
ماسکو میں ہونے والے مذاکرات کے بعد طالبان نے یہ بیان دیا ہے کہ انہیں امید ہے کہ امریکا بھی معاہدے کا احترام کرتے ہوئے مئی میں افغانستان سے اپنی فوجیں نکال لے گا۔
طالبان وفد نے شیر محمد عباس استنکزئی کی سربراہی میں روسی سفارت کاروں سے ملاقات کی۔ بات چیت کا یہ دور دو روز تک جاری رہا۔ اس موقع پر طالبان وفد کے سربراہ کا کہنا تھا کہ طالبان نے گزشتہ سال قطر میں ہونے معاہدے میں شامل ان تمام شقوں پر عمل کیا ہے جن کا تعلق طالبان سے تھا۔
وائٹ ہاؤس اور امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ گزشتہ سال صدر ٹرمپ کی جانب سے کیے گئے دوحہ معاہدے پر نظر ثانی کر رہی ہے۔ پینٹاگون سے جاری بیان میں کہا گیا کہ افغان طالبان ملک میں جاری کشیدگی کم کرنے سے گریزاں ہیں اور اس وجہ سے مئی کے مہینے میں طے شدہ فوجی انخلا پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
شیر محمد عباس استنکزئی نے افغان فوج کے خلاف طالبان کے حملوں کے باوجود زور دیتے ہوئے کہا کہ طالبان معاہدے پر عمل کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد سے ہم نے کوئی جارحانہ کارروائی نہیں کی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ امریکا بھی معاہدے کا احترام کرے گا۔ یہ امریکا کے ہی مفاد میں ہے‘۔
معاہدے کے مطابق امریکا نے افغانستان میں فوجیوں کی تعداد کم کرکے اسے ۲۵۰۰ تک لانا تھا اور مئی میں تمام فوج کا انخلا ہونا تھا۔ ٹرمپ نے اپنی مدت صدارت کے آخری دنوں میں افغانستان میں فوجیوں کی تعداد ۲۵۰۰ تک لانے کا حکم دے دیا تھا۔ اس حکم نے بائیڈن کا کام مشکل بنادیا ہے، اوراب ان کے پاس طالبان سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے کوئی چیز نہیں ہے۔دوسری جانب استنکزئی نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکا معاہدے سے پیچھے ہٹا تو طالبان کابل حکومت کے خلاف کارروائیاں شروع کردیں گے۔
امریکا نے ۲۰۰۱ء میں طالبان حکومت کو ختم کردیا تھا تاہم اس وقت ملک میں طالبان کی قوت مستحکم ہوچکی ہے اور وہ ملک کے آدھے سے زیادہ حصے پر کنٹرول رکھتے ہیں۔
استنکزئی نے مزید کہا کہ’ہمیں امید ہے کہ امریکا یہاں سے چلا جائے گا۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو ہمارے پاس اپنا دفاع کرنے اور اپنی جدو جہد شروع کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوگا‘۔ انھوں نے روس کی جانب سے امریکی فوجیوں کے قتل کے لیے طالبان کو معاوضہ ادا کرنے کے الزامات کی بھی سختی سے تردید کی۔
امریکی حکام کا کہنا تھا کہ وہ روس کی جانب سے امریکی فوجیوں کے قتل کے لیے معاوضہ دیے جانے کی تحقیقات کررہے ہیں، لیکن روس نے بھی اس دعوے کو مسترد کیا ہے۔
استنکزئی نے کہا کہ روس اور طالبان، افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے ایک ہی سوچ رکھتے ہیں۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ روس افغانستان میں امن قائم کرنے اور طالبان رہنماؤں پر اقوام متحدہ کی جاب سے عائد پابندیاں اٹھانے کی حمایت کرے گا۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ طالبان اور کابل حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے اثرات جلد ہی نظر آنے لگیں گے۔یہ مذاکرات رواں ماہ دوبارہ شروع ہوئے تھے لیکن ملک میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے ایک بار پھر تعطل کا شکار ہوگئے ہیں۔ فریقین اس کشیدگی کا ذمہ دار ایک دوسرے کو قرار دے رہے ہیں۔
روس ۱۰ برسوں تک افغانستان کے ساتھ حالت جنگ میں رہا۔ بالآخر اس جنگ کا اختتام ۱۹۸۹ء میں افغانستان سے سوویت فوجوں کے انخلا پر ہوا۔ اب وہی روس سفارتی ذریعے سے افغانستان میں اپنااثر ورسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ روس کی جانب سے فریقین میں مذاکرات کروانے کی کوشش کا ایک مقصد افغانستان اور خطے میں امریکی اثر و رسوخ کو کم کرنا بھی ہے۔ (ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Taliban Visit Moscow, Voice Hope US Will Honor Peace Deal”. (“thediplomat.com”. January 30, 2021)
Leave a Reply