حقِ خود ارادی کے بغیر مسئلۂ کشمیر حل نہیں ہو سکتا!

جناب وید بھسین جموں سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ ’’کشمیر ٹائمز‘‘ کے چیف ایڈیٹر اور ممتاز دانشور ہیں۔ وہ گذشتہ پچاس سال سے صحافت کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنا پہلا اردو اخبار ’’نیا سماج‘‘ کے نام سے ۱۹۵۲ء میں نکالا تھا لیکن ۱۹۵۴ء میں بھارتی حکومت نے شیخ محمد عبداﷲ کی حمایت کرنے پر اس اخبار کو بند کر دیا۔ وید بھسین اخبار کی بندش کے بعد نئی دہلی چلے گئے‘ جہاں سے انہوں نے کشمیر ٹائمز کے نام سے ایک ہندی اخبار کا اجرا کیا لیکن ریاست جموں و کشمیر میں اس اخبار کی سرکولیشن ایک مسئلہ بن گئی۔ چنانچہ اس اخبار کو بھی بند کرنا پڑا بعد ازاں بھسین صاحب نے ۱۹۵۵ء میں جموں سے انگریزی روزنامہ ’’کشمیر ٹائمز‘‘ کا اجرا کیا جو اپنی آزادانہ پالیسی کے سبب کشمیری عوام میں مقبولیت حاصل کرتا چلا گیا۔ اس وقت اس اخبار کی یومیہ اشاعت ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ وید بھسین پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں۔ اب کی دفعہ وہ ایسے موقع پر پاکستان آئے تھے جب کشمیری رہنماؤں کا ایک وفد بھی سری نگر سے پاکستان آیا ہوا تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ وید بھسین صاحب کشمیری رہنماؤں کے دورے کے تناظر میں ہی پاکستان آئیں ہیں لیکن انہوں نے ایک ملاقات میں بتایا کہ وہ انسٹی ٹیوٹ آف اسٹراٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد کی دعوت پر ایک سیمینار میں شرکت کے لیے پاکستان آئے تھے۔ یہ محض حسنِ اتفاق ہے کہ سرینگر سے آئے ہوئے دوستوں سے بھی ان کی ملاقات ہو گئی۔ کشمیر میڈیا سینٹر میں وہ ہماری دعوت پر تشریف لائے اور کشمیر کی تازہ ترین صورتحال پر ان سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ وید بھسین صاحب کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کی کھلم کھلا حمایت کرتے ہیں اور ان کا موقف بڑی حد تک کشمیری عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ ان کے ساتھ بات چیت کی تفصیلی رپورٹ درج ذیل ہے۔


س: وید بھسین صاحب! سب سے پہلے ہم کشمیری رہنماؤں کے دورہ پاکستان پر گفتگو کرتے ہیں۔ یہ لوگ حکومت پاکستان کی دعوت پر تشریف لائے ہیں‘ ان لیڈروں کو الگ الگ دعوت نامہ بھیجا گیا تھا۔ سید علی گیلانی کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین کی حیثیت سے مدعو کیے گئے تھے جبکہ باقی لیڈروں کو ان کی پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے بلایا گیا تھا۔ سید علی گیلانی نے دعوت مسترد کر دی‘ وہ نہیں آئے۔ لیکن دوسرے لیڈر آگئے۔ اب حکومت اپنی خفت مٹانے کے لیے ان لیڈروں کو حریت کے وفد کے طور پر متعارف کرا رہی ہے‘ کیا یہ درست ہے؟

ج: اصل بات یہ ہے کہ حریت کانفرنس دو دھڑوں میں منقسم ہو چکی ہے۔ گیلانی صاحب ایک سیکشن کی نمائندگی کر رہے ہیں جبکہ میر واعظ عمر فاروق اور مولوی عباس انصاری وغیرہ دوسرے سیکشن کے لوگ ہیں۔ میرا خیال ہے کہ حکومتِ پاکستان پہلے گیلانی صاحب کو حریت کانفرنس کا چیئرمین سمجھتی تھی‘ اب وہ نہیں آئے ہیں تو اس نے اپنی ڈائریکشن تبدیل کر لی ہے اور اب وہ حریت کے دوسرے دھڑے کی پذیرائی کر رہی ہے۔ حریت کانفرنس میں دھڑے بندی ایک افسوسناک بات ہے۔ میں کئی سال سے یہ کہہ رہا ہوں کہ اگر حریت متحد نہ ہوئی تو اس کی ہوا اکھڑ جائے گی اگر حریت کے لیڈر کامن کاذ کے لیے کام کر رہے ہیں تو انہیں اپنے اتحاد کا بھی مظاہرہ کرنا ہو گا۔ انہیں کشمیری عوام کو ایک ڈائریکشن دینی چاہیے۔ تحریکیں ڈائریکشن کے بغیر نہیں چلتیں۔

س: اصل میں گیلانی صاحب یہ کہتے ہیں کہ حریت کانفرنس کے قیام کے وقت اس کا جو دستور بنایا گیا تھا اور جو اصول و ضوابط طے کیے گئے تھے‘ ایک گروپ نے اس کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے اور اب وہ اپنی حریت بنا کر بیٹھ گئے ہیں‘ آپ کے خیال میں کیا ان کا یہ طرزِ عمل درست ہے؟

ج: بات یہ ہے کہ حریت کانفرنس نے بے شک اپنا دستور بنایا تھا اور اس نے کچھ اصول و ضوابط بھی طے کیے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حریت میں مختلف نظریات کے لوگ شامل تھے‘ مختلف پارٹیاں اپنے الگ الگ اہداف و مقاصد رکھتی تھیں‘ جو آہستہ آہستہ سامنے آتے گئے۔ ان جماعتوں نے وہ ایڈجسٹمنٹ نہیں کی‘ جو کرنی چاہیے تھی۔ عبدالغنی لون کے بیٹوں نے حریت میں شامل ہوتے ہوئے بالواسطہ طور پر ریاستی انتخابات میں حصہ لیا‘ جس کی گیلانی صاحب نے شدید مخالفت کی جبکہ دوسرے لوگوں نے اس سلسلے میں خاموشی اختیار کر لی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ رویہ درست نہیں تھا۔ انہیں گیلانی صاحب کو ناراض کرنے کے بجائے‘ انہیں مطمئن کرنا چاہیے تھا اور یہ بات طے کرنی چاہیے تھی کہ آئندہ اس طرح کی خلاف ورزی نہیں ہو گی۔ گیلانی صاحب کے لیے بھی مناسب یہی تھا کہ وہ الگ ہونے کے بجائے ان سب لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر چلتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ نہ گیلانی صاحب کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے اور نہ دوسرے لیڈروں کو۔ میں سمجھتا ہوں کہ باہمی اختلافات سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچا ہے۔ یہ لوگ متحد ہو کر ہی اپنی بات منوا سکتے ہیں۔

س: گیلانی صاحب پاکستان نہیں آئے‘ جبکہ دوسرے کشمیری لیڈر آئے ہیں تو کیا ان کے پاکستان آنے سے ان کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ ہوا یا کمی واقع ہوئی ہے؟

ج: گیلانی صاحب کو بھی آنا چاہیے تھا۔ وہ یہاں آتے اور اپنی بات کرتے تو زیادہ مناسب تھا۔ اب تو مجھے یہ دورہ نمائشی (Ceremonial) لگتا ہے۔

س: آپ کا اخبار کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کرتا ہے اور ریاست میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ بھی اٹھاتا رہتا ہے‘ اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان جو امن پراسیس چل رہا ہے‘ کیا اس کے نتیجے میں کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال بہتر ہوئی ہے؟

ج: میں سمجھتا ہوں کہ حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ پاکستان نے امن پراسیس کے نام پر اعتماد کی بحالی کے بہت سے اقدامات (CBMs) کیے ہیں‘ اس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے تعلقات تو بہتر ہوئے ہیں لیکن کشمیر کی داخلی صورتحال پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بدستور جاری ہیں‘ تشدد (Voilance) ہو رہا ہے‘ ہلاکتیں ہو رہی ہیں‘ گرفتاریاں جاری ہیں‘ ریاست میں ظالمانہ قوانین نافذ ہیں‘ بہت سے لوگ جیلوں میں بند ہیں۔ میرے خیال میں کشمیر میں بھی بھارت کی جانب سے CBMs ہونے چاہیے تھے‘ یہاں سے فورسز واپس جاتیں‘ لوگوں کو رہا کیا جاتا‘ بنکر ختم کیے جاتے تو امن پراسیس نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ کشمیریوں کو ابھی تک کوئی ریلیف نہیں ملا‘ یہ افسوسناک بات ہے۔

س: پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات بھی جاری ہیں اور بھارتی لیڈر بار بار یہ بات بھی دہرا رہے ہیں کہ سرحدوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی جبکہ کشمیریوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں حق خود ارادیت دیا جائے تو کیا یہ ممکن ہے کہ سرحدوں میں تبدیلی کے بغیر مسئلہ کشمیر کا کوئی ایسا حل نکل سکے جو کشمیریوں کے لیے قابلِ قبول ہو؟

ج: میں سمجھتا ہوں کہ جب دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت جاری ہے تو بھارتی لیڈروں کو اس طرح کے متنازع بیانات نہیں دینے چاہییں۔ پاکستان نے مذاکرات کے دوران کافی سے زیادہ لچک دکھائی ہے۔ لیکن بھارت کی طرف سے ابھی تک ایک بھی لچک کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے‘ جبکہ اس مسئلہ کے اہم اور بنیادی فریق کشمیری عوام ہیں‘ ابھی تک بھارت نے انہیں مذاکرات میں شامل کرنے پر آمادگی ظاہر نہیں کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذاکرات سہ فریقی بنیادوں پر غیرمشروط ہونے چاہییں۔ اگر کوئی فریق اس میں اپنی طرف سے کوئی شرط لگائے گا تو بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔ بھارت جب یہ کہتا ہے کہ جغرافیائی سرحدوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی تو گویا ایک بہت بڑی شرط لگا دیتا ہے۔ اس شرط کے نتیجے میں پراسیس آگے نہیں چل سکتا۔ اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ صورتحال کو جوں کا توں (Status-co) برقرار رکھ کر مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے‘ تو یہ اس کی بھول ہے۔ کشمیریوں نے قربانیاں اس لیے نہیں دیں کہ صورتحال جوں کی توں برقرار رہے۔ میرے نزدیک پاک بھارت مذاکرات اسی صورت کامیاب ہو سکتے ہیں جب کھلے ذہن کے ساتھ تمام آپشنز پر غور کیا جائے اور جو آپشن کشمیریوں کو قابلِ قبول ہوں‘ انہیں مان لیا جائے۔

س: کیا پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بحالی سے بھارتی عوام کی رائے میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر ضرور حل ہونا چاہیے؟

ج: بھارتی میڈیا کا ایک سیکشن تو مسلسل یہ بات کہہ رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے ممکنہ اپروچ اختیار کیا جائے۔ تاہم بھارت میں ابھی تک وہ بیداری نہیں پائی جاتی جو پاکستان میں موجود ہے۔ پاکستان کے پبلک موڈ میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ حکومت تو لچک دکھا رہی ہے۔ لوگوں کے رویے میں کافی لچک پیدا ہوئی ہے۔ خاص کر پاکستان کا انگلش میڈیا مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے مختلف آپشنز کا ذکر کر رہا ہے۔ ہندوستان کے حوالے سے میں یہ کہوں گا کہ شمالی ہندوستان کے لوگ خاص طور پر اس بات کو محسوس کر رہے ہیں کہ مسئلہ کشمیر حل ہوا تو اس سے انہیں فائدہ ہو گا۔ دو تین سال پہلے تک ان کے رویے میں جو سختی تھی‘ وہ اب نہیں پائی جاتی۔ وہ تجارت اور کاروبار کے بارے میں سوچتے ہیں۔

س: بھارت کے اپوزیشن لیڈر مسٹر ایل کے ایڈوانی انہی دنوں پاکستان آئے تھے۔ وہ پاکستان اور مسلمانوں کے بارے میں ایک انتہا پسند لیڈر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں لیکن پاکستان آکر انہوں نے کافی لچک دکھائی اور بڑی اچھی اچھی باتیں کیں تو کیا آپ ان کے دورے کو بھی دونوں ملکوں کے درمیان امن پراسیس سے جوڑ سکتے ہیں۔

ج: واقعی ایڈوانی صاحب نے پاکستان آکر بڑی اچھی باتیں کیں اور بہت لچک دکھائی ہے جس کے نتیجے میں ان کے انتہا پسند ساتھی برہم بھی ہوئے ہیں‘ انہیں استعفیٰ بھی دینا پڑا۔ اگرچہ بعد میں انہوں نے اپنے ساتھیوں کے اصرار پر استعفیٰ واپس بھی لیا لیکن جو کچھ ہوا اس کا ایک خوشگوار پہلو یہ بھی ہے کہ ایڈوانی کے رویے میں تبدیلی آئی ہے۔ آپ اسے وسیع تر معنوں میں امن پراسیس کا حصہ بھی قرار دے سکتے ہیں لیکن میرے نزدیک بی جے پی نے داخلی سیاست میں ایک نئی اسٹراٹیجی اختیار کی ہے کیونکہ اسے اندازہ ہو گیا ہے کہ وہ اپنی انتہا پسندانہ پالیسی کی وجہ سے دوبارہ اقتدار میں نہیں آسکتی۔ اقتدار میں آنے کے لیے اسے دوسری جماعتوں کا سہارا لینا پڑے گا اور کولیشن بنانی پڑے گی اور اس کی اتحادی جماعتیں انتہا پسندانہ پالیسی میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ جہاں تک واجپائی صاحب کا تعلق ہے تو ان کا ایک لبرل تشخص بن گیا تھا‘ وہ کئی جماعتوں کے لیے قابلِ قبول تھے۔ اب ایڈوانی‘ واجپائی کے جانشین بننا چاہتے ہیں تو وہ بھی اپنا انتہا پسندانہ تشخص تبدیل کر رہے ہیں۔ وہ مسلمانوں کی ہمدردی بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں حالانکہ یہی ایڈوانی تھے جنہوں نے گجرات کے مسلم کش فسادات میں وزیراعلیٰ نریندر مودی کی سرپرستی کی تھی۔ مجھے خطرہ یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ایڈوانی تادیر اپنے چہرہ پر نقاب برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔ آر ایس ایس کے انتہا پسند انہیں پھر اپنی پرانی ڈگر پر آنے پر مجبور کر دیں گے۔

س: کشمیر کی اندرونی خودمختاری کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ کیا کشمیری قیادت یا اس قیادت کا کوئی حصہ مسئلہ کشمیر کے اس حل پر تیار ہو رہا ہے؟

ج: میں تو اس اصولی بات پر یقین رکھتا ہوں کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی اکثرت جس تجویز کو قبول کرے گی‘ وہی قابلِ عمل ہو گی۔ بھارت پاکستان یا کوئی کشمیری لیڈر اپنے طور پر کوئی حل مسلط نہیں کر سکتا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ کشمیر کی اکثریت بھارت سے آزادی چاہتی ہے لیکن کشمیری آبادی کا ایک سیکشن وہ بھی ہے جو انڈیا کے ساتھ مل کر رہنا چاہتا ہے۔ یہ طبقہ اگرچہ تھوڑا ہے لیکن اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان سے بھی بات کرنا پڑے گی۔ میں خودمختار کشمیر کو ہی مسئلے کا حل سمجھتا ہوں۔ میرے خیال میں اس طرح کشمیر میں غیرمسلم اقلیت کو بھی تحفظ ہو گا۔

س: اس وقت کشمیر کو تقسیم کرنے کی بات ہو رہی ہے‘ جنرل مشرف نے کشمیر کو سات ریجنز میں تقسیم کرنے کی تجویز دی ہے حالانکہ جموں و کشمیر کی ریاست ایک جغرافیائی اکائی ہے لیکن اب بہت سی تجویزیں سامنے آگئی ہیں۔ مذہبی بنیادوں پر‘ لسانی بنیادوں پر اور کبھی جغرافیائی بنیادوں پر تقسیم کشمیر کے فارمولے دیے جارہے ہیں۔ کشمیری قیادت بھی بہت ساری تجویزیں لیے پھرتی ہے۔ ایسے میں صرف گیلانی صاحب ہی ہیں جو ابتدا ہی سے ایک موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ وہ ریاست جموں و کشمیر کو تقسیم کرنے کے بجائے حق خود ارادیت کی بنیاد پر اس کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ چاہتے ہیں۔ ان کے موقف میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمر عبداﷲ نے بھی ایک انٹرویو میں ان کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ مجھے گیلانی صاحب کی بات سے اتفاق ہو یا نہ ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ پچاس سال سے ایک ہی بات کہہ رہے ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ موقف تبدیل کرنے سے مسئلے کا کوئی حل نکل سکتا ہے؟

ج: میں پہلے بھی یہ بات کہہ چکا ہوں اور اب بھی اسی بات کو دہراتا ہوں کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی حل اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ اس میں کشمیریوں کی مرضی شامل نہ ہو۔ میں ریاست جموں و کشمیر کو ایک جغرافیائی وحدت سمجھتا ہوں۔ اگر اسے مختلف ریجنز میں تقسیم کیا گیا تو اس سے معاملہ سلجھنے کے بجائے اور الجھ جائے گا۔ ہمیں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل تنازع کشمیر ہی ہے۔ آپ لاکھ اسے نظرانداز کر لیجیے وہ پھر پھر کر آپ کے سامنے آجائے گا۔ کشمیر ہی کی بنیاد پر دونوں ملکوں میں دوستی بھی ہو سکتی ہے اور دشمنی بھی۔ ماضی میں اسی بنیاد پر دونوں ملکوں کے درمیان کئی جنگیں بھی لڑی جاچکی ہیں۔ اس وقت کشمیر کے مسئلے پر بھارت کا رویہ بہت محتاط ہے۔ اس نے آج تک مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کوئی آپشن نہیں دیا جبکہ مشرف صاحب ایک دن میں تین تین آپشن پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک دفعہ یہ بھی کہا تھا کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے لیکن مشرف صاحب ایک ہاتھ سے ہی تالی بجاتے جارہے ہیں۔ بھارت نے ابھی تک کوئی آپشن رجسٹر نہیں کرایا پھر یہ کہنا کہ بھارت تقسیم کشمیر پر آمادہ ہو گا ایک بے معنی بات ہے۔ میرے خیال میں کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک پل کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔

س: کیا اس سے آپ کی مراد یہ ہے کہ کشمیر کو ایک (Independent state) ہونا چاہیے؟

ج: میرا خیال ہے کہ یہ ایک اچھا حل ہو سکتا ہے۔ ریاست جموں و کشمیر متحد اور انڈیپنڈنٹ رہے اور اس کی سرحدوں کے تحفظ کی ذمہ داری پاکستان اور بھارت قبول کریں۔ دونوں ملکوں کا ریاست میں کوئی فوجی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بات طے ہے کہ فوج کشمیر کو کنٹرول نہیں کر سکتی اگر ایسا ہوتا تو کشمیر کا مسئلہ کب کا حل ہوا ہوتا۔

س: آپ نے کشمیر کی خودمختار اسٹیٹ ہونے کی حمایت کی ہے۔ اس طرح تو وہاں امریکا خود آکر بیٹھ سکتا ہے جس سے چین کو بھی پریشانی ہو گی۔ بلکہ چین یہ محسوس کرے گا کہ اس کے گرد گھیرا ڈالا جارہا ہے؟

ج: اس حوالے سے میری رائے مختلف ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان نے پہلے ہی امریکا کے آگے اپنی آزادی سرینڈر کر رکھی ہے۔ انڈیا نے بھی اپنی کچھ آزادی سرینڈر کی ہے۔ دونوں ملکوں کا دانشور طبقہ یہ محسوس کرتا ہے کہ امریکا سے بچ کر رہنے کی ضرورت ہے اگر پاکستان اور بھارت اپنے مفادات کے لیے متحد ہو جائیں تو پھر امریکا کی دال نہیں گل سکتی۔ امریکا کی اسٹراٹیجی یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے ساتھ نہ ملنے پائیں۔ ان میں محاذ آرائی (Confrontation) برقرار رہے لیکن جنگ نہ چھڑنے پائے۔ کشمیر کے معاملے میں بھی وہ ایسے ہی کسی فیصلے کو مسلط کرنا چاہتا ہے۔

س: نائن الیون کے بعد امریکا مسلح جدوجہد کے خلاف ہے وہ مظلوم قوموں کی طرف سے اپنے حق کے لیے مسلح جدوجہد کو دہشت گردی قرار دے رہا ہے اور کہتا ہے تنازعات بندوق سے نہیں مذاکرات سے حل ہونے چاہییں لیکن خود اس کا طرزِ عمل اس کے برعکس ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے؟

ج: میں سمجھتا ہوں کہ بین الاقوامی دہشت گردی امریکا کی پروڈکٹ ہے اور وہ اسے اپنے مقصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ وہ مسلمان ملکوں پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے دہشت گردی کو اسلامی قرار دے رہا ہے۔ وہ افغانستان میں‘ عراق میں اور اب ایران میں بھی دہشت گردی کو آزمانا چاہتا ہے۔ امریکا کا طرز عمل کسی کے لیے بھی مثال کا درجہ نہیں رکھتا۔ اس نے اپنے طرزِ عمل سے پوری دنیا کو مایوس کیا ہے۔ دراصل امریکا ایسٹ اور ویسٹ دونوں پر اپنی بالادستی (Hegemony) برقرار رکھنا چاہتا ہے۔

س: کشمیر میں غیرمسلم ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ امن چین سے رہتے رہے ہیں لیکن کشمیری پنڈتوں نے کشمیر میں بھارتی سامراج کے خلاف مسلح جدوجہد شروع ہوتے ہی نقل مکانی شروع کر دی اور اب وہ کشمیر سے باہر کیمپوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں‘ اس کی کیا وجہ ہے؟

ج: کشمیر میں ہندومسلم کا کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا ہے۔ وہ آبادی میں مل جل کر رہتے تھے۔ جب کشمیر کے سابق گورنر جگ موہن نے عسکریت پسندوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کا فیصلہ کیا تو اس نے سب سے پہلے کشمیری پنڈتوں کو نقل مکانی کے لیے مجبور کیا۔ اسے خدشہ تھا کہ اگر آپریشن ہوا تو کشمیری پنڈت بھی مفت میں مارے جائیں گے۔ چنانچہ اس نے مختلف لالچ دے کر انہیں کشمیر سے باہر بھیج دیا اور اب وہ ذلیل ہو رہے ہیں۔ کشمیر میں ہندو مسلم مل جل کر رہتے تھے ۔ ان کے درمیان بھائی چارے کے تعلقات ہیں۔ گیلانی صاحب کو Fundamentalist کہا جاتا ہے لیکن میرے ان کے ساتھ خاندانی مراسم ہیں۔ میری بیٹی اور ان کی بیٹی آپس میں سہیلیاں ہیں۔ میری بیٹی جب نئی دہلی جاتی ہے تو اپنی سہیلی کے ہاں ٹھہرتی ہے۔ اس لیے ہم کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کے حامی اور ریاست کی جغرافیائی وحدت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

(بشکریہ: ماہنامہ ’’کشمیر الیوم‘‘۔ مظفرآباد۔ جولائی ۲۰۰۵ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*