بنگلا دیش کی سپریم کورٹ نے بدعنوانی کے مقدمے میں سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کی درخواستیں مسترد کر دیں۔ اس فیصلے سے سابق وزیراعظم کے خلاف عدالتی کارروائی میں حائل رکاوٹ دور ہوگئی ہے۔ استغاثہ نے الزام لگایا ہے کہ خالدہ ضیا نے اپنے مرحوم شوہر اور سابق صدر ضیاالرحمن کے نام پر قائم فلاحی اداروں کے بینک اکاونٹس میں ہیرپھیر کی۔ الزامات ثابت ہوئے توملک کی دوسری طاقتور خاتون کو زندگی کے بقیہ ایام جیل کی سلاخوں کے پیچھے کاٹنے پڑیں گے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے بنگلا دیش کی وزیراعظم اور طاقتور خاتون شیخ حسینہ واجد کی قوت میں مزید اضافہ کیا ہے۔ یہ سیاسی برتری مسلسل دوسری بار وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے والی شیخ حسینہ واجد کو انتخابات کے محض آٹھ ماہ میں حاصل ہوئی۔ انتخابات سے پہلے شیخ حسینہ واجد نے خالدہ ضیا کو گھر میں نظر بند رکھا اور بی این پی کی اتحادی پارٹی، جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی تھی۔ احتجاجاً خالدہ ضیا کی بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی اور ان کی حلیف جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ انتخابی عمل میں اپوزیشن جماعتوں کی عدم موجودگی نے عوامی لیگ کے لیے کامیابی نہایت آسان بنا دی۔
شیخ حسینہ واجد کا دوسرا دورِ حکومت ابتدا میں غیریقینی کیفیت کا شکار رہا۔ اس دوران نئے انتخابات کے مطالبے نے بھی زور پکڑا۔ پھر شیخ حسینہ کی حکومت نے اپنا کام دکھایا۔ کچھ بہی خواہ شیخ حسینہ کے دورِ حکومت کو جائز قرار دینے کے لیے یہ جواز ڈھونڈ کر لاتے ہیں کہ اس عرصے میں ملکی معیشت نے ترقی کی۔ ۲۰۰۹ء کے بعد غربت میں تیزی سے کمی آئی۔ خالدہ ضیا کی حکومت کے خاتمے پر ۲۰۰۶ء کے مقابلے میں معیشت کا حجم اب دوگنا ہے۔
بنگلا دیش کی فوج نے مالی بدعنوانیوں اور دیگر الزامات لگا کر بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت کا تختہ الٹا لیکن جلد اسے احساس ہو گیا کہ حکومت کرنا ان کی توقعات سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ یہی سوچ کر فوج نے خود کو سیاست سے دور رکھنے کی کوشش کی۔ اس وقت بنگلادیشی فوج اقوام متحدہ کے امن مشن میں حصہ لے کر پچاس کروڑ ڈالر سالانہ کما رہی ہے۔ دفاعی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور اب فوج کے منافع بخش کاروبار میں ایک لگژری ہوٹل اور مویشیوں کے ایک فارم ہاؤس کا بھی اضافہ ہوا ہے۔
اس دوران شیخ حسینہ کی حکومت نے عدلیہ کو اپنی مٹھی میں لینے کی کوششیں جاری رکھیں۔ میڈیا پر موجود ناقدین کو خاموش کرانے اور آئین کی عمل داری میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ پارلیمنٹ میں عوامی لیگ کو دو تہائی اکثریت حاصل ہے، ان کی حلیف جماعت اور فوجی آمر محمد ارشاد کی جاتیا پارٹی فرماں بردار اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس صورت حال میں ۱۷؍ستمبر کو پارلیمان سے منظور کرائی گئی آئینی ترمیم کے تحت، جج برطرف کرنے کا اختیار پارلیمان کو مل گیا ہے۔
ایسے میں بی این پی کے پاس سوائے اگلے عام انتخابات کا انتظار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، جو ۲۰۱۹ء سے پہلے نظر نہیں آرہے۔ یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ حسینہ واجد کی عوامی لیگ کو اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا سامنا ہے۔ اگرچہ بنگلادیش کی معیشت سست روی کا شکار ہے، بینکاری کے شعبے کی حالت خراب ہے، امن و امان کا مسئلہ الگ ہے، لیکن عوامی لیگ مکمل تباہی کی طرف بڑھتی نظر نہیں آرہی۔
بعض معاملات میں حکومت نے ہوشیاری سے بھی کام لیا ہے۔ حسینہ واجد کی حکومت نے پاکستان سے علیحدگی کے دوران جنگی جرائم کی سماعت کرنے والے متنازع ٹریبونل کے فیصلوں کو غیرضروری طول دیا۔ سزا پانے والوں میں بیشتر کا تعلق جماعتِ اسلامی سے ہے۔ بنگلادیش کی سپریم کورٹ نے ۱۷؍ستمبر کو نظرثانی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے جماعت اسلامی کے رہنما دلاور حسین سعیدی کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا۔ متنازع ٹریبونل نے دلاور سعیدی کو جنگی جرائم کے الزام میں گزشتہ برس سزائے موت سنائی تھی جس کے بعد ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔ لیکن سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے مطابق سزا میں کمی کے ساتھ ساتھ جنگی جرائم کے مقدموں کی سماعت بھی معطل ہوگئی، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ سیاسی حربے کے طور پر اس ٹریبونل کا مزید استعمال ممکن نہیں رہا۔
رائے عامہ کے حالیہ سروے بتارہے ہیں کہ انتخابات سے پہلے کے مقابلے میں عوامی لیگ حکومت کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی نے اس سروے کو جعلی قرار دیا اور واضح کیا کہ گزشتہ برس مقامی حکومتوں کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے باوجود ان کی جماعت نے عوامی لیگ کو شکست دی تھی۔ شاید رائے عامہ پر مشتمل حالیہ سروے کسی طور درست بھی ہو۔ حکومت پر تنقید ہی کیوں کی جائے، جب کہ متبادل کے طور پر اپوزیشن موجود ہی نہیں؟
فی الوقت یہ غیرواضح ہی رہے گا کہ بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی کیسے سیاسی منظرنامے پر دوبارہ ابھرتی ہے۔ پارلیمان سے باہر بی این پی کے سیاست دانوں کو اپنے تحفظ کے لیے اُن بدمعاشوں پر انحصار کرنا ہوگا جو کبھی ریاست کی جانب سے فراہم کیے گئے تھے۔ خالدہ ضیا ان مشیروں میں گِھری ہوئی ہیں جو کبھی ان کے شوہر ضیاالرحمن کے قریبی ساتھی تھے۔ وہ اس بات پر مُصر ہیں کہ عام انتخابات کا بائیکاٹ درست اقدام تھا۔ خالدہ ضیا کہتی ہیں کہ پارٹی میں اصلاحات کا عمل جاری ہے اور لندن میں جلاوطنی کاٹنے والے ان کے بیٹے طارق الرحمن جلد سیاست میں دوبارہ سرگرم ہوں گے۔ خالدہ ضیا نے یہ بھی واضح کردیا کہ وہ حسینہ واجد کی طرح بدلہ لینے میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ طارق الرحمن کی واپسی سے اگرچہ بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی میں نوجوان خون شامل ہوگا، ملکی سطح پر پارٹی تقسیم اور عالمی منظرنامے پر تنہائی کا شکار ہوگی۔ وکی لیکس کے انکشافات میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ ۲۰۰۸ء میں امریکی سفارت کاروں کی نظر میں بنگلادیش میں جو کچھ خرابی ہے، اُس کاذمہ دار طارق الرحمن اور ساتھیوں کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب طارق الرحمن کے حامی کہتے ہیں کہ الزام لگانے والوں نے ہی اصل میں اپنے تعلقات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر بدعنوانی کی۔
بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ خالدہ ضیا اور ان کے بیٹے پر یہ الزام بھی لگا کہ انہوں نے شدت پسند گروہوں کی کارروائیوں سے چشم پوشی کی۔ ایسے میں کوئی بھی ملک خالدہ ضیا کی واپسی کی خواہش رکھنے کے بجائے شیخ حسینہ واجد کے ساتھ معاملات پر مطمئن ہے۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے کانگریس اور عوامی لیگ کے قریبی تعلقات کو کبھی پسند نہیں کیا۔ اب وہ بھی بنگلادیش کے ساتھ مستحکم تعلقات چاہتے ہیں، تجارتی روابط میں مزید بہتری اور اسلامی فکر رکھنے والوں کے خلاف مشترکہ محاذ بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ بنگلادیش کی بندرگاہ تک رسائی کے لیے چین نے بھی بھرپور امداد کی پیشکش کر رکھی ہے۔ جاپان نے قرضوں کی مد میں چھ ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔
روس اور بنگلادیش دو ایٹمی پاور پلانٹس کی تعمیر کے منصوبے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ باوجود یہ کہ ایٹمی پاور پلانٹس کی تکمیل پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ کئی ملکوں نے بنگلادیش کے بانی صدر شیخ مجیب الرحمن کے نام سے منسوب مصنوعی خلائی سیارہ زمین کے مدار میں پہنچانے کے لیے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔
دوسرے لفظوں میں، دھاندلیوں سے بھرپور انتخابات کے باوجود حالات شیخ حسینہ واجد کے حق میں جارہے ہیں۔ مؤثرکُن حزب اختلاف کے بغیر ان پر دباؤ بہت کم ہے۔ پھر بھی وزیراعظم اگریہ سمجھ رہی ہیں کہ ۲۰۱۹ء میں مسلسل تیسری بار وزیراعظم بننا ان کے لیے مشکل ہے تو وہ قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر سکتی ہیں تاکہ ان کے اقتدار کو مزید دوام مل سکے۔
بنگلا دیش میں کبھی ختم نہ ہونے والی یہ جنگ بظاہر ایک طاقتور خاتون جیت رہی ہیں۔
(مترجم: سیف اﷲ خان)
“One and only one”.
(“The Economist”. Sep. 20, 2014)
Leave a Reply