بھارت اس بات پر ناز کرتا ہے کہ وہ ایٹمی قوت ہے اور یہی سبب ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں کسی اور کو اپنے مقابل دیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کا حامل بھارت اس شعبے میں مختلف پہلوئوں سے تحقیق پر بھی نازاں رہتا ہے۔ مگر کیا بھارت ایٹمی قوت ہونے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں بھی نبھا رہا ہے؟
نئی دہلی میں گزشتہ ماہ جو کچھ ہوا اس سے تو یہ اندازا ہوتا ہے کہ بھارتی ماہرین کو اس بات کا درست اندازہ بھی نہیں کہ ایٹمی فضلے یا مواد کو ٹھکانے کس طرح لگایا جاتا ہے۔
کسی ایٹمی قوت کی جانب سے اس سے بڑا مذاق کیا ہو گا کہ ایٹمی فضلے کو کباڑی مارکیٹ میں فروخت کر دیا جائے؟ نئی دہلی کے علاقے مایاپوری کی کباڑی مارکیٹ میں گزشتہ ماہ ایٹمی آلات کو توڑنے کے دوران تابکاری پھیلی جس سے ۸ افراد زخمی ہوئے اور بعد میں ان میں سے ایک چل بسا۔ میڈیا میں شور مچا تو بھارتی حکومت نے صورتحال کا نوٹس لیا اور تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کر دی ۔ تفتیش سے معلوم ہوا کہ مایاپوری کی کباڑی مارکیٹ میں نئی دہلی یونیورسٹی کی ایک فرسودہ ریڈی ایشن مشین فروخت کی گئی تھی جس کو توڑنے سے کوبالٹ سکسٹی نام کا تابکار مادّہ خارج ہوا۔ تفتیشی ٹیم نے بتایا ہے کہ چند دکانوں میں کوبالٹ سکسٹی کے واضح اثرات دیکھے گئے۔ تفتیشی ٹیم کو یہ بھی بتایا گیا کہ ریڈی ایشن مشین ۱۹۶۹ء میں خریدی گئی تھی۔ ۱۹۸۰ء سے استعمال نہیں کی گئی تھی اور فروری ۲۰۱۰ء میں اسے کباڑی مارکیٹ میں فروخت کیا گیا۔ مشین میں تابکار مواد موجود تھا مگر اس کے باوجود متعلقہ افسران نے تسلیم شدہ طریقِ کار اور معیارات پر توجہ دینا مناسب نہ سمجھا۔ بھارت کی ایٹمی انرجی ریگولیٹری باڈی کے چیئرمین ایس بجاج نے میڈیا کو بتایا کہ ریڈی ایشن مشین کباڑی مارکیٹ میں فروخت کرنے کے اقدام کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ افسران سے جواب طلب کر لیا گیا ہے۔ نئی دہلی یونیورسٹی میں تابکاری کے اثرات کا جائزہ لینے سے متعلق تجربات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور معاملے کو سنجیدگی سے لیا گیا ہے۔
کباڑی مارکیٹ کے واقعہ کی گرد ابھی بیٹھی بھی نہ تھی کہ نئی دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر رمیش چندر نے یہ انکشاف کرکے ہنگامہ کھڑا کر دیا کہ ۲۰ سال قبل ۲۰ کلو تابکار مواد یونیورسٹی کے شعبۂ کیمیا کے سامنے دفن کیا گیا تھا۔ اس دعوے کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے اور ضروری ہوا تو کیمپس میں بھی مواد تلاش کیا جائے گا۔
کباڑی مارکیٹ میں جو ریڈی ایشن مشین توڑی گئی تھی اس میں سے اچھا خاصا ایٹمی مواد غائب ہے۔ ماہرین اس حوالے سے قیاس آرائیوں میں مصروف ہیں۔
ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے آئی اے ای اے نے صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے بھارتی حکومت کو خط لکھا ہے جس میں ایٹمی مواد کو ٹھکانے لگانے کے حوالے سے تعاون کی پیشکش کی گئی ہے۔ بھارت نے اب تک اس پیشکش کا جواب نہیں دیا ہے۔ تاہم ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے کا بھارت میں تابکاری کے حوالے سے متوجہ ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ بھارت میں ایٹمی مواد کو ٹھکانے لگانے کے مروجہ اور تسلیم شدہ معیارات کا خیال نہیں رکھا جا رہا۔ بی بی سی نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں ایٹمی تحقیق کے ادارے بعض امور میں بین الاقوامی معیارات کا خیال نہیں رکھتے تو تشویشناک بات ہے۔
کسی ریڈی ایشن مشین کو کباڑی مارکیٹ میں فروخت کر دینا انتہائی سنگین معاملہ ہے۔ یہ غلطی پاکستان سے سرزد ہوئی ہوتی تو ہنگامہ کھڑا ہو جاتا۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور ایٹمی اثاثوں کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرتے نہ تھکنے والے بھارت کے معاملے میں خاموش ہیں۔ پاکستان اس نوعیت کے معاملات کو بین الاقوامی سطح پر اٹھا کر ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کر سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے سیاسی سطح پر عزم اور اعتماد کی ضرورت ہے۔
***
Leave a Reply