ایٹمی ہتھیاروں کا اب کوئی فائدہ نہیں!

ایران کے صدر محمود احمدی نژاد کا اصرار ہے کہ اس وقت ایرانی عوام کو جن حالات کا سامنا ہے اُن کے ذمہ دار یورپی قائدین ہیں۔ اگر ان کی پالیسیاں ذمہ دارانہ اور متوازن ہوتیں تو ایران کے لیے مشکلات پیدا نہ ہوئی ہوتیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ایران پر ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کا الزام عائد کرنے والوں پر بھی سخت تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایران ان ہتھیاروں کی تیاری کا ارادہ نہیں رکھتا اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ آج کی دنیا میں اِن کی کوئی اہمیت رہی نہیں۔ یورو نیوز کے جان ڈیویز نے ایرانی صدر سے حال ہی میں مختلف امور پر گفتگو کی جس کے اقتباسات ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔


یورو نیوز: آپ نے ٹی وی پر دیکھا ہوگا کہ مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کو عدالت میں لانے کے لیے ایک پنجرہ نما اسٹریچر استعمال کیا گیا۔ یہ سب دیکھ کر آپ نے کیا محسوس کیا؟

احمدی نژاد: مشرق وسطیٰ میں چند ایک ایسے قائدین بھی ہیں جنہوں نے اپنے عوام سے تعلقات بہتر نہیں رکھے۔ اور اب اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ چند اقوام نے خود کو جس طور بے نظمی یا بدنظمی کی نذر کیا اس پر ہم صرف افسوس کا اظہار کرسکتے ہیں۔ عوام کو کسی حد تک آزادی دینے کے لیے ہمیں بدعنوان رہنماؤں پر مقدمہ چلانے کی حمایت کرنا چاہیے۔ مثالی صورت حال یہ تو ہوسکتی ہے کہ اب بین الاقوامی سطح پر حکومتی نظام میں بڑی تبدیلیاں لائی جائیں تاکہ قائدین عوام ہی میں سے آئیں۔ عوام کو اس بات کا حق ہونا چاہیے کہ وہ حکومت کا احتساب کریں، حکمرانوں سے جواب طلب کریں۔

یورو نیوز: کیا آپ ایران میں بھی ایسی ہی صورت حال ابھرتی ہوئی دیکھ رہے ہیں؟ دو سال قبل اپوزیشن نے انتخابی نتائج پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ کیا ایرانی عوام کو بھی اس بات کی اجازت ہونی چاہیے کہ وہ حکومت سے اہم امور میں جواب طلب کریں؟

احمدی نژاد: جو کچھ دوسرے بہت سے ممالک میں ہو رہا ہے وہ ایران میں اس لیے ہوتا دکھائی نہیں دیتا کہ ایران کے حالات بہت مختلف ہیں۔ ۲۰۰۹ء میں آزاد انتخابات ہوئے۔ چند ایک جماعتوں کو انتخابی نتائج پر شکوک تھے۔ ان کے سامنے قانونی راستہ تھا۔ عدالتوں سے رجوع کیا جاسکتا تھا۔ ۸۵ فیصد ایرانیوں نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ ۴ کروڑ سے زائد ووٹر اپنی مرضی کے حکمران منتخب کرنے کے لیے گھروں سے نکلے۔ احتجاج کے لیے سڑکوں پر آنا، عمارات اور گاڑیوں کو آگ لگانا اور سیکورٹی فورسز پر حملے کرنا کسی بھی معاشرے میں پسندیدہ اور قابل قبول نہیں۔ جب توڑ پھوڑ ہوگی تو پولیس اور عدلیہ کو بھی اس پورے عمل میں حصہ تو لینا پڑے گا۔

یورو نیوز: انتخابی نتائج پر احتجاج سے لوگوں کو روک دیا گیا۔

احمدی نژاد: جی ہاں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے ہاں متعلقہ قوانین موجود ہیں۔ اگر کسی کو انتخابی نتائج پر کوئی اعتراض ہے تو قانونی راستہ اختیار کرے، شکایت درج کرائے۔ سڑک پر آکر توڑ پھوڑ اور مارپیٹ کرنے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ یورپ میں بھی جب کوئی احتجاج کرتا ہے تو پولیس میدان میں آ جاتی ہے اور مظاہرین سے سختی سے نمٹتی ہے۔ کیا یورپ میں اپوزیشن حکومت کا تختہ الٹنے میں کامیاب رہتی ہے؟

یورو نیوز: گزشتہ سال برطانیہ میں ڈیوڈ کیمرون نے تحریک چلائی اور گورڈن براؤن کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ کیا ایران میں ایسا ممکن ہے؟

احمدی نژاد: برطانوی حکومت کا تختہ اپوزیشن کی جماعتوں نے نہیں الٹا۔ اصل اپوزیشن تو وہ نوجوان تھے جنہوں نے فیس میں اضافے کے خلاف احتجاج کیا اور انہیں خون میں نہلا دیا گیا۔ برطانیہ، اسپین، یونان، اٹلی۔۔ کہاں عوام کی سنی جاتی ہے؟ کوئی بھی رائے عامہ پر کان نہیں دھرتا۔

یورو نیوز: ۲۰۰۹ کے ایران کے حالات زیادہ برے تھے یا آج یورپ میں صورت حال زیادہ بری ہے؟

احمدی نژاد: یورپ میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کی پشت پر قائدین کی ناقص پالیسیوں کا ہاتھ ہے۔ یورپ کے عوام کا پالیسی مرتب کرنے میں کوئی کردار نہیں۔ جو معاشی اور خارجہ پالیسی بنائی جاتی ہے اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اور جب وہ احتجاج کرتے ہیں تو ان پر تشدد ڈھایا جاتا ہے۔

یورو نیوز: اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپ اور امریکا کے عوام اپنے قائدین کی پالیسیوں کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ مگر ایران کے معاملے میں بھی تو یہی کہا جاسکتا ہے۔ ایرانی قیادت کے رویے نے ایران پر بین الاقوامی پابندیاں عائد کروائی ہیں۔ معاشی مشکلات کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔

احمدی نژاد: ایران کے عوام یورپی قائدین کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔

یورو نیوز: ایرانی قیادت کا کوئی قصور نہیں؟

احمدی نژاد: ہم یورپی قائدین کی پالیسیوں کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ ہم نے کچھ بھی غلط نہیں کیا۔ تیس سال سے یورپ اور امریکا نے ایران سے مخاصمانہ رویہ برقرار رکھا ہے۔ اور ایران کا قصور کیا ہے؟ ہم آزاد قوم ہیں؟ جمہوریت کو گلے لگا رکھا ہے؟ ہم نے مغرب کے ایک حاشیہ بردار (رضا شاہ پہلوی) کو اقتدار سے الگ کردیا؟ ہمارا قصور یہ بھی ہے کہ ہم نے یورپ کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کی مخالفت کی ہے۔ افغانستان اور عراق کی طرف دیکھیں۔ ان دونوں ممالک کا کیا قصور تھا؟ یورپ کے چند قائدین نے اپنی سوچ پر مبنی پالیسیاں مرتب کرکے اپنی اور دوسری اقوام کے لیے بہت سی خرابیاں اور مشکلات پیدا کی ہیں۔

یورو نیوز: صدر کی حیثیت سے دوسری مدت نصف رہ گئی ہے۔ ایران کی مضبوط اپوزیشن کے سامنے آپ اپنی کیا پوزیشن دیکھ رہے ہیں؟

احمدی نژاد: ہمارا کام بس یہ ہے کہ کام کرتے جائیں، عوام کی خدمت کر گزریں۔

یورو نیوز: آپ میں اور پارلیمنٹ میں فاصلے بڑھتے جارہے ہیں۔ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے بھی آپ کے اختلافات کی خبریں عام ہیں۔ ایسے میں آپ کی پوزیشن کمزور نہیں پڑ رہی؟

احمدی نژاد: آزاد معاشروں میں ایسا ہوتا ہے۔ اختلافات ابھرتے ہیں اور پھر انہیں بات چیت کے ذریعے دور کرلیا جاتا ہے۔ قومی مفاد ہر معاملے پر مقدم ہوتا ہے۔ اختلافات کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ ایران میں ہر شخص اپنی رائے کا برملا اظہار کرسکتا ہے۔ اخبارات میں ملک کے صدر اور کابینہ کے ارکان پر تنقید بھی شائع ہوتی رہتی ہے۔ ہم اسے انا کا مسئلہ نہیں بناتے۔

یورو نیوز: کیا یہ آزادی مہدی کروبی اور میر حسین موسوی کے لیے بھی ہے؟ وہ تو نظر بند ہیں؟ کیا انہیں احتجاج کرنے اور اپنے اختلاف کو ظاہر کرنے کا حق نہیں؟

احمدی نژاد: جو شخص قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی بات کہے گا اس کی بات سنی جائے گی۔ کسی کو توڑ پھوڑ کی اجازت کسی حال میں نہیں دی جاسکتی۔ اختلاف کے نام پر ملک کے نظام کو داؤ پر لگانا کسی طور درست نہیں۔ اور قیدی تو یورپ میں بھی ہوتے ہیں۔ کیا وہاں جیلیں نہیں ہیں؟

یورو نیوز: ایران کی بات ہو رہی ہے؟

احمدی نژاد: ہر ملک میں جیلیں اور قیدی ہوتے ہیں۔ عدلیہ کو بھی سیاسی امورمیں شریک ہونا پڑتا ہے۔ یہ ایک مربوط عمل ہے۔ میں ذاتی طور پر یہ چاہوں گا کہ پوری دنیا میں ایک بھی قیدی نہ ہو۔ ایران میں ہر شخص کو قانون کے مطابق احتجاج کرنے اور شکایت درج کرانے کی آزادی ہے۔ حکومت کے کسی بھی اقدام یا پالیسی کے خلاف سڑکوں پر نکل آنا اور املاک کو نقصان پہنچانا کہاں کی دانش مندی اور کہاں کا اصول ہے؟ ایسا کرنے کی اجازت تو کسی طور نہیں دی جاسکتی۔

یورو نیوز: امریکا سے ایران کے تعلقات تین عشروں سے ناپید ہیں۔ کیا آپ مستقبل قریب میں امریکا سے سفارتی تعلقات کی بحالی کا ارادہ رکھتے ہیں؟ ایران کو یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکا سب سے بڑی معیشت ہے اور اس سے تعلقات بہتر بنانے میں زیادہ فائدہ ایران کا ہے۔

ااحمدی نژاد: ایران چاہتا ہے کہ دنیا بھر کی اقوام کے ساتھ اس کے بہتر تعلقات ہوں۔ امریکا کی قیادت خاصی الجھی ہوئی ہے۔ ایران کے معاملے میں وہ کوئی واضح فیصلہ نہیں کر پارہی۔ اس کی پالیسیاں واضح نہیں۔ اسے معلوم ہی نہیں کہ تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے کیا کرنا چاہیے۔ ایران سے تعلقات امریکا نے ختم کیے تھے۔ امریکیوں کے ذہن میں شاید یہ بات تھی کہ ان سے تعلقات ختم ہونے پر ایران ختم ہو جائے گا۔ اس بات کو ۳۱ سال گزر چکے ہیں اور ایران آج بھی سلامت ہے۔

یورو نیوز: امریکا کے ساتھ ایٹمی پروگرام کے تنازع پر ایران کا رویہ بہت پریشان کن ہے۔ آپ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ فکر و عمل میں ہم آہنگی کا فقدان امریکا اور دیگر اقوام کو ایران کے قریب آنے سے روک رہا ہے؟

احمدی نژاد: کیوں؟ ہمارا قصور کیا ہے؟ ایٹمی ٹیکنالوجی کے معاملے میں ہمیں موردِ الزام ٹھہرانے والے بتائیں کہ کیا ایٹمی ٹیکنالوجی غیرقانونی، ناجائز یا ممنوع ہے؟ ایران توانائی کا بحران حل کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ دیگر ذرائع کے ساتھ ساتھ ایٹمی ٹیکنالوجی کا سہارا بھی لے رہا ہے۔ اس میں کسی کے لیے کیا قباحت ہے؟ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ایٹمی ہتھیار بنانے اور رکھنے کا اب کوئی فائدہ نہیں۔ جن ممالک کے پاس ایٹمی اسلحے کے ڈھیر ہیں وہ بھی شکست و ریخت سے بچ نہیں پاتے۔ سابق سوویت یونین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔

یورو نیوز: مگر خیر اس حوالے سے ایران کا موقف واضح نہیں۔ اگر وہ ایٹمی ہتھیار بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا تو اس کا واضح اعلان بھی نہیں کرتا۔

احمدی نژاد: ایران پر ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کی طرف جانے کا الزام مغربی سائنس دان نہیں، سیاست دان عائد کرتے ہیں۔ یہ پورا معاملہ سیاسی کھپت کا ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم ایٹم بم کے خلاف ہیں تو ہماری بات پر یقین کرلینا چاہیے۔ آج کی دنیا میں ایٹمی ہتھیار کوئی اچھا آپشن نہیں۔ اگر اٹلی، جرمنی یا فرانس میں ایٹم بم ہو تو پورے یورپ کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ایٹم بم کا کچھ خاص فائدہ اب تک دکھائی نہیں دیا۔ اسرائیل کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں تاہم وہ لبنان میں جنگ نہ جیت سکا۔ فلسطینیوں کو زیر کرنے میں بھی وہ اب تک ناکام رہا ہے۔

(بشکریہ: ’’یورو نیوز‘‘۔ ۹؍اگست ۲۰۱۱ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*