امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے کہا ہے کہ امریکا پاکستان کے نیوکلیئر اسلحہ تک انتہا پسندوں کی رسائی روکنے کے لیے جتنے اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے اتنے وہ افغانستان اور عراق میں دہشت گردوں کو ختم کرنے پر بھی نہیں کر رہا ہے۔ اخبار کے مطابق ’’امریکا کے نزدیک عراق اور افغانستان کو مستحکم کرنے سے زیادہ پاکستان کو ختم ہونے سے بچانے کے لیے اس کا سب کچھ دائو پر لگا ہوا ہے کیونکہ پاکستان کے ٹوٹ جانے سے اس کا نیوکلیئر اسلحہ القاعدہ اور دوسری اسلامی شدت پسند تنظیموں کے ہاتھ لگ سکتا ہے۔ یہ باتیں بااثر امریکی اخبار نے اپنے اتوار کے شمارے کے ساتھ آنے والے ’’نیویارک ٹائمز میگزین‘‘ میں ایک جامع تحقیقی رپورٹ میں کہی ہیں۔ اس تحقیقی رپورٹ کا موضوع ’’پاکستان‘‘ اوباما کا بدترین بھیانک خواب‘‘ ہے۔ یہ رپورٹ نیویارک ٹائمز کے واشنگٹن میں نامہ نگار ڈیوڈ ای سینگر کی آئندہ ماہ آنے والی کتاب ’’اوبامہ کو درپیش دنیا اور امریکی طاقت‘‘ کے عنوان سے لیے گئے اقتباسات پر مبنی ہے۔ یہ کتاب اگلے ماہ شائع ہو رہی ہے۔ مصنف نے راولپنڈی میں چکلالہ کے فضائی اڈے کے قریب پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے گریژن اور سیکوریٹی میں گھرے ہوئے پاکستان کے جوہری اسلحہ کے پروگرام کے کنٹرول اور کمان کے انچارج خالد قدوائی سمیت امریکی انٹیلی جنس اور نیوکلیئر سائنس اور سیاست کے ماہرین سے کیے گئے انٹرویوز کے حوالے بھی دیے ہیں۔ نیویارک ٹائمز کا کہنا ے کہ پاکستان کی نیو کلیئر کمان اینڈ کنٹرول کے ادارے کا اہم کام پاکستان کی نیوکلیائی تنصیبات کو بھارت، مغربی ممالک اور غصیلے امریکیوں سے بھی بچانا ہے۔ اس مضمون میں کہا گیا ہے کہ امریکا کو سب سے بڑا خطرہ پاکستان کے سرحدی علاقے کے جہادیوں کے ہاتھوں میں آنے کا نہیں بلکہ پاکستان کے نیوکلیائی اسلحہ کا ’’غلط ہاتھوں‘‘ میں چلے جانے کا ہے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ عراق اور افغانستان میں اپنی جانوں اور کروڑوں ڈالروں کے ضیاع سے زیادہ امریکا اربوں ڈالر پاکستان کے نیوکلیائی اسلحے کی حفاظت اور اسے شدت پسندوں کے ہاتھوں سے محفوظ رکھنے پر خرچ کر چکا ہے۔ رپورٹ میں نیوکلیئر امور کے ماہرین اور ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر گراہم ایلیسن کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ جب دہشت گردی اور وسیع تباہی کے ہتھیاروں کے حوالے سے بات آتی ہے تو تمام راستے پاکستان کی طرف جاتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان کی نیوکلیئر سیکوریٹی اب پہلے سے کہیں بہتر ہے لیکن (اگر پاکستان کے) مستقبل پر نظر ڈالی جائے تو جب قیادت ناکام ہو جاتی ہے تو پھر کوئی وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ نیوکلیئر تنصیبات، اسلحہ اور تجربہ گاہیں کس کے کنٹرول اور کس کے ہاتھ لگتی ہیں! لیکن اخبار نے پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کی کمان اور کنٹرول کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد قدوائی کے حوالے سے کہا ہے کہ اگر پاکستان کی قیادت ناکام بھی ہو جائے تب بھی پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کی قومی کمان اور اسلحے پر کنٹرول فوجی اور سول قیادت سمیت ایسے ہاتھوں میں ہے جن تک شدت پسندوں کی رسائی ناممکن ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کے نیوکلیائی ڈھانچے یا انفراسٹرکچر میں ۷۰ ہزار لوگ کام کرتے ہیں جن میں ۷ ہزار سے ۸ ہزار تک سائنسدان ہیں اور ان میں ۲ ہزار افراد انتہائی حساس قسم کی معلومات رکھتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان کی نیوکلیئر انفرااسٹرکچر میں کام کرنے والے ان ملازمین کا ایک فیصد حصہ بھی انتہا پسندوں سے ہمدردی رکھتا ہو تو یہ امریکا کے لیے انتہائی تشویشناک بات ہے۔ لیکن خالد قدوائی کے حوالے سے اخبار لکھتا ہے کہ پاکستان میں نیوکلیائی کمان اور کنٹرول نے نیوکلیئر انفرااسٹرکچر کے ملازمین اور سائنسدانوں کی ذاتی جانچ پڑتال کا ایسا نظام وضع کیا ہے کہ ان کے بینک کھاتوں، غیر ملکی دوروں اور سماجی میل جول پر بھی کڑی نگرانی رکھی جاتی ہے۔ اخبار نے بش انتظامیہ میں ایک اعلیٰ عملدار کے خدشات کے حوالے سے بتایا ہے کہ فکر اس وقت ہوتی ہے جب پاکستانی نیوکلیئر عملہ ہتھیار ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتا ہے اور اس وقت نیوکلیئر ہتھیار انتہا پسندوں کے ہاتھوں چھینے جانے کے خدشے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ انتہا پسندوں کے حمایتی عناصر پاکستان کی توجہ دہشت گردی اور نیوکلیئر ہتھیاروں سے ہٹانے کے لیے پاکستان بھارت کے درمیان جنگ کو ہوا دے رہے ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے اس رپورٹ میں گِنوایا ہے کہ پاکستان میں نیوکلیئر اسلحے کی ایک جگہ سے دوسری جگہ پر منتقلی اور انھیں الگ الگ کر کے مقفل رکھنے کی خفیہ تربیت پرامریکا ۱۰۰ ملین ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ رپورٹ کے مصنف کا کہنا ہے کہ اسے ماہرین نے بتایا کہ پاکستان میں اگر بحران پیدا ہوتا ہے تو یہ ناممکن ہے کہ وہاں کوئی بھی امریکی صدر کو یہ بتانے کے قابل ہو گا کہ پاکستان کے تمام نیو کلیائی ہتھیار کہاں ہیں یا یہ کہ وہ اسلامی انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد سی آئی اے کے ۲ سینئر عملداروں نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور تب فوجی حکمران صدر جنرل مشرف کو خبردار کیا تھا کہ انتہا پسندوں کا دوسرا اقدام حکومت پر قبضہ کرنا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ گزشتہ برس پاکستان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا امریکی دورہ ایک تباہی تھا۔ صدر بش سے ان کی ملاقات کے دوران پاکستان کے فوجی آپریشنز کے متعلق اتنی معلومات وزیراعظم گیلانی کو نہیں تھیں جتنی کہ امریکی صدر جارج بش اور نیشنل سیکوریٹی کے مشیر اسٹیفن ہیڈلے کو تھیں۔ رپورٹ کے آخر میں کہا گیا ہے کہ نومنتخب امریکی صدر بارک اوباما کو صدر بش کے بعد ترکے میں پاکستان اور امریکا کے درمیان اصل میں غیر فعال تعلقات ملیں گے۔ واشنگٹن میں کوئی بھی اس کا اعتراف نہیں کرے گا کہ بارک اوباما کو پاکستان اور افغانستان کے متعلق انٹیلی جنس نے جو وسیع ترین بریفنگز دی ہیں اس اس میں انھیں بتایا گیا ہے کہ امریکا کے نزدیک افغانستان اور عراق کے استحکام سے زیادہ پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانا زیادہ ضروری ہے۔
(بحوالہ: ’’بی بی سی اردو ڈاٹ کام‘‘۔ نیویارک)
Leave a Reply