عرب عوام کو غلام بنانے کے لیے جو اس کی مرضی کے آگے جھکنے سے انکاری ہیں اسرائیل اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بضد رہا ہے کہ اپنے پڑوس کے عرب ممالک کو مستقل طور سے مصائب و آلام سے دوچار رکھا جائے۔ حزب اللہ نے امریکی حمایت یافتہ اسرائیل کے خلاف اپنی تیسرے ہفتے کی مزاحمت میں لبنانی سرحدوں سے پار اسرائیل کے فوجی اور تجارتی مراکز پر مزید راکٹ داغے ہیں۔ حیفہ جو اسرائیل کا تیسرا بڑا شہر ہے تقریباً خالی ہوچکا ہے جبکہ خوف اور پریشانی نے کرمیل اور نہاریا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیاہے۔ حزب اللہ کے رہنما سید حسن نصراللہ اور ان کے پرعزم جنگجو اپنی مزاحمت کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور انتہائی دشوار کن حالات میں اپنی شجاعت مندانہ کارناموں سے یہ ثابت کررہے ہیں کہ وہ ایک ایسی قوت ہیں جنہیں خاطر میں لایا جانا چاہیے۔ تل ابیب اور واشنگٹن حزب اللہ کی قوت وصلاحیت کے آگے بے بس نظر آتے ہیں جس نے دُنیا کی سب سے زیادہ خوف زدہ مگر سرتاپا مسلح فوج سے نبردآزما ہوتے ہوئے انہیں بھاری نقصان سے دوچار کیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ حزب اللہ نے تل ابیب جیسی بھیانک فوجی قوت کے ساتھ جنگ میں اپنی قوت کا محض ایک حصہ ظاہر کیا ہے‘ صیہونی وزیراعظم ایہود اولمرٹ اور شمن پیرز میں مایوسی کی بلکہ کسی حد تک خوف کی بھی علامت ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہے۔ رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ اولمرٹ اور اس کے جنرلوں نے صدر جارج بش ‘ ٹونی بلیئر اور یورپی حکومتوں سے بحران ختم کرانے کے لیے مدد کی اپیل کی ہے جو یقینی طور سے صیہونی لابی کی قوت کے زیر اثر ہیں۔ بحران کو اپنے حق میں منظم رکھنے کے لیے دو چیزوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ یعنی دشمن کے رویے کی اچھی طرح شناخت اور اس کا تجزیہ اور پھر اس کا بھرپور جواب۔ حزب اللہ نے ان دونوں پہلوئوں سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ تل ابیب کے برعکس جس نے ایک خطرناک جنگ کا آغاز کیا اور جوہری اسلحہ کے سوا اپنی تمام بھیانک فوجی قوت کا استعمال کیا‘ حزب اللہ نے محض اپنی فوجی قوت کا ایک حصہ استعمال کیا جو بہرحال صیہونیوں کو عاجز کردینے میں کامیاب رہا۔ اس انتہائی منظم گروپ کی اپروچ اور جنگی منصوبہ واضح ہوجاتا ہے جب ہم اس عمومی فضاء کو سمجھنے میں کامیاب ہوتے ہیں جن میں یہ کام کررہی ہے۔ عالمی ادارے اور اہم عرب قوتیں ناکارگی حد تک زبوں حال ہوچکی ہیں اور سب کچھ ہونے کے باوجود یہ غیر موثر ہیں۔ دوسرے لفظوں میں حزب اللہ عرب کاز کے لیے تنہا لڑ رہی ہے جسے باہری دنیا نے کوئی بامعنی مدد دینے سے انکار کردیا ہے۔ واشنگٹن ‘ برلن‘ پیرس اور لندن ‘یہ محض چند نام ہیں‘ میں اسرائیل کے Bankrollers حزب اللہ کو بغیر کسی تاخیر کے غیر مسلح کرنے کے لیے بہت انہماک سے کام کررہے ہیں اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ اسے اسرائیلی سرحد سے مزید دور کردیا جائے۔ حزب اللہ ایک غیر مساویانہ اور غیرمنصفانہ فوجی جنگ میں جو اسرائیل کے ساتھ اس کی جاری ہے ایسے دفاع کا اپنی صلاحیت کے لحاظ سے بہتر انتظام کرتی ہے‘ اسرائیلی سیاست دانوں اور مبلغین نے اعلان کیا تھا کہ طاقتور اسرائیلی ڈیفنس فورس (IDF) تین دنوں کے اندر اپنا کام تمام کرلے گی اور حزب اللہ کا صفایا کردے گی۔ واقعتاً یہ بہت زیادہ ذہانت پر مبنی پیش گوئی نہیں تھی۔ وقت اسرائیل کے ساتھ نہیں ہے اور اسے بری طرح ضرورت ہے کہ امریکا اس کے تحفظ کو آئے۔ دوسری جانب امریکا کی فوج اور اس کی بچکانہ سفارتکاری کو تھکان لاحق ہے۔ جوں جوں امریکی خارجہ پالیسی کے سبب حالات بدسے بدتر ہوتے جارہے ہیں باخبر عالمی رائے عامہ اور امریکیوں کی ایک بڑی تعداد اب صدر بش کی غلطیوں اور ناکامیوں کا مشاہدہ کررہی ہے جو ایک طویل عرصے سے اخلاقی و ذہنی چھٹیوں پر ہیں۔ اسرائیلی اب یہ اُمید کرتے ہیں جنگ بندی جلد ہی عمل میں آجائے گی اور حزب اللہ کی شدید مزاحمت سے کم از کم فی الوقت اُن کی جان چھوٹ جائے گی۔ اگر جنگ بندی نافذ بھی ہوجاتی ہے تو اس میں بہت کم ہی لوگوں کو شک رہ گیا ہے کہ اسرائیل اس مزاحمتی گروہ کو دوبارہ ڈرانے دھمکانے میں کامیاب ہوپائے گا۔ صیہونیوں کو بھاری نقصان پہنچا ہے اور حزب اللہ کا کہنا ہے کہ ابھی اس سے بھی زیادہ پہنچنے کو ہے یورپ کی جانب یہودیوں کی الٹی مہاجرت شروع ہوچکی ہے اور بہت ساری غیرقانونی یہودی بستیاں خالی ہوچکی ہیں۔ حزب اللہ نے اسرائل کے فوجی مراکز اور دیگر اہم ٹھکانوں کو ہدف بنایا ہے۔ تمام عملی مقاصد کے پیش نظر کسی زمانے کا یہ مضبوط خیال کہ اسرائیلی فوج جس کو امریکا کی فوجی اور مالی مدد حاصل ہے ناقابل جنبش اور شکست ہے اب ایک ماضی کی بات ہے۔
(اداریہ: ایران ڈیلی۔ ۲۷ جولائی ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply