
۱۹۱۸ء میں ’’اسپینش فلو‘‘ نے دنیا بھر میں ۲ تا ۱۰ کروڑ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا۔ اس فلو کو یہ نام اس لیے دیا گیا تھا کہ اسپین پہلی عالمی جنگ میں شریک نہ تھا۔ مغرب کی جو دوسری قوتیں پہلی عالمی جنگ میں شریک تھیں انہوں نے عسکری مقاصد کے لیے اسپینش فلو سے ہونے والی ہلاکتوں کے حقیقی اعداد و شمار چھپانے کو ترجیح دی۔ اس خوف سے کہ دشمن حکومتیں فلو سے ہونے والی ہلاکتوں کے اعداد و شمار کو اپنے حق میں استعمال کریں گی، مغرب کے بہت سے ممالک نے صحافت کی آزادی پر بہت حد تک قدغن لگائی۔ پہلی عالمی جنگ کے بیشتر مغربی شرکا کے ہاں اخبارات اس معاملے میں خاموش دکھائی دیے۔ ہسپانوی اخبارات نے فلو کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کے اعداد و شمار بیان کرنے میں تساہل سے کام لیا نہ ہچکچاہٹ دکھائی۔ ہسپانوی اخبارات نے تو یہ بات بھی نہ چھپائی کہ خود ہسپانوی بادشاہ بھی فلو کا شکار ہوئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں پوری دنیا میں اس فلو کو’’اسپینش فلو‘‘ کا نام دیا گیا۔
پریس کی آزادی کو ۱۷۷۶ء سے ۱۸۵۰ء کے دوران تحریر کیے جانے والے ہر دستور میں کسی نہ کسی طور شامل کیا گیا۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بہتر حکمرانی کے لیے پریس اور اظہارِ رائے کی آزادی کو کس قدر اہم گردانا جاتا تھا۔ یہ معاملہ تھا پہلی عالمی جنگ کے موقع کا۔ ایک صدی بعد بھی حالات کچھ خاص نہیں بدلے ہیں۔ کیا آپ بھول گئے ہیں کہ امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کورونا وائرس کو ’’چائنا وائرس‘‘ اور ’’ووہان وائرس‘‘ قرار دینے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی تھی۔ بے بنیاد الزام تراشی کا رجحان آج بھی عام ہے۔ یہ چلن ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جو بڑھکیں ماریں، اُس نے ان کے حامیوں کو نمایاں حد تک متاثر کیا۔ چین کا نام لینے کا مطلب تھا کورونا وائرس کا الزام ایشیائی باشندوں کے سر منڈھنا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ریمارکس کے بعد امریکا میں ایشیائی باشندوں پر حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جن پر حملے کیے گئے وہ ایشیائی نسل کے باشندے امریکی شہری ہی تھے۔ کسی بھی بڑی بیماری یا وبا کو سیاسی بنیاد پر کسی ایک گروہ، نسل، معاشرے، قوم یا ملک سے منسوب کرنے کی رذیل مشق نے امریکا میں بھرپور اثر قائم کیا۔
مختلف ادوار میں مختلف بیماریوں اور وباؤں کو علامتی طور پر معاشروں، اقوام یا ممالک سے جوڑا جاتا رہا ہے۔ عام طور پر ایسا کرنے کا مقصد تشریح یقینی بنانا ہوتا ہے۔ بیشتر معاملات میں یہ محض علامتی معاملہ ہوتا ہے۔ سوزین سونٹیگ کہتی ہیں کہ علامت یا کنایہ دراصل اس بات کا نام ہے کہ کسی چیز کو ایسا نام دیا جائے جو دراصل کسی اور چیز سے جُڑا ہوا ہو۔
سوزین خود بھی کینسر کی مریضہ تھیں اس لیے وہ ایک اہم نتیجے تک پہنچیں۔ انہوں نے یہ سمجھا کہ علامات اور اشارے و کنایے معاشرے کی کسی بھی ہلاکت خیز بیماری سے نمٹنے کے عمل میں مریضوں کو مطعون کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ سوزین نے کینسر، ایڈز اور تپِ دق کو بیسویں صدی کی بیماری قرار دیا۔
اس وقت امریکا میں کورونا کی وبا کے غیر معمولی پھیلاؤ کے لیے جنوبی سرحد (میکسیکو) کو ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔ یہی وہ سرحد ہے جہاں (میکسیکو کے) لاکھوں غریب افلاس، تشدد اور کورونا وائرس سے نجات حاصل کرنے کے لیے سرحد عبور کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ امریکا میں مین اسٹریم میڈیا کے ذریعے جان بوجھ کر یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ میکسیکو کے باشندے کورونا سے نجات کے لیے امریکا آنا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے ترکِ وطن کے بنیادی اسباب غربت اور تشدد ہیں۔
سابق امریکی صدر نے ایسی کیفیت پیدا کی جس میں میکسیکو سے آنے والوں کے لیے عام امریکیوں کے دلوں میں شدید ناپسندیدگی، بلکہ نفرت پیدا ہوئی۔ کوشش یہ تھی کہ عام امریکی میکسیکو کے تارکینِ وطن سے اتنی نفرت کرے کہ ان کی آمد قبول کرنے لیے تیار نہ ہو۔ ری پبلکن پارٹی کے بیشتر کارکنوں اور رہنماؤں کا طریقِ واردات یہ ہے کہ ’’ہم اقتدار سے باہر ضرور ہیں مگر لوگوں کو ڈرا تو سکتے ہیں‘‘۔
جنوبی کیرولائنا کی سیاسی قیادت نے معاملات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ سینیٹر لنزے گراہم اور ان کے ہم خیال لوگوں نے میکسیکو کے تارکینِ وطن کے خلاف فضا تیار کرنے میں غیر معمولی دلچسپی لی۔ لنزے گراہم آج کل بہت بدحواس سے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ پہلے کی طرح یہ بڑھک تو نہیں مار سکتے کہ وہ امریکی صدر کے ساتھ گولف کھیلتے ہیں۔ اب وہ خود کو ’’بادشاہ گر‘‘ کے طور پر بھی پیش نہیں کرسکتے۔
وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ سائنس اور صحتِ عامہ کے حوالے سے محاذ کھولے بیٹھے ہیں۔ سینیٹر لنزے گراہم نے حال ہی میں متعدی امراض کے معروف ماہر ڈاکٹر فوشی پر بھی تنقید سے گریز نہیں کیا، جنہوں نے سابق امریکی صدر کے تحت بھی کام کیا اور اب کورونا کے معاملات میں مرکزی مشیر کی حیثیت سے صدر جوزف بائیڈن کے ماتحت بھی قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔
سینیٹر لنزے گراہم نے ڈاکٹروں سے کہا ہے کہ وہ میکسیکن سرحد پر جاکر دیکھیں کہ کورونا کی وبا اِتنی تیزی سے کیوں پھیل رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہاں غیر قانونی تارکینِ وطن کو گرفتار کرکے تنگ مقامات پر ساتھ رکھا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے میں کورونا کی وبا مزید تیزی سے پھیل رہی ہے۔ یہ سب کچھ ٹیکساس میں ہو رہا ہے۔ وہ یہ ساری باتیں اس لیے کہہ رہے ہیں کہ امریکا میں لوگ وسطی امریکا سے آنے والوں کے حوالے سے انتہائی محتاط ہو جائیں۔
امریکی نائب صدر کملا ہیرس کو ایک مشکل صورتِ حال کا سامنا ہے، جو ان کے کام کو مشکل تر بنارہی ہے۔ وہ لاطینی امریکا کے رہنماؤں پر زور دے رہی ہیں کہ وہ کورونا اور دیگر معاملات پر ایسی پالیسی اپنائیں جو سب کے لیے قابلِ قبول ہو۔ وہ اس حوالے سے بریفنگز لے رہی ہیں، رپورٹس کا مطالعہ کر رہی ہیں۔ یہ ایک مشکل کام ہے جو ایک خاتون کو سونپا گیا ہے۔ کملا ہیرس اچھی طرح سمجھتی ہیں کہ دنیا کا امیر ترین ملک ہونے کے ناطے امریکا کے پاس ایک اچھا موقع ہے کہ دنیا کو دکھائے کہ ایک بڑے بحران کا پامردی سے سامنا کس طور کیا جاتا ہے۔
تارکینِ وطن اور پناہ گزین کیمپوں کے حوالے سے صرف امریکا کو مطعون نہیں کیا جاسکتا۔ کئی دوسرے ممالک کو بھی اس حوالے سے پریشان کن حالات کا سامنا رہا ہے۔ چین کی مثال بہت نمایاں ہے جس کی سرحد میانمار سے ملتی ہے۔ میانمار میں سیاسی انتشار بہت زیادہ ہے۔ وہاں سیاسی خرابیوں کا گراف بلند سے بلند تر ہوتا جارہا ہے۔
افغانستان اور شام میں جاری جنگوں کے باعث یورپی یونین کو بھی تارکینِ وطن کے حوالے سے بحران کا سامنا رہا ہے۔ افریقا میں بھی خوراک اور توانائی کے حوالے سے صورتِ حال تیزی سے بگڑتی جارہی ہے۔ ایسے میں سوچا جاسکتا ہے کہ یورپ کو آنے والے عشروں میں افریقا سے بھی بہت بڑی تعداد میں تارکین وطن کا سامنا ہوسکتا ہے۔
اس وقت دنیا کو جن مشکلات کا سامنا ہے اُن کے حوالے سے الزام تراشی سے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر وہ کام کیا جائے جو دنیا کو مشکلات سے نکالنے کے لیے ناگزیر ہو۔ ہر ریاست کے اپنے مفادات ہوتے ہیں مگر یہ وقت اپنے اپنے مفادات کو ایک طرف ہٹاکر پوری دنیا کے مفاد کو ذہن نشین رکھنے کا ہے۔ امید رکھی جانی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ امریکی سیاست میں دیانت کو برقرار رکھنے کے لیے فطری علوم کی بنیاد پر سامنے آنے والے حقائق کی ضرورت محسوس کریں گے۔ ایک بات کا تمام امریکیوں کو یقین ہونا چاہیے … یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جو تنگ نظری متعارف کرائی ہے وہ امریکا کو ذرّہ بھر مضبوط نہ کرسکے گی۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Of borders and metaphors”. (“theglobalist.com”. April 17, 2021)
Leave a Reply