ایک آدمی کی فوج
زیادہ تر لوگ انہیں بادشاہ گر (Kingmaker) کہتے ہیں۔ ایک متشدد اور جنگجو رہنما مقتدیٰ صدر سبھی کچھ ہو سکتے ہیں لیکن جو چیز واضح ہے وہ یہ کہ مقتدیٰ صدر گزشتہ ۳ برسوں میں عراق میں ایک بہت ہی طاقتور سیاسی قوت کے طور پر ابھرے ہیں۔ ابراہیم جعفری کی بطور وزیراعظم نامزدگی میں ان کا اہم کردار رہا ہے اور پھر اس کے بعد ساڑھے چار ماہ تک جاری رہنے والے سیاسی تعطل میں بھی۔ اپنی مہدی ملیشیا کے ارکان کو جن پر حالیہ دنوں میں بدترین فرقہ وارانہ قتل کا الزام ہے‘ عراقی پولیس اور فوج میں شامل کر دینا نئی حکومت کے لیے کلیدی چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ گزشتہ ہفتے ’’نیوزویک‘‘ کے تحریری سوالات جو اقتدار تک ان کی حیرت انگیز اور پریشان کن رسائی سے متعلق تھے‘ کا مقتدیٰ صدر نے جواب دیا ہے جس کا متن درج ذیل ہے:
نیوزویک: ۲۰۰۳ء میں واپس چلتے ہیں جبکہ امریکی حتیٰ کہ بہت ساری عراقی پارٹیاں آپ کو مسائل پیدا کرنے والے ایک جواں سال کے طور پر متعارف کراتی تھیں لیکن آپ کو کوئی اہم سیاسی قوت نہیں خیال کرتی تھیں۔ ظاہر ہے کہ اس وقت یہ بات کوئی نہیں کہہ سکتا ہے۔
صدر: میرا خیال ہے کہ ابتداء میں میرے اور عراقی علماء کے متعلق انہیں معلومات نہیں تھیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ چیزیں واضح ہوتی گئیں اور اس کے نتیجے میں میرا رجحان ایک طاقتور اور وفادار سیاسی و عسکری قوت کی صورت پر منتج ہوا۔ یہ مقامی اور بین الاقوامی ہر دو سطح پر موثر ہے۔ مجھے امید ہے کہ میری ملیشیا عراق کو تحفظ کی جانب لے جائے گی۔
اس کے ساتھ ہی میں سیاسی پارٹیوں کی جانب بھی اپنا دستِ تعاون پیش کرتا ہوں تاکہ عراق میں امن قائم ہو اور یہ تاریکی کی علمبردار فوجوں کے منحوس سائے سے نجات پائے۔ عراق پر غاصبانہ قبضہ ہی تمام مسائل کا خالق ہے۔ میں خداوند تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ وہ ہمیں مسائل اور مسائل کے خالق دونوں سے نجات دلائے۔
نیوزویک: آپ کے خیال میں عراق کے سیاسی منظرنامے میں وہ کون سی تبدیلی آئی ہے جس کی وجہ سے یہاں آپ کا اور آپ کے پیروکاروں کا رول قدرے اہم ہو گیا ہے۔
صدر: تین مراحل تھے۔ پُرامن احتجاج جو تقاریر اور مظاہروں کی صورت میں تھا‘ عسکری مزاحمت جو پورے عراق میں دو بغاوتوں کی صورت میں ظاہر ہوا‘ سیاسی مزاحمت جو سیاسی مناصب تک رسائی اور امریکی افواج کے انخلاء کے لیے ٹائم ٹیبل کے مطالبے پر منتج ہوا۔
نیوزویک: آپ کو یاد ہو گا کہ ایک زمانے میں امریکا کے فوجی و سیاسی ترجمان نے کہا تھا کہ ان کا مقصد آپ کو قتل کرنا یا گرفتار کرنا ہے‘ اس وقت آپ کا ردِعمل کیا ہے؟
صدر: ان کا مقصد اب بھی یہی ہے۔ ان کی دھمکیاں ہنوز زندہ ہیں۔ مگر میری زندگی اسلام کی خدمت کے مقابلے میں بہت سستی ہے۔ امریکا شیعی مساجد اور مقاماتِ مقدسہ کے خلاف اپنے دانت کھولے بیٹھا ہے۔
نیوزویک: بعض حلقوں میں یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ سنی مزاحمتی شخصیات سے آپ نے کچھ رابطے کیے ہیں۔ کیا سمرہ میں روضۂ عسکریین پر حملے کے بعد بھی آپ کے ان سے تعلقات ہیں؟
صدر: کوئی شیعہ یا سنی مزاحمت نہیں ہے۔ صرف عراقی اسلامی مزاحمت ہے۔ لیکن میں سنیوں سے ’’نیوز ویک‘‘ کے ذریعہ ایک بات تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انہیں معصوم شہریوں پر حملوں سے متعلق موقف متعین کرنا چاہیے۔ سنیوں نے واضح موقف اختیار نہیں کیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ تکفیریوں (ابو مصعب زرقاوی گروپ جو شیعوں کو کافر قرار دیتا ہے) سے متعلق ان کا موقف واضح نہیں ہے۔ تیسری بات یہ کہ شیعوں سے متعلق ان کا موقف واضح ہونا چاہیے۔ کیا ہم مسلمان ہیں یا نہیں؟ ہم اس سے کم پر کسی بات سے مطمئن نہیں ہوں گے۔ چوتھی بات یہ کہ انہیں صدام حسین کی پھانسی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ پانچویں بات یہ کہ فرقہ وارانہ فساد کی وجہ سے جو خاندان نقل مکانی پر مجبور ہوئے‘ ان کی واپسی کے حوالے سے انہیں اپنے موقف کا تعین کرنا چاہیے۔
نیوزویک: آپ نے سمرہ بم دھماکے کا جزوی طور سے ذمہ دار امریکا کو ٹھہرایا ہے۔ کیا آپ اپنے اس خیال کی وضاحت فرمائیں گے؟
صدر: عراق میں محض ایک ناقص خود مختاری ہے جس کا مطلب ہے کہ قابض فوج فیصلہ ساز ہے۔ کسی بھی حملے کی ذمہ داری ان پر ہو گی۔ امریکی سفیر اور امریکی وزیرِ جنگ ڈونالڈ رمز فیلڈ نے یہاں فرقہ وارانہ بحران پیدا کیا ہے۔
نیوزویک: خیال کیا جاتا ہے مہدی آرمی وہ واحد گروہ ہے جس نے اپنی ملیشیا کو حکومتی اداروں میں ضم کرنے کے معاہدے پر دستخط نہیں کیا ہے۔ آپ بتائیں گے کہ کیوں؟
صدر: مہدی آرمی کوئی ملیشیا نہیں ہے۔ آپ اسے نہ ملیشیا کا نام دے سکتے نہ اس حیثیت سے اس کا تعین کر سکتے ہیں۔ میں نے ابھی حال ہی میں ایک بیان جاری کیا ہے جس میں مہدی آرمی کے ارکان کو ثقافتی‘ معاشرتی اور مذہبی امور تک محدود رہنے کی تاکید کی ہے۔ عام طور سے زمانے میں خود یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو معاشرے سے وابستہ کر لے بشرطیکہ وہ اﷲ کا حکم مانتے ہوں۔
نیوزویک: بہت سارے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ مہدی آرمی کے ارکان حالیہ دنوں میں ہونے والے فرقہ وارانہ حملے کے ذمہ دار ہیں۔ دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے صرف اپنے ہمسایوں کا دفاع کیا ہے جنہیں حکومت تحفظ فراہم نہیں کر سکی۔ آپ کیا کہتے ہیں؟
صدر: مہدی آرمی کے لوگ معصوم نہیں ہیں لیکن سخت حالات کے باوجود جس میں کہ وہ رہ رہے ہیں‘ اپنے آپ کو معاشرے سے مربوط کر رہے ہیں۔
نیوزویک: کیا آپ کے خیال میں یہ ممکن ہے کہ کچھ لوگوں نے مہدی آرمی کے ارکان کے لباس میں ملبوس ہو کر یا ان کا حلیہ اختیار کر کے فرقہ وارانہ نوعیت کی انتقامی کارروائی میں مشغول رہے ہیں؟
صدر: مہدی آرمی کا کون سا لباس ہے‘ جس کی بنا پر انہیں دوسروں سے مشخص کیا جاسکتا ہو؟ ان کا کوئی مخصوص یونیفارم نہیں ہے۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جو محبت اور ایمان کے اسلحے کی بنیاد پر ایک مرکز پر جمع ہو گئے ہیں۔
نیوزویک: اب آپ سیاسی حکومت کے ایک حصہ ہیں۔ کیا تبدیلی لانے کے حوالے سے آپ کے خیال میں کوئی تبدیلی آئی ہے؟
صدر: ہر عراقی سیاسی عمل کا حصہ ہے۔ ہر ایک عراق کی تعمیر میں اس طریقے سے حصہ لے رہا ہے‘ جسے وہ مناسب خیال کرتا ہے۔ سب سے اہم مسئلہ عراق سے امریکی افواج کی واپسی کے ٹائم ٹیبل کا ہے۔ سیاست انصاف کے حصول کے لیے کام کرتی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ زیرِ تسلط رہتے ہوئے کہیں بھی اور کبھی بھی کوئی انصاف نہیں مل سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی کو بھی استحکام نصیب نہیں ہو گا جب کہ عراق‘ امریکا سمیت دنیا کی تقدیر متعین کرے گا۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ امریکی سپاہیوں کے خاندان اپنے بیٹوں‘ بھائیوں اور مردوں کی پُرامن واپسی کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہاں کہاں انصاف اور امن کی تقسیم ہے؟ اگر کوئی شخص وہاں اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتا ہے تو وہ صرف صدر جارج ڈبلیو بش ہیں لیکن امریکی عوام اپنے صدر کی غیرذمہ دارانہ اور پریشان کن پالیسیوں کے سبب مشکلات سے دوچار ہیں۔
نیوزویک: مخلوط حکومت میں جو آپ کے شریکِ کار ہیں وہ اس اصرار کے سخت خلاف ہیں کہ امریکیوں کو فوراً عراق چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ یہ تباہ کن ہو گا۔
صدر: میں اب بھی اپنے ملک کی آزادی کے حق میں ہوں اور غاصبوں کی واپسی کا خواہاں ہوں۔ ہم اپنے ملک کی تعمیر خود اپنے ہاتھوں سے کرنا چاہتے ہیں۔ میں ٹائم ٹیبل کا مطالبہ کرتا ہوں۔ اگر واپسی کا پروگرام تاخیر سے ہو‘ تب بھی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کے لیے ٹائم ٹیبل کا تعین ممکن نہیں۔ میں نے ۲۰ لاکھ لوگوں سے دستخط لیے ہیں جو امریکی افواج کی واپسی کے حق میں ہیں۔ میں نے قومی اسمبلی کے ۱۳ سے زائد ارکان کے بھی دستخط حاصل کیے ہیں۔
نیوزویک: کیا یہ سچ نہیں ہے کہ امریکی مشیروں کو ان وزارتوں میں داخلے کی اجازت نہیں ہے جو آپ کے زیرِ کنٹرول ہیں؟
صدر: ہاں! یہ ممنوع ہے اور کسی کو بھی ان کے ساتھ معاملہ کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں اﷲ کے حکم کی خلاف ورزی ہو گی اور میں ایسے شخص کے ساتھ تو تعلق نہیں رکھوں گا۔
نیوزویک: کیا آپ مجھے کچھ اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں بتائیں گے؟ کیا آپ شادی شدہ ہیں؟ اگر ہیں تو بچے کتنے ہیں؟
صدر: میں شادی شدہ ہوں۔ میرے کوئی بچے نہیں ہیں۔ میں ۲۵ سال کا تھا جب میرے والد کو قتل کر دیا گیا۔ یہ کام ۱۹۹۹ء میں صدام کے ایجنٹوں نے کیا تھا۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو امریکا عراق میں آنے کے کبھی قابل نہیں ہوتا۔ میرے والد نے ایک بار کہا تھا کہ جب میں مروں گا تو ایک مطمئن ضمیر کے ساتھ مروں گا۔ میری موت سے امریکا اور اسرائیل کو خوشی ہو گی۔
نیوزویک: کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ اسلامی شریعت کو عراقی آئین کا واضح حصہ ہونا چاہیے اور عراق کو بھی ایرانی خطوط پر اسلامی جمہوریہ ہونا چاہیے۔
صدر: ہم ایک اسلامی معاشرے کے خواہشمند ہیں کہ جس میں ہم امن اور اسلام کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔
(بشکریہ: امریکی ہفت روزہ ’’نیوزویک‘‘۔ شمارہ۔ ۸ مئی ۲۰۰۶ء)