
یہ بات اب بہت سے سیاسی حلقے کہہ رہے ہیں کہ صدر اوباما نے پندرہ ماہ میں افغانستان سے تیس ہزار فوجی نکالنے کا اعلان کرکے طالبان کے ہاتھ مضبوط کردیئے ہیں اب وہ زیادہ منظم ہوکر بھرپور قوت سے حتمی فتح کی کوشش کریں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ اوباما نے نومبر ۲۰۱۲ء کے صدارتی انتخابات سے صرف چھ ہفتے قبل تک افغانستان سے تیس ہزار فوجی نکالنے کا اعلان کرکے جرنیلوں کو مطمئن کیا ہے نہ امن پسندوں کے دل کی آواز پر کان دھرا ہے۔ ہاں اپنے سیاسی مفادات کا انہوں نے عمدگی سے خیال رکھا ہے۔ اگر انہوں نے اس سے زیادہ تعداد میں افواج نکالنے کی بات کی ہوتی تو جرنیل ناراض ہو جاتے کیونکہ قندھار اور ہلمند میں حاصل ہونے والی کامیابیاں داؤ پر لگ جاتیں اور اوباما پر براہ راست یہ الزام آ جاتا کہ وہ صرف اپنا سیاسی فائدہ دیکھ رہے ہیں، انہیں قومی مفاد کی پروا نہیں۔
اگر اوباما نے کم تعداد میں فوجی نکالنے کی بات کی ہوتی تو بائیں بازو کے عناصر ناراض ہو جاتے اور ان کی حمایت کے بغیر اوباما کے لیے دوسری بار امریکی صدر منتخب ہونا ممکن نہیں۔ ہمارے صدر نے وہی کیا ہے جو فطری طور پر انہیں کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے بچے کو بیچ سے کاٹ کر اس کا بٹوارا کردیا ہے۔ افغانستان سے تیس ہزار فوجی سوا سال کی مدت میں نکالنے کا اعلان کرکے اوباما نے دراصل یہ اعتراف کرلیا ہے کہ طالبان پر مکمل فتح پانا ممکن نہیں۔ اب اوباما کی اولین ترجیح یہ ہے کہ طالبان کے ہاتھوں مکمل شکست سے بچا جائے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ۲۰۱۲ء کے بعد افغانستان میں ۷۰ ہزار فوجی چھوڑنے اعلان کیا ہے۔ جس وقت امریکا میں صدارتی انتخابات ہو رہے ہوں گے تب اگر افغانستان سے بری خبریں آنے لگیں تو سبھی کچھ داؤ پر لگ جائے گا۔ ایسے میں امریکی فوجیوں کو اس قدر مستحکم رکھنا ناگزیر ہے کہ کسی بھی مرحلے پر طالبان حد سے آگے نہ بڑھ پائیں۔
امریکی صدر نے جس تقریر میں افغانستان سے سوا سال کے عرصے میں تیس ہزار فوجی نکالنے کی بات کہی اس کے تجزیے کے دوران یہ تجویز بھی سامنے آئی کہ افغانستان، پاکستان، ایران، چین، روس اور امریکا کو مل کر کوئی سیاسی حل تلاش کرنا چاہیے۔ یہ محض اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے۔ کیا ہم امریکی پہلے اس خطے میں نہیں گئے؟ کیا ۱۹۴۰ء کے عشرے میں چیئرمین ماؤزے تنگ اور چیانگ کائی شیک سے بات چیت نہیں ہوئی تھی؟ کیا ۱۹۷۳ء میں ویت نام میں ویت کانگ اور شمالی و جنوبی ویت نام کے جنگجوؤں کے درمیان مذاکرات کا معاملہ نہیں اٹھا تھا؟
طالبان بھی کمیونسٹوں کی طرح اپنے مقصد کے لیے مرنے مارنے پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ ایک نظریہ رکھتے ہیں جو مذہبی عقائد پر مشتمل ہے۔ اس نظریے کے مطابق زندگی بسر کرنا ان کے لیے سب کچھ ہے۔ اس کے لیے وہ کسی بھی وقت مرنے کو تیار رہتے ہیں۔ ہم نے افغانستان میں دیکھا ہے کہ طالبان کس قدر بے جگری سے لڑتے ہیں۔ جن افغان فوجیوں نے طالبان سے لڑتے ہوئے جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے میں ان کی اہمیت کم نہیں کر رہا نہ انہیں پست ارادوں کا ثابت کرنا چاہتا ہوں۔ بات صرف یہ ہے کہ طالبان اپنے مقصد کے لیے میدان میں اترتے ہیں۔ انہیں امریکیوں کی تربیت، فوجی ساز و سامان، ہتھیاروں اور مالی امداد کی ضرورت نہیں۔ وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں، اپنے بل بوتے پر کرتے ہیں۔
امریکیوں نے طالبان کا ایک عشرے تک سامنا کیا ہے۔ طالبان نے کسی بھی مرحلے پر یہ اشارہ نہیں دیا کہ ان کے حوصلے پست ہوچکے ہیں یا کہ وہ اب فرار کی راہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی فوج کے معیار پر کوئی شک ہے؟ جب دنیا کی بہترین تربیت یافتہ فوج اپنے بہترین ساز و سامان کے ساتھ، ۱۶۰۰ جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اور ۱۰ ہزار سے زائد سپاہیوں کا زخمی ہونا سہہ کر بھی طالبان کو پچھاڑنے میں ناکام رہی ہے تو افغان فوج اور کرزئی انتظامیہ کس طور طالبان کو کنٹرول کرسکے گی؟ امریکیوں کے نکل جانے کے بعد طالبان اور افغان فوج میں کس نوعیت کی محاذ آرائی ہوسکتی ہے، اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔
اگر طالبان مذاکرات کی میز تک آ بھی جائیں اور اس امر کی یقین دہانی کرا بھی دیں کہ وہ افغان حکومت اور فوج کے ساتھ مل کر رہیں گے تب بھی امریکی فوج کے انخلاء کے بعد اس امر کی کوئی ضمانت فراہم نہیں کی جاسکتی کہ طالبان اپنے وعدے پر عمل کریں گے۔ آئندہ پندرہ ماہ میں عراق سے پچاس ہزار اور افغانستان سے تیس ہزار امریکی فوجی نکل جائیں گے۔ عراق کی صورت حال بہت خراب ہے۔ سیاسی عدم استحکام ہے اور دوسری طرف کوئی بھرپور، منظم فوج بھی نہیں مگر اس کے باوجود امریکا پر زیادہ الزام نہیں آئے گا۔ افغانستان کا معاملہ دوسرا ہے۔ وہاں سے نکلنے کو پسپائی تصور کیا جائے گا۔
کوئی غلطی نہیں ہونی چاہیے۔ افغان حکومت اور فوج نے نیٹو فورسز کے ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کی مدد سے بھی طالبان پر فتح حاصل نہیں کی تو اتحادیوں کے نکل جانے پر ان سے کسی بھی بہتری کی امید کیوں کر کی جاسکتی ہے؟ افغانستان میں بہت برا وقت آنے والا ہے۔ سینیٹر جان مکین اور دیگر نیوکونز مل کر صورت حال کی خرابی کے لیے اوباما انتظامیہ کو مورد الزام ٹھہرائیں گے۔ امریکا نے عراق اور افغانستان میں جنگ لڑنے پر تین ہزار ڈالر سے زائد فنڈز خرچ کیے ہیں۔
(بشکریہ: ’’میامی ہیرالڈ‘‘۔ ۲۶ جون ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply