
نومبر کے آخر میں ماہرین کو جنوبی افریقا میں کورونا وائرس کے تازہ ترین ویریئنٹ اومیکرون کا پتا چلا تھا۔ بوٹسوانا سے ملنے والی معلومات کو عالمی ادارۂ صحت نے پوری دنیا کے سامنے رکھا تاکہ زیادہ سے زیادہ محتاط رہنے کی تیاری کی جاسکے۔ عالمی ادارۂ صحت نے اومیکرون کو بہت تیزی سے سفر کرنے والے ویریئنٹ کی حیثیت سے انتہائی خطرناک کورونا ویریئنٹس کے درجے میں رکھا ہے۔ اس کے بعد ہی دنیا بھر کے ممالک نے جنوبی افریقا سے آنے والوں پر پابندیاں لگانے کا عمل شروع کیا۔ ساتھ ہی ساتھ افریقی ممالک کو فراہم کی جانے والی کورونا ویکسین کی افادیت کے بارے میں بھی تحفظات نے سر اٹھانا شروع کردیا۔ جب افریقی ممالک میں دی جانے والی کورونا ویکسین کی افادیت پر سوال اٹھائے جانے لگے تو افریقی ممالک کے رہنماؤں نے ترقی یافتہ ممالک پر شدید نکتہ چینی شروع کردی۔ آج دنیا بھر میں اومیکرون کے حوالے سے انتہائی خطرہ ظاہر کیا جارہا ہے اور اِسی حوالے سے جنوبی افریقا سمیت افریقی ممالک سے امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے۔
جنوبی افریقا کے نیوز پورٹل ’’آئی او ایل‘‘ نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ نیلسن مینڈیلا زندہ ہوتے تو کسی میں جنوبی افریقا سے اس نوعیت کا امتیازی سلوک روا رکھنے کی ہمت نہ ہوتی۔ افریقا کے باشندوں کو اومیکرون کی بنیاد پر دنیا بھر میں شدید نسلی امتیاز کا سامنا ہے۔ یہ تاثر پیدا کیا جارہا ہے کہ افریقی ممالک پوری دنیا میں کورونا وائرس پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ جنوبی افریقا کی نیوز ویب سائٹ ’’میورک‘‘ نے لکھا ہے کہ جنوبی افریقا اور دیگر افریقی ممالک کے باشندوں پر سفر کی پابندیاں عائد کرکے ترقی یافتہ دنیا شدید نوعیت کی نسلی تفریق پیدا کرنا چاہتی ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ صرف افریقا ہی پوری دنیا میں کورونا کی وبا پھیلا رہا ہے۔ یہ چھاپ بھی قائم کی جارہی ہے کہ اومیکرون تو ہے ہی افریقی بیماری۔ ’’میورک‘‘ نے مزید لکھا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک افریقی ممالک سے دوستی کا راگ الاپتے ہیں اور اس خطے کے لیے بہت سے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان بھی کرتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ ایسے اقدامات بھی کیے جارہے ہیں جن سے ان ممالک کی کورونا کی وبا کی پیدا کردہ شدید معاشی مشکلات کا سامنا کرنے کی صلاحیت و سکت بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔
افریقا میں کورونا ویکسین لگوانے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اس حقیقت نے بھی کورونا کے نئے ویریئنٹ کے حوالے سے جنوبی افریقا کو باقی دنیا کے لیے انتہائی خطرناک بنادیا ہے۔ ۳ دسمبر کو جنوبی افریقا میں اومیکرون کے ۱۶۳۳۳؍کیس سامنے آئے جو رواں سال کورونا وائرس کے حوالے سے ایک دن کا ریکارڈ ہے۔ واضح رہے کہ اومیکرون سے مرنے والوں کی تعداد صرف ۲۱ ہے۔ ۵ دسمبر کو پورے جنوبی افریقا میں کورونا کے ۱۱ہزار ۱۲۵؍کیس سامنے آئے جبکہ ہلاکت صرف ایک تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اومیکرون کے باعث جنوبی افریقا اور اس سے ملحق ممالک میں اسپتال میں داخل ہونے والوں کی تعداد بڑھی ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ یہ حقیقت بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ اموات کی شرح بہت کم ہے۔ جنوبی افریقا میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ گوٹینگ ہے اور یہاں پانچ سال تک کے بچوں میں کورونا وائرس تیزی سے پھیلا ہے۔ ماہرین نے تسلیم کیا ہے کہ بچوں میں اومیکرون اور دیگر ویریئنٹس کی علامات معمولی ہیں۔ ہاں، یہ بات ضرور پریشان کن ہے کہ جنوبی افریقا میں عمومی سطح پر کورونا کی ویکسین کے حوالے سے لاپروائی پر مبنی رویہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے۔ پورے جنوبی افریقا میں اب تک صرف ۲۵ فیصد افراد نے کورونا ویکسین لگوائی ہے۔ پورے ملک میں ڈیڑھ کروڑ افراد نے کورونا سے بچاؤ کی ویکسین کی دونوں خوراکیں لی ہیں۔
اومیکرون کے حوالے سے دنیا بھر میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں بھی خوف کی فضا موجود ہے۔ ماہرین نے اومیکرون سے بچاؤ کے لیے خصوصی نوعیت کی تیاریوں پر زور دیا ہے۔ طبی امور کی ماہر پروفیسر سارہ گلبرٹ کہتی ہیں کہ کورونا سے بچاؤ کی موجودہ ویکسینز اومیکرون سے محفوظ رکھنے میں ناکام ثابت ہوسکتی ہیں۔ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے زیادہ فنڈنگ بھی درکار ہے جو اَب تک ممکن نہیں ہو پائی ہے۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ویکسین بھی کوئی حتمی علاج یا حل نہیں۔ لوگوں میں خوف و ہراس بڑھ رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں شرحِ اموات بھی بڑھ رہی ہے۔ ماہرین نے اومیکرون کو زیادہ خطرناک قرار دیا ہے۔ انہوں نے یہ انتباہ بھی کیا ہے کہ اگر حکومتوں نے بھرپور توجہ نہ دی تو اومیکرون سے متاثر ہونے والوں ہی کی نہیں بلکہ اس کے باعث ہلاک ہونے والوں کی تعداد بھی بہت بڑھ سکتی ہے۔ ماہرین نے اس نکتے پر زور دیا ہے کہ کورونا کی وبا سے بہت کچھ سیکھا جائے، دیکھا جائے کہ کس طور کوئی وبا پوری دنیا کو تہہ و بالا کرسکتی ہے اور یہ آئندہ ایسی کسی بھی وبا کی راہ مسدود کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے جانے چاہییں۔
کورونا کی وبا نے پوری دنیا کو شدید معاشی مشکلات سے دوچار کیا ہے۔ اب طبی ماہرین اور سیاسی تجزیہ کار اس نکتے پر زور دے رہے ہیں کہ دنیا بھر میں پالیسی ساز اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی بھی وبا پوری انسانیت کو خطرے میں نہ ڈالے۔ کسی بھی وبا کی روک تھام کے حوالے سے الرٹ رہنے کی بھی ضرورت ہے اور یہ بھی یقینی بنایا جانا چاہیے کہ کوئی حکومت معاملات کو بے دِلی یا لاپروائی سے نہ لے۔
کورونا کی تیسری لہر کے طور پر اومیکرون کے حوالے سے بہت بڑے خطرے کا انتباہ کیا جارہا ہے۔ کورونا کی دوسری لہر کے دوران بھارت میں معاملات انتہائی خطرناک شکل اختیار کرگئے تھے، جب یومیہ ایک لاکھ تک کیس سامنے آرہے تھے۔ تب پورے ملک میں شدید بدحواسی پھیل گئی تھی اور حکومت بھی بوکھلا گئی تھی۔ کورونا کی وبا کے سامنے ہاتھ پاؤں ڈھیلے چھوڑ دینے والوں کی تعداد انتہائی پریشان کن حد تک بڑھ گئی تھی۔ حد یہ ہوئی کہ لوگ اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے نام پر پاگل پن کی حد تک پہنچ گئے۔ بہت سوں نے اہلِ خانہ تک کو ایک طرف ہٹاکر اپنے ذاتی تحفظ کو اولیت دی۔ ملک بھر میں معمر ترین افراد کی دیکھ بھال کرنے والے نہ رہے۔
ماہرین نے اومیکرون کے حوالے سے بھارت کے لیے شدید خطرات کی پیش گوئی کی ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اومیکرون نے زور پکڑا تو بھارت میں یومیہ لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ کیس بھی سامنے آسکتے ہیں۔ طبی شعبے کے اعلیٰ سرکاری افسر منیندر اگروال کہتے ہیں کہ اومیکرون سے بھارت میں بھی پریشان کن صورتِ حال پیدا ہوسکتی ہے تاہم یہ صورتِ حال جنوبی افریقا سے کم پریشان کن ہوگی۔
بھارت میں معاشی عدم مساوات انتہائی خطرناک شکل اختیار کرچکی ہے۔ صرف ۱۰؍فیصد افراد کے ہاتھوں میں ملک کی ۵۷ فیصد دولت ہے جبکہ ملک کی نصف آبادی کے پاس ملک کی صرف ۱۳؍فیصد دولت ہے۔ معاشی عدم مساوات کے معاملات پر نظر رکھنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم نے بھارت میں شدید معاشی عدم مساوات کے حوالے سے شدید تشویش ظاہر کی ہے۔ یہ عدم مساوات ہی انتہائی غریب افراد کو کسی بھی وبا کا موثر علاج کرانے کے قابل نہیں چھوڑتی۔ کورونا کی دوسری لہر کے دوران بھارت بھر میں انتہائی غریب افراد کے لیے وبا سے بچنا انتہائی دشوار ثابت ہوا تھا اور اُن کی حالت مزید خراب ہوگئی۔ بھارت میں کورونا ویکسین کی دونوں خوراکیں دی جاچکی ہیں مگر معاشی و معاشرتی عدم مساوات کے باعث حکومت اور نجی شعبے کے لیے غیر معمولی چیلنجوں کے ابھرنے کا خطرہ موجود ہے۔
کورونا کی وبا کے ہاتھوں ۲۰۲۰ء میں دنیا بھر میں آمدنی گھٹی ہے، جس کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی آمدنی میں پچاس فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے نتیجے میں پسماندہ اور غریب ممالک بھی پریشانی سے دوچار ہوئے ہیں۔ بعض کمزور ممالک کورونا کی وبا کے باعث خطرناک حد تک کمزور ہوچکے ہیں۔ جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کے بیشتر ممالک کو بھی کورونا کی وبا کے ہاتھوں غیر معمولی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان ممالک کی آمدن میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔ بھارت، پاکستان، بنگلا دیش اور سری لنکا کو بھی قومی آمدنی میں واضح کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ معاشی عدم مساوات کے حوالے سے ایک جامع رپورٹ ماہرِ معاشیات لُکاس چانسیل کی قیادت میں ٹامس پکیٹی، ایمانویل سیز اور گیبریل زُکمین نے مل کر لکھی ہے۔ بھارت کا متوسط طبقہ باقی دنیا کے متوسط طبقے کے مقابلے میں کمزور ہے۔ پورے بھارت میں متوسط طبقے کے پاس ملک کی مجموعی آمدنی کا ۲۹ فیصد ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
(بشکریہ: روزنامہ ’’لوک سَتّا جَن سَتّا‘‘ احمد آباد، بھارت۔ ۸ دسمبر ۲۰۲۱ء)
Leave a Reply