
پچھلے سال جون سے اب تک کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں کم ازکم ڈیڑھ سو نہتے کشمیری بہیمانہ طریقے سے قتل کیے گئے جن میں بیس نوخیز بچے بھی شامل تھے۔ بھارتی حکومت نے ان سفاکانہ واقعات کی کوریج کے لیے آنے والے غیر ملکی ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کے مقبوضہ وادی میں داخلے پر پابندی لگادی۔ پاکستان کے سیاسی اور مذہبی رہنمائوں نے حکومتِ پاکستان پر زور دیا کہ وہ اپنی مُہر بہ لب خاموشی کو توڑے اور بین الاقوامی فورم پر مقبوضہ علاقے میں بھارتی جارحیت کو بے نقاب کرے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بھارتی افواج کشمیری نوجوانوں کی نسل کشی میں مصروف ہیں جبکہ وادی میں مکمل طور پر کرفیو نافذ ہے۔ مقبوضہ وادی میں بھارتی افواج کی جانب سے انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کا حالیہ انکشاف اقوام متحدہ اور مہذب دنیا کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق ریڈکراس کی انٹرنیشنل کمیٹی نے ۲۰۰۵ء میں امریکی سفارتکاروں کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سیکورٹی فورسز کے منظم طریقے سے اذیت رسانی کے ٹھوس شواہد فراہم کیے تھے۔ وکی لیکس کے ایک حالیہ انکشاف کے مطابق ایک خفیہ بریفنگ میں ریڈکراس کی انٹرنیشنل کمیٹی نے سفارت کاروں کو بتایا کہ بھارتی کشمیر میں نظربندی کے مراکز میں قیدیوں کو اذیت دی جاتی ہے۔
ریڈکراس کے نمائندوں نے یہ بریفنگ ۱۷۷ اذیتی مراکز کے دورے کے بعد سفارت کاروں کو دی۔ ان ڈیڑھ ہزار قیدیوں میں سے جن سے ریڈکراس کے نمائندوں نے ملاقاتیں کیں، آدھے سے زائد کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا گیا۔ ۸۵۲ کیسوں میں قیدیوں نے بتایا کہ انہیں مارا پیٹا گیا۔ بقیہ کو ایک سے زائد طریقوں سے اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔ مشتبہ افراد کو بجلی کے جھٹکے دینا بھی ان میں شامل تھا۔ ایسے افراد کو چھت سے لٹکا دیا جاتا اور یہ بھی کیا جاتا کہ ان کی رانوں پر رولر یا گول دھات کی چیز رکھ دی جاتی اور کوئی شخص اس پر بیٹھ جاتا جس سے پٹّھے تباہ ہو جاتے۔ جبکہ بعض لوگوں کی ٹانگوں کو ۱۸۰ ڈگری کے زاویے پر کھینچا جاتا۔ اس کے علاوہ مختلف افراد کو پانی کے ذریعے اذیت دی جاتی، تین سو سے زائد جنسی اذیت کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔ وکی لیکس کے مطابق دورانِ تفتیش سیکورٹی فورسز کی جانب سے بدسلوکی اور اذیت دہی معمول کی بات ہے اور یہ سب کچھ افسران کی موجودگی میں کیا جاتا ہے۔ ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کا معاملہ بھارتی حکومت کے سامنے ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصہ سے اٹھایا جاتا رہا ہے لیکن یہ طریقہ کار بدستور جاری ہے۔ اور مجبوراً یہ نتیجہ اخذ کرنا پڑتا ہے کہ بھارتی حکومت ان اذیت رسانیوں سے چشم پوشی کرتی ہے۔
آئی سی آر سی جس نے ڈیڑھ ہزار قیدیوں سے ملاقات کی، اس بات پر زور دیا کہ ان میں سے چند ایک ہی جنگجو تھے۔ قیدیوں کی اکثریت عام شہری تھی، جنہیں اس بنیاد پر گرفتار کیا گیا کہ ان کے پاس بغاوت کی بابت اطلاعات ہوں گی۔ یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ سیکورٹی فورسز کی تمام برانچیں اذیت رسانی کے طریقے استعمال کرتی ہیں اور وہ بھی ایک افسر کی موجودگی میں۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق گزشتہ سال جون سے لے کر اب تک کشمیر کی آزادی کا مقبول عام نعرہ لگانے والے ۱۱۰ افراد جن میں نوخیز بچے اور نوجوان بھی شامل تھے، مار دیے گئے۔ کرفیو، شٹ ڈائون اور دیکھتے ہی گولی مار دینے کی بھارتی افواج کی پالیسی کی وجہ سے ہزاروں کشمیری بالخصوص بوڑھی عورتیں اور بچے اپنے چھوٹے سے گھروں میں محصور ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ انہیں وادی کی روز بروز بگڑتی ہوئی صورت حال کی وجہ سے غذا اور پانی کی قلت کا سامنا ہے۔
چند ماہ قبل ایک معروف کشمیری اخبار نے اس عنوان سے سرخی جمائی کہ ’’۲۰۱۰ء ۔ نوخیزوں کی ہلاکت کا سال‘‘ تاکہ عالمی برادری اور امن عالم کے نام نہاد ضمانتیوں کو جگایا جاسکے اور انہیں نہتے شہریوں کو اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرنے پر بھارتی افواج کے غیر انسانی رویے کی طرف متوجہ کیا جاسکے۔
کشمیری میڈیا کے مطابق گزشتہ سال جنوری میں بیس افراد کو جن میں زیادہ تر نوجوان تھے، قتل کر دیا گیا اور یہ سب کچھ امن و امان کو بہتر بنانے کے نام پر پیراملٹری سی آر پی ایف فوجیوں نے بے دردی سے طاقت کا استعمال کر کے کیا۔
چودہ میں سے نو کشمیری نوجوانوں کو بھارتی افواج نے بے دریغ فائرنگ کر کے اس وقت ہلاک کر دیا جب یہ نوجوان اپنے ایک ساتھی کے قتل کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ دو نوجوان بھارتی فوج کے آنسو گیس کے شیل لگنے سے ہلاک ہوئے جبکہ ایک اور بارڈر سیکورٹی فورس کے عملے کی فائرنگ سے شہید ہوا۔ جون کا مہینہ اس اعتبار سے خونیں تھا کہ اس ماہ آٹھ معصوم نوجوانوں کو ہلاک کیا گیا۔
۲۵؍ نومبر ۲۰۱۰ء کو آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق اور بلال لون کو محض اس بنیاد پر کہ انہوں نے ایک سیمینار میں بھارت کے خلاف ریمارکس دیے، دائیں بازو کی ایک ہندو تنظیم کے کارکنوں کی جانب سے بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا۔ کشن بھون میں ’’مسئلہ کشمیر ہند و پاک تعلقات کے تناظر میں‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کے دوران ہی میر واعظ فاروق سے بدسلوکی کی گئی۔ اس کے بعد جناب لون پر بھی حملہ کیا گیا۔ میرواعظ اپنی کرسی سے گر پڑے اور انہیں مشتعل ہندو کارکنوں نے مکّے مارے۔ بھارت کا ماضی گواہ ہے کہ متعدد واقعات میں لبرل عناصر کی آزادیٔ تقریر اس کے سیکورٹی فورسز اور دائیں بازو کی ہندو تنظیم کے کارکنوں کے ذریعہ سلب کر لی گئی۔ بھارتی حکومت نے ان واقعات پر بظاہر علانیہ تنقید کی ہے لیکن درحقیقت خفیہ طور پر ایسے واقعات کی اور ایسے عناصر کی پشت پناہی کی جاتی ہے۔ ٹھیک یہی وجہ ہے کہ آخر گجرات کے قتلِ عام، سمجھوتہ ایکسپریس اور سکھوں کے اندھا دھند قتل کے واقعات کے کسی ملزم کو سزا سنائی گئی اور نہ انہیں انصاف کے کٹھہرے میں لایا جاسکا۔ بھارت ہندو توا (Hinduvta) کے انتہا پسندانہ فلسفے پر عمل پیرا ہے جو ہندو جارحیت اور آزادیٔ تقریر کو کچلنے کا فلسفہ ہے۔
