
جولائی ۱۹۴۴ء میں جنگ عظیم دوم جب ختم ہونے والی تھی تب اتحادی طاقتوں کے نمائندوں کی ایک کانفرنس نیو ہمپشائر میں کیرول نامی شہر کے قریب واقع بریٹن وڈز کے دل کش ہوٹل ’’ماؤنٹ واشنگٹن‘‘ میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کو سرکاری طور پر جو نام دیا گیا وہ ’’اقوام متحدہ کی زری اور مالیاتی کانفرنس‘‘ تھا، جو آگے چل کر صرف بریٹن وڈز کانفرنس کے نام سے معروف ہوئی۔ اس کانفرنس کا مقصد ایک ایسا خاکہ تیار کرنا تھا، جس کی اساس پر جنگ کے بعد عالمی معیشت کی تشکیل نو کی جائے اور اسے چلایا جائے۔ کانفرنس میں شریک نمائندے عالمی مالیاتی فنڈ اور بینک برائے تعمیر نو و ترقی، جو اَب عالمی بینک کا حصہ ہے، قائم کرنے پر متفق ہوگئے۔ آئی ایم ایف کا مقصد جنگ کے بعد ادائیگیوں کے بین الاقوامی نظام کی تشکیل نو کرنا اور اسے چلانا تھا، جبکہ آئی بی آر ڈی کو یورپی ملکوں کو تباہ شدہ زیریں ڈھانچا دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے قرضے مہیا کرنے تھے۔ تیسرا معاہدہ بھی طے پایا، جو جنرل ایگریمنٹ آن ٹیرفس اینڈ ٹرینڈ (GATT) کے نام سے معروف ہے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں ایک عالمگیر ادارہ تشکیل پانا تھا، جو انٹرنیشنل ٹریڈ آرگنائزیشن (آئی ٹی او) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بہرحال کانفرنس منعقد کروانے والوں کے باہمی اختلافات کے باعث یہ عالمی ادارہ قائم نہ ہوپایا۔ گیٹ (GATT) ایک سیکرٹریٹ کے طور پر کام کرتا رہا اور ۱۹۹۵ء میں اس کی جگہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) تشکیل دی گئی۔ عمومی طورپر بریٹن وڈز کانفرنس اور خصوصی طورپر گیٹ کے پس پردہ کھلی منڈیوں کا تصور کار فرما تھا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ مختلف ملکوں کے درمیان اشیا کی نقل و حمل میں حائل رکاوٹیں ختم کی جائیں۔ ہم پاکستانیوں سمیت عمومی طور پر پوری غیر صنعتی دنیا کے لوگوں کو یہ سوال اٹھانا چاہیے کہ کیا محصولات اور تجارتی تحدیدات میں کمی ہمارے لیے سود مند ہے؟ اس کا مختصر جواب ہے ’’نہیں‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ تجارتی تحدیدات ختم کرکے اور محصولات گھٹاکر ہم نے ابدی صنعتی غلامی کا طوق خود گلے میں ڈال لیا ہے۔
وجہ صاف ظاہر ہے، جو یہ ہے کہ نئی صنعتیں معیار اور لاگت کے اعتبار سے پہلے سے قائم شدہ صنعتوں کا مقابلہ کبھی نہیں کرسکتیں۔ معیشت دان جس صورت حال کو ’’قوسِ تجربہ‘‘ (Experience Curve ) سے موسوم کرتے ہیں، نئی صنعتوں کو اس کا سامنا لازم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صنعتکار اشیا تیار کرنے کا جتنا زیادہ تجربہ حاصل کرتے ہیں، اتنا ہی وہ اپنی اشیا کی لاگت کم کرنے اور معیار بڑھانے کے اہل ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ صفر تجربے کے ساتھ آغاز کرنے والے صنعت کار ناقابل عبور گھاٹے میں ہوتے ہیں۔ وہ پہلے سے قائم شدہ کمپنیوں کا مقابلے کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ذرا مقامی کار ساز کمپنی آدم موٹرز کی مثال پر غور کیجیے، جس نے ۲۰۰۶ء میں پاکستان میں مقامی طورپر تیار کی جانے والی کار ’ریو‘‘ تیار کی تھی۔ ’’ریو‘‘ کی ناکامی اس کی تیاری سے قبل ہی طے شدہ تھی۔ کھلی منڈیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ درآمد شدہ یا پُرزے جوڑ کر مقامی طورپر تیار کی گئی غیرملکی کاروں کا مقابلہ نہیں کرسکی۔ اگر حکومت کو مقامی کار سازی کی صنعت کو ترقی دینے سے حقیقی دلچسپی ہوتی تو اس نے درآمد شدہ اور پرزے جوڑکر مقامی طورپر تیار کی جانے والی کاروں پر محصولات اچھے خاصے بڑھا دیے ہوتے۔ اس طرح آدم موٹرز اپنی کاریں تیار کرکے انہیں فروخت کرنا جاری رکھ سکتی تھی۔ وقت گزرنے پر وہ قوس تجربہ کے اثر کے تحت معیار اتنا بڑھانے اور لاگت اتنی کم کرنے کی اہل ہوجاتی کہ درآمد شدہ کاروں کا مقابلہ کھلے میدان میں برابری کی سطح پر کرسکتی۔ حاصل کلام یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک جو اپنی صنعتوں کو ترقی دینا چاہتے ہیں، وہ صرف اس وقت ایسا کرسکیں گے جب وہ مسابقت کرنے والی درآمدات سے اپنی منڈیاں محفوظ رکھیں گے۔
محصولاتی تحدیدات کو صنعتی حکمت عملی کے ایک عنصر کے طور پر استعمال کرکے کامیاب ہونے والے بہت سے ملکوں کی مثال موجود ہے۔ فوری طورپر جاپان کا نام ذہن میں آتا ہے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد اس کی صنعت تباہ ہوگئی تھی۔ صنعت کی تشکیل نو کرنے کے لیے جاپانی حکومت نے جو حکمت عملی وضع کی، اس کا مقصد جاپان کے گرد ’’نیم قابل نفوذ‘‘ تجارتی حصار قائم کرنا تھا۔ صرف خام مال ملک میں لایا جاسکتا تھا۔ تیار شدہ اشیاء خواہ وہ کاریں ہوں یا ٹرینیں، گھڑیاں ہوں یا برقی آلات، جاپان میں نہیں لائی جاسکتی تھیں۔ جاپانی صنعت اپنی مصنوعات بیرونی اشیا سے خالی مقامی منڈیوں میں فروخت کرکے تعمیر نو کے قابل ہوگئی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ عظیم الشان صنعتی طاقت بن جانے والے جاپان پر اکثرالزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنی منڈیوں کو بیرونی اشیا کے لیے بند رکھنے کی پالیسی (پروٹیکشن ازم) اپنائے ہوئے ہے۔
ہمارے قریب کی مثال بھارت کی ہے۔ آزادی کے بعد بھارت کی حکمت عملی بھی جاپان جیسی تھی۔ اسے اپنی صنعت کو ترقی دینے میں زیادہ عرصہ لگنے کا سبب سوشلسٹ معاشی فلسفے پر عمل پیرا ہونا اور مرکز کا ضرورت سے زیادہ کنٹرول تھا۔ جونہی یہ رکاوٹیں ہٹائی گئیں، ترقی کی رفتار تیز ہوگئی اور آج بھارتی صنعتی کمپنیاں عالمی سطح پر سخت مقابلہ کرنے والی کمپنیاں بن چکی ہیں۔ پاکستان میں اس کے برعکس کیا گیا۔ ہم نے محصولاتی تحدیدات یا تو ختم کردیں یا کم کردیں۔ ہماری منڈیاں ہر آنے والے کے لیے کھلی ہیں۔ درآمد شدہ سستی اشیا خصوصاً چین سے آنے والی اشیا نے ہماری نو زائیدہ صنعت پر یلغار کردی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے اطوار تبدیل کرلیں۔ ضروری اقدامات یہ ہیں حکومت کو ایسی صنعتی حکمت عملی وضع کرنا ہوگی جو ہماری اقتصادی ترقی کے لیے ناگزیر صنعتوں کی نشاندہی کرتی ہو اور یہ صنعتیں جن منڈیوں میں اپنی مصنوعات فروخت کرتی ہیں، انہیں مناسب محصولاتی تحدیدات قائم کرکے غیرملکی کمپنیوں کی مسابقت سے محفوظ بنایا جائے۔
(“Open Markets Hit Third World Hard”…”Arab News”. Aug. 22, 2013)
Leave a Reply