
پہلی عالمی جنگ سے ذرا پہلے جونہی تیل کو تزویراتی (اسٹراٹیجک) جنس (Commodity) کی حیثیت ملی‘ جغرافیائی و سیاسی (جیوپولیٹیکل) کھیل کا آغاز ہو گیا‘ جو اَب تک مسلسل جاری ہے۔ کبھی اس پر مغربی اقوام چھائی ہوئی تھیں لیکن اَب اس میں کئی غیرمغربی ممالک بھی شامل ہو گئے ہیں۔ وہ ملک جن کا انحصار تیل کی درآمد پر ہے‘ اُن کی گھبراہٹ ان ممالک کی ناراضی مول لینے کے سلسلے میں بڑھ رہی ہے جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں۔ میں اس وقت جس نقطے پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہوں‘ وہ یہ ہے کہ امریکا اور مغربی ممالک ایران کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعہ دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ایران نے ۱۰ جنوری سے یورینیم افروزدہ کرنے سے متعلق تحقیق کا عمل‘ جو پہلے اس نے رضاکارانہ طور پر روک دیا تھا‘ دوبارہ شروع کر دیا ہے جو آئی اے ای اے کے لیے سخت اذیت کا باعث بنا ہے۔
گزشتہ برس ستمبر میں یورپی یونین کی ٹرائیکا EU3) جس میں برطانیہ‘ فرانس اور جرمنی شامل ہیں) نے آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کو قائل کر لیا تھا کہ وہ ایران کے بارے میں اعلان کرے۔ وہ ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدے (این پی ٹی) جس پر وہ دستخط بھی کر چکا ہے‘ کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود یورپی یونین کے مذکورہ ٹرائیکا (EU3) نے اس فیصلے کے نتیجے میں اگلا منطقی قدم نہ اٹھایا‘ جس کے تحت تہران کا یہ معاملہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے سپرد کیا جانا تھا۔
امریکا کی پشت پناہی سے یورپی ٹرائیکا نے گزشتہ برس نومبر میں آئی اے ای اے کے بورڈ کے اجلاس میں ایک متفقہ قرارداد منظور کرا لی جس میں ایران اور EU3 کے مابین وہ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر زور دیا گیا جو EU3 نے چار ماہ قبل اچانک ختم کر دیے تھے۔ اب یہ مذاکرات رواں ماہ کے آخر میں ہوں گے جن کے لیے فریقین نے کوئی پیشگی شرائط نہیں رکھیں۔
اسلامی جمہوریہ (ایران) کے لیے مغربی ممالک کے دارالحکومتوں کا نرم رویہ کس چیز کو واضح کرتا ہے؟ مغربی رہنمائوں کو اس بات کا احساس ہے کہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے پابندیاں ہی ایران کو این پی ٹی معاہدے کی خلاف ورزیاں کرنے پر سزا دینے کا واحد موثر طریقہ ہے لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس اقدام سے لازمی طور پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا جس سے مغربی ممالک کی معیشتیں بری طرح متاثر ہوں گی۔ اس معاملے کے ضمنی پہلو یہ بھی ہیں کہ ایک تو آئی اے ای اے کے ۳۵ رکنی طاقتور بورڈ کی قابلِ گردش رکنیت (Rotating membership) میں تبدیلی آتی رہتی ہے اور دوسرے اس معاملے پر بھارت کا موقف مغرب سے مختلف ہے۔ ستمبر میں EU3 اور امریکا کی قرارداد پر مغرب کے جن تین حامی ممالک نے ووٹ دیے تھے‘ اب ان کی جگہ بیلارس‘ کیوبا اور شام نے لے لی ہے اور یہ تینوں ممالک مغرب مخالف ہیں۔
بھارت نے ستمبر میں EU3 کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا جس سے قرارداد کی موافقت میں ووٹوں کی تعداد ۲۲ ہو گئی تھی۔ اب توقع کی جارہی ہے کہ اگر ایران کے خلاف کوئی نئی قرارداد پیش ہوئی تو وہ اس میں حصہ نہیں لے گا جس سے مغرب کے حامیوں کے ووٹوں کی تعداد صرف ۱۸ رہ جائے گی۔
نئی دہلی کے رویے میں یہ تبدیلی اس مجوزہ منصوبے کی وجہ سے آئی ہے جس کے تحت ایران آئندہ پچیس برس میں بھارت کو ۲۲ ارب ڈالر مالیت کی قدرتی گیس فراہم کرے گا۔ آج اور ۲۰۲۵ء تک کے درمیانی عرصہ کے دوران تیزی سے صنعت کے فروغ کی جانب گامزن بھارت کی ہائیڈرو کاربن درآمد کرنے کی ضروریات ۷۶ فیصد سے بڑھ کر ۸۵ فیصد ہو جائیں گی۔ یہ اس امر کی صرف تازہ ترین مثال ہے کہ دنیا بھر میں ترقی پذیر ممالک کی طرف سے پیٹرولیم کی مانگ کس طرح عالمی سطح پر جغرافیائی و سیاسی (جیو پولیٹیکل) صورتحال کو تیل پیدا کرنے والے ممالک کے حق میں تبدیل کر رہی ہے۔
بھارت کے ساتھ صنعتی ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے ترقی کرنے والا ملک چین بھی اس جیوپولیٹیکل دوڑ میں شامل ہو گیا ہے۔ گزشتہ سال چین کی سرکاری آئل کمپنیوں نے ایران کے ساتھ ۲۰ ارب ڈالر مالیت کے ۲۵ سالہ معاہدوں پر دستخط کیے جن کے تحت ان کمپنیوں نے ایرانی تیل کے ذخائر کو ترقی دینے کے حقوق حاصل کر لیے ہیں اور یہ بھی طے پایا ہے کہ ان منصوبوں کی کامیابی کی صورت میں تیل کی پیداوار میں جو اضافہ ہو گا‘ وہ چینی کمپنیاں ہی خریدیں گی۔
آئل ڈپلومیسی کی ایک دوسری حالیہ مثال اس وقت منظرِ عام پر آئی جب نومبر میں ارجنٹائن کے شہر مارڈل پلاٹا میں ۳۴ طاقتور امریکی ریاستوں کی تنظیم کا سربراہی اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں دنیا کے طاقتور ترین شخص امریکی صدر جارج بش جو اسپینی زبان (Spanish) بھی بول سکتے ہیں‘ دیگر رہنمائوں کے ساتھ دوستانہ ماحول میں بات چیت نہ کر سکے اور انہیں یہ میدان اپنے حریف ہوگر شاویز (وینزویلا کے صدر) کے لیے کھلا چھوڑنا پڑا۔ اس اجلاس کے اندر اور باہر وہی سب کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔
شاویز کی اس مقبولیت میں اس چیز کا بھی بہت دخل تھا کہ وینزویلا کی ایک سرکاری کمپنی نے گزشتہ سال جون میں بحر اوقیانوس اور وسطی امریکا کے ۱۳ ممالک کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کیے تھے جن میں ایک اسکیم کو حتمی شکل دی گئی جس کے تحت ان معاہدوں پر دستخط کرنے والے ممالک کو اکتوبر ۲۰۰۰ء کے بعد ۱۵ برسوں تک وینزویلا سے خریدے جانے والے تیل پر صرف ۲ فیصد سود دینا پڑے گا جو موجودہ شرح سے ایک تہائی کم ہے۔ اس اسکیم کی بدولت معاہدوں میں شامل ممالک کو اس وقت بھی ۴۰ ڈالر فی بیرل کے حساب سے تیل دستیاب ہوا‘ جب عالمی منڈی میں اس کی قیمت ۷۰ ڈالر فی بیرل تھی۔
وینزویلا ۱۹۲۰ء سے تیل پیدا کر رہا ہے اور وہ ان چار ممالک میں سے ایک ہے جو امریکا کو سب سے زیادہ خام تیل فراہم کرتے ہیں اور اس کا شمار دنیا میں متوسط آمدنی والے ممالک میں ہوتا ہے۔ اس کھیل میں شامل ہونے والے نئے ممالک بھی ایسی جیو پولیٹیکل طاقت حاصل کر سکتے ہیں جس کا صرف ایک عشرہ قبل وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اس کھیل میں شامل ہونے والا ایک ملک سوڈان بھی ہے جس کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔
خرطوم کو یہ حیثیت چین کی وجہ سے ملی جو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ان مستقل ارکان میں سے ایک ہے‘ جنہیں ویٹو پاور حاصل ہے۔ چین کی ایک کمپنی چائنا نیشنل پیٹرولیم کارپوریشن نے ۱۹۹۵ء میں سوڈان کے ساتھ تیل کی تلاش کا معاہدہ کیا تھا۔ اس کے دو سال بعد واشنگٹن نے سوڈان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا جو دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اس فیصلے کے نتیجے میں امریکی کمپنیوں کو سوڈان سے واپس جانا پڑا۔ چین نے کوئی وقت ضائع کیے بغیر اس خلا کو پُر کر لیا۔
۲۰۰۰ء میں سوڈان نے مذکورہ چینی کمپنی کومیلو بیسن کے علاقے میں ایک ٹھیکہ دیا جہاں تیل کا ایک بڑا ذخیرہ دریافت ہو گیا۔ چین نے اس علاقے میں آئل فیلڈ کے علاوہ آئل ریفائنریاں تعمیر کر دیں اور پائپ لائنیں بھی بچھا دیں۔ سوڈان جو چینیوں کی آمد سے پہلے تیل درآمد کرنے والا ملک تھا‘ اب تیل برآمد کر کے ۲ ارب ڈالر سالانہ کماتا ہے۔
ستمبر ۲۰۰۴ء میں جب اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں سوڈان کے شورش زدہ مغربی علاقے دارفر میں قتلِ عام پر بحث ہوئی تو امریکا کی خواہش تھی کہ سوڈانی حکومت پر پابندیاں عائد کر دی جائیں لیکن چین نے ایسی کسی قرارداد کو ویٹو کرنے کی دھمکی دی۔ اس کے نتیجے میں سلامتی کونسل نے دارفر کے معاملے پر ایک کمزور قسم کی قرارداد منظور کی۔ ابھی تک ایسا محسوس ہوتا ہے کہ واشنگٹن کے پالیسی سازوں نے مذکورہ پیش رفت کی اہمیت ختم کر دی ہے۔ اس سے بظاہر یہ ممالک مایوسی کے شکار ہیں لیکن وہ مجموعی طور پر ایک ایسے رجحان کی نمائندگی کرتے ہیں جس کی بدولت آئندہ عشروں کے دوران انہیں عالمی سطح پر جیو پولیٹکس میں بالادستی حاصل ہو جائے گی۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ دنیا بھر کے لیڈر اقتصادی ترقی کی رفتار تیز کر کے معیارِ زندگی بہتر کرنے کا عزم رکھتے ہیں جس کا انحصار تیل اور گیس کی صورت میں توانائی کے وسائل پر ہے۔ امریکا بھی انہی ممالک میں سے ایک ہے۔
۱۹۳۲ء ہی سے جب امریکی آئل کمپنیوں نے سعودی عرب کے تیل کے ذرائع سے فائدہ اٹھانا شروع کیا تھا‘ واشنگٹن کی پالیسیوں کی توجہ ہر قیمت پر مشرقِ وسطیٰ کے تیل کی حفاظت پر مرکوز ہو گئی تھی۔ اس صورتحال میں امریکی انتظامیہ دنیا کی ان ابھرتی ہوئی طاقتوں کو ہدف تنقید نہیں بنا سکتی جو انہی خطوط پر چل رہے ہیں جو گزشتہ سات عشروں کے دوران خود امریکا نے متعین کیے تھے۔ کچھ بھی ہو‘ اَب امریکا یکطرفہ طور پر ان ممالک کو سزا دینے کی اہلیت سے محروم ہو گیا ہے جو اپنی اقتصادی ترقی کے لیے وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو امریکا کرتا رہا ہے۔ آخر کار اقتصادی مسابقت کی وہی منطق غالب آئے گی جو تیل اور گیس کی خرید و فروخت پر حاوی رہتی ہے۔ ایسے میں سرمایہ دارانہ اقدار کا علمبردار امریکا ان حالات کی کس طرح مخالفت کر پائے گا؟
(ترجمہ: ملک فیض بخش۔ بشکریہ: ’’ییل گلوبل‘‘ آن لائن)
Leave a Reply