
کیا ایک سابق مبلغ کی سرگرمیوں سے ترکی کی سلامتی خطرے میں پڑچکی ہے؟ یہ سوال آج کل ترکی کے تمام سیاسی اور علمی حلقوں میں تیزی سے گردش کر رہا ہے۔
۷۳ سالہ فتح اللہ گولن ریٹائرڈ مبلغ ہیں۔ انہوں نے خود تو محض پرائمری کی سطح تک تعلیم پائی ہے مگر اس وقت وہ ایک ایسی تحریک کی قیادت کر رہے ہیں، جو ملک میں تعلیم کو غیر معمولی اہمیت دیتی ہے اور بہت سے تعلیمی ادارے چلا رہی ہے۔ فتح اللہ گولن انسانی وسائل کی ترقی کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور یہی سبب ہے کہ ان کی تحریک اس وقت ۱۴۰؍ممالک میں تعلیمی ادارے چلا رہی ہے۔
چند ماہ کے دوران ترکی میں جس سیاسی بحران نے سر اٹھایا ہے، اس میں فتح اللہ گولن کا کردار کچھ اس نوعیت کا رہا ہے کہ اب یہ بات ثابت ہوچلی ہے کہ وہ محض روحانی یا تعلیمی شخصیت سے بڑھ کر بھی کچھ ہیں۔ وہ سیاسی قائد کی حیثیت سے بھی کھل کر سامنے آئے ہیں۔ وال اسٹریٹ جرنل، بی بی سی اور دیگر غیر ملکی میڈیا آؤٹ لیٹس کو دیے گئے انٹرویوز میں فتح اللہ گولن نے کھل کر کہا ہے کہ وہ اپوزیشن کا کردار سنبھال رہے ہیں اور حکومت کو کرد پالیسی اور خارجہ پالیسی سمیت بہت سے معاملات میں درست سمت دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کرد پالیسی کو سمجھنا اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک یہ نہ دیکھا جائے کہ سیاست دان اس بحران کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں۔
فتح اللہ گولن اور ان کے پیرو کاروں کے درمیان بند کمرے میں ہونے والی گفتگو گزشتہ دنوں ترک ٹی وی چینل اے ٹی وی سے نشر ہوئی، جو کچھ یوں ہے: ’’ہمارے ساتھیوں کی موجودگی اسلام کے مستقبل کی ضمانت ہے۔ سول سروس، عدلیہ اور دیگر شعبوں میں ہمارے دوستوں کا ہونا ان اداروں کی بہتر کارکردگی کے لیے لازم ہے۔ پختگی پیدا کیے بغیر، اپنے آپ کو کسی قابل اعتماد حیثیت کا حامل بنائے بغیر اور آئینی اداروں میں مضبوط موجودگی یقینی بنائے بغیر ہم جو بھی قدم اٹھائیں گے، وہ قبل از وقت ہوگا‘‘۔
اس ویڈیو کے نشر ہوتے ہی فتح اللہ گولن اور ان کے ساتھیوں پر تنقید شروع ہوگئی۔ فتح اللہ گولن کی تحریک سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ یہ ویڈیو تبدیلی کے ساتھ پیش کی گئی ہے، معاملات کو مسخ کیا گیا ہے۔ مسخ کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو، جو کچھ اس ویڈیو میں کہا گیا ہے، اس کی روشنی میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ترکی میں جو سیاست ہے اس کے تناظر میں فتح اللہ گولن کو متوازی طاقت کے طور پر کھڑا کیا جارہا ہے۔
اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ فتح اللہ گولن کے سیاسی تناظر کی بنیاد اس بات پر ہے کہ ریاستی اداروں کو تحریک سے وابستہ افراد کے زیر اثر لایا جائے۔
اپوزیشن سے ہم آہنگی
پولیس اور عدلیہ اولین ترجیح ہیں۔ اگر ان دونوں اور دیگر آئینی اداروں کو زیر اثر لانے میں کامیابی حاصل ہوجائے تو پھر سیاست میں پڑنے اور قانونی طریقوں سے انتخابات میں فتح حاصل کرنے کی بھی کچھ خاص ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اگر فتح اللہ گولن کے ساتھی ریاستی بیورو کریسی میں مستحکم ہوجائیں تو پھر اس بات کی کچھ اہمیت باقی نہ رہے گی کہ حکومت کس جماعت نے بنائی ہے۔ وہ تمام اہم فیصلوں میں اپنی رائے دے سکیں گے اور ہر اہم معاملہ نمٹائے جانے کے معاملے میں ان کی رائے کا محتاج ہوگا۔
ترکی میں آنے والے انتخابات نے گولن تحریک کو نیا راستہ منتخب کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ اب تک اس تحریک نے حکومت سے ہٹ کر چند قدم اٹھائے ہیں۔ جب فوج بغاوت کی تیاری کر رہی تھی تب تحریک نے اس کی حمایت کی تھی۔ جب ترکی نے غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے کے لیے ’’ماوی مرمرہ‘‘ اور دیگر کشتیوں پر مشتمل امدادی بیڑا بھیجا تھا، تب اسرائیل کے بجائے گولن تحریک نے امدادی کارکنوں ہی کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور ان پر اتھارٹی نہ ماننے کا الزام عائد کیا تھا۔ اب فتح اللہ گولن اور ان کے پیرو کاروں کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ حکومت کے مقابل کھڑے ہوں۔ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ گولن اور ان کے ساتھی حکومت سے واضح اختلاف کا اظہار کر رہے ہیں اور کمر کس کے میدان میں آگئے ہیں۔
فتح اللہ گولن اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکومت سے کسی نہ کسی حد تک تصادم کا وقت آگیا ہے۔ اگر وہ پسپائی اختیار کریں گے تو ان کی تحریک سے وابستہ افراد کو سرکاری مشینری سے نکال دیا جائے گا، جو تحریک کے لیے بلا شبہ بہت بڑا نقصان ہوگا۔ گولن تحریک نے اپوزیشن کی مرکزی جماعت سی ایچ پی اور دیگر جماعتوں سے بات چیت شروع کردی ہے تاکہ انتخابی اتحاد تشکیل دیا جاسکے۔ مقصود صرف یہ ہے کہ کسی نہ کسی طور حکمران اے کے پارٹی کی کمر توڑی جائے۔ انتخابات میں اس پارٹی کی پوزیشن کمزور کرنے کے لیے گولن تحریک بظاہر کمر کس کے میدان میں آگئی ہے۔
آئندہ عام انتخابات دراصل صدارتی انتخاب کی مشق سمجھے جارہے ہیں۔ اگست ۲۰۱۴ء میں لوگ پہلی بار صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالیں گے۔ وزیراعظم رجب طیب اردوان صدارتی امیدوار کی حیثیت سے عوامی حمایت کی سطح جانچیں گے اور دوسری طرف گولن تحریک اس امر کا جائزہ لے گی کہ وہ حکمراں جماعت اور بالخصوص وزیر اعظم اردوان کو کس حد تک نقصان پہنچانے میں کامیاب رہی ہے۔
حکمران اے کے پارٹی اور گولن تحریک اس وقت ایک دوسرے کے مقابل ہیں مگر ہمیں اس بحران سے ہٹ کر وہ وقت بھولنا نہیں چاہیے، جب دونوں ایک ہی پیج پر تھیں یعنی ان میں خاصی ہم آہنگی تھی اور بہت سے معاملات میں انہوں نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا تھا۔
ڈھکی چھپی مسلم شناخت
نئے ملینیم کی ابتدا تک ترکی میں لوگ عبادات پر یقین رکھنے والے مسلمان کی حیثیت سے شناخت کیے جانے سے کتراتے تھے۔ ریاستی بیورو کریسی میں صوم و صلوٰۃ کے پابند مسلمانوں کو احترام کی نظر سے نہیں، بلکہ شک کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ لوگ اس بات کو عموماً چھپاتے تھے کہ وہ روزہ و نماز کے پابند ہیں۔ فتح اللہ گولن کی تحریک سے وابستہ افراد نے بھی اپنی مسلم شناخت کو چھپایا اور ریاستی بیورو کریسی میں اہم عہدوں پر فائز ہوئے۔ جب اے کے پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو وہ ابھر کر سامنے آئے اور خود کو تیزی سے مستحکم کرلیا۔ اس وقت گولن تحریک عدلیہ میں بے حد مستحکم ہے۔ پولیس فورس میں بھی اس سے ذہنی ہم آہنگی رکھنے والوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔
ترکی اب بھی جمہوری استحکام کی منزل سے دور ہے۔ جب تک بیورو کریسی میں مضبوط گروپ کی حیثیت سے خود کو منوانے کے بجائے اسلامی شناخت پر زور دینے والی کوئی تحریک نہیں آئے گی، تب تک ترکی میں جمہوری اقدار اور روایات زیادہ مستحکم نہیں ہوسکیں گی۔ فتح اللہ گولن کی تحریک کا
معاملہ عجیب ہے کیونکہ اس کے حوالے سے بہت کچھ ڈھکا چھپا ہے، غیر شفاف ہے جس کے باعث لوگوں کے ذہنوں میں شبہات جنم لیتے رہتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اے کے پارٹی نے بہت سی غلطیاں بھی کی ہیں۔ سیاسی جماعتیں جب اقتدار میں ہوتی ہیں تو غلطیاں بھی کرتی ہیں۔ اس پر ان کا محاسبہ ہوسکتا ہے، پارلیمان میں ان سے سوال کیا جاسکتا ہے اور گنجائش ہو تو انتخابات کے ذریعے انہیں اقتدار سے محروم بھی کیا جاسکتا ہے مگر اختلاف اور احتساب کے نام پر ریاست کے اندر ریاست بنانے کا کوئی جواز نہیں۔ فتح اللہ گولن کی تحریک اس وقت ایسا ہی کر رہی ہے۔ وہ جمہوری طریقے اپنانے کے بجائے عدلیہ اور پولیس میں اپنی مضبوط پوزیشن کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ ترکی اس وقت سیاسی بحران سے دوچار ہے۔ اسے فوری طور پر اہم فیصلے کرنے ہیں۔ اختلاف کے نام پر زیادہ سے زیادہ خرابیاں پیدا کرنے کی روش ترک کرنی ہوگی۔ ایسا کیے بغیر ترکی کو جمہوریت کی راہ پر ڈالنا ناممکن ہوگا۔
(“The many faces of Fethullah Gulen”… “aljazeera.com”. Feb. 27, 2014)
It is an interesting article. I wish in Pakistan also Education, at all levels, is given importance