بھارت کی ریاست اتر پردیش کے شہر مظفر نگر میں چند ماہ کے دوران کئی مسلم کش فسادات ہوئے ہیں۔ یہ سب کچھ بڑی حد تک انتخابی سیاست کا نتیجہ ہے۔ بہرحال، مسلمانوں سے مسلسل زیادتی ہو رہی ہے۔ مسلم زُعما نے مظفرنگر کے انتہائی متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے جو رپورٹ تیار اور حکومتِ ہند کو پیش کی ہے، وہ ہم یہاں نکات کی صورت میں پیش کر رہے ہیں۔
٭ جو کچھ ضلع مظفر نگر میں ہوا وہ بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہمدردی رکھنے والے جاٹ برادری کے ہندوؤں کا یک طرفہ معاملہ تھا۔ کسی بھی دوسری ہندو برادری نے فسادات میں حصہ نہیں لیا۔
٭ قتل و غارت کا بازار صرف ان دیہات میں گرم کیا گیا جہاں مسلمان واضح طور پر قلیل تعداد میں رہتے ہیں۔
٭ قتل و غارت پہلے سے طے شدہ تھی۔ بہت سے اجلاس ہوئے اور تین بار مہا پنچایت کا اہتمام کیا گیا۔ کسی خاتون سے چھیڑ چھاڑ کو بہانہ بناکر فسادات کی آگ بھڑکائی گئی۔ اب ثابت ہوچکا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ اصل جھگڑا موٹر سائیکلوں کے تصادم سے شروع ہوا۔ جو لوگ فسادات کی آگ بھڑکانے کے لیے بے تاب تھے انہیں تو من چاہا موقع مل گیا۔
٭ پولیس نے قتل و غارت سے قبل، دوران اور بعد میں فسادیوں کی بھرپور مدد کی۔ پولیس نے فسادات شروع ہونے سے پہلے ہی مسلمانوں سے مختلف آتشیں ہتھیار اور دفاع کی روایتی اشیاء مثلاً بَلّم، گنڈاسے اور چاقو وغیرہ ضبط کرلیے تھے۔ دوسری طرف فسادیوں کو اسلحہ منگوانے کی کھلی چھوٹ دی گئی۔
٭ پھگانا کے ایس ایچ او اوم ویر سروہی نے ۸ ستمبر ۲۰۱۳ء کو ہندوؤں کو صبح آٹھ سے دس بجے تک کھلی چھوٹ دی تاکہ وہ مسلمانوں کو اچھی طرح سبق سکھا سکیں۔
٭ کئی علاقوں میں معمر مسلمان اور بچے اب تک پھنسے ہوئے ہیں مگر پولیس ان کے دفاع کا بھرپور انتظام کرنے کے لیے تیار نہیں۔ انہیں خوراک اور پانی بھی فراہم نہیں کیا جارہا ہے۔ اگر فوری مدد نہ کی گئی تو ان میں سے بہت سے موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔
٭ بہت سے فساد زدہ علاقوں سے لوگ فوری طور پر نکل بھاگے۔ وہ پہنے کپڑوں نکلے تھے۔ انہیں لباس اور خوراک کی اشد ضرورت ہے۔
٭ فساد زدہ علاقوں سے آئے ہوئے لوگ جن مقامات پر ٹھہرے ہوئے ہیں وہاں تو حکومت (ناکافی مقدار ہی میں سہی) خوراک اور دودھ فراہم کر رہی ہے مگر جہاں لوگ اب بھی پھنسے ہوئے ہیں اور قلیل تعداد میں جتھوں کی شکل میں رہ رہے ہیں وہاں حکومت کی طرف سے ایسا کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔ بہت سے لوگ فسادات کے باعث اپنے گھروں کو چھوڑ کر رشتہ داروں کے ہاں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ان کی بھرپور مدد نہیں کی جارہی۔ انہیں اشیائے خور و نوش کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
٭ جن لوگوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کردیا گیا ہے انہیں فوری طور پر خوراک، لباس، چادروں، صابن، برتن اور روز مرہ استعمال کی دیگر اشیاء درکار ہیں۔
٭ جن لوگوں کو ان کے گھروں سے جبری طور پر نکال دیا گیا ہے ان کی مدد اس وقت تک جاری رکھی جائے، جب تک وہ دوبارہ اپنے گھروں میں آباد نہیں ہو جاتے یا پھر اس مسئلے کا کوئی اور قابلِ قبول حل تلاش نہیں کرلیا جاتا۔
٭ بے گھر ہونے والے افراد میں بہت سے ایسے ہیں جن کی زرعی اراضی ہے۔ اس اراضی پر فصلیں تیار ہیں۔ اگر مناسب سکیورٹی فراہم نہ کی گئی تو یہ لوگ اپنی زمینوں پر نہیں جاسکیں گے اور فصلوں کی کٹائی ممکن نہ ہوسکے گی۔ اس صورت میں ان کی زمینوں کی پیداوار ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔
٭ فساد زدہ علاقوں میں بیشتر مکانات کو لاشوں سمیت جلادیا گیا۔
٭ بہت سی لڑکیوں کو اغواء کرلیا گیا ہے اور پولیس نے انہیں بازیاب کرانے کے حوالے سے اب تک کچھ بھی نہیں کیا۔
٭ جن لوگوں کو گھروں سے نکال دیا گیا ہے، ان میں سے کوئی بھی اپنے گھروں میں دوبارہ آباد ہونے کے لیے تیار نہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انہیں دوبارہ نشانہ بنائے جانے کا خوف ہے۔ وہ کہیں اور آباد ہونے کو تیار ہیں، مگر ان علاقوں میں نہیں جانا چاہتے جہاں زندگی گزری ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ ان لوگوں کو دوبارہ ان کے گھروں میں بسانے کا اہتمام کرے۔ انہیں مکمل سکیورٹی فراہم کی جانی چاہیے۔ جن علاقوں میں غیر معمولی قتل و غارت ہوئی تھی وہاں پولیس کی نفری نمایاں تعداد میں تعینات کی جائے تاکہ لوگ جان و مال کے لیے کوئی خطرہ محسوس کیے بغیر دوبارہ اپنے گھروں میں آباد ہوسکیں۔
٭ فساد زدہ علاقوں کے لوگوں کو مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر مدد فراہم کی ہے۔ ہزاروں افراد کو مسلمانوں کے مکانات، مساجد اور عیدگاہ وغیرہ میں پناہ دی گئی ہے۔
٭ فسادات روکنے میں ہندوؤں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ کاندھلہ کی مثال واضح ہے جہاں کم و بیش ۷۵۰۰ افراد کو پناہ دی گئی ہے۔ کاندھلہ کے ایس پی ہریش چندر جوشی نے بھی فسادات روکنے اور فساد زدہ لوگوں کی مدد کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
٭ فسادات سے پہنچنے والے جانی اور مالی نقصان کی تفصیلات پر مبنی دستاویزات تیار کرنا لازم ہے تاکہ متاثرین کو جلد از جلد موزوں ترین معاوضہ ادا کیا جائے اور کسی سے کوئی زیادتی نہ ہو۔
٭ فساد سے متاثر ہونے والوں کو مکانات کی تعمیرِ نو یا نئے علاقوں میں نئے مکانات کی تعمیر کے لیے امداد فراہم کی جانی چاہیے۔
٭ فسادات سے لوگوں کو جو بھی جانی اور مالی نقصان پہنچا ہے، اس کا بھرپور معاوضہ دیا جانا چاہیے تاکہ وہ نئے سِرے سے بہتر طور پر زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں۔ جن کے مکانات یا فصلیں تباہ ہوگئیں انہیں فوری پر زیادہ سے زیادہ امداد کی ضرورت ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے بروقت اقدامات کرنا ہوں گے۔
٭ قتل، اغواء، لوٹ مار، آتشزنی، تشدد اور دیگر واقعات کی انفرادی اور اجتماعی ایف آئی آرز درج کی جانی چاہئیں تاکہ ہر متاثرہ شخص کو کماحقہ انصاف مل سکے۔
٭ پولیس اب تک دیہات میں جلائے جانے والے مکانات کی فوٹو گرافی کی اجازت نہیں دے رہی۔ جب متاثرین نے اپنے لٹے پٹے مکانات میں داخل ہوکر چند ایک کام کی اشیاء سمیٹنے کی کوشش کی تو پولیس نے انہیں ایسا کرنے تو دیا مگر فوٹو گرافی کی اجازت نہیں دی۔ چند مکانات اس وقت بھی سُلگ رہے تھے۔ پولیس نے ان کے موبائل فون بھی لے کر اپنے پاس رکھ لیے تاکہ وہ تصویر نہ لے سکیں۔ کاندھلہ میں بھی پولیس نے متاثرین کو ان کے جلے ہوئے مکانات تک جانے کی اجازت تو دی مگر اس شرط پر کہ کوئی تصویر نہیں لی جائے گی۔ ہمیں خدشہ ہے کہ لوٹ مار، قتل و غارت اور آتشزنی کے تمام شواہد جلد تلف کردیے جائیں گے۔ فسادات سے متعلق تیار کی جانے والی دستاویزات میں تباہ شدہ مکانات کے فوٹو اور وڈیوز کو بھی شامل کیا جائے۔
(Observations of Muslim Delegations. Visiting Camps of the Uprooted in and around Muzaffarnagar)
Leave a Reply