
شام میں تنازع برپا ہونے کے آغاز ہی سے امریکا کے صدر بارک اوباما نے اس تنازع کے لیے دو مختلف پالیسیاں اپنا رکھی ہیں۔ ایک پالیسی کے تحت وہ امریکا کے مفادات کے تحفظ اور طاقت کے استعمال کے حوالے سے منضبط انداز میں سرگرمِ عمل رہے، تو دوسری پالیسی کے تحت انہوں نے بشارالاسد کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے پیش نظر جوابی اقدامات کیے۔ تاہم بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اس طرح کی تفریق برقرار نہیں رکھی جاسکتی۔ امریکی حکومت شام پر حملہ کرنے کے لیے تیاریاں کررہی ہے تو مذکورہ دونوں طرف مختلف نقطۂ نظر اور طریق کار کی باہمی کشمکش بھی جاری ہے۔ ایک طرف تو امریکی عوام اور دنیا کو قائل کیا جارہا ہے کہ فوجی کارروائی ضروری ہے، دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ مشن محدود رکھا گیا تو اس سے دشواریاں پیدا ہوں گی۔
یہ دو سال پہلے کی بات ہے کہ اوباما حکومت نے بڑے زوردار لب و لہجے میں اعلان کیا تھا کہ بشارالاسد کو اقتدار چھوڑنا پڑے گا۔ اسی طرح ایک سال پہلے صدر اوباما نے اعلان کیا تھا کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو انتہائی حد سے تجاوز کیا جانا تصور کیا جائے گا۔ ایسا تھوڑے عرصہ تک تو ممکن ہوتا ہے کہ زبانی کلامی دعوے کیے جائیں مگر عملی اقدامات بہت تھوڑے کیے جائیں۔ بہرحال صدر اوباما کے بیانات سے لوگوں نے توقعات باندھ لی تھیں اور وہی ہوا جیسا کہ میں نے جون میں لکھا تھا۔ ’’امریکی پالیسی کے تضادات و تناقضات ابھر کر سامنے آجائیں گے اور اوباما حکومت سے زیادہ اقدامات کرنے کے مطالبات کیے جائیں گے۔‘‘ اگرچہ حال ہی میں کیا جانے والا کیمیائی ہتھیاروں کا خوفناک حملہ اس کی ایک فوری وجہ ہے لیکن دوسری وجوہ بھی ہیں۔ نتیجتاً ہم آہستہ آہستہ ایک پیچیدہ خانہ جنگی میں ملوث ہونے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
جس طرح ماضی میں صدر اوباما کی لفاظی امریکا کو اس کشمکش میں مزید الجھاتی رہی ہے، بالکل اسی طرح کانگریس سے فوجی کارروائی کی منظوری لینے کی ان کی حالیہ کوششیں، مشن میں تاخیر کا باعث بن گئی ہیں۔ انہوں نے ایوان کے رہنمائوں کے ساتھ ایک اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ ایسا ’’محدود حملہ‘‘ کروانا چاہتے ہیں جس سے ’’ایک واضح پیغام بھیجا جائے گا۔‘‘ ٹھیک اسی روز ان کے وزیر خارجہ کو سینیٹ کے جارحیت پسندانہ مزاج کے حامل ارکانِ خارجہ تعلقات کمیٹی کو یقین دہانی کرانا پڑی کہ ’’یہ فی نفسہ پیغام بھیجا جانا نہیں ہے‘‘۔ بلکہ انہوں نے کہا کہ حملہ زیادہ بھرپور ہوگا۔ جان مکین جیسے ری پبلکن اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ بھی زیادہ شدید مداخلت کی تفصیلی یقین دہانیاں دے چکے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ حکومت مشن کو ’’محدود‘‘ اور ’’متناسب‘‘ رکھنا چاہتی ہو، جیسا کہ اوباما نے ابتدا میں وعدہ کیا تھا، لیکن یہ وعدہ پورا کرنا مشکل ہوگا۔ کانگریس کے سامنے حکومتی موقف زوردار انداز سے پیش کرتے ہوئے وزیر خارجہ جان کیری اور ان کے رفقا، یاد رہ جانے والے الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ قومی سلامتی، سو سال پرانا بین الاقوامی قانون اور امریکا کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ جان کیری نے کہا، یہ ایک ’’میونخ لمحہ‘‘ یعنی نہایت اہم وقت ہے جیسا کہ دوسری عالمی جنگ کی ابتدا سے قبل ہٹلر کے خلاف اتحادی افواج کو درپیش تھا۔ اگر ایسا ہی ہے تو سوال یہ ہے کہ امریکا کی پالیسی محض سخت انتباہ تک کیسے محدود رہ سکتی ہے؟
اگر اس سخت انتباہ کا کوئی اثر نہ ہوا، اگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری رہیں، مزید کیمیائی حملے کیے گئے تو کیا امریکی حکومت مزید کچھ نہیں کرے گی اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے گی؟ آخر وزیر خارجہ جان کیر ی اس صورتحال کو دوسری عالمی جنگ کے آغاز سے پہلے کی صورتِ حال سے تشبیہ دے چکے ہیں! اس حوالے سے یہ حقیقت یاد دلاتا چلوں کہ ہٹلر دنیا کی سب سے بڑی فوج اور ایک انتہائی دولت مند ملک کا سربراہ تھا۔ وہ پورے یورپ اور شاید پوری دنیا کو فتح کرنا چاہتا تھا۔ اس کے برعکس بشارالاسد دنیا کے ایک غریب ترین ملک کا حکمران ہے اور اپنی حکمرانی قائم رکھنے کی مایوسانہ کوششیں کر رہا ہے۔
اس تمام صورتِ حال میں جو بات سب سے زیادہ غیر واضح ہے، وہ یہ ہے کہ اس فوجی کارروائی کا مقصد کیا ہے؟ اوباما حکومت کہتی ہے کہ وہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف ایک عالمی قا نون کا نفاذ چاہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اس کا مقصد صرف یہی ہے؟ کیا شام میں خانہ جنگی جاری رہے گی؟ کیا بشارالاسد ہی کو بالادستی حاصل رہے گی اور مزید سیکڑوں ہزاروں انسان لقمۂ اجل بن جائیں گے؟ فرق صرف یہ ہوگا کہ انہیں کیمیائی ہتھیاروں سے نہیں مارا جائے گا! کیا ایسی صورت میں اوباما حکومت کہے گی کہ ’’مشن مکمل ہوگیا؟‘‘
حقیقت یہ ہے کہ اب امریکا اپنی ساکھ داؤ پر لگاچکا ہے۔ مائل بہ تشدد صورتِ حال میں اپنی کارروائی محدود رکھنا اس کے لیے نہایت دشوار ہوگا۔ اگر امریکا بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے میں کامیاب ہوگیا تو اسے اس جنگ کے اگلے مرحلے میں بھی الجھنا پڑے گا۔ جنگ کا اگلا مرحلہ یقینی طور پر انتشار اور علویوں کے قتل عام یا نسلی صفائی پر منتج ہوگا۔ یاد رہے بشارالاسد علوی فرقے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عراق کی طرح شام میں بھی دیگر اقلیتوں کا قتل عام کیا جائے۔
اوباما بار بار کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکا کے جس صدر کو اس کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے سب سے زیادہ سراہتے ہیں، وہ جارج ہربرٹ بش ہیں۔ جہاں تک جارج ہربرٹ بش کا تعلق ہے تو ان کا سب سے نمایاں کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے سرد جنگ پُرامن انداز میں ختم کروائی تھی اور کوئی بڑا حادثہ رونما نہیں ہونے دیا تھا لیکن اُن پر اُس وقت سخت تنقید کی گئی تھی، جب انہوں نے آہنی پردہ ٹوٹنے کے زمانے میں مشرقی یورپ کی آزادی کی جدوجہد کی حمایت میں بات کرنے سے انکار کیا تھا۔ بعد ازاں اُنہوں نے واضح کیا تھا کہ وہ ہمیشہ اِس وجہ سے محتاط رہے کہ مشرقی یورپ میں لاکھوں سوویت فوجی ہنوز متعین تھے اور امریکی حمایت کے ردعمل میں جنگ بھی چھڑ سکتی تھی۔ وہ امریکا کے اُن وعدوں کی طرف اشارہ کرنا چاہتے تھے جو وہ نبھا نہیں سکا تھا۔ اُن کا خیال تھا کہ لوگ انہیں جذبات سے عاری یا سرد مہر تصور کرتے تھے۔ بش سینئر کے اپنے نقائص تھے لیکن وہ یہ ضرور سمجھتے تھے کہ خارجہ پالیسی میں الفاظ کے بھی نتائج ہوتے ہیں۔
خدمتِ عامہ کے طور پر ہم یہاں شام سے متعلق تین بنیادی حقائق بیان کر رہے ہیں۔
٭ پہلی بات تو یہ ہے کہ شام ایک قوم کی حیثیت سے زیادہ پرانا نہیں۔ اور یہ کہ اس کی تاریخ جنگ و جدل سے بھری پڑی ہے۔ پہلی جنگِ عظیم سے پہلے تک سلطنتِ عثمانیہ تقریباً پورے مشرقِ وسطیٰ کے ساتھ ساتھ یورپ اور شمالی افریقا کے چند حصوں پر بھی بالادستی قائم کیے ہوئے تھی۔ ان تمام خطوں پر ترکوں نے کم و بیش ۶۰۰ سال حکومت کی۔ پہلی جنگِ عظیم کے نتیجے میں جب سلطنتِ عثمانیہ شکست و ریخت کے گڑھے میں گِری، تب اُس کے زیرِ نگیں علاقوں کے بھی حصے بخرے ہوئے۔ فرانس اور برطانیہ نے سلطنتِ عثمانیہ کے خاصے بڑے حصوں کو اپنی سہولت کے مطابق کاٹ چھانٹ کر الگ کرلیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد شام نے فرانسیسی تسلط سے آزادی پائی۔ چند ناکام حکومتیں آئیں۔ خود کو مستحکم کرنے کے لیے شام نے ایک منفرد تجربہ کیا اور مصر کے ساتھ مل کر ’’متحدہ عرب جمہوریہ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ یہ تجربہ ناکام رہا اور تین سال بعد شام نے مصر کا ساتھ چھوڑ دیا۔ ۱۹۶۳ء میں بعث پارٹی نے فوجی بغاوت برپا کی جو موجودہ شام کے معرضِ وجود میں آنے کا ذریعہ بنی۔
٭ نئی سرحدیں مقرر کی گئیں۔ مگر اس معاملے میں شام انوکھا نہیں۔ دنیا بھر میں یہی ہوتا آیا ہے۔ افریقا کا سوچیے، جسے نوآبادیاتی قوتوں نے درجنوں ایسی ریاستوں میں تقسیم کردیا جن کا پہلے کوئی وجود نہ تھا۔ شام کے معاملے میں دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ اس کی سرحدوں میں ایسی کئی نسلیں اور فرقے آباد ہیں جنہوں نے کبھی خود کو ایک قوم کے روپ میں دیکھا نہ سوچا۔ شیعہ سُنّی تقسیم ہی کو ذہن نشین رکھیے۔ ولی نصر نے اپنی کتاب ’’دی شیعہ ریوائول‘‘ میں ایک نقشہ پیش کیا ہے۔ سُنّی اکثریت والے علاقوں کی نشاندہی سفید رنگ سے کی گئی ہے اور شیعہ اکثریت والے علاقوں کی نشاندہی سُرمئی رنگ سے کی گئی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ سامنے آتی ہے کہ شام پر شیعوں کا انتہائی کم آبادی والا فرقہ ’’علویہ‘‘ حکومت کر رہا ہے۔
٭ تیسری حقیقت یہ ہے کہ شام اِس خطے میں اقلیتوں کی حکومت والی تین ریاستوں میں آخری ہے۔ پہلے نمبر پر لبنان تھا، جہاں عیسائی اقلیت نے حکومت کی۔ دوسرے نمبر پر عراق تھا، جہاں سُنّی اقلیت نے شیعہ اکثریت پر حکومت کی اور تیسرے نمبر پر شام ہے، جہاں خاصی کم آبادی والا شیعہ فرقہ ’’علوی‘‘ حکومت کر رہا ہے۔ نوآبادیاتی طاقتوں کا یہی ’’طریقِ واردات‘‘ تھا۔ وہ ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی راہ پر گامزن رہتی تھیں۔ شام میں علویوں کو اس لیے حکومت دی گئی کہ وہ اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے دوسری اقلیتوں اور بڑی طاقتوں کے محتاج ہی رہیں گے۔ شام میں دیگر اقلیتیں بھی علویوں کا ساتھ دیتی آئی ہیں۔ اُنہیں یہ خوف لاحق رہا ہے کہ کبھی سُنّی اکثریت اقتدار میں آگئی تو پتا نہیں کیا حشر کرے!
شام میں سُنّی اکثریت میں ہیں مگر عیسائی، کرد اور چند دوسرے اقلیتی فرقے موجود ہیں، جو اپنی نفسیاتی ضرورت کے تحت علویوں کے اتحادی رہے ہیں۔ ۱۹۷۰ء اور ۱۹۸۰ء کے عشروں میں ہم نے مشرقِ وسطیٰ میں بہت سی بغاوتیں دیکھی ہیں۔ لبنان میں عیسائی اقلیت کو حکومت دی گئی تو ان کے خلاف لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور وہاں پندرہ سال تک خانہ جنگی ہوئی۔ عراق میں امریکا نے صدام کو ہٹایا اور سُنّیوں کے اقتدار کا ڈھانچا تباہ کیا، مگر اس کے بعد بھی وہاں امن قائم نہ ہوسکا۔ اب بھی خانہ جنگی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ یاد رکھیے کہ شام کے بعد عراق آج بھی دُنیا کا سب سے پُرتشدد ملک ہے۔ شام میں بھی وہی کچھ ہوتا دکھائی دے رہا ہے جو لبنان اور عراق میں ہوا۔ علویوں کا اقتدار ختم ہوگا تو وہ دیگر اقلیتوں کے ساتھ مل کر سُنّی اکثریت کے خلاف کھڑے ہوجائیں گے۔ اگر امریکا نے محدود پیمانے پر کوئی آپریشن کیا بھی تو اُس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔
(“On Syria, Words have Consequences”. “Time.com”. Sep. 4, 2013… & “Why America can’t Shape Syria?”.”CNN.com” Sep. 14, 2013)
Leave a Reply