
ماروی سرمد صاحبہ آج کل سیکولر حلقوں کی راج دُلاری بنی ہوئی ہیں، ان کا ایک مضمون بعنوان ’’۱۲؍مارچ: جناح کے پاکستان کی موت‘‘ ڈیلی ٹائمز میں شائع ہوا۔ قطع نظر اس کے کہ یہ عنوان بذاتِ خود باعث اذیت تھا، تمام مضمون تاریخی اغلاط سے آلودہ، استدلال اور منطق کی پامالی کا مرقع اور قاری کی عقل کی تذلیل کا شاہکار ہے۔
اخبار مذکور نے خاتون کی جو تصویر دی ہے، وہ اپنی جگہ نفس مضمون کی تعبیر ہے۔ پیشانی پر ہندوانہ بندیا، گلے میں اُسی قماش کی مالا اور جسم پر ویسے ہی فیشن کی ساڑھی۔ وہ اپنے چہرے مہرے اور ظاہری ڈھب سے پاکستانی خاتون دکھائی نہیں دیتیں۔
میری کوشش ہوگی کہ بلاکم و کاست اُن کے مضمون کے چیدہ چیدہ نکات نقل کروں، تاکہ قرارداد مقاصد کے حوالے سے سیکولر فکر کے خدوخال نمایاں ہوں اور ساتھ ہی سیکولر حضرات کا طریقۂ واردات بھی آشکارا ہو۔ موصوفہ کے مطابق:
٭ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی حیثیت نمائندہ نہیں تھی۔
٭ قرارداد کی مخالفت اقلیتی نمائندوں اور (روشن خیال) ’’سیکولر‘‘ مسلمان اراکین نے کی تھی۔
٭ قائداعظم کے دست راست لیاقت علی خان نے اپنے قائد کے رہنما اُصولوں سے روگردانی کرتے ہوئے قرارداد مقاصد پیش کی۔
٭ مسلم لیگ کی ماضی کی قراردادوں میں کہیں بھی اسلام کا ذکر نہیں۔
٭ دستور ساز اسمبلی کا اجلاس قرآن خوانی سے شروع ہوا، حالانکہ قائداعظم کی زندگی میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔
٭ قائداعظم پاپائیت (تھیوکریسی) کے مخالف تھے۔
٭ قراردادِ مقاصد اس لیے اپنائی گئی کہ یہ مسلم لیگ پر تاریخ کا قرض تھا۔ وہ اپنے آپ کو چونکہ مسلمانانِ جنوبی ایشیا کی واحد نمائندہ جماعت کہتی تھی، اس لیے وہ مسلمانوں کے تصورات کی کھل کر مخالفت نہیں کرسکتی تھی۔
یہ وہ چیدہ چیدہ نکات ہیں، جس پر موصوفہ نے اپنے مضمون کی بنیاد رکھی ہے۔
قیامِ پاکستان اور قرارداد مقاصد کے بارے میں اگر آپ ۱۹۴۰ء کے عشرے کے مباحث دیکھیں تو ہندوؤں کا وہی موقف اور وہی استدلال سامنے آتا ہے، جو آج سیکولروں کا ہے۔ بالفاظِ اقبال ’’وہی حیلے ہیں پرویزی‘‘۔ میں نے یکم اپریل کو موصوفہ کے مضمون پر چند سوالات اٹھائے تاکہ اگر واقعتاً اُن کا مؤقف درست ہے اور تاریخی متن اس کی تائید کرتا ہے تو وہ بالترتیب اسے پیش کردیں۔ میرے سوالات مندرجہ ذیل تھے:
میں نے آپ کا مضمون پڑھا۔ میں اپنی سی سعی کر رہا ہوں کہ آپ نے جو تحریرکیا ہے، اُسے سمجھوں۔
آپ نے لکھا ہے کہ قائداعظم تھیوکریسی (پاپائیت) کے خلاف تھے۔ میں نے اُن کی تقریروں کو بغور پڑھا۔ میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ وہ واقعتاً تھیوکریسی کے مخالف تھے۔
میں نے اُن کی وہ تقاریر بھی پڑھی ہیں جو انہوں نے ۱۹۴۰ء کے عشرے میں کی تھیں، جس میں ۹۰ سے زیادہ بار انہوں نے اسلامی معاشرے، اسلامی قانون اور اسلامی طرزِ حکمرانی کا ذکر کیا ہے۔ اب میرا مسئلہ کیا ہے؟
٭ اگر محمد علی جناح تھیوکریسی کے مخالف تھے، جو وہ واقعتاً تھے تو پھر وہ اسلامی معاشرت، سیاست اور قانون کی بات کیوں کر رہے تھے؟
٭ یہ تو دو متضاد باتیں ہوئیں۔ کیا اس طرح وہ اپنے آپ کو ایک متضاد شخصیت ثابت کر رہے تھے؟
٭ اگر بات یہ نہیں ہے، تو کیا وہ اسلامی حکومت کو پاپائیت سے مختلف شے سمجھتے تھے؟
٭ اُن کی گیارہ اگست ۱۹۴۷ء والی تقریر (اُن تمام سیکولر تعبیرات کے باوجود) بہرطور ان کی بے شمار تقاریر میں صرف ایک تقریر ہے۔ اگر ایسا ہے تو کیا یہ علمی اور منطقی لحاظ سے مناسب ہوگا کہ محض اُس واحد تقریر کو اُن کی سوچ و فکر کا ماخذ قرار دیا جائے؟
٭ اگر واقعتاً ایسا ہی ہے تو پھر آپ قائداعظم کی اُن تقاریر کو جو انہوں نے گیارہ اگست کے بعد کیں، اور جن میں انہوں نے نئی مملکت کی سیاسی اور عمرانی تعمیر میں اسلام کے کردار کا ذکر کیا تھا، آپ اسے کیا مقام دیں گی؟
٭ ایسی صورت میں اُن کے آخری خطبات کی آپ کیا تشریح اور تعبیر کریں گی؟
٭ تھیوکریسی سے متعلق میں آپ سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا آپ کے خیال میں دورِ نبویؐ کی مدنی ریاست تھیوکریسی تھی؟
آپ کا مؤقف ہے کہ قراردادِ مقاصد اقلیتوں کی مخالفت کے باوجود اختیار کی گئی۔
٭ کیا آپ کے خیال میں تحریک پاکستان کا جذبہ محرکہ مسلمانوں کے دینی اور علمی تصورات کی تکمیل کے بجائے محض ہندو اقلیت کو خوش کرنا تھا؟
٭ کیا آپ کے خیال میں جمہوری معاشروں میں قوانین بغیر کسی مخالفت کے ہمیشہ متفقہ طور پر ہی بنائے جاتے ہیں؟
٭ کیا دنیا میں اقلیت کو یہ حق دیا جاتا ہے کہ وہ کسی ملک کی عظیم اکثریت کی مقتدرانہ حق حاکمیت کی مخالفت کرے اور پھر اپنی رائے کے برعکس اقلیت ہی کی بات کو قبول اور تسلیم کرے؟
٭ کیا قراردادِ مقاصد اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں دیتی؟
آپ کے مضمون سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ ’’قراردادِ مقاصد جناح کی موت‘‘ کے بعد اختیار کی گئی، اس لیے اُس کی صحت مشکوک ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے:
٭ کیا آپ کے خیال میں قائداعظم کی وفات کے بعد کوئی قانون سازی نہیں ہونی چاہیے تھی؟
٭ یا صرف انہی کو قانون سازی کا اختیار تھا؟
٭ کیا جناح صاحب نے کبھی یہ دعویٰ کیا تھا کہ صرف وہ ہی قانون دے سکتے ہیں؟
آپ کے جوابات سے میرے لیے اور دیگر افراد کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ قرارداد مقاصد کے بارے میں اصل صورتحال کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔
سات اپریل کو مجھے مذکورہ خاتون کی طرف سے درج ذیل جواب موصول ہوا:
’’طارق جان، اسلام کسی صورت بھی تھیوکریسی کے تصور کی حمایت نہیں کرتا، اس لیے فطری طور پر قائداعظم نے کبھی اسے اپنی حمایت نہیں دی۔ مختصراً وہ ایک ایسی ریاست بنانا چاہتے تھے، جہاں اسلامی اُصول، جیسے مساوات، معاشرتی انصاف، قانون کی حکمرانی کو ممکن بنایا جاسکے‘‘۔
’’دراصل اگر اسلامی اصولوں کو نافذ کیا جائے تو ہمیں ایک فلاحی مملکت مل سکتی ہے نہ کہ تھیوکریسی۔ قائدکے تصور ریاست کو غلط سمجھا گیا ہے، جس سے یہ مغالطہ پیدا ہوا ہے کہ اُن کی باتوں اور عمل میں تضاد ہے۔ ایسا کوئی بھی تاثر غلط ہوگا۔ قراردادِ مقاصد اتنی اہمیت کی متقاضی نہیں جتنی اسے دی جاتی ہے۔ یہ تو صرف ایک دستاویز ہے جو مولویوں کو خوش کرنے کے لیے اختیار کی گئی‘‘۔
اس کے جواب میں مَیں نے حسبِ ذیل عریضہ لکھا:
’’آپ میرے تمام سوالات کو نظرانداز کرتے ہوئے محض تھیورکریسی (پاپائیت) کا ذکر کر رہی ہیں۔ چلیں یوں ہی سہی! تاہم میری تعلیم کے لیے اب آپ مجھے بتائیں:
٭ کیا اسلامی قوانین کا اطلاق کسی ریاست کو تھیوکریسی بنا دیتا ہے؟ یا یہ کہ اسلامی ریاست تھیوکریسی ہی ہوتی ہے؟
اگر ایسا ہے تو پھر آپ قائداعظم کی حسب ذیل تقاریر کو کیا فہم دیں گی؟
’’پاکستان کا مطلب محض آزادی اور خودمختاری نہیں بلکہ مسلم نظریہ حیات (آئیڈیالوجی) ہے، جس کا تحفظ ہم نے کرنا ہے، جو ہمیں ایک قیمتی تحفہ اور بیش بہا دولت کی شکل میں ملی ہے اور جس کی ہمیں امید ہے کہ دوسرے بھی اس سے استفادہ کریں گے‘‘۔
’’دستور ساز اسمبلی کا یہ کام ہوگا کہ وہ مسلمانوں کے لیے ایسے قوانین بنائے، جو شرعی قوانین سے متصادم نہ ہوں، اور مسلمانوں کے لیے اب یہ مجبوری نہیں ہوگی کہ وہ غیر اسلامی قوانین کے پابند ہوں‘‘۔
تو محترمہ! بات محض معاشرتی انصاف، مساوات اور قانون کی حکمرانی کی نہیں تھی۔ قائداعظم مسلمانوں کے نظریۂ حیات (آئیڈیالوجی) اور شرعی قوانین کے اطلاق کا ذکر کر رہے تھے۔
جہاں تک قراردادِ مقاصد کی نوعیت کی بات ہے تو آپ کا ارشاد ہے کہ ’’یہ کوئی اہم دستاویز نہیں کہ اسے اتنی اہمیت دی جائے‘‘۔ (ویسے آپ جس طبقۂ فکر کی نمائندگی کر رہی ہیں، وہ اس قرارداد پر ہی تو اپنا چہرہ دن رات پیٹ رہا ہے)۔
بجا فرمایا آپ نے، مگر تحریک پاکستان کے قائدین کیا کوئی فاترالعقل لوگ تھے کہ اسے قانونی دستاویزی شکل دے رہے تھے؟
یہ کام تو دستور ساز اسمبلی ہی کو تفویض کیا گیا تھا کہ وہ وطنِ عزیز کے لیے دستور سازی سے قبل اُس کے خدوخال کا تعین کرے اور اسے ایک قابل عمل فریم دے، تاکہ تحریک پاکستان کی عظیم آدرش، اُس کے ولولوں اور جذبوں کو متشکل کیا جاسکے۔
اس دستور ساز کی نمائندہ حیثیت مستند تھی، کیونکہ اس دستور سازی میں تحریک پاکستان کی تقریباً ساری قیادت مصروفِ عمل تھی۔
بالفاظِ دیگر یہ کوئی دھاندلی اور پیسے کی پیداوار ایرا غیرا اسمبلی نہیں تھی، بلکہ یہ بانیانان پاکستان کی مجلس تھی، جنہوں نے مملکت پاکستان کو ممکن بنایا تھا۔ اس کو یہ طعن دینا کہ یہ نمائندہ نہیں تھی، حد درجہ کی توہین آمیزی ہے!
قائداعظم کے انتہائی معتمد ساتھی وزیراعظم لیاقت علی خان نے قراردادِ مقاصد کی منظوری کو ’’تاریخ ساز لمحہ‘‘ سے تعبیر کیا، اُس کی اہمیت کو ’’قیام پاکستان جتنا عظیم واقعہ‘‘ قرار دیا۔ جی ہاں! یہ اُن کے اپنے الفاظ ہیں۔
یہ کہنا بھی حقیقت کو جھٹلانے کے مترادف ہے کہ: ’’قرارداد مقاصد قائداعظم کے موقف کے برعکس تھی‘‘۔ خود مسلم لیگ کے محترم رکن اسمبلی سردار عبدالرب نشتر مرحوم نے اس کا جواب ہندو نمائندے کے اعتراض پر دیا تھا:
’’یہ درست ہے کہ قائداعظم نے اقلیتوں کو وعدے وعید کیے تھے، لیکن قائداعظم نے ساتھ ہی اکثریت کو بھی یقین دہانیاں کرائی تھیں۔ مطالبہ پاکستان کے پیچھے ایک خاص نظریہ حیات (آئیڈیالوجی) اور ایک خاص مقصد تھا، اور یہ قرارداد جو پیش ہوئی ہے، عین اُن یقین دہانیوں کے مطابق ہے جنہیں قائداعظم اور مسلم لیگ کے قائدین نے اکثریتی (عوام) اور اقلیتوں کو دی تھیں۔ ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا اور نہ ہم میں سے کسی کی یہ جرأت ہے کہ وہ کوئی ایسی حرکت کرے، جو قائداعظم کے فرمودات کے برعکس ہو‘‘۔
اقلیتوں کے اس مطالبے پر جو کانگریس پارٹی کے رکن اسمبلی جناب چکراورتی نے کیا تھا کہ قراردادِ مقاصد میں غیر مبہم انداز میں یہ کہا جائے کہ اُن کے حقوق اقوام متحدہ کے منشور میں مذکور حقوق کے مطابق ہونے چاہئیں، سردار عبدالرب نشتر نے برمَلا کہا:
’’انہوں نے اقوام متحدہ کے منشور سے بعض حصے پڑھ کر سنائے ہیں۔ جب میں نے اس قرارداد کی ایک شق سے اُس کا تقابل کیا تو اسے میں نے اُس سے کئی گنا زائد پایا، جو میرے دوست جناب چکراورتی نے پڑھ کر سنایا تھا‘‘۔
دراصل دستور اسمبلی کے مباحث میں ہندو اراکین کی طرف سے جو باتیں کی گئی تھیں، اُن میں یہ واضح تھا کہ وہ پاکستان بننے کے خلاف تھے۔ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ مسلمان اپنا مذہب ایک طرف رکھتے ہوئے نئی مملکت پاکستان کو سیکولر قرار دیں۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اسلام کو معاشرے کی تعمیر میں کوئی جاندار کردار دیا جائے۔ جب قائداعظم نے اپنی ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور معاشرتی و سیاسی حقوق میں انہیں مساویانہ مقام دلانے کا اعادہ کیا تو وہ سمجھے کہ شاید پاکستان ایک سیکولر ملک ہوگا۔ ان جذبات کا اظہار سری چندراچٹوپادھیا، جو کہ مشرقی بنگال سے کانگریس پارٹی کے اسمبلی رکن تھے، نے ان الفاظ میں کیا:
’’ہمارا خیال تھا کہ سیاست اور مذہب کو یکجا نہیں کیا جائے گا۔ یہ قائداعظم محمدعلی جناح کا اس ایوان میں فرمودہ تھا۔ لیکن ہمارے سامنے جو قرارداد ہے، وہ مذہب پر استوار کی گئی ہے‘‘۔
غرض اُس وقت کی مسلم لیگ قیادت نے بغیر کسی استثنا کے اقلیتی نمائندوں کے اس تاثر کو رَد کر دیا کہ وہ قائداعظم کے فرمودات سے انحراف کر رہے تھے۔
وزیراعظم لیاقت علی خان نے تو انتہائی غیر مبہم انداز میں واضح کیا کہ پاکستان کا مقصد اولیٰ مسلمانوں کی اس خواہش کا احترام ہے کہ وہ اسلام کے سایہ تلے زندگی گزارنا چاہتے ہیں:
