
چند دنوں قبل ایک امریکی میگزین (G.Q) نے ایک اہم دستاویز کا انکشاف کیا ہے۔ اس دستاویز کا تعلق توریت کی ان عبارتوں سے ہے جس کا استعمال سابق امریکی وزیر دفاع رمسفیلڈ نے عراق کے خلاف جنگ چھیڑنے کو جائز ٹھہرانے، اسے تاراج کر کے اس پر قبضہ کرنے اور اس کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے کیا تھا۔ میگزین کا کہنا ہے کہ سابق امریکی وزیر دفاع ڈونالڈ رمسفیلڈ نے مقدس کتاب کی عبارتوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنی جنگ کو مقدس صلیبی جنگ قرار دیا تھا اور انتہائی درجہ خفیہ فوجی انٹیلی جنس دستاویز اور سابق صدر جارج بش کو پیش کی جانے والی ڈائری کے سرورق پر ’’صلیبی جنگ‘‘ کے الفاظ تحریر کیے گئے تھے۔ ان تمام دستاویز پر مذہبی چھاپ تھی اور جنگ و خونریزی کے جواز کے لیے توریت کی عبارتوں کا سہارا لیا گیا تھا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ امریکی انتظامیہ، وزارت دفاع اور انٹیلی جنس کے اندر یہودیوں کا کس قدر اثر و رسوخ اور عمل دخل ہے اور عراق کے خلاف چھیڑی گئی جنگ میں صہیونیوں کا کیسا کردار رہا ہے، امریکی میگزین نے ان دستاویز کے اندر درج کی گئی توریت کی عبارتوں کے اقتباسات بھی نقل کیے ہیں۔ ایک یادداشت کے سرورق پر صدام حسین کی تصویر ہے اور وہ قوم سے خطاب کر رہے ہیں اور اس کے نیچے پیٹرس اول کے پیغام کا اقتباس ہے اور اس میں تحریر ہے۔ ’’یہ تو رب کا ہی ارادہ ہے کہ خیر کے لیے مناسب ہے کہ بے عقلوں اور غبی و کند ذہنوں کے سامنے جاہل و ناداں کی گفتگو کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا جائے‘‘۔ ایک دوسری یادداشت (دستاویز) کے سرورق پر عراق میں فتح و کامرانی کی کمان کی صورت اس طرح بنی ہوئی ہے کہ دو تلوار کھڑی ہیں اور اس کے نیچے سے امریکی ٹینک گزر رہا ہے اور اس تصویر کے اوپر سفر شعیا کی یہ عبارت درج ہے ’’دروازہ کھول دو کہ امانتوں کی حفاظت کرنے والی مطیع و فرمانبردار قوم اس میں داخل ہو سکے اور اسے اپنا مسکن بنا سکے۔
امریکی میگزین کے اس انکشاف سے اس بات کی تائید ہوتی اور خود ان ہی کی زبانی اس بات کا ثبوت فراہم ہوتا ہے کہ اس مضبوط عرب ملک کو تباہ و برباد کرنے کے پیچھے اور عراق کے خلاف جنگ چھیڑ کر اسے ویران کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ صہیونیوں اور محرف تورات کا سہارا لینے والی قوم اسرائیل کا رہا ہے جو اپنے مفاد کی تکمیل کے لیے بش کو اپنا آلہ کار بناتی رہی اور وہی امریکی انتظامیہ کا رُخ موڑ کر اور وزارت دفاع کو اپنے نظریہ کے مطابق کام کرنے پر مجبور کرتی رہی ہے۔ عراق کے اندر اسرائیل کا غلغلہ اور عمل دخل اتنا بڑھا ہوا ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ وہی یہاں کے سیاہ و سفید کا مالک ہو، کوئی ایسا محکمہ اور ادارہ نہیں جہاں اسرائیل کے ایجنٹ موجود نہ ہوں، عراقی علماء اسلام بورڈ کے جنرل سیکریٹری شیخ حارث الضاری نے الجزیرہ نیٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے گزشتہ دنوں اعلان کیا تھا کہ عراق کے تمام شہروں میں اسرائیل بڑے پیمانے پر موجود ہے اور اس کا ہر جگہ غلبہ و غلغلہ ہے، قبضہ سے پہلے اس کی اور اس کے جاسوسوں کی موجودگی صرف عراقی صوبہ کردستان کے شہروں میں تھی۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ ۲۰۰۳ء میں عراق پر یلغار کرنے سے پہلے اسرائیلی عراقی کردستان کے شمالی علاقوں میں سرگرم تھے جو کردوں کو عراقی حکومت کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرتے، انہیں دہشت گردی کی فوجی ٹریننگ دیتے اور مال و ہتھیار فراہم کیا کرتے تھے تاکہ وہ صدام حکومت کے خلاف مسلح کارروائیاں کریں اور ملک میں بدامنی پھیلائیں یہ تو اُس وقت کی بات تھی مگر اِس وقت وہ عراق کے تمام شہروں میں ہیں اور سب سے بڑی موجودگی بصرہ، بغداد اور شمالی علاقوں میں ہے۔ عراقی باشندے انہیں ان کے لباس اور عبرانی لہجے کی وجہ سے پہچانتے ہیں مگر وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ اسرائیل امریکا کی سیکوریٹی ٹیم کے تحت اور امریکی فوج کے اندر رہ کر کام کرتے اور اپنی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ وہ اپنے اور امریکی سیکورٹی اداروں اور اڈوں کی حفاظت کرتے اور پورے عراق پر اپنا پر پھیلائے ہوئے ہیں کہ عراق کی ہر شے پر ان کا سایہ ہے۔ عراقی تحقیقاتی رپورٹوں میں اشارہ کیا گیا ہے کہ بلیک واٹر سیکوریٹی کمپنی کو موساد کی جانب سے مالیہ فراہم کیا جاتا اور موساد کے ہاتھ میں ہی اس کا انتظام ہے۔ عراقی سینٹر برائے تحقیقات نے حالیہ دنوں میں ایک کتاب شائع کی ہے جس کا نام عراق پر قبضہ میں صہیونی کردار ہے۔ اس کتاب کے اندر ۱۳۷ دستاویزات کے اقتباسات نقل کرتے ہوئے انکشاف کیا گیا ہے کہ عراق میں مداخلت اسرائیل کے حکم اور اس کے فیصلے کے مطابق کی گئی۔ اس سے پہلے ہم نقوش کے ان ہی صفحات میں ایک رپورٹ کے حوالے سے ذکر کر چکے ہیں کہ اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد نے عراق کے ۳۵۰ نہایت اونچے درجہ کے ایٹمی سائنس دانوں کو قتل کیا اور بڑے پیمانے پر دیگر ماہرین اور اونچی تعلیم کے اساتذہ کو چُن چُن کر موت کے گھاٹ اتارا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ موساد کے فوجی اور اسرائیلی کمانڈوز قابض امریکی فوجوں کو اس بات کی تربیت بھی دیتے رہے ہیں کہ مزاحمت کاروں اور اسلام پسندوں کو بدنام کر کے ان کا صفایا کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف وہ دنیا کے مختلف حصوں میں بھی اس طرح کی خدمات انجام دے رہا اور بشمول ہندوستان دنیا کے دیگر ملکوں کی سیکوریٹی ایجنسیوں کو طریقے بتائے جا رہے ہیں کہ مسلمانوں کا صفایا کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ ان کی تحریکوں کو کس طرح کچلا جا سکتا اور انہیں بھرپور پروپیگنڈا کے ذریعہ کس طرح بدنام و رسوا کیا جا سکتا ہے۔ مشہور امریکی مفکر و دانشور مائیکل کولینز بائیر نے ابوظہبی کے زائد سینٹر میں اپنے ایک لیکچر کے دوران زور دیتے ہوئے اعلان کیا کہ عراق پر جنگ مسلط کرنے اور اس شاداب زمین کو ویران اور چٹیل میدان میں تبدیل کرنے کا منصوبہ اسرائیل میں بنایا گیا اور اس کا مقصد عظیم تر اسرائیل کا نقشہ تیار کرنا تھا۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو یہ بات تعجب خیز نہیں رہتی کہ صدر بش نے اس وقت شیرون کو ایک قدیم نقشہ بطور ہدیہ پیش کیا تھا۔ جس میں عراق کو مقدس سرزمین میں شامل دکھایا گیا تھا۔ عراق کی صورتحال سے متعلق اسرائیل اور دنیا کے بڑے یہودی علماء (حاخاموں) نے فتویٰ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ عراق عظیم تر اسرائیل کا اٹوٹ حصہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عراق پر فوج کشی اسرائیل کی کن خواہشوں کے پیش نظر کی گئی۔ بلاشبہ اس پر قبضہ یہودیوں کی بدترین و شرمناک خواہش کی تکمیل کے لیے کیا گیا۔
