بغداد میں آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ چھوٹی موٹی خوشیوں سے کس طرح لطف اندوز ہوا جاسکتاہے۔ جب موسم غیر متوقع طور پر ٹھنڈاہوجاتاہے، جبکہ ابھی حال ہی میں ایک شام ایسی ہی ٹھنڈی ہوگئی تھی اور کئی دنوں کی 45 ڈگری سینٹی گریڈ حرارت کے بعد لوگ اپنے گھروںسے باہر نکل آئے تاکہ تھوڑی دیر کے لئے گرمی سے انہیں عافیت میسر آئے اور انہوں نے ہر آن موجود دہشت گردی کے خطرہ کی بھی پرواہ نہیں کی۔ میں بغداد میں ٹائم کے بیورو آفس کے صحن میں کھڑا تھا۔ میں اپنے چہرے پر خوشگوار ہوا کے جھونکے کو محسوس کررہا تھا۔ میں نے اپنے دفتر کے ساتھی حارث سے پوچھاکہ کیا جون کے مہینے میں گرمی میں قابل ذکر کمی عام سی بات ہے۔ اس نے اپنا سر ہلاتے ہوئے کہا کہ یہ خدا کی طرف سے ہمارے لئے ایک نعمت ہے۔ اللہ کو معلوم ہے کہ ہم میں بہتوںکے پاس بجلی نہیں، لہذا وہ ہمیں ٹھنڈی ہوا سے نوازتاہے تاکہ ہم رات میں اپنی نیند پوری کرسکیں۔ ان دنوں کچھ اور رحم و کرم کی عراقیوں کو توقع ہے۔ جب گزشتہ ہفتے صدر بش نے عراق جنگ کے موضوع پر امریکیوں سے خطاب کیا تو انہوں نے کہا کہ جس سال سے ہم نے عراقیوں کو ان کی خودمختاری لوٹائی ہے ہم نے نمایاں پیش رفت کی ہے۔ لیکن یہاں عراق میں صحت مند شواہد اس کی تصدیق کرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ ملک کے زیادہ تر حصوںمیں روزمرہ کی زندگی بہت ہی ابتر صورتحال سے دوچار ہے۔ بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے مطابق عراق میں بجلی کے نظام سے بجلی کی پیداوار جون ۲۰۰۵ء میں جون ۲۰۰۴ء کے مقابلے میں کم رہی۔ تیل کی پیداوار میں بھی کمی آگئی ہے۔ تیل کی برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی کا بھی یہی حال ہے۔ چند ماہ سے گیس رعایتی قیمت پر فراہم کئے جانے کی وجہ سے گیس اسٹیشنوں پر کلومیٹر لمبی لائن کا سلسلہ پھر سے شروع ہوگیا ہے۔ بغداد سے متصل علاقوں میں پانی کی فراہمی یا توبالکل نہیں ہے یا بہت تھوڑی مقدار میںہے۔لہذا گرمی میں تھوڑی سی کمی پر حارث کی غیرمعمولی خوشی پر کسی کو کم ہی تعجب ہونا چاہئے۔ اس کے پڑوس میں روزانہ چار گھنٹے سے بھی کم بجلی کی سپلائی ہے۔ شاید بعض عراقی یہ کہیں گے کہ گزشتہ سال کے دوران ان کے طرز رہائش میں بہتری آئی ہے۔ لیکن اب ان کے غم و غصے کو بھڑکانے والی کوئی نئی چیز سامنے آئی ہے۔ عراقی ان آلام و مصائب کا ذمہ دار یقینا جنوری میں منتخب ہونے والی حکومت کو سمجھتے ہیں۔ لیکن اتنا ہی وہ امریکیوں کوبھی سمجھتے ہیں۔ جو خبر حوصلہ افزا ہے وہ یہ کہ عراقیوں کو یہ احسا س ہوچکا ہے کہ وہ اپنے مسائل کے حل کے لئے امریکہ پر انحصار نہیں کرسکتے۔ لیکن یہ اس بات کی بھی یاد دلاتی ہے کہ عراق کو ابھی کتنا آگے جاناہے۔ گذشتہ ہفتے اپنی تقریر میں بش نے کہا تھاکہ ’’مشن کو مکمل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ عراقیوںکو ایک آزاد قوم بننے میں مدد کی جائے جو خود اپنی حکومت سنبھالنے کی اہل ہو، اپنے آپ کو باقی رکھ سکے اور خود اپنا دفاع کرسکے۔‘‘ خودمختاری حوالے کئے جانے کے ایک سال بعد ان میں سے کوئی بھی شرائط پوری ہوتی نظر نہیں آتیں۔ حکومت بہتر بجلی سپلائی کا وعدہ کرتی رہی ہے، لیکن اسے پورا کرنے میں ناکام ہے۔ یہ جنگجوئوں کو الزام دیتی ہے کہ وہ پانی کی پائپ لائن اڑا دیتے ہیں، لیکن پائپ لائن کی مرمت کے حوالے سے وہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتی ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے باغیوں کے خلاف کارروائی میں کامیابی حاصل کی ہے۔ لیکن بغداد کے قلب میں حملہ کرنے کی صلاحیت باغیوں کی جوں کی توں ہے اور اس میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ امید کی جو فضا 30 جنوری کے انتخابات کے بعد پیدا ہوئی تھی، عرصہ ہوا کہ معدوم ہوچکی ہے۔ حامد نامی ایک عراقی جو ٹائم کا سیکورٹی کوآرڈینیٹر ہے کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس تیل ہے، لیکن گیس نہیں ہے،ہمارے پاس دریا ہے لیکن پانی نہیں ہے، ہمارے پاس بندوقیں ہیں، لیکن تحفظ نہیں ہے۔ اس کا سارا نقصان عراقی شہریوں کو پہنچ رہا ہے۔ تلخی کا احساس بھی روز افزوں ہے۔ لوگ مصائب جھیلنے کی صورت میں برداشت و تلافی کی غیرمعمولی صلاحیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ مثلاً حامد شادی کے گانے گانے والوںمیں سے ہوا کرتا تھا اور امید کرتاہے کہ وہ ایک روز کنڈرگارٹن میوزک ٹیچر ہوجائے گا۔ مہینوں ہوا جبکہ ہم نے اس سے گانا سنا تھا۔ وہ عراقی جو غیرملکی کمپنیوں بالخصوص امریکی کمپنیوں میں کام کرتے ہیں، دوہرے خطرے سے دوچارہیں۔ دہشت گرد گروپ انہیں غدار اورکافر قرار دیتے ہیں، جبکہ اغواء کرنے والے گینگ انہیں بہترین شکار تصور کرتے ہیں۔ ایک سال پہلے ہم نے اس مضمون میں اپنے بغداد اسٹاف ممبرزکی تصویر لگائی تھی اور ہم نے ان کے اصل نام بھی آپ کو بتائے تھے۔ اب ہم ان دونوں چیزوںمیں سے کوئی بھی چیز نہیں دہرا سکتے۔ اس خوف سے کہ ان کو اور ان کی فیملی کو نقصان پہنچ سکتاہے۔ شاید عراقیوں کی ذہنی صورتحال کی بہترین عکاس وہ چیزیں ہیں جنہیں وہ ٹی وی پر دیکھتے ہیں۔ ایک سال قبل جب ٹائم کے عراقی اسٹاف ممبرز آفس ٹی وی سیٹ کے گرد وقفہ کے لیے جمع ہوئے تھے تو انہوں نے لبنانی میوزک ویڈیو اور مصری کامیڈیز دیکھنے کا ارادہ کیا۔ان دنوں اب وہ تقریباً ہمیشہ خبریں دیکھتے ہیں۔ عام طور سے ایک مخصوص عراقی چینل پر جو عراق میں تباہی اور ہلاکتوںکی تصویریں دکھاتاہے۔ لہٰذا موڈ اتنا خراب ہے کہ دل بہلانے والے تفریحی پروگرامات بھی کوئی عافیت فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ میرا ایک عراقی ہمکار راشد کہتا ہے کہ’’خبریں ہماری زندگی ہیں اور زندگی ہمارے لئے خبر ہے۔‘‘ بش انتظامیہ کے لئے سنجیدہ حقیقت یہ ہے کہ عراقیوں کو یہ یقین دلانا مشکل تر ہوتا جارہا ہے کہ ان میں کوئی ایک بھی چیز بہترہونے جارہی ہے۔
(بشکریہ: امریکی ہفت روزہ میگزین ’’ٹائم‘‘۔ شمارہ۔ ۱۱ جولائی ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply