
امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کسی بھی قرارداد کو رد کرنے کا اختیار (ویٹو پاور) اب تک ۸۳ بار استعمال کیا ہے۔ ۴۲ بار اس نے اسرائیل کو فلسطینیوں پر مظالم سے روکنے والی قراردادوں کو مسترد کیا۔ آخری بار جب اس نے ایسی ایک قرارداد کو ویٹو کیا تب اقوام متحدہ کے ۱۳۰؍ رکن ممالک اس کے حامی تھے۔ ۱۹۹۱ء میںسوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکا نے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو قدرے کم ویٹو کیا، جن کی تعداد ۱۴ ہے (ان میں ۱۳؍بار اسرائیل کو تحفظ دینے کے لیے ویٹو کیا گیا)۔ روس نے ۹ مرتبہ ویٹو کا حق استعمال کیا۔ اب سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کسی قرارداد پر بحث رکوانے کے لیے بھی ویٹو پاور استعمال کرتے ہیں جس سے باقی ساری دنیا لب بستہ ہو کر رہ گئی ہے۔
بڑی طاقتوں کو یہ جابرانہ اختیار اس زمانے میں ملا جب دوسری اقوام شکست خوردہ اور آواز سے محروم تھیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جو ملک سب سے زیادہ جنگ پسند تھے، وہی گزشتہ ۶۰برسوں کے دوران عالمی امن کے علمبردار رہے۔ اسلحے کے سب سے بڑے تاجروں کو ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ دنیا کو ہتھیاروں سے پاک کریں۔ بین الاقوامی قانون پیروں تلے روندنے والوں کو انصاف کی فراہمی کا اختیار دیا گیا۔
اب جبکہ روس اور چین نے ویٹو پاور استعمال کرکے مشرق وسطیٰ کے الاؤ پر امریکا کی جانب سے تیل چھڑکنے کی کوشش میں رکاوٹ ڈال دی ہے تو وہ چیخ و پکار کر رہا ہے کہ یہ نظام قانونی اور اخلاقی جواز سے محروم ہے۔ امریکی صدر اوباما کہتے ہیں: ’’اگر ہم سلامتی کونسل کو بین الاقوامی اصول و ضوابط اور بین الاقوامی قانون کے اطلاق و نفاذ کے بجائے ایک رکاوٹ کے طور پر استعمال کریں گے تو پھر میرا خیال ہے کہ لوگوں کا اس نظام پر شک و شبہ بالکل درست ہوگا۔‘‘ چہ خوب! اوباما یا ان کے پیش روؤں نے اس نظام میں سنجیدہ اصلاح کی کبھی کوشش نہیں کی، نہ یہ کوشش کی کہ ایک بدعنوان ٹولے کا عالمی ادارے پر تسلط ختم کرواکر اسے جمہوری بنایا جائے۔ انہوں نے اس ناانصافی پر کبھی احتجاج کیا، نہ اظہارِ افسوس۔ یہاں تک کہ نتیجہ ان کے اپنے خلاف نکل آیا۔ دو ہفتے قبل اوباما نے کہا تھا کہ شام نے زہریلی گیس استعمال کرکے کیمیائی ہتھیاروں کے خلاف ۱۸۹؍ اقوام کا منظور کردہ بین الاقوامی قانون پامال کیا ہے۔
۱۹۹۷ء میں امریکا نے اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ وہ اگلے دس برسوں میں اپنے پاس موجود ۳۱۰۰۰ ٹن سرین، وی ایکسل اور مسٹرڈ، گیس بے اثر بنا دے گا۔ ۲۰۰۷ء میں اس نے مزید پانچ سال کی توسیع مانگی۔ یاد رہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کے معاہدے کے تحت یہ زیادہ سے زیادہ مدت ہے لیکن وہ زیادہ سے زیادہ توسیع حاصل کرنے کے باوجود اپنا وعدہ پورا نہیں کر پایا اور ۲۰۱۲ء میں اس نے دعویٰ کیا کہ وہ ۲۰۲۱ء تک یہ کام مکمل کرلے گا۔
روس نے شام پر زور دیا کہ وہ اپنے کیمیائی ہتھیار بین الاقوامی کنٹرول میں دے دے، حالانکہ اسے امریکا پر بھی دبائو ڈالنا چاہیے تھا کہ وہ بھی ایسا کرے۔ ۱۹۹۸ء میں کلنٹن حکومت نے کانگریس میں ایک قانون پیش کیا تھا، جس کے تحت بین الاقوامی معائنہ کاروںکو امریکا کے اندر آکر کیمیائی نمونے لینے سے روکا گیا تھا اور امریکا کے صدر کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ غیرعلانیہ معائنوں کو مسترد کرے۔ ۲۰۰۲ء میں بش حکومت نے کیمیائی ہتھیاروں کے امتناع کی تنظیم کے ڈائریکٹر جنرل جوزماریسیو بسٹینی (Jose Mauricio Bustani) کو برطرف کروا دیا۔ سبب یہ تھا کہ انہوں نے دو ناقابل معافی جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ ان کا پہلا جرم یہ تھا کہ انہوں نے امریکا کے کیمیائی اسلحے کے کارخانوں کا سختی سے معائنہ کروایا تھا اور دوسرا یہ کہ انہوں نے صدام حسین پر دبائو ڈالا تھا کہ وہ کیمیائی ہتھیاروں کے معاہدے پر دستخط کر دے۔ اگر ایسا ہوجاتا تو جارج بش وہ جنگ نہ چھیڑ سکتے جس کے لیے وہ بے چین تھے۔ امریکا نے شام، لائوس اور کمبوڈیا میں لاکھوں گیلن کیمیائی مواد استعمال کیا، ۲۰۰۴ء میں فلوجہ کی تباہی میں بھی یہ استعمال کیا گیا، جس کے متعلق امریکا نے جھوٹ سے کام لیا۔ ریگن کی حکومت نے ۱۹۸۰ء میں ایران کے خلاف صدام حسین کی حمایت کی، جبکہ وہ جانتا تھا کہ اعصابی اور مسٹرڈ گیسوں کا استعمال کیا جارہا ہے۔
