
ہر سال ستمبر میں دنیا کے لیڈر ہمارے بنیادی چارٹر کی توثیق نو کے لیے اقوام متحدہ میں جمع ہوتے ہیں، جو امن، انصاف، انسانی حقوق اور سب کے لیے مساوی مواقع کے متعلق ہمارے بنیادی اصولوں کے عقائد پر مبنی ہے۔ ہم دنیا کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں، موجودہ اہم مسائل پر گفتگو کرتے ہیں اور مزید پیش رفت کے لیے اپنے نظریے پیش کرتے ہیں۔
لیکن رواں سال مختلف ہے۔ جنرل اسمبلی کے ۶۴ ویں اجلاس میں ہمیں کہا گیا کہ ایک سنگین وقت کا سامنا کرنے کی تیاری کی جائے۔ ہمیں بہت سے بحران درپیش ہیں مثلاً خوراک، توانائی، معیشت کا تنزل، وبائی فلو اور یہ سب کچھ ایک ہی وقت میں پیش آ رہا ہے۔ اگر کوئی وقت ہے کہ ایک نئے بین الاقوامی اور متحد جذبے کے ساتھ کام کیا جائے اور اقوام متحدہ کو صحیح معنوں میں ’’متحد‘‘ کیا جائے تو وہ یہی وقت ہے اور ہم اس وقت یہی کام کر رہے ہیں اور تین مسائل پر تاریخی نتائج کی حامل کارروائی کی جا رہی ہے۔
اوّل ایک انسانی قبیلے کے طور پر ہمیں جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ ہے موسم کی تباہ کن تبدیلی کا خطرہ اور عالمی لیڈر متحد ہو کر اسے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ۱۶۳ ممالک کے ۱۰۱ لیڈروں کا اجتماع ہوا، تاکہ دسمبر میں کوپن ہیگن میں منعقد ہونے والی اقوام متحدہ کی موسم کی تبدیلی کے متعلق اہم ترین کانفرنس کے لیے اقدامات کی تیاری کی جا سکے۔ انہوں نے ایک معاہدے کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے کہ تمام ممالک اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق ایسے اقدامات اپنائیں جنہیں سائنس ضروری سمجھتی ہے اور جو ’’سرسبز مشاغل‘‘ اور ’’سرسبز پیداوار‘‘ کے متعلق ہیں اور ۲۱ ویں صدی کی عالمی معیشت کے لیے ایک لائف لائن کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ان چیلنجز سے مقابلے کے لیے اقوام متحدہ میں ہم نے بہت احتیاط کے ساتھ تیاری کی ہے۔ ڈھائی سال سے جب سے میں سیکریٹری جنرل بنا ہوں ہم نے موسم کی تبدیلی کے مسئلے کو عالمی ایجنڈے میں سرفہرست رکھا ہوا ہے۔ آج ہم ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے سربراہی اجلاس میں اس مسئلے پر تفصیلی بحث کی گئی اور تمام دنیا کے دارالحکومتوں میں اس پر توجہ دی گئی۔ بلاشبہ یہ مسائل پیچیدہ اور مشکل ہیں اور خصوصاً مالی بحران سے نمٹنے اور غریب ممالک میں غربت کے خاتمے کی کوشش کے مسائل ہیں۔
جاپان نے ایک چیلنج پیش کیا ہے کہ اگر دیگر ممالک بھی اس کی تقلید کریں، تو وہ ۲۰۲۰ء تک CO2 میں ۲۵ فیصد کمی کرنے کے لیے تیار ہے۔ چین کے صدر ہوجن تائو نے اپنے ملک کے متعلق وہ سب کچھ بتایا ہے جو کچھ وہاں توانائی کے بارے میں اور متبادل ’’سرسبزی‘‘ کے متعلق کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ چین بین الاقوامی معاہدے کے تحت مزید اقدامات کے لیے تیار ہے جبکہ یہی کچھ امریکی صدر بارک اوباما نے کیا ہے۔
مذاکرات میں حصہ لینے والے بنکاک میں اقوام متحدہ کے ایک اور اجلاس کے لیے جمع ہو رہے ہیں اور ہم نومبر میں ایک چھوٹی سطح کا اجلاس بلانے پر غور کر رہے ہیں۔ ہم کچھ بنانے یا بگاڑنے کے موجودہ سال میں کچھ کرنا چاہتے ہیں۔
ہم نے ایٹمی ہتھیاروں میں تخفیف کے دوسرے نہایت اہم مسئلے پر بھی غور کیا ہے۔ آخر کار یہ مفروضہ کہ ایٹمی ہتھیار امن قائم رکھنے کے لیے ضروری ہیں، ختم ہو رہا ہے۔ صدر اوباما کی طرف سے بلائے گئے ایک خصوصی سربراہی اجلاس میں سیکورٹی کونسل نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی ہے جس کے تحت ایٹمی پھیلائو اور خاتمے کے متعلق اقوام متحدہ کی کوششوں کا اعتراف کیا گیا ہے۔
اس قرارداد سے آئندہ مئی کے مہینے تک ایٹمی این پی ٹی کے دائرہ کار میں توسیع کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں اور امید پیدا ہوئی ہے کہ سی ٹی بی ٹی پر بھی عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔ اس سے قانونی فریم ورک بھی سامنے آیا ہے جس کے تحت سویلین ایٹمی ٹیکنالوجی کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جا سکے گی اور متعدد اجلاسوں میں اس اتفاق رائے کی نشاندہی ہوتی ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ ان ممالک پر دبائو بڑھایا جائے، جو ان اصولوں کا احترام نہیں کر رہے۔
دنیا ایک تیسرے محاذ پر بھی متحدہے۔ ہم ایک نئے بحران کو سر اٹھاتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ ہماری ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ایسی آوازیں آ رہی ہیں کہ جو لوگ خطِ غربت کے قریب تھے، وہ غریب ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس سال دس کروڑ افراد خطِ غربت سے نیچے جا سکتے ہیں۔ مارکیٹیں تازہ دم ہو رہی ہیں لیکن ملازمتیں اور آمدن ناپید ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال کے آغاز میں اقوام متحدہ نے ’’گلوبل جابز پیکٹ‘‘ پیش کیا تھا جو ایک متوازن اور دیرپا پیداوار کے متعلق تھا۔ اسی ضمن میں ہم ایک نیا Global impact vulnerability alert system متعارف کرا رہے ہیں، جو ہمیں ساری دنیا میں معاشرتی اقتصادی حالات کے متعلق صحیح اعداد و شمار اور تجزیہ مہیا کرے گا۔ ہم درست طور پر جاننا چاہتے ہیں کہ مالی بحران سے کون اور کہاں متاثر ہوا ہے تاکہ ہم اس کے حل کے لیے کچھ کر سکیں۔
یہی وجہ ہے کہ آئندہ سال اسی موقع پر ہم ’’میلینیم ڈیولپمنٹ گولز‘‘ کے موضوع پر ایک خصوصی سربراہی اجلاس بلائیں گے۔ صحت، تعلیم اور انسانی تحفظ کے اہداف کے حصول کے ضمن میں ہمارے پاس صرف پانچ سال رہ گئے ہیں جن کے لیے ہم نے ۲۰۱۵ء کا سال مقرر کیا ہوا ہے۔ گزشتہ سال جی ۲۰ کے متعدد سربراہی اجلاسوں میں جن میں حال ہی میں پٹس برگ میں ہونے والا اجلاس بھی شامل ہے اقوام متحدہ نے پورے عزم کے ساتھ ان لوگوں کی مدد کا اعلان کیا ہے، جو پیچھے رہ گئے ہیں۔
جنرل اسمبلی میں ہمیشہ بہت تقریریں ہوتی ہیں مگر عمل عموماً تھوڑا ہوتا ہے۔ پھر بھی گزشتہ ہفتے عالمی لیڈروں کی تقریریں سن کر میں بہت جذباتی ہو گیا تھا اور اجتماعی عزم کا اظہار کیا تھا کہ ان ملکوں کی مدد کی جائے جو ساری دنیا کی اچھائی کے لیے متحد ہو کر کام کر رہے ہیں۔ موسم کی تبدیلی کا سامنا کرنے سے دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے تک، تاکہ دنیا کو ایک مساوی اور دیرپا معیشت مہیا ہو سکے، میں نے ایک نیا کثیر المملکتی عزم دیکھا ہے جس میں اقوام متحدہ پیش پیش ہے۔ کوئی بھی اکیلا رہ کر ان چیلنجز میں سے کسی ایک کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ لیکن جیسا کہ ملکوں میں اتحاد ہے اقوام متحدہ کا ادارہ یہ کام کر سکتا ہے۔
(بشکریہ: ’’جورڈن ٹائمز‘‘۔ ترجمہ: ریحان قوم)
Leave a Reply