امریکی صدر بارک حسین اوباما کے عالمِ اسلام سے ہونے والے جس خطاب کا عرصہ سے انتظار تھا آخر وہ ۴ جون کو مصر کی قاہرہ یونیورسٹی میں ہوا۔ جنوری میں جب اوباما کرسیٔ صدارت پر فائز ہوئے اسی وقت انہوں نے اشارہ دیا تھا کہ وہ عالمِ اسلام سے کلیدی خطاب کرنے والے ہیں۔ کافی عرصہ سے اوباما کے اس خطاب کا چرچا تھا اور اہلِ اسلام کو شدت سے انتظار تھا کہ اوباما عالمِ اسلام سے آخر کیا کہنے جارہے ہیں۔ اس غیرمعمولی خطاب کے لیے (جسے وائٹ ہائوس نے تاریخی خطاب سے تعبیر کیا ہے) مصر جانے سے قبل اوباما نے سعودی عرب کا دورہ کر کے شاہ عبداﷲ سے ملاقات کی۔ مصر کے کلیدی خطاب سے قبل سعودی عرب کا دورہ بھی معنی خیز ہے۔ سعودی عرب حرمین شریفین کے سبب دنیا کے ایک ارب پچاس کروڑ مسلمانوں کے لیے قابلِ احترام ملک ہے۔ کعبۃ اﷲ اور مقاماتِ مقدسہ کی موجودگی سعودی عرب کے لیے ایک ایسا اعزاز ہے کہ کوئی مسلم ملک اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ دنیا کے سارے مسلمان سعودی عرب کو عقیدت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اوباما نے امریکا اور مغربی ممالک کے تعلق سے مسلم دنیا میں پائی جانے والی جس نفرت یا شکوک و شبہات دور کرنے کی مہم کا آغاز کیا ہے اس کے لیے سعودی عرب کا انتخاب نہایت موزوں تھا۔ سعودی عرب آمد پر اوباما کا سرخ قالین کے ذریعہ پرتپاک استقبال کیا گیا۔ ایئرپورٹ پر استقبال کے لیے شاہ عبداﷲ خود پہنچے۔ ایئرپورٹ پر استقبالیہ تقریب میں کافی نوشی کے بعد اوباما شاہ عبداﷲ کے فارم ہائوس گئے جہاں دونوں قائدین کے درمیان ایران تیل اور عرب اسرائیل تنازعہ پر بات چیت ہوئی۔ امریکی صدر کے سعودی عرب کی طرف رجوع کو پاکستان و افغانستان میں طالبان کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں بھی دیکھا جارہا ہے۔ امریکا پاکستان و افغانستان میں طالبان سے نمٹنے کے لیے سعودی عرب سے تعاون کا طلبگار معلوم ہوتا ہے۔ امریکا کے نائب قومی سلامتی مشیر مارک لیپرٹ کے مطابق اوباما کے معتمد داخلہ رابرٹ گیٹس نے پاکستان میں طالبان کو پسپا کرنے کے لیے سعودی عرب سے تعاون طلب کیا ہے اور پاکستان سے بھی خواہش کی ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ مشترکہ طور پر لڑے۔ خود رابرٹ گیٹس نے بھی گزشتہ ماہ سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ رابرٹ گیٹس کا کہنا ہے کہ پاکستان و افغانستان میں سعودی عرب کافی اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ سعودی عرب کے نہایت خوشگوار تعلقات ہیں۔ بیشتر ماہرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ سعودی عرب ایک طاقتور ملک ہے جس میں پاکستان و افغانستان جیسے مسلم ممالک میں جاری شورش کو ختم کرنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے۔ علاوہ ازیں امریکا کا خیال ہے کہ سعودی عرب کے کروڑہا روپے بطور عطیہ دینے والے عطیہ دہندگان کا پیسہ عسکریت پسندوں کو پنپنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ سعودی عطیوں کا سلسلہ موقوف ہو جائے تو عسکریت پسندوں کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ اس پس منظر میں بھی امریکا پاکستان و افغانستان کی صورت حال کے حوالہ سے سعودی تعاون کا خواہاں ہے۔ طالبان مسئلہ کے حل کے لیے سعودی عرب کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ عرب کے طالبان کے ساتھ تاریخی تعلقات بتائے جاتے ہیں۔ جس وقت افغانستان میں طالبان برسر اقتدار تھے اس وقت سعودی عرب اور امارات دو ایسے ممالک تھے جنہوں نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لیا تھا۔ طالبان مسئلہ میں سعودی عرب کی اسی اہمیت کے پیش نظر اس سے قبل افغان صدر حامد کرزئی نے بھی سعودی عرب سے متعدد بار طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے ثالثی کے فرائض انجام دینے کی درخواست کی تھی۔ افغانستان کے علاوہ سعودی عرب کے پاکستان سے بھی خوشگوار تعلقات ہیں۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی میں افغانستان میں روسی فوج سے نبرد آزما پاکستانی انٹیلی جنس کے ساتھ سعودی اور امریکا کے گہرے روابط تھے جن کے سہارے افغانستان میں ہتھیاروں کی فراہمی ممکن ہو سکی تھی۔ اس جنگ کے لیے مالی تعاون بھی سعودی عرب ہی نے کیا تھا۔ پاکستان و افغانستان کے حوالے سے سعودی عرب کی اس غیرمعمولی اہمیت کے پیش نظر اوباما نے مصر میں کلیدی خطاب سے قبل سعودی عرب کا رُخ کیا لیکن طالبان مسئلہ سعودی عرب کے لیے ایک کانٹوں بھری جنگ ہے جس میں وہ اس وقت تک کود نہیں سکتا جب تک ہر فریق امن کے لیے آمادگی ظاہر نہ کرے۔ چنانچہ سعودی عرب کے سابق سفیر برائے پاکستان علی اودھ اسیری کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اس وقت تک ثالثی کے فرائض انجام دینے کے لیے آمادہ نہیں ہو گا جب تک ہر فریق قیامِ امن کے لیے سنجیدہ نہ ہو۔ اس سے قبل سعودی عرب تلخ تجربہ سے گزر چکا ہے۔ افغانستان سے روسی افواج کے انخلاء کے بعد جب مختلف افغان متحارب گروپوں کے درمیان خونریزی کا سلسلہ شروع ہوا تو سعودی عرب نے پہل کی تھی اور ان متحارب گروپوں کے قائدین کو مکہ مکرمہ بات چیت کے لیے مدعو کیا تھا اور وہاں امن معاہدہ بھی طے پایا تھا لیکن افغانستان پہنچتے ہی امن معاہدہ کی دھجیاں اُڑ گئی تھیں۔ اگرچہ ماضی میں سعودی عرب نے طالبان کے ساتھ رابطہ قائم کرتے ہوئے پائیدار امن کے لیے کوششیں کی تھیں لیکن ان کوششوں کے رائیگاں جانے کی وجہ سے اب سعودی عرب سے زیادہ توقع نہیں رکھی جاسکتی۔
سعودی عرب کے شاہ عبداﷲ نے عالمِ اسلام اور مغرب کے درمیان مصالحت اور غلط فہمیوں کے ازالہ کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس سے قبل ان کی زیرِ نگرانی اسپین میں بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا تھا۔ عالمِ اسلام میں امریکا کی ساکھ درست کرنے کے لیے امریکی صدر کا سعودی عرب کی طرف جھکائو درست نظر آتا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے شاہ عبداﷲ اس کے لیے کوشاں ہیں۔ اوباما نے شاہ عبداﷲ سے ملاقات کے دوران ایران، تیل اور عرب اسرائیل تنازعہ پر تبادلہ خیال کیا۔ اس وقت فلسطین کے اسرائیل تنازعہ کے تعلق سے ساری دنیا پُرامید ہے۔ اوباما کے حالیہ بیانات اور صدر فلسطین محمود عباس سے ملاقات کے دوران ان کے تبادلۂ خیال اور امریکی وزیرِ خارجہ کی اسرائیل کو نئی بستیوں کی تعمیر روکنے کی واضح اپیل سے لوگوں کو امید ہو چکی ہے کہ کم از کم امریکا اسرائیل کو دو ریاستی حل کے لیے تو آمادہ کر ہی لے گا۔ سعودی عرب چاہتا ہے کہ اوباما وزیراعظم اسرائیل نیتن یاہو کے ساتھ سخت رویہ اختیار کریں لیکن اوباما سے بظاہر اس کی کم ہی توقع ہے۔ شاہ عبداﷲ کے ساتھ ملاقات اور قاہرہ یونیورسٹی میں عالمِ اسلام سے اپنے کلیدی خطاب سے صاف ظاہر ہوا کہ اوباما اسرائیل کے خلاف سخت لب و لہجہ اختیار نہیں کر سکتے چنانچہ شاہ عبداﷲ سے گفتگو کے دوران انہوں نے اسرائیل کے تعلق سے کچھ کہنے کے بجائے الٹا سعودی عرب سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اعتماد سازی کے اقدامات کرے۔ انہوں نے عرب ممالک سے شکایت کرتے ہوئے بی بی سی کے انٹرویو کے دوران کہا کہ مجھے فلسطینیوں یا دیگر عرب ممالک کی جانب سے ایسا کوئی قدم دکھائی نہیں دیتا جس سے کہ اسرائیل کی تشویش دور کی جاسکے۔ پتا نہیں اوباما عربوں کو اور کس قدر پیچھے ہٹانا چاہتے ہیں۔ غزہ پر ہوئی جارحیت میں ہزاروں فلسطین شہید ہو گئے۔ مختلف امن معاہدوں میں عربوں ہی کو دستبرداری پر مجبور کیا جاتا رہا جبکہ اسرائیل بین الاقوامی اداروں کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اب جبکہ دو ریاستی حل کے لیے صدر اوباما آمادہ ہیں اور انہوں نے اسرائیل سے نئی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ موقوف کرنے کی اپیل کی لیکن اسرائیل اس کے لیے کسی طرح آمادہ نہیں‘ اس کے باوجود اوباما عرب ملکوں ہی سے شاکی نظر آتے ہیں۔ ۲۰۰۲ء میں بھی شاہ عبداﷲ نے ایک امن منصوبہ پیش کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل ۱۹۶۷ء کی جنگ میں جن علاقوں پر قبضہ کر چکا ہے انہیں واپس کر دے اور مملکتِ فلسطین کا قیام یروشلم کو دارالحکومت بناتے ہوئے عمل میں لائے لیکن اس پر اسرائیل کی جانب سے کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔
اوباما نے قاہرہ یونیورسٹی کے اپنے کلیدی خطاب میں کوئی نئی بات نہیں کہی۔ انہوں نے تقریباً انہی دو باتوں کو دہرایا ہے جو وہ شروع سے کہتے آرہے ہیں۔ اس سے قبل بھی انہوں نے کہا تھا کہ امریکا اسلام سے برسرِ پیکار ہے اور نہ ہی کبھی ہو گا۔ انہوں نے حلف برداری کے بعد اپنی پہلی تقریر میں بھی عالمِ اسلام کے ساتھ مفاہمت کی بات کی تھی پھر انہوں نے جی۔۲۰ کے سربراہ اجلاس میں دوسری اہم تقریر کی‘ ناٹو کے سربراہ اجلاس میں اپنی ایک تقریر میں پالیسیوں کو واضح کیا۔ اس کے بعد ترک پارلیمنٹ کے اپنے خطاب میں بھی عالمِ اسلام کے ساتھ یگانگت کا اظہار کیا۔ مصر کے حالیہ کلیدی خطاب کے تعلق سے لوگ پُرامید تھے۔ بہت سے افراد تو خوش فہمی میں تھے کہ اوباما ۴ جون کے اپنے خطاب میں عالمِ اسلام کو ضرور کوئی خوشخبری سنائیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ اوباما نے اپنے حالیہ خطاب میں مسلمانوں کا دل موہ لینے کی ہرممکن کوشش کی۔ السلام علیکم سے خطاب کا آغاز کیا۔ خطاب کے دوران مختلف آیاتِ قرآنی کا حوالہ دیا نیز مسئلہ فلسطین پر اظہارِ خیال کے دوران کہا کہ پیغمبرِ اسلام ﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ نماز ادا کی تھی۔ اقوامِ عالم کے درمیان اختلافات کی یکسوئی کی اپیل کرتے ہوئے سورۃ الحجرات کی آیت کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا کہ ’’اے لوگو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تم میں مختلف قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو‘‘۔ اس آیت کے مطابق جب سارے انسان برابر ہیں تو امریکا کو خونِ مسلم کا بھی ویسا ہی احترام کرنا چاہیے جیسے کسی یہودی یا عیسائی کے خون کا احترام کیا جاتا ہے۔ اوباما نے مسلمانوں کا دل موہ لینے کی تدبیریں ضرور اپنائیں اور اس بات کا اعلان کیا کہ امریکا اسلام کا دشمن نہیں‘ اسلام امریکا کا حصہ ہے۔ انہوں نے باہمی مفاد اور باہمی احترام کے ساتھ نئی شروعات کی پیش کش کی لیکن ان کی یہ ساری باتیں اس وقت مبنی برحقیقت سمجھی جائیں گی جب کہ ان کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات پر بھی توجہ دی جائے۔ عالمِ اسلام کے ساتھ مفاہمت اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک امریکا عالمِ اسلام سے اپنی معاندانہ پالیسیوں سے باز نہ آئے۔ اوباما ایک طرف عالمِ اسلام سے مخلصانہ مفاہمت کی بات کررہے ہیں‘ دوسری جانب افغانستان اور پاکستان میں بمباری کے ذریعہ ہزاروں افراد کو بے گھر ہونے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اوباما کے اب تک کے بیانات اور عملی اقدامات کا جائزہ لینے کے بعد بعض تجزیہ نگاروں کی جانب سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اوباما اپنے پیش رو صدر جارج بش کی پالیسیوں پر پوری طرح عمل پیرا ہیں۔ پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی البتہ اندازِ بیاں بدل دیا گیا ہے۔ وہ صدر بش کی طرح صلیبی جنگ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جیسے الفاظ استعمال نہیں کرتے‘ اسی طرح وہ تہذیبی تصادم کی بات نہیں کرتے۔ انہوں نے ’’ہمارے ساتھ یا ہمارے خلاف‘‘ کا نعرہ نہیں لگایا‘ وہ کہتے ہیں کہ امریکا اسلام سے برسرِ پیکار نہ ہے اور نہ ہی کبھی ہو گا۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکا میں صدر کی تبدیلی سے پالیسیوں میں کوئی واضح تبدیلی نہیں آئی البتہ اوباما کا لب و لہجہ بش سے مختلف ہے۔ اوباما اپنے خوش کن خطابات اور الفاظ کے ہیر پھیر کے ذریعہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی انتظامیہ میں الفاظ پر بھرپور توجہ دی جارہی ہے۔ وائٹ ہائوس کا ہر آدمی الفاظ کا استعمال بہت احتیاط کے ساتھ کر رہا ہے لیکن محض مفاہمت کے خوش کن خطاب سے امریکی ساکھ درست نہیں ہو سکتی۔ عالمِ اسلام کے ساتھ مفاہمت یا نئی شروعات کے لیے ان مسائل کو حل کرنا ہو گا جو پوری عالمی برادری کے لیے ناسور بنے ہوئے ہیں۔ ان میں سرِفہرست فلسطین اسرائیل تنازعہ ہے۔ دنیا میں قیامِ امن کے لیے مسئلہ فلسطین سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسرائیل کو اپنے ظالمانہ کردار سے باز آنے پر مجبور کرنا ہو گا۔ فلسطین کی مکمل آزادی ہی مسئلے کا منصفانہ حل ہے لیکن کسی درجہ میں کم از کم خودمختار فلسطینی مملکت کو یقینی بنایا جائے۔ اگر اسرائیل اس پر آمادہ نہ ہو تو اسے ماننے پر مجبور کیا جائے۔ صدر اوباما اگر فی الواقع سنجیدہ ہیں تو اولین فرصت میں عرب اسرائیل تنازعہ کو حل کریں۔ اگر اسرائیل رکاوٹ بنے تو آہنی پنجوں سے اس کی خبر لی جائے۔ الغرض دنیا اوباما سے عملی اقدامات کی منتظر ہے۔ عراق سے انخلا امریکا کی مجبوری ہے۔ جہاں تک افغانستان کی بات ہے اوباما نے اسے پاکستان تک وسعت دے دی۔ ایران کے تعلق سے بھی تاحال امریکی پالیسی میں واضح تبدیلی کے آثار نظر نہیں آتے۔ اوباما کو چاہیے کہ وہ عالمِ اسلام میں امریکی امیج کو بہتر بنانے کے لیے مصالحانہ اقدامات کریں۔ اوباما نے اپنے پیش رو کے مقابلہ میں مصالحت کی شروعات تو کی ہیں لیکن اس کا زیادہ تر حصہ صرف خطابات تک محدود ہے۔
(بحوالہ:روزنامہ ’’منصف‘‘ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply