جب کبھی امریکا کے لیے کوئی ایسا مسئلہ سامنے آتا ہے جس کا تعلق اسلام یا مسلمانوں سے ہو تو صدر باراک اوباما کے لیے ایک موافق اور ایک ناموافق صورت حال ابھرتی ہے۔ موافق صورت حال یہ ہے کہ ’’وہ مسلمانوں سے ہمدردی پر مبنی رویہ رکھنے والے سمجھے جاتے ہیں‘‘ اور ناموافق صورت حال بھی یہی ہے کہ ’’وہ مسلمانوں سے ہمدردی پر مبنی رویہ رکھنے والے سمجھے جاتے ہیں‘‘۔ ایک اسلامی نام صدر اوباما کے نام کا حصہ ہے، ان کے والد کا تعلق کینیا سے تھا اور انڈونیشیا میں گزارا ہوا بچپن کا حصہ انہیں کسی بھی دوسرے امریکی صدر کے مقابلے میں اسلام کو سمجھنے میں زیادہ مدد دیتا ہے۔ اس صورت حال نے ان کے لیے ایک منفرد موقع بھی فراہم کیا ہے۔ وہ امریکا اور عرب دنیا کے کشیدہ تعلقات کو معمول پر لانا چاہتے ہیں۔ ۱۱ فیصد امریکی سمجھتے ہیں کہ باراک اوباما بھی مسلمان ہی ہیں۔ ایسا کہنا درست نہیں ہے اور اس پر مجھے سابق امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کا سوال یاد آگیا۔ انہوں نے پوچھا کہ فرض کیجیے کہ اوباما مسلمان ہیں تو کیا ہوگا؟ اوباما کی وراثت (اسلامی پس منظر) اس خدشے کو پروان چڑھا رہا ہے کہ وہ امریکا کے اسلام دشمنوں سے سختی کے ساتھ نمٹنے کے معاملے میں سنجیدہ نہیں۔
صدر اوباما کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ رہا ہے کہ وہ اسلامی دنیا سے اپنے تعلق کی بنیاد پر امریکا اور مسلمانوں کے تعلقات کو خوشگوار بنائیں ساتھ ہی ساتھ اپنی سیاسی حیثیت کو بھی مستحکم کریں۔ فورٹ ہڈ میں میجر ندال ملک نے اندھا دھند فائرنگ کرکے ۱۰ فوجیوں سمیت ۱۳ افراد کو ہلاک کرکے صدر اوباما کی مشکلات بڑھا دی ہیں۔ صدر کی حیثیت سے اپنے پہلے انٹرویو میں باراک اوباما نے عربی ٹی وی چینل العربیہ کے ذریعے پیغام دیا تھا کہ ’’میں یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ امریکی عوام مسلمانوں کو دشمن نہیں سمجھتے۔‘‘ جون میں قاہرہ یونیورسٹی میں خطاب کے دوران انہوں نے ایک بار امریکا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے درمیان نئے، خوشگوار تعلقات کی نوید دی۔ اس وقت یہ بات اس لیے بہت بھلی لگی تھی کہ عراق میں امریکیوں کی ہلاکتوں کا گراف نیچے آرہا تھا اور امریکی عوام کی اکثریت مسلمانوں سے لاحق خوف میں کمی محسوس کر رہی تھی۔
سچ یہ ہے کہ فورٹ ہڈ کے واقعے سے قبل ہی اوباما کی اسلامی دنیا سے دوستی کی اپروچ کا تناظر تبدیل ہو رہا تھا۔ ایک سال کے دوران افغانستان میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں اور غیر فوجی باشندوں کی تعداد دگنی ہوچکی ہے۔ امریکا میں دہشت گردی کے کئی منصوبے طشت از بام ہوچکے ہیں۔ ۴ افراد کو نیو برگ (نیو یارک) میں طیارہ تباہ کرنے اور یہودیوں کے معبد پر حملے کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ کولوراڈو میں ایک افغان باشندے کو بم بنانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ڈیلاس میں ایک اردنی نوجوان ایک ۶۰ منزلہ عمارت تباہ کرنے کی سازش کے الزام میں گرفتار ہوا، اور بوسٹن میں ایک شخص شاپنگ مال پر حملے کی منصوبہ بندی کے الزام میں اب تک قید میں ہے۔ صدر اوباما ہاتھ میں زیتون کی شاخ لے کر جو حکمتِ عملی اپنائے ہوئے ہیں وہ طویل المیعاد بنیاد پر تو کام کرسکتی ہے۔ لیکن قلیل المیعاد بنیاد پر اس کے فوائد اب تک سامنے نہیں آسکے۔
