صدر باراک اوباما نے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے اس اجلاس کی صدارت کی، جس میں ایک قرارداد منظور کی گئی کہ ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو کو روکنے کے لیے بین الاقوامی ذمہ داریوں کو مضبوط بنایا جائے۔ ایک ہفتہ پہلے انہوں نے اعلان کیا تھا کہ کم ازکم مستقبل قریب میں امریکا وسطی یورپ میں کسی میزائل ڈیفنس سائٹ پر کام نہیں کرے گا جس میں جمہوریہ چیکوسلواکیہ میں طاقتور میزائل اور پولینڈ میں مزاحمتی میزائل بھی شامل ہیں۔ کیا دونوں کے درمیان کوئی تعلق ہے؟ میرا خیال ہے کہ تعلق ہے۔ متعدد سیاسی شخصیات اور صحافیوں کی طرف سے ابتدائی تبصروں میں اس بنیادی تعلق کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ اس کے بجائے بہت سے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ مشرقی یورپ میں میزائل سسٹم کا خاتمہ محض روس کی وجہ سے ہے، جبکہ ردعمل کے طور پر روس کو بھی ایسا ہی کوئی دوستانہ اقدام کرنا پڑے گا۔
روس کے صدر دمتری مدیدوف پہلے ہی گزشتہ نومبر میں کہہ چکے ہیں کہ اگر امریکا نے میزائل ڈیفنس منصوبوں میں کوئی تبدیلی کی تو ان کا ملک جوابی اقدامات سے گریز کرے گا جن میں اس کی طرف سے میزائلوں کی تنصیب شامل ہے۔ صدر باراک حسین اوباما کے اس فیصلے کے فوراً بعد روس کے اس موقف کی توثیق کر دی گئی ہے۔ امریکا میں صدر باراک اوباما پر تنقید کرنے والوں میں سے متعدد نے کہا ہے کہ وہ روس کے دبائو کے سامنے جھک گئے ہیں اور امریکا کے ناٹو کے اتحادیوں کو فی الواقع ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ان کی اس دلیل کے پس منظر میں اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ روس ایک بُرا ملک ہے اور روس ہمیشہ غلط کام کرتا رہا ہے۔
اس معاملے پر ذرا غور کریں۔ روس کے لیڈر کچھ عرصے سے یہ کہتے رہے ہیں کہ ایران کی طرف سے یہ خطرہ کہ وہ دور تک مار کرنے والے میزائل بنا رہا ہے، حقیقت نہیں ہے۔ اب محکمہ دفاع کے اہلکاروں اور انٹیلی جنس کی رپورٹوں کی مکمل جانچ پڑتال کے بعد امریکی حکومت نے بھی یہی نتیجہ اخذ کیا ہے اور کہا ہے کہ تہران اس قسم کی صلاحیت حاصل کرنے میں شاید پانچ سال یا شاید دس سال پیچھے ہے۔
پولینڈ میں کچھ سیاستدانوں اور مبصرین کا ابتدائی ردعمل بھی انوکھا ہے اور جمہوریہ چیکوسلواکیہ کا بھی یہی ردعمل ہے۔ حقیقت پسندی اور احتیاط کی آوازیں معمول کے مطابق مسترد کی جا رہی ہیں اور ان کے اپنے شہریوں کی آراء کو بھی نظرانداز کیا جا رہا ہے جن کا راڈار اور میزائلوں سے کوئی تعلق نہیں۔
روس میں اوباما کے فیصلے کا خیرمقدم کیا جا رہا ہے۔ یورپ میں بھی اسے پذیرائی ملی ہے اور جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل اور فرانس کے وزیراعظم نکولس سرکوزی نے بھی اسے سراہا ہے۔ پولینڈ کے وزیراعظم ڈونالڈ نسک نے اسے ’’یورپ کی سیکوریٹی کو مضبوط کرنے کا موقع‘‘ قرار دیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اگر صدر اوباما کے فیصلے کے بعد مزید سنجیدہ اقدامات کیے گئے تو اس سے ہمیں موقع مل سکے گا کہ ہم عالمی سیکوریٹی کو بھی مستحکم کر سکیں اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا کو ایٹمی خطرے سے نجات دلانے کے لیے ایک دوسرے سے مزید تعاون کریں۔
گزشتہ جولائی کے اوائل میں ماسکو میں منعقد ہونے والے اجلاس میں صدر باراک حسین اوباما اور مدیدوف نے اسٹریٹجک جارحانہ ہتھیاروں اور میزائل ڈیفنس کے درمیان تعلق کی تصدیق کی تھی۔ دونوں ممالک ہتھیاروں میں تخفیف کے لیے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں اور محتاط ڈپلومیٹک بیانات کا جائزہ لیتے ہوئے دونوں ایسے نظر آتے ہیں کہ وہ ۵دسمبر تک یہ کام مکمل کر لیں گے۔ جب پہلی Strategic arms reduction treaty ختم ہو رہی ہے جس پر ۱۹۹۱ء میں صدر جارج ڈبلیو بش اور میں نے دستخط کیے تھے۔
اس ہفتے اقوام متحدہ کا اجلاس اس ضمن میں پیش رفت کا دوسرا مرحلہ ہو گا۔ یہ نہایت اہم امر ہے کہ دوسرے ممالک بھی اجلاس کا ساتھ دیں اور یہ سمجھیں کہ امریکا اور روس دونوں ایٹمی ہتھیاروں میں تخفیف کی طرف بڑھ رہے ہیں اور آئندہ مئی میں این پی ٹی کے جائزے کے لیے اقوام متحدہ میں کانفرنس ہو گی تو وہ ایٹمی ہتھیاروں کے مکمل خاتمے کی طرف پیش رفت کر چکے ہوں گے۔ جب تک یہ دونوں ممالک دنیا پر یہ واضح نہ کر دیں کہ وہ اس معاملے میں سنجیدہ ہیں تو دونوں بڑی ایٹمی طاقتوں پر پہلے کی طرح الزام لگتا رہے گا کہ وہ وعدہ پورا نہیں کرتے اور انہیں یہ کہا جائے گا کہ اگر یہ بات مان لی گئی کہ پانچ یا دس ممالک اپنی سیکوریٹی کی ضمانت کے طور پر ایٹمی ہتھیار رکھ سکتے ہیں تو دیگر بیس سے تیس ممالک بھی اسی عذر کے طور پر ایٹمی ہتھیار کیوں نہیں رکھ سکتے؟
یہ بات نہایت اہم ہے کہ دونوں ممالک کے صدر بذات خود مذاکرات کی بڑے غور سے مانیٹرنگ کریں اور چھوٹی چھوٹی تفصیلات کی بھی جانچ پڑتال کریں۔ تجربے کی بناء پر میں یہ جانتا ہوں کہ مسلسل سیاسی دبائو کی موجودگی کے ہوتے ہوئے اس قسم کی ٹیکنیکل تفصیلات سے نمٹنا کتنا مشکل ہے۔ مگر یہ ضروری ہے کہ غلط فہمیوں سے گریز کیا جائے کیونکہ اس سے دونوں فریقوں کا اعتماد مجروح ہو سکتا ہے۔ چند ایسے بھی سوالات ہیں جو اب سامنے آئے ہیں اور جن کی وضاحت ضروری ہے۔ امریکا کے سیکریٹری ڈیفنس رابرٹ گیٹس نے کہا ہے کہ ایس ایم۔۳ میزائل جو میزائل ڈیفنس منصوبے کے تحت استعمال کیے جائیں گے بعد میں ان میں تبدیلی کر کے انہیں دورمار بین البراعظمی مزاحمتی میزائل بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے میزائل ڈیفنس کے سلسلے میں روس کے ساتھ تعاون کے امکان کا اظہار بھی کیا ہے۔ میرے نزدیک یہ دونوں نظریات متضاد ہیں اس قسم کے مسائل جتنی جلد حل ہو سکیں بہتر ہے۔
جیسا کہ میں سمجھتا ہوں، آگے بڑھنے کا صرف ایک راستہ ہے۔ واشنگٹن کو روس کی طرف سے ’’میزائل کے خطرات کے متعلق مشترکہ جائزے‘‘ کی تجویز پر اتفاق کرنا چاہیے۔ دونوں ممالک کے ماہرین کو کھل کر بات چیت کرنے کا موقع دینا چاہیے جس سے یہ معلوم ہو سکے گا کہ کون سے خطرات حقیقی خطرات ہیں اور اس سے نمٹنا چاہیے اور کون سے خطرات محض تصوراتی ہیں۔ اس طرح پولش زیک میزائل فیلڈ جیسے غلط منصوبوں سے بچنے میں مدد ملے گی اور ہمیں مدد مل سکے گی کہ ہم مشترکہ مزاحمت سے پیش رفت کر کے خود حفاظتی منصوبے کے تحت تھوڑی سے تھوڑی ایٹمی صلاحیت کے ہدف تک پہنچ سکیں۔
یہ ایک بڑا ایجنڈا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے لیے مسلسل مذاکرات میں دو یا تین سال لگیں گے۔ لیکن روس اور امریکا کو اپنے سامنے بڑے اقدامات رکھنے چاہئیں، جس چیز کی ضرورت ہے وہ اس کے سوا اور کوئی نہیں کہ دونوں بڑی ایٹمی طاقتوں کے درمیان اسٹریٹجک تعلق میں تبدیلی لائی جائے اور یہ تبدیلی ان کے اپنے مفادات میں ہو اور عالمی امن کے قیام کے لیے ہو۔
(ترجمہ: ریحان قیوم)
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’نیویارک ٹائم‘‘)
Leave a Reply