استبدادیت پر مبنی اس ماحول میں دانشور اور سماجی طبقے کو محدود کر دیا گیا ہے اور ان کی آزادیٔ اظہارِ رائے کو دبا دیا گیا ہے۔ خواہ پنجاب ہو، جنوب مشرقی ریاستیں ہوں یا کشمیر ہو، بھارت کو سچائی کڑوی لگتی ہے اور وہ اپنی برخود غلط پالیسیوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو پوری طاقت سے کچل دیتا ہے۔ کشمیر کے عوام اور بھارت کی مائو نواز آبادی اپنے بنیادی حقوق کے لیے آج بھی لڑ رہے ہیں لیکن انڈین سیکورٹی فورسز کی طرف سے ان کی آواز دبا دی جاتی ہے۔ حالیہ واقعات جن سے ہندوئوں کی غیر روادارانہ ذہنیت جھلکتی ہے، ان میں سے یہ واقعہ آل پارٹی حریت کانفرنس کے میر واعظ فاروق اور بلال غنی لون کا ہے، جب وہ چندی گڑھ اور کول کتہ میں مسئلہ کشمیر پر سیمیناروں میں شرکت کے لیے گئے تھے تو انتہا پسندوں نے ان پر حملہ کر دیا اس بیان پر کہ کشمیر کبھی بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں رہا، بھارتی دانشور ارون دھتی رائے اور سید علی گیلانی کے خلاف بغاوت کے مقدمات قائم کیے گئے۔ یہ صورت حال بھارت کی متعصبانہ ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ ہندو انتہا پسندو ںکی جانب سے ارون دھتی رائے کے گھر پر حملہ اور ان کی توہین و تذلیل کرنے میں مبینہ طور پر بھارتی اسٹیبلشمنٹ ملوث رہی ہے۔ غیر ملکی ٹی وی چینلوں پر پابندی، صحافیوں سے بدسلوکی اور ان کی گرفتاری، بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور غیر ملکی صحافیوں کو حقائق و معلومات تک رسائی سے انکار اور تحریک آزادی کے رہنمائوں مثلاً شبیر احمد شاہ اور سید علی گیلانی پر جسمانی حملے، یہ ایسے واقعات نہیں ہیں جن کی طرف سے آنکھیں بند کر لی جائیں۔
سوال یہ ہے کہ بھارت آزادی اور اپنے حقوق کے لیے اٹھنے والی ان آوازوں کو کب تک دبا سکے گا۔ بھارتی جبرو استبداد جیسے جیسے بڑھے گا ویسے ہی اس کے خلاف سخت ردعمل سامنے آئے گا۔ آل ایشیا پیسیفک کے پروگرام ڈائریکٹر سام ظریفی نے بھارتی وزیر داخلہ چدم برم کے نام ایک خط میں لکھا ہے کہ ان کے ادارے کو مسلسل ایسی رپورٹیں ملی ہیں جن میں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں تحویل میں لیے جانے والے افراد کے ساتھ بدسلوکی اور اذیت دہی کی نشاندہی کی گئی ہے۔
کشمیری عوام پچھلے پچاس برس سے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ وہاں تعینات سات لاکھ بھارتی افواج کے مظالم کا شکار ہیں۔ کشمیرمیں یہ جدوجہد بھارتی افواج کے مسلح قبضہ کے خلاف ہے۔ اس آزادی کا وعدہ اور یقین دہانی اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کرائی گئی ہے جسے بھارت میں برسراقتدار آنے والی حکومتوں نے نظرانداز کیا ہے۔ آزادی کی یہ جدوجہد کشمیری عوام کی خواہشات کے برخلاف کبھی ختم نہیں کی جاسکے گی۔ کشمیر کے مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ کشمیریوں کو حق خود ارادی دی جائے تاکہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکیں۔ چاہے وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہیں یا پاکستان میں ضم ہو جائیں۔ کشمیریوں کے ساتھ سنگ دلانہ اور وحشیانہ سلوک کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے۔ دنیا کو کشمیریوں کے دکھ اور آزادی کے لیے کی جانے والی ان کی جدوجہد کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ کے الفاظ میں: ’’تدیہی المیہ بدقماشوں کا ظلم اور ان کی سنگ دلی نہیں ہے، بلکہ اس ظلم پر نیک دل لوگوں کی خاموشی ہے‘‘۔
(ترجمہ: پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود۔ جامعہ کراچی)
(بشکریہ: روزنامہ ’’دی نیشن‘‘ کا ’’سنڈے پلس‘‘ میگزین۔ ۲ جنوری ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply