
ایک برس قبل چین کے شہر ’’وہان‘‘ میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور چینی صدر ژی جن پنگ کی نہایت دوستانہ ماحول میں بات چیت کرتے ہوئے اور مختلف مواقع کی تصاویر سامنے آئیں۔ ان دونوں رہنماؤں کی پر فضا مقامات اور ایک کشتی پر ساتھ چائے پیتے ہوئے لی گئی تصاویر اس بات کی نشاندہی کر رہی تھیں کہ ایشیا کے ان دو حریف ممالک کے درمیان کشیدگی کے ایک دور کے بعد اب حالات معمول پر آرہے ہیں۔
لیکن ’’ہنی مون‘‘ کا یہ دور بہت جلد اختتام کو پہنچ گیا۔ گزشتہ ماہ چین نے چوتھی مرتبہ اقوام متحدہ میں، پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کا باعث بننے والے گروہ کے سربراہ کا نام ’’بلیک لسٹ‘‘ میں ڈالنے سے روکنے کے لیے اپنا ویٹو کا حق استعمال کیا۔
چین نے دہشت گردی کے خلاف جدوجہد پر اپنے اتحادی پاکستان کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا دوسری طرف کشیدگی کے دوران بھارت نے تعلقات کو بہتر رکھنے کی محتاط کوشش جاری رکھی اور اس کے برعکس امریکا نے اس کشیدگی کے دوران واضح موقف اختیار کیا۔ ان حالات نے بھارت چین تعلقات میں آنے والی بہتری کے عمل کو روک دیا ہے۔ ’’وہان‘‘ کے دورے سے قبل تناوی مدن نے دونوں ممالک کے تعلقات کی نوعیت کے بارے میں کہا تھا کہ ’’پردوں کے پیچھے ہونے والے معاملات مسائل کے حل اور تزویراتی تبدیلی میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں‘‘۔ جموں اور کشمیر میں ہونے والے حملوں کے بعد کے حالات بھی بھارت کو اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ کون مشکل وقت میں اس کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ ایک ایسا پڑوسی، جو مشکل وقت میں اپنے مفادات کو ترجیح دے کر بھارت کے جذبہ خیر سگالی کا مثبت جواب نہ دے سکے، اس سے امید لگا کر تعلقات کو بڑھانے کی کوشش کرنے سے بہتر ہے کہ امریکا، یورپ اور ایشیا میں دیگر مضبوط جمہوری قوتوں کے ساتھ تعلقات کو تیزی سے پروان چڑھایا جائے۔
دونوں ممالک کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی، جس میں ۷۳ روز تک جاری رہنے والا ’’ڈوکلام‘‘ سرحدی تنازع بھی شامل تھا، کے بعد تعلقات میں بہتری کے لیے ضروری تھا کہ ’’وہان‘‘ میں بات چیت سے پہلے کچھ سفارتی کوششیں کی جائیں۔ امریکا سے تعلقات میں خرابی اور تجارتی پابندیوں کے بعد چین کو اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ خطے میں پڑوسی ممالک سے تعلقات میں بہتری لائی جائے تاکہ تجارتی نقصان کو پورا کیا جا سکے۔ اور اگر بھارتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو بھارت ایک ایسے ملک سے دشمنی مول نہیں لے سکتا جو کہ اس کا پڑوسی بھی ہو اور معاشی طور پر اس کے لیے سود مند بھی ثابت ہو سکتا ہو۔ اس کے علاوہ امریکا کی مختصر وقت میں رویے کو بدل دینے کی ریت، جس میں وہ اپنے اتحادی بدلنے میں اور ان کو نظرانداز کرنے میں دیر نہیں لگاتا، اس امریکی تاریخ کو ذہن میں رکھتے ہوئے امریکا پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا اور یہی وجہ ہے کہ بھارت نے چین کے حوالے سے زیادہ صبر سے کام لیا ہے۔ اور آخری اہم بات یہ کہ بھارت انتخابات کے وقت چین کے ساتھ کسی قسم کا ایڈونچر نہیں چاہتا۔
بھارت یہ بات بہت اچھے طریقے سے سمجھتا ہے کہ چین کے ساتھ تعلقات میں بہتری کبھی بھی تزویراتی نہیں بلکہ تکنیکی بنیادوں پر ہوگی۔ اس لیے ایسے مواقع سے فائدہ اٹھا کر مذاکرات کیے جاسکتے ہیں،مشترکہ مفادات پر کام کیا جا سکتا ہے۔ بھارت کے پالیسی سازوں کو تعلقات میں تبدیلی کے لیے آنے والی مشکلات کو کم کرنا ہوگا، طاقت کے توازن پر نظر رکھنی ہوگی، سرحدی تنازعات کے خاتمے کے لیے کام کرنا ہو گا اور اس کے ساتھ چین پاکستان تعلقات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
تاہم بھارت کی چین پالیسی میں آنے والی تبدیلی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔نئی دہلی نے تبت کے معاملے میں محتاط اور مصالحانہ رویہ اختیار کرنا شروع کر دیا ہے۔اس کے علاوہ وہاں کے جلاوطن رہنماؤں سے بھی سرکاری طور پر فاصلہ اختیار کر لیا ہے۔ بھارتی حکومت نے ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ منصوبے کی مخالفت میں بھی کمی کی ہے اور ’’نیو کلیئر سپلائر گروپ‘‘ میں بھارتی شمولیت پر چین کی طرف سے ہونے والی مزاحمت پر بھی خاموشی اختیار کرلی ہے۔ حال ہی میں چین کی طرف سے ’’مسعود اظہر‘‘ کے معاملے پر قرارداد ویٹو کیے جانے پر بھی بھارت نے کوئی سرکاری موقف نہیں دیا۔
بھارت کے متوازن موقف کا زیادہ اندازہ عالمی فورمز پرہونے والے فیصلوں سے لگایا جا سکتا ہے، جہاں وہ اپنے قدرتی اتحادیوں کی موجودگی میں بھی ایسے کسی اقدام کی حمایت نہیں کرتا جو چین کے خلاف جا رہا ہو۔
کچھ عرصے پہلے ٹرمپ انتظامیہ نے ’’انڈو پیسیفک‘‘ ریجن کے لیے ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ پروجیکٹ کے متبادل کے طور پر اعلیٰ معیار کے انفراسٹرکچر کے منصوبوں کی پیشکش کی لیکن یہاں بھی بھارت نے ان منصوبوں سے باہر رہنے کا فیصلہ کیا۔
اسی طرح نومبر میں ہونے والے G-20اجلاس میں مودی اپنے’’گلیمر‘‘کی وجہ سے مغربی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے اوراس اجلاس کی سب سے اہم بات صدر ٹرمپ، جاپانی وزیراعظم اور بھارتی وزیراعظم کے درمیان ہونے والی ملاقات تھی، لیکن مودی نے اس ملاقات کے علاوہ چینی صدر ژی، روسی صدر ولادی میر پوٹن سے سہ فریقی ملاقات کر کے سب کو حیران کر دیا۔
حال ہی میں اخبارات میں آنے والی اطلاعات کے مطابق بھارتی حکومت 5-Gٹیکنالوجی متعارف کروانے والی چینی کمپنی Huawei پر شدید امریکی اعتراضات کو نظر انداز کرتے ہوئے کمپنی کی جانب سے دی جانے والی کم قیمت کی پیشکش پر غور کر رہی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اس بات پرمائل نہیں ہو سکی کہ Huawei کے آلات اس کے لیے کسی خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ اگرچہ بھارت کو اس بات کا علم ہے کہ Huawei سے ٹیکنالوجی لینے کے بعد امریکا خفیہ معلومات اور فوجی آلات کی فراہمی بھی محدود کر سکتا ہے۔
بھارت کے چین کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی حکمت عملی کو مختلف زاویہ سے دیکھنا چاہیے۔ خطے میں دیگر ممالک کی طرح وہ امریکا سے تعلقات کا مکمل خاتمہ بھی نہیں چاہتا لیکن وہ ایران، روس اور وینزویلا پر امریکی پابندیوں سے بھی خوش نہیں ہے۔ بھارت اور امریکا کے دفاعی تعلقات ابھی بھی جاری ہیں جس کا اندازہ نئے معاہدوں اور مذاکرات سے لگایا جا سکتا ہے۔ٹرمپ انتظامیہ نے سابق صدر کی پالیسی کو برقرار رکھتے ہوئے بھارت کو اپنی ’’انڈو پیسفک‘‘پالیسی کا مرکزی کردار قرار دیا ہے، باوجود اس کے کہ بھارت کے بیجنگ سے تعلقات بڑھ رہے ہیں۔
بھارت جس پیچیدگی سے اپنے پڑوسی ملک سے تعلقات کو نبھانے کی کوشش کر رہا ہے اسے یہ معلوم نہیں کہ چین اس کوشش کا مثبت جواب دے گا یا منفی۔حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں چین نے بھارت کو خطے میں بڑی طاقت بننے سے روکنے کے لیے پاکستان کا بھر پور استعمال کیا۔دوسرے شواہد بھی اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ نئی دہلی کی بیجنگ سے تعلقات بڑھانے کے لیے کی جانے والی کوششیں یکطرفہ دکھائی دیتی ہیں۔
پاکستانی تنظیم جیش محمد کے جموں کشمیر میں ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد حالات تبدیل ہوئے ہیں۔ ایسے موقع پر جب دنیا انتہا پسندوں سے نمٹنے کی کوششوں میں مصروف ہے وہاں چین پاکستان پر عالمی دباؤ کے خاتمے کے لیے کام کر رہا ہے۔گزشتہ ماہ بیجنگ نے اقوام متحدہ میں جیش محمد کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی قرار داد ویٹو کر دی۔ چینی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہمیں کسی بھی فیصلے پر پہنچنے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔
اور اس کے کچھ ہی دن بعد چین پاکستان کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے حوالے سے تزویراتی مذاکرات میں مصروف تھا۔ چین جو کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو پاور رکھنے والی ریاست ہے، نے مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کی قرارداد کو ۲۰۰۹ء، ۲۰۱۶ء، ۲۰۱۷ء اور پھر ۲۰۱۹ء، میں ویٹو کیا۔ ابھی بھی بھارت کے پالیسی ساز اداروں میں موجود چین کے حمایتی اس بات کی امید رکھتے ہیں کہ چین کے ساتھ تعلقات کو بہتری کی طرف لانا چاہیے۔
جب تک کہ انتہا پسندی خود چین کو متاثر نہ کرے، اس وقت تک چین اپنے قریبی اتحادی کو ہر الزام سے بری الذمہ قرار دیتا ہے۔ ۲۰۰۵ء سے اب تک چین پاکستان میں ۵۲ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے (اور یہ اس عرصے کے دوران چین کی جانب سے بھارت میں کی جانے والی سرمایہ کاری سے دگنی ہے)۔ ان دو ممالک نے اب ایک نیا منصوبہ ’’چین پاک اقتصادی راہداری‘‘کے نام سے شروع کیا ہے جو کہ ان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو ایک نئی سطح پر لے جا ئے گا۔بھارت کے لیے سب سے خطرناک نقطہ ’’پاک چین فوجی تعلقات‘‘ ہیں۔ چین شاید مولانا مسعود اظہر والے معاملے پر پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو بھی شرمندگی سے بچانا چاہتا ہے۔
نئی دہلی اس بیانیے کو پروان چڑھا سکتا ہے کہ پاکستانی دہشت گردی سے اس ملک میں ہونے والی چینی سرمایہ کاری کو بھی نقصان پہنچے گا۔ لیکن اس موقف کے بعد بھی ان دونوں ممالک کے تعلقات میں زیادہ تبدیلی کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی گزشتہ ماہ ہونے والی ملاقات کے بعد چینی وزیر خارجہ نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ عالمی حالات میں کوئی بھی تبدیلی رونما ہو جائے لیکن ہمارے آپس کے تعلقات اس سے متاثر نہیں ہوں گے اور ہم ہمیشہ پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی کی مکمل حمایت جاری رکھیں گے۔
چین بھارت باہمی رقابت کا فوجی پہلو بھی اہمیت کا حامل ہے جو کہ منظر عام پر نہیں رہتا۔ اس سال ہونے والے Raisina Dialogue کے موقع پر بھارت کے بحری فوج کے سربراہ نے بیان دیتے ہوئے کہاکہ چینی بحریہ کے ۸ جہاز اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ کسی بھی وقت بحرہند تک پہنچ سکتے ہیں اور اسی طرح انسداد قزاقی کے لیے چینی آبدوزوں کی موجودگی بھی خطرے کی علامت ہے۔
ان سب معاملات میں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ چین جنوبی ایشیا میں اپنا معاشی اثرو رسوخ کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف بھارت بھی چھوٹے پڑوسی ممالک کو اپنے اثرورسوخ میں رکھنا چاہتا ہے۔ چین، نیپال اور بھوٹان پر اپنا دباؤ مستقل برقرار رکھے ہوئے ہے اور وہ اپنی مرضی کی شرائط پر ان سے سرحدی تنازعات کا حل چاہتا ہے۔ تاہم مالدیپ اور سری لنکا میں حال ہی میں ہونے والی سیاسی پیشرفت اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ جنوبی ایشیا کے ممالک چین کی معاشی پالیسیوں سے تنگ آرہے ہیں۔ ایسے حالات میں بھارت کوشش کر رہا ہے ان ممالک کو انفراسٹرکچر اور معاشی معاملات میں بہتر متبادل فراہم کرے۔
بھارت کے اس اچھے اور مفاہمتی سلوک کے باوجود چند تجارتی سہولیات اور اچھے بیانات کے علاوہ چین کچھ نہیں کر رہا بلکہ اس کے برعکس وہ خطے میں اور عالمی فورمز میں بھارتی عزائم کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ سرحدوں پر،بحر ہند میں اور ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ منصوبے کے حوالے سے چینی مفادات بھارتی مفادات سے مطابقت نہیں رکھتے۔اور چین اس وقت ان مفادات کے حصول کے لیے پہلے سے بہتر پوزیشن میں ہے۔ پچھلی چار دہائیوں میں چین نے جس رفتار سے ترقی کی ہے تو بھارت کو تو اس نے کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔اور اب چین سمندر پار اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے کے لیے کام کر رہا ہے۔
جہاں چین اس خطے میں اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کر رہا ہے وہیں امریکا کی توجہ اس خطہ سے ہٹ رہی ہے، اس لیے نئی دہلی بیجنگ کے ساتھ تعلقات کو بہت محتاط طریقے سے آگے بڑھا رہا ہے۔لیکن یہاں بھارت کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں یہ مفاہمتی پالیسی چین کو بھارتی کمزوری کے اشارے نہ دے رہی ہو۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والی تنظیم کی جانب سے دہشت گردی پر دنیا بھر کے ممالک اور چین کے ردعمل میں ایک واضح فرق دکھائی دیتا ہے۔ ۱۹۹۹ء کے کارگل بحران کے بعد سے امریکا نے اپنا کردار ’’مصالحت کار‘‘ سے تبدیل کیا ہے اور اب وہ بہت کھل کر انتہا پسندی سے متاثرہ ملک کے ساتھ کھڑا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کے بعد سے ہونے والے جتنے بھی حملے ہیں ان پر امریکا نے کھل کر پاکستان سے دہشت گردوں کے خلاف عملی اقدام کا مطالبہ کیا اور اس کے ساتھ ساتھ بھارت کے دفاعی اقدامات کی بھی حمایت کی۔
اس کے علاوہ پورا یورپ اور امریکا مولانا مسعود اظہر والے معاملے میں بھی بھارت کے ساتھ کھڑا تھا، امریکا نے تو پس پردہ بھی چین کو راضی کرنے کوششیں کیں لیکن جب چین نے انکار کیا تو اقوام متحدہ کا فورم استعمال کیا گیا۔ تاہم ان سب معاملات کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بھارت چین کے خلاف کسی اتحاد کا حصہ بن رہا ہے یا وہ چین کے خلاف کسی لابی کا حصہ بن رہا ہے۔
بھارت چاہتا ہے کہ چین پاکستان کے حوالے سے ایک متوازن پالیسی اختیار کرے اور اس دوران بھارتی مفادات کا بھی خیال رکھے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ Wuhan مذاکرات کے بعد بھارت کی مفاہمت پر مبنی پالیسی کا چین نے غلط مطلب لیا ہے اور وہ اسے بھارت کی کمزوری سمجھنے لگا ہے۔ متوازن تعلقات کے لیے بھارت کو چاہیے کہ مختلف مواقع پر اپنے موقف کا کھل کر اظہار کرے اور چین سے دفاعی اور معاشی تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوشش کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے اور چین کے درمیان معاشی اور دفاعی فرق کو بھی کم کرنے کی ضرورت ہے۔
بھارت کے لیے کرنے کے کاموں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ لیکن جو کام زیادہ اہمیت کے حامل ہیں اور فوراً کرنے کے ہیں وہ یہ ہیں کہ ان ہم خیال ممالک سے تعلقات مضبوط کیے جائیں جو بھارت کی ٹیکنالوجی، انفرااسٹرکچر اور معاشی ضروریات کو نہ صرف سمجھ سکیں بلکہ اس سلسلے میں اس کی مدد بھی کر سکیں، جیسا کہ امریکا۔ اسی طرح بھارت کو خطے کی دوسری جمہوریتوں کے ساتھ تعلقات کے علاوہ عالمی پلیٹ فارم پر بھی تعاون کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔
امریکا عالمی معاملات میں بھارت کا سب سے مضبوط شراکت دار ہے، لیکن کبھی کبھی امریکا کا رویہ بہت سے معاملات میں مشکوک ہو جاتا ہے، خاص کر جہاں ’’امریکا فرسٹ‘‘ جیسے معاملات ہوں۔
داخلی معاملات اور امریکا کا غیر متوقع رویہ بھارت کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ مشکل وقت میں بھی امور خارجہ میں اپنی خود مختاری کو برقرار رکھے۔اسی طرح امریکا کو بھی چین کے ساتھ معاملات اس نہج پر نہیں لے کر جانا چاہیے کہ بھارت کو ان میں کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے۔
امریکا بھارت دفاعی تعلقات کی مضبوطی کے بارے میں کسی کو کوئی ابہام نہیں۔لیکن اگر بھارت چین کے ساتھ مصالحت کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتا ہے تو امریکا کی چین مخالف انتظامیہ اس پر اپنے ردعمل کا اظہار بھی کر سکتی ہے۔جس کے نتیجے میں امریکا بھارت کے ساتھ تعاون کو محدود کر سکتا ہے۔
اگر گزشتہ چند ماہ کا تجزیہ کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ چین کی پالیسیاں اس خطے میں امریکا بھارت تعلقات کو مضبوط کرنے میں معاون ثابت ہو رہی ہیں۔ نہ صرف امریکا اور بھارت بلکہ یورپ اور دیگر خطوں میں موجود ان کی اتحادی جمہوریتیں بھی بھارت اور امریکا کے مو قف کے قریب آرہی ہیں۔مولانا اظہر کے معاملے پر چین کے رویہ کی وجہ سے بھارت نے ایک دفعہ پھر ’’بیلٹ اینڈ روڈ فورم‘‘کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے۔
اس ہفتے بھارتی دفتر خارجہ میں ’’انڈو پیسفک ڈویژن‘‘کو پہلی دفعہ فعال کیا گیا ہے۔ بھارت اور اس کے اتحادی جمہوریتوں کو چین کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا انتظار کرنے کے بجائے آپس کے تعلقات کو مضبوط کرنا چاہیے تاکہ وہ خطے میں طاقت کے عدم توازن کو کنٹرول کر سکیں۔اسی طرح بھارت کوچاہیے کہ انتخابات کے بعد چین کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے میں اپنی توانائی صرف کرنے سے بہتر ہے کہ وہ اپنے آپ پر زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرے۔
(ترجمہ و تلخیص: حافظ محمد نوید نون)
“One year on, should India rethink its reset with China?”. (“warontherocks.com”. Apr.17, 2019)
Leave a Reply