خود ساختہ عظیم تر اسرائیل کا مسئلہ پھر سر ابھارنے لگا ہے، صہیونی تحریک نے اگرچہ خود کو سیکولر ازم کے لباس میں پیش کرنے کی کوشش کی اور جمہوریت کا لبادہ زیب تن کیا ہے۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ اسے سیکولرازم سے سخت عداوت اور جمہوریت سے سخت نفرت ہے۔ اس کے نظریے کی بنیاد یہودیت کی اس بات کا اظہار ہے کہ یہودی ہی منتخب اور چنندہ قوم ہے اس کی موعودہ سرزمین مقدس سرزمین ہے۔ ان ہی سے عہد و میثاق لیا گیا اور انہیں زمین کی خلافت دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یہودی حاخاموں کا کہنا ہے کہ یہودی اللہ کی چنندہ و برگزیدہ قوم ہے۔ توریت کی عبارتوں اور سفر تکوین میں وارد عہد و میثاق میں کہا گیا ہے کہ اللہ نے ابراہیم کو زمین کا ٹکڑا عطا کیا تھا، یہ سرزمین یہودیوں کی ملکیت ہے اور یہ مصر کی نہر نیل سے فرات تک کی سرزمین ہے۔ ان کے زعم کے مطابق اس سے بھی زیادہ واضح انداز میں ارض موعودہ کی نشاندہی دوسرے مقامات پر کی گئی اور اسے اسرائیل کی ذریت کی ملکیت قرار دیا گیا ہے، کہا گیا ہے کہ ’’یہ سرزمین جو میں نے ابراہیم اور ان کے بیٹے اسحاق و یعقوب کو دی تھی۔ اس پر ان کی نسل کے یہودی آباد رہیں گے۔ اسی لیے قومی مذہبی پارٹی میوڈال کے چیئرمین احتیاط آدمی ایٹم جو شیرون کی سابقہ حکومت میں وزیر بھی تھے نے اپنے پیغام میں اپیل کی تھی کہ اب ہمیں چاہیے کہ ہم توریت کی متعین کردہ سرحدوں کے مطابق اپنا مکمل ملک اسرائیل قائم کریں۔ فلسطینیوں کے خلاف آہنی بازوئوں کا استعمال، انہیں ہر طرح سے جکڑنے اور بے دست و پا کرنے کی کوشش پھر شام و ایران کو کمزور کرنے کی سازش اور ان کے ایٹمی پروگراموں کو آگے بڑھنے سے پہلے ہی تباہ کر دینے کا منصوبہ اس بات کا غماز ہے کہ صہیونیت اپنی مہم جوئی سے باز نہیں آئی ہے اور اس کی مسلسل کوشش عظیم تر اسرائیل کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا ہے۔ اس پس منظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مملکت اسرائیل کی خواہش، مقاصد، منصوبے، ارادے اور حوصلے نہ ختم ہوئے اور نہ پست ہوئے ہیں بلکہ وہ اپنے توسیع پسندانہ منصوبے پر پہلے سے زیادہ سرگرمی کے ساتھ عمل پیرا ہے اور اسی لیے وہ مسئلہ فلسطین اور امن منصوبوں اور نئی امریکی تجاویز میں ٹال مٹول سے کام لے رہا اور وقت حاصل کرنا چاہتا ہے کہ کسی طرح کھلے پن کا مظاہرہ کرنے والے اوباما راستے سے ہٹ جائیں یا پھر کوئی بش جیسا آئے جسے استعمال کرتے ہوئے عراق کی طرح کسی اور کو نشانہ بنا کر اپنے منصوبے کو ایک قدم مزید آگے بڑھائے۔ گویا اسرائیل اپنے منصوبے پر گامزن ہے اور جب وہ اس پر گامزن ہے تو فطری طور پر عرب و اسرائیل کے درمیان کشمکش کی کیفیت بھی برقرار رہے گی اور یہ کشمکش جاری رہے گی۔ اس تناظر میں عراق پر حملے کے اسباب و مقاصد کو ہر کوئی پڑھ اور سمجھ سکتا ہے کہ یہ جنگ کیوں ہوئی اور کس کے لیے! اسرائیل سمجھتا ہے کہ عراق عظیم تر اسرائیل کا اٹوٹ حصہ ہے، اسی کا اظہار یہودی حاخاموں کے فتویٰ میں کیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ ’’اسے میرے پروردگار دنیا کے مالک آپ مبارک ہیں کیونکہ آپ نے مجرم بابل کو تباہ کیا اور انہیں ان کے گناہوں کی سزا دی‘‘۔
(بحوالہ: ’’نقوش‘‘ ڈاٹ کام)
Leave a Reply