صدر اوباما کو ایک ایسی صورت حال کا سامنا ہے جس کا سامنا صدر جارج واکر بش کو نائن الیون کے بعد بھی نہیں ہوا تھا۔ فورٹ ہڈ کا واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انتہا پسند سوچ رکھنے والے امریکی فوج میں بھی ہیں۔ جو کچھ میجر ندال ملک نے کیا وہ بظاہر انفرادی نوعیت کا اقدام ہے تاہم اس سے صدر اوباما کی ان کوششوں کو دھچکا ضرور لگا ہے جن کا تعلق امریکا اور اسلامی دنیا کے تعلقات بہتر بنانے سے ہے۔ ان کی یہ سوچ کام کرتی دکھائی نہیں دیتی کہ اسلامی دنیا سے لاحق خطرات سے بہتر طور پر نمٹنے کے لیے امریکا کو دوستانہ رویہ اپنانا پڑے گا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ میجر ندال ملک نے اپنے طرز عمل سے بہت پہلے ہی خطرناک اشارے دینا شروع کر دیے تھے۔ تاہم ان پر اس خوف کے تحت توجہ نہیں دی گئی کہ کہیں مسلمانوں کے معاملے میں متعصب رویہ پروان چڑھانے کا الزام عائد نہ کردیا جائے۔(!) اس سے پتا چلتا ہے کہ مسلمانوں سے تعلقات بہتر بنانے کے معاملے میں اوباما کے لیے ناموافق صورت حال کیا ہے۔ فورٹ ہڈ کے واقعے کے بعد ان پر یہ الزام پھر پوری شدت سے عائد کیا جانے لگا کہ انہوں نے امریکا اور افغانستان میں امریکیوں کو اسلامی شدت پسندوں سے لاحق خطرات کا اب تک سنجیدگی سے نہیں لیا۔ فورٹ ہڈ میں ۱۰ نومبر کو منعقدہ تعزیتی سروس میں صدر اوباما نے بہت عمدگی سے ایک طرف تو شدت پسندوں سے لاحق خطرات کی بات کی اور دوسری طرف اپنے اعتدال پسند رویے کا دفاع بھی کیا۔ اپنی تقریر میں انہوں نے اسلام یا مسلم کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کیا۔ پہلے تو انہوں نے وضاحت کی کہ کوئی بھی مذہب یا مذہبی عقیدہ کسی بے گناہ کے قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ اور اس کے بعد انہوں نے مذہب اور دیگر حوالوں سے امریکی معاشرے میں پائی جانے والی رواداری کا موازنہ فورٹ ہڈ کے واقعے کا محرک بننے والی انتہا پسند سوچ سے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا میں سب کو اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل کا حق حاصل ہے اور اس موقع پر انہوں نے ابراہم لنکن کا حوالہ بھی دیا جنہوں نے کہا تھا کہ خدا کو اپنی طرف کہنے سے بہتر یہ ہے کہ ہم خدا کی طرف ہونے کی کوشش کریں۔ جمہوری روایات سے مطابقت رکھنے والے مذہبی نظریات اور نہ رکھنے والے نظریات کے بارے میں صدر اوباما کی وضاحت درست ہے۔ انہیں اسلامی شدت پسندی اور اسلام کے مرکزی دھارے کا فرق بھی واضح کرنا چاہیے۔ امریکا کو درپیش اصل مسئلے کا اوباما نے ذکر نہیں کیا۔ امریکا کو مذہبی انتہا پسندی کا سامنا نہیں، اسے ایک خاص مذہب سے پیدا ہونے والی انتہا پسندی پر مبنی سوچ کا سامنا ہے۔ صدر اوباما خیر سگالی پر مبنی سوچ میں ذرا اور ڈوب کر مرکزی دھارے کے مسلمانوں کو ان کی ذمہ داری یاد دلائیں۔ اگر اسلامی عسکریت پسندی نے معتدل اسلامی عقائد سے جنم لیا ہے تو پھر اس کا علاج بھی انہی عقائد کے ذریعے ہونا چاہیے۔
(بحوالہ: ’’نیوز ویک‘‘۔ ۲۳ نومبر ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply