اب تو یہ بات دن بدن واضح ہوتی جا رہی ہے کہ یہ وہی راگ ہے جو بش کے لوگ الاپتے رہتے تھے۔ ہم مسلم دنیا کے خلاف نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم تو آپ کے حق میں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ اپنے ہاں جمہوریت لائیں،ایک حد تک۔ ہمیں عرب ’’اعتدال پسندوں‘‘ سے پیار ہے اور ہم آپ لوگوں تک پہنچنا اور آپ کے دوست بننا چاہتے ہیں۔ عراق پر معذرت۔ اور افغانستان پر بھی ایک حد تک معذرت اور ہم امید کرتے ہیں کہ آپ سمجھتے ہیں کہ ہم نے ہلمند میںکاغذ کی طرح باریک دیواروں والے مسلمان دیہات پر ایک چھوٹی سی ’’یلغار‘‘ کیوں کی ہے اور ہاں، ہم نے غلطیاں کی ہیں۔
دنیا کا ہر شخص، ایسا لگتا ہے، اس بات کا منتظر ہے کہ دیکھیں باراک اوباما بھی یہی راگ الاپتے ہیں۔ البتہ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ عرب بھی باقی ماندہ دنیا کی طرح محوانتظار ہیں۔ مصر یا لبنان کو ہی لے لیں یہاں مجھے ایک بھی عرب ایسا نہیں ملا جو واقعی سمجھتا ہو کہ قاہرہ میں باراک اوباما کے لیکچر سے کوئی فرق پڑے گا۔ وہ لوگ تو دیکھ چکے ہیں کہ اوباما نے نیتن یاہو کو ڈکٹیشن دی کہ مزید یہودی آبادیاں نہیں بنیں گی، مسئلے کا دو ریاستی حل ہو گا اور پھر انہوں نے یہ بھی دیکھ لیا کہ کس طرح اس نے توہین آمیز انداز میں یہ اعلان کر دیا کہ مغربی کنارے میں اسرائیل کا استعماری پراجیکٹ بلاروک ٹوک جاری رہے گا اور یہ بیان اسی روز دیا گیا جس دن عرب دنیا کے انتہائی بے رنگ لیڈر محمود عباس وائٹ ہائوس گئے۔ اور یہ بھی نوٹ کر لیں کہ مسلمانوں سے اپنے تازہ ترین خطاب کے لیے اوباما نے مصر کا انتخاب کیا ہے۔ یہ وہی ملک ہے جسے ایک عمر رسیدہ ۸۰ سالہ آمر حسنی مبارک چلا رہے ہیں جو انسانی حقوق کے کارکنوں، اپوزیشن سیاست دانوں اور درحقیقت اپنے یک شخصی اقتدار کو چیلنج کرنے والے ہر شخص کو پابند سلاسل کرنے کے لیے اپنی سیکرٹ پولیس کو پرائیویٹ آرمی کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ یہاں ہم تشدد کا ذکر نہیں کریں گے۔ تسلی رکھیں اوباما کے خطبے میں اس چھوٹے سے نکتے پر کوئی خاص بات نہیں ہو گی۔
سوال یہ ہے کہ نئی بات کون سی ہو گی؟ میں نے دیکھا ہے کہ بھلے عام امریکیوں کو پتہ نہ ہو عربوں کو پتہ ہوتا ہے کہ واشنگٹن میں کیا ہو رہا ہے یعنی لابی سازی، اقتدار کی سیاست، جھوٹی دوستیاں اور سب کچھ۔ وہ جانتے ہیں کہ اوباما کا ’’نیا‘‘ امریکا بش والے امریکا کی طرح سب کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ پہلے اوباما العربیہ ٹیلی ویژن پر مسلمانوں سے خطاب کرتے ہیں۔ پھر وہ استنبول میں مسلمانوں سے خطاب کرتے ہیں۔ اب وہ ایک بار پھر مصر میں مسلمانوں سے خطاب کرنا چاہتے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ اوباما یہی کہیں گے کہ ’’میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں اس وقت تک کوئی فیصلہ نہیں کروں گا جب تک کہ پہلے میں آپ کے اور یہودیوں کے ساتھ مشورہ نہ کر لوں‘‘۔ ساتھ ہی مزید وعدے کیے جائیں گے کہ ہم عربوں کے دوست ہیں۔ عین یہی باتیں فرینکلن روزویلٹ نے ۱۹۴۵ء میں یو ایس ایس کوئنسی کے عرشے پر کھڑے ہو کر شاہ عبدالعزیز سے کہی تھیں، لہٰذا عربوں کو ایک بار پھر وہی باتیں سننے کو ملیں۔ میرا اندازہ ہے کہ دہشت گردی کی بات ہو گی کہ یہ عربوں کے لیے بھی اتنا بڑا خطرہ ہے جتنا بڑا خطرہ اسرائیل کے لیے ہے یعنی وہی راگ جو بش الاپتے رہے اور اوباما چونکہ نئے صدر ہیں اس لیے شاید یہ بھی سننے کو ملے کہ ’’ہم آپ کو مایوس نہیں کریں گے‘‘۔
لیکن کس لیے؟ مجھے شبہ ہے کہ عرب دنیا تو یہ سننا چاہتی ہے (ظاہر ہے ان کے لیڈر نہیں جو سب کے سب یہی سننا چاہیں گے کہ امریکا ان کی جائیداد پر ایک وسیع وعریض نیا فضائی اڈہ بنا رہا ہے) کہ اوباما اپنے تمام فوجی مسلمان علاقوں سے واپس بلا لیں گے اور انہیں تنہا چھوڑ دیں گے (امریکی امداد، ڈاکٹروں، اساتذہ وغیرہ کی توقع ضرور کی جائے گی)۔ لیکن ظاہر ہے اوباما یہ سب نہیں کہہ سکتے۔
وہ تو وہی بات کر سکتے ہیں اور کریں گے جو ساری دنیا عربوں سے کہتی ہے کہ مشرق وسطیٰ کے نئے امن عمل میں ہر عرب قوم کو شامل کیا جائے گا یعنی سعودی عرب کی اس بے مثال حد تک دانشمندانہ پیشکش کو پھر سے زندہ کیا جائے گا کہ تمام عرب اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے اور بدلے میں اسرائیل سلامتی کونسل کی قرارداد ۲۴۲ کے مطابق ۱۹۶۷ء والی سرحدوں پر واپس چلا جائے گا۔ بلاشبہ اوباما، شاہ عبداللہ کے ساتھ اپنی ملاقات میں بھی اسی بات کی وضاحت کریں گے۔ اور ہر شخص دانشمندی سے جھومنے لگے گا اور عرب آمریتوں کے اخبارات اوباما پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائیں گے اور نیویارک ٹائمز زوردار تالیاں بجانا شروع کر دے گا اور اسرائیلی حکومت اس کے ساتھ بھی وہی توہین آمیز سلوک کرے گی جو نیتن یاہو نے اوباما کی طرف سے عرب سرزمین پر یہودی آبادیوں کی تعمیر روکنے کے مطالبے کے ساتھ کیا تھا اور ادھر واشنگٹن میں کانگریس اس پر شور برپا کر دے گی اور شاید اوباما کو احساس ہو جائے گا عین اسی طرح جیسے عرب آمروں کو احساس ہو گیا ہے کہ خوبصورت باتیں اور سبزباغ حقیقت کے خلاف کبھی نہیں جیت سکتے۔
(بشکریہ ’’دی انڈی پینڈنٹ‘‘ لندن۔ ۷جون۲۰۰۹ء۔ ترجمہ: شاہد سجاد)
Leave a Reply