’’جناب والا! میں اس لمحۂ موجود کو حصولِ آزادی کے بعد وطن عزیز کی زندگی کا انتہائی اہم موقع سمجھتا ہوں، کیونکہ حصولِ آزادی سے ہمیں یہ موقع نصیب ہوا کہ ہم ملک اور اس کے سیاسی و سماجی نظام کو اپنے تصورات کے مطابق تعمیر کریں۔ میں اس ایوان کو یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ بابائے قوم قائداعظم نے اس موضوع پر اپنے احساسات کاکئی بار اظہار کیا اور قوم نے غیر مبہم انداز میں اس کی تائید و توثیق کی۔ پاکستان اس لیے معرض الوجود میں آیا کہ مسلمانانِ برصغیر اپنی زندگیوں کو اسلامی روایات اور تعلیمات کے مطابق ڈھالنا چاہتے تھے، کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ دنیائے عالم کو یہ دکھا سکیں کہ اسلام ان تمام بیماریوں کا شافعی علاج ہے، جو آج انسانیت کی زندگی کو چاٹ رہی ہیں‘‘۔
جب ہندوؤں کی طرف سے سیکولر پاکستان کا راگ مسلسل الاپا جانے لگا تو تاریخ کے معروف استاد رکنِ دستور ساز اسمبلی ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے اس تاثر کی شدید الفاظ میں تردید کی کہ قائداعظم کسی سیکولر ریاست کے علمبردار تھے:
’’اگر سیکولر سے مراد یہ ہے کہ اسلامی تصورات، مذہب کے اساسی اصول اور یہ کہ وہ اخلاقی اندازِ فکر، جو مذہب ہمارے عوام میں پیدا کرنا چاہتا ہے، اُن سے ہم دستبردار ہو جائیں، تو پھر جناب والا، مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ایسی سیکولر جمہوریت ہمیں پاکستان میں قطعاً قابل قبول نہیں ہوگی‘‘۔
موصوفہ نے قرارداد مقاصد کی مخالفت میں ہندو نمائندوں کے علاوہ ’’سیکولر مسلمان‘‘ اراکین اسمبلی کا بھی ذکر کیا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ سیکولر مسلمان کی ترکیب اجتماع ضدین ہے (کیوں کہ مسلمان لادین ہو کر مسلمان نہیں رہ سکتا) موصوفہ نے اپنے قارئین کو اُن ’’سیکولر مسلمان‘‘ اراکین کے نام نہیں بتائے، جنہوں نے قرارداد مقاصد کی مخالفت کی تھی۔ شاید موصوفہ کی اُس سے مراد میاں افتخار الدین ہیں، جو معروف کمیونسٹ تھے۔ کمال یہ ہے کہ باوجود کمیونسٹ ہونے کے ان میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں تھی کہ وہ قرارداد مقاصد کی کھل کر مخالفت کرتے۔ دستوری مباحث میں وہ ہمیں جابجا اسلام کی تعریف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ البتہ کچھ ترامیم کا وہ طنزیہ انداز میں ذکر ضرور کرتے ہیں۔ مثلاً ڈیڑھ سال ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک نوابزدگان کی ریاستوں کو ختم نہیں کیا گیا۔ یا پھر یہ کہ جب تک عوام کو مکمل ووٹ ڈالنے کا حق نہیں دیا جاتا، یہ قرارداد ان کے خیال میں نامکمل رہے گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ہندو اراکین کی ترامیم پر آرا لی گئیں تو موصوف غیر جانبدار ہوگئے اور اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا۔
تو پھر ہمارے وطن عزیز کے یہ ’’روشن خیال اور پڑھے لکھے‘‘ سیکولر مرد و زن کون سے ’’سیکولر مسلمانوں‘‘ کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے ہندو اراکین کے ساتھ مل کر قراردادِ مقاصد کی مخالفت کی تھی؟
خیر یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ اس طرح کا جھوٹ سیکولر طائفہ بولتا رہتا ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلم لیگ کی قراردادوں میں اسلام کا کہیں ذکر نہیں۔ سیکولر لابی، موصوفہ سمیت، اس امر کو نظرانداز کر دیتی ے کہ بیشتر قراردادیں آئینی تجاویز سے متعلق تھی۔ اگر آپ نے ایسی قراردادوں کے پیچھے مسلم لیگی فکر دیکھنی ہے تو ان تقاریر میں دیکھیں جو قائدین نے ایسے مواقع پر کی تھیں۔ مثلاً ۱۹۴۰ کی قراردادِ لاہور کی منظوری سے پہلے جو تقریر قائداعظم نے کی تھی، اُس کے مندرجات میں نہ صرف اُن کا مسلمانوں کے تہذیبی پس منظر اور اسلامی فکر کا گہرا ادراک جھلکتا ہے، بلکہ وہ تاریخ کے عظیم شعور کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہندو اور مسلمان نہ پہلے ایک قوم تھے اور نہ اب، یامستقبل میں کبھی ایک ہو سکتے ہیں۔ اُس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ ’’اسلامی تصور معاشرت ہندو تصورات سے بالکل جدا ہے‘‘۔
پھر اپنے باوقار اور مدبرانہ انداز میں انہوں نے کہا:
’’باوجود ہزار سالہ قریبی رابطوں کے دونوں قومیں آج بھی اتنی ہی مختلف ہیں جتنی پہلے تھیں، ان کے بارے میں یہ توقع رکھنا کہ وہ محض ایک جمہوری دستور کی بدولت قوم واحد بن جائیں گے اور انہیں برطانوی پارلیمانی قوانین کے مصنوعی طریقوں سے بزور اکٹھا رکھا جاسکتا ہے (عبث ہوگا)‘‘۔
ہندو مسلم وحدت کی برطانوی دور کی ناکام کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا:
’’جو نتائج ۱۵۰ سالہ برطانیہ دور کی وحدانی حکومت حاصل کرنے میں ناکام رہی، وہ کسی طور بھی ایک مرکزی وفاقی حکومت حاصل نہیں کرسکتی‘‘۔
مسلمانوں اور ہندوؤں کے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے واشگاف طور پر کہا:
’’ہندوستان کا مسئلہ دو گروہوں کا نہیں بلکہ یہ ایک بین الاقوامی نوعیت کا مسئلہ ہے اور اسے ایسے ہی دیکھنا چاہیے‘‘۔
ہندوؤں کے اس ذہنی مغالطے کو جو آج ہمارے سیکولر مرد و زن دوبارہ پھیلا رہے ہیں کہ ہندو اور مسلمان بطور ایک قوم، سیکولر جمہوریت میں یکجا رہ سکتے ہیں، قائداعظم نے گہرے تاریخی شعور کے ساتھ اسے کُلّی طور پر رَد کیا اور کہا:
’’میرے لیے یہ سمجھنا انتہائی مشکل امر ہے کہ ہمارے ہندو دوست کیوں اسلام اور ہندو ازم کی اصلی نوعیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں؟ یہ دونوں عام مذہبی اصطلاح کے مذاہب نہیں۔ درحقیقت یہ دو مخصوص نوعیت کے سماجی نظام (زندگی) ہیں، اور یہ سراب سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک قوم بن سکتے ہیں…
’’ہندو اور مسلمان دو جُدا مذہبی تصورات، سماجی روایات اور ادبیات رکھتی ہیں۔ نہ وہ باہمی شادیاں کرتے ہیں، نہ ایک جگہ کھانا کھاتے ہیں۔ بلاشبہ وہ دو مختلف جُداگانہ تہذیبوں سے پیوست ہیں، جس کی بنیاد میں متصادم تصورات اور زاویہ فکر ہیں۔ زندگی سے متعلق ان کی سوچیں جدا ہیں۔ یہ بالکل واضح امر ہے کہ ہندو اور مسلمان تاریخ کے مختلف ماخذوں سے تحریک (اور ولولہ) لیتے ہیں۔ اُن کی رزمیہ کہانیاں جدا ہیں، اُن کے ہیروز اور داستانیں جدا ہیں۔ عموماً ایک کاہیر و دوسرے کا ولن ہے۔ اس طرح اُن کی فتوحات اور شکستیں ایک دوسرے سے گڈمڈ ہیں‘‘۔
ہندوؤں اور انگریزوں کو خبردار کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا:
’’ایسی دو قوموں کو ایک ایسے ریاستی بندوبست میں یکجا کرنا جس میں ایک عددی اقلیت ہو اور دوسری اکثریت ہو، لازماً روز افزوں بے چینی اور بالآخر اس نظام کی تباہی ہوگی جسے ایسی ریاست کے انتظام و انصرام کے لیے تجویز کیا جائے گا…
’’مسلمان معروف معنی میں اقلیت شمار نہیں کیے جاسکتے مسلمان ہر لحاظ سے ایک قوم ہیں اور ان کے لیے لازم ہے کہ ان کا اپنا وطن، اپنا جغرافیہ ہو اور اپنی مملکت ہو…
’’ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے عوام اپنی آدرش اور تصورات کے مطابق اپنی روحانی، ثقافتی، معاشی، سماجی اور سیاسی لحاظ سے نمو پاسکیں‘‘۔
موصوفہ کو اگر اس اقتباس میں اسلام اور اسلامی ریاست نظر نہیں آتے تو پھر یہ امر واضح ہے کہ یا تو انہیں تاریخ پاکستان پر دسترس نہیں، یا پھر وہ سمجھنا نہیں چاہتیں۔
اپنی تقریر کے اس حصے میں قائداعظم نے چار مختلف اسلوب بیان اختیار کیے ہیں جو نہ صرف باہم ایک دوسرے سے پیوست ہیں بلکہ ایک دوسرے کا متبادل بھی ہیں:
٭ اسلام کا نظریہ معاشرہ
٭ اسلام مذہب نہیں بلکہ ایک ممتاز سماجی بندوبست (اور نظام) ہے۔
٭ اسلام ایک تہذیب ہے۔
٭ مسلمان کا جذبہ محرکہ کا ماخذ تاریخ میں ہندوؤں سے جدا ہے۔
ان نکات میں جس طرح اسلام کا چار مختلف سطحوں پر ذکر کیا گیا ہے، کیا ان کو سمجھنے کے لیے کسی تفصیل کی ضرورت ہے؟
قائداعظم کے انتخابِ الفاظ اور تراکیب میں، جو ان کی نیت اور ارادے کو بیان کرتے ہیں، ایک لفظ میں بھی کہیں ابہام نہیں آتا، نہ ہی یہ دور ازکار ہیں کہ ان کے مخاطب اُن کو سمجھ نہ پائیں۔
مثلاً، اسلامی نظریہ سماجی بندوبست (اور نظام) سے مراد اس کے بنیادی اعتقادات، اس کا دنیا کو دیکھنے کا انداز، اس میں افراد کا کردار، اور کس طرح معاشرتی حرکات پر اختیار حاصل ہو کہ جس سے نہ صرف افراد کی ایک خاص سانچے میں تربیت ممکن ہو بلکہ وہ اپنے ترقیاتی اہداف، نمو اور استحکام کو حاصل کر سکے۔ اس میں لازم قانون سازی اور حکومت کی تشکیل ہے۔
جب وہ کہتے ہیں کہ ’’اسلام مذہب نہیں بلکہ ایک ممتاز اور یکتا سماجی بندوبست (اور نظام) ہے‘‘۔ تو اس سے مراد ان کی ہمہ پہلو پوری زندگی ہے۔ اس سے یقینا ہمارے سیکولر مرد و زن کو مایوسی ہوگی۔
اسی طرح جب وہ اسلام کو تہذیبی تناظر میں رکھتے ہوئے اسے ایک ’’جداگانہ تہذیب‘‘ قرار دیتے ہیں تو وہ ریاست کے سیاسی تصور سے بھی بالا بات کرتے ہیں۔
علمی ماخذوں میں تہذیب سے مراد کسی قوم کا وہ طرزِ فکر اور اندازِ معاشرت ہے کہ جس سے وہ اپنے وجودی جوہر کا اظہار اپنے وسیع تر معنی میں کرتی ہے۔
اس میں کسی قوم کے اساسی اعتقادات اور اقدار سے لے کر اخلاقی، سماجی اور سیاسی پہلو شامل ہوتے ہیں کہ جن پر اُن کی زندگی استوار ہوتی ہے۔
بالفاظِ دیگر یہ ایک ایسا اجتماعی ماحول ہوتا ہے، جو لوگ اپنی روحانی اور اخلاقی اقدار کی حدود میں رہتے ہوئے اپنی اساسی ماخذوں سے متاثر اور متحرک ہو کر اپنی ذہانت سے تشکیل کرتے ہیں۔ ایک ایسا ہمہ پہلو ماحول جس میں اُن کا تصورِ جمال، ان کے طرزِ معاشرت اور تعمیر، شہروں کی منصوبہ بندی، فنون اور ادبیات میں جھلکتا ہے اور جن سے زندگی کی ترویج ایک خاص انداز سے ہوتی ہے کہ وہ اس سے نمو اور حرکت پائے۔
اسی طرح قائداعظم کا یہ کہنا کہ مسلمان ہندوؤں سے مختلف تاریخ کے ماخذوں سے تحریک (اور ولولہ) لیتے ہیں، اپنی جگہ ایک بڑا اہم نکتہ ہے۔ یہاں لفظ تاریخ بڑا واضح مفہوم اور اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس میں اس امر کا اعتراف ہے کہ مسلمان عوام کی ایک طویل تاریخ ہے، جو زمان و مکان پر پھیلی ہوئی ہے، اُن کا ارتقا اُن کی جذباتی اور ذہنی ساخت، اُن کے اعتقادات اور اُن کے جذبات اور ولولے، اور کس طرح تاریخ کے فیصلہ ساز لمحات میں انہوں نے اپنے عمل اور ردعمل کااظہار کیا۔
درحقیقت بغیر اس لمحہ عظیم کے کہ جب اسلام نے اپنے آپ کو ایک زلزلہ خیز انداز سے عالمی منظر پر متعارف کرایا تھا، مسلمانوں کا اجتماعی وجود ممکن نہ ہوتا، نہ اسلامی سماجی نظام ہوتا اور نہ اسلامی ریاست یا اسلامی تہذیب ہوتی۔ بلاشبہ یہاں اس تقریر میں جناح صاحب پہلی بار بطور ایک مفکر، ایک دوربین انسان اور مدبر سیاسی رہنما کے سامنے آتے ہیں۔
ماروی سرمد صاحبہ اور ان کے سیکولر قبیلے کو یہ پیغام پہنچے کہ محض نعرہ بازی اور سطحی اسلوب سے علمی مباحث پر بات نہیں کی جاسکتی۔
لیکن مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی یقین ہے کہ وہ غلط بیانی سے گریز نہیں کریں گے۔ وجہ اس کی ظاہر ہے: جہاں آنکھوں پر سیکولرازم کے کھوپے چڑھے ہوئے ہوں وہاں کچھ اور دکھائی نہیں دیتا۔ سیکولر فکر کا یہ خاصہ ہے کہ وہ ہر شے کو، ہر فکر کو اور تاریخ کے ہر دور کو اپنی سوچ کے مطابق دیکھنا چاہتی ہے۔ اس کے نزدیک حقائق وہ نہیں جوموجود ہیں بلکہ وہ ہیں جو وہ بیان کرے۔
آپ اُن کے موقف کا جواب دینا چاہیں بھی تو یہ نام نہاد عقل پرست اور آزادیٔ رائے کی دہائی دینے والے، اخبارات اور رسائل کے دروازے آپ پر بند کر دیں۔
ستم ظریفی دیکھیے کہ جن مذہب پرستوں پر یہ مقفل اذہان اور اندھی عقیدہ پرستی کا الزام لگاتے ہیں، ان کے مقابلے میں یہ ہزار گنا زیادہ تاریک راہوں کے مسافر ہیں۔
(بشکریہ: ’’سیکولرازم: مباحث اور مغالطے‘‘)
مضمون نگار نے قرارداد مقاصد کو اسلام کی اصل بنانے کی کوشش کی ہے۔ہم انہیں کچھ نہیں کہیں گے صرف یہ پوچھیں گے کہ اس قرارداد مقاصد کے بطن سے اب تک کیا برآمد ہوا۔