پوری دنیا سے چیچک کو نابود کردیا گیا ہے، مگر امریکا اور روس کے سوا کوئی بھی اس امر پر اصرار نہیں کر رہا کہ اس کے جرثومے کو سرد خانے میں محفوظ رکھا جائے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کا مقصد کسی امکانی کیمیائی حملے سے بچنے کے لیے ادویہ تیار کرنا ہے۔ مگر بیشتر ماہرین اسے محض ایک حیلہ قرار دے چکے ہیں۔ جہاں یہ دونوں ملک اس بیماری کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہیں، وہاں وہ مل کر عالمی ادارۂ صحت کے دیگر ارکان پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اپنے ذخائر ضائع کردیں۔
۲۰۰۱ء میں ’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے خبر شائع کی کہ پینٹاگان نے کانگریس کی نگرانی اور بایولوجیکل ویپنز کنونشن کے اجازت نامے کے بغیر ایک جراثیم ساز کارخانہ لگا لیا ہے، جہاں ایسے جراثیم تیار کیے جا رہے ہیں جو پورے شہر کی آبادی کو فنا کرسکتے ہیں۔ پینٹاگان نے اس کارخانے کے لگائے جانے کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ محض دفاعی تیاریوں کا حصہ ہے۔ بش حکومت نے بھی بایولوجیکل ویپنز کنونشن کی توثیق کے لیے کیے جانے والے مذاکرات سے فرار اختیار کرکے اس کنونشن کو برباد کر ڈالا۔
سب سے اہم بات‘ جس کا سارے فسانے میں ذکر نہیں کیا گیا‘ یہ ہے کہ امریکا اسرائیل کے پاس موجود وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو تحفظ فراہم کر رہا ہے۔ اسرائیل غزہ میں سفید فاسفورس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرچکا ہے۔ یاد رہے اسرائیل بھی کیمیکل ویپنز کنونشن کی توثیق سے انکاری ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے جسے ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے بیان کیا تھا کہ شام نے کیمیائی ہتھیاروں کے انبار لگا لیے ہیں تو اس کا باعث مشرقِ وسطی کا وہ شریفانہ معاہدہ ہے، جس کے تحت شام کے کیمیائی ہتھیاروں پر کھلم کھلا تنقید تب تک نہیں کی جانی تھی جب تک کہ اسرائیل کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیل نے ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلاؤ روکنے والے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایٹمی ہتھیاروں پر مشتمل اسلحہ خانہ تیار کرلیا ہے جبکہ امریکا خود اپنے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے۔ امریکی قوانین ایسے ملک کو امداد دینے سے روکتے ہیں، جس کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہوں۔
ان میں سے کوئی بھی دلیل بشار الاسد کی حکومت یا اس کے مخالفین کو ان کے بے شمار گھناؤنے جرائم سے بری الذمہ قرار نہیں دیتی اور نہ ہی اس سے یہ مراد ہے کہ شام میں برپا وحشت ناک بحران کا کوئی آسان حل موجود ہے۔
بہرحال اوباما نے اپنے ملک کی طرف سے بین الاقوامی ضوابط کی پامالی اور بین الاقوامی قانون کی بربادی کے بارے میں دیانت داری سے کام نہیں لیا۔ انہوں نے عالمی معاملات میں امریکا کا کردار بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور مشرق وسطیٰ میں یک طرفہ مداخلت کی، جس کے باعث شام کے بحران کا حل زیادہ دشوار ہوگیا ہے۔ جب تک امریکا اپنے ماضی کے جرائم اور حالیہ ناانصافیوں کے حوالے سے صاف گوئی سے کام نہیں لیتا اور اپنی پیدا کردہ عدم مساوات ختم نہیں کرتا، تب تک اس کی ہر کوشش اس اضطراب اور اشتعال کو جنم دے گی جس کے بارے میں اوباما کہتے ہیں کہ وہ اسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ امریکا بندوقوں اور بموں کے بغیر بھی شام کا بحران حل کرنے کی کوشش کرے گا تو مذکورہ وجوہ کی بنا پر نتیجہ اشتعال کی صورت میں ہی نکلے گا۔
بارک اوباما نے صدر کی حیثیت سے اولین خطاب میں وعدہ کیا تھا کہ وہ ’’طفلانہ کام بند کروا دیں گے۔‘‘ ہم سب جانتے ہیں کہ اس سے ان کی مراد کیا تھی، تاہم انہوں نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔
(“Obama’s rogue state tramples over every law, it demands other uphold”-“The Guardian” 9th Sep 2013)
Leave a Reply