شریف کو خوش آمدید نہیں کررہے اور سیکورٹی کے مسائل کو ہی گفتگو کا موضوع بنائے ہوئے ہیں۔ سی ای او کی جانب سے براہِ راست حکم تھا کہ خبر میں لفظ ’’show-cause‘‘ کو لازمی شامل کرنا ہے، جب کہ سی ای او کو فوج سے ہدایات مل رہی تھیں۔
یہ بات درست ہے کہ ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کے عملے پر گزشتہ سال کے دوران کئی نازک معاملات اٹھانے پر حملے کیے گئے۔ یہ بھی درست ہے کہ ایکسپریس ٹریبیون نے فوجی تعاون کے ساتھ جاری حکومت مخالف مہم کو غیر جانبداررکھنے کے لیے مخالف رائے کے اداریوں اور خبروں کو شائع کیا اور یہاں اس بات کی بھی کوشش کی گئی کہ ملٹری حمایت کردہ حکومت مخالف جھکاؤ کے ساتھ دوسری رائے کو ایڈیٹوریل اور علیحدہ اسٹوریز میں جگہ دی گئی، لیکن ایکسپریس میڈیا گروپ کو بھی اسی ملک میں چلنا ہے جہاں فوج زندگی کے ہر شعبے پر حاوی ہے۔
یہ ایک مشکل انتخاب ہے کہ فوج صحافیوں کے تحفظ کے لیے تیار نہیں، جب کہ میڈیا فوج کے تاثر اور ظاہری غیر سیاسی تشخص کی حفاظت جاری رکھے ہوئے ہے۔
(مترجم: ربیع اﷲ خان)
“Not fit to print: An insider account of Pakistani censorship”. (“Foreign Policy”. Nov. 20, 2014)
Leave a Reply