مودی کا دورۂ متحدہ عرب امارات تعلقات کے فروغ میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا۔ مودی حکومت اب اپنے معاشی منصوبوں کی تکمیل کے لیے مغربی ایشیا کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کرسکتی۔ بھارت کے ایک سینئر سفارت کار کا کہنا ہے کہ ’’خلیج فارس ہمارے لیے اب صرف توانائی کے حصول کا ذریعہ نہیں رہا، بلکہ اس سے بڑھ کر سرمایہ کاری کا ایک ذریعہ بن چکا ہے‘‘۔ اور اگر اس حوالے سے دیکھا جائے تو ابوظہبی کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ بھارتی سرکاری اہلکار کا کہنا ہے کہ آنے والے سالوں میں جیسے جیسے تعلقات مضبوط ہوتے ہیں، متحدہ عرب امارات بھارت کو خطے کا اہم ملک بنانے کے لیے درکار حمایت فراہم کرے گا۔ ماضی میں بھارت نے ایسی توجہ صرف امریکا اور جاپان پر دی۔
اگست ۲۰۱۶ء کو وزیر خارجہ سشما سوراج نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’اگر آپ ہمارے پچھلے دو سال کی سفارتی پالیسیوں پر نظر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ کس طرح ہم نے اپنے داخلی منصوبوں کی کامیابی کے لیے عالمی شراکت داریوں کو استعمال کیا ہے۔ اس طرح داخلی اور خارجی مقاصد میں بہترین ہم آہنگی ’’مودی ڈاکٹرائن‘‘ کی کامیابی کا ثبوت ہے۔
مودی حکومت سے پہلے منموہن کے دور میں تعلقات میں اس طرح کی گرمجوشی صرف امریکا اور جاپان کے لیے دکھائی جاتی تھی، اب ان ممالک کی فہرست میں متحدہ عرب امارات بھی شامل ہو گیا ہے۔ بھارتی خارجہ سیکریٹری ایس جے شنکر نے مارچ ۲۰۱۵ء میں اپنی ایک تقریر میں خارجہ پالیسی بیان کی۔ انھوں نے جنوب مشرقی ایشیا اور جاپان کے حوالے خارجہ پالیسی پر تفصیلی روشنی ڈالنے کے بعد کہا کہ اب بھارت اپنے مغربی ممالک کی طرف زیادہ توجہ دے رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے مغربی ایشیائی ممالک کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی پر کبھی کوئی خاص توجہ نہیں دی اور نہ ہی کبھی اس طرف تزویراتی نظر سے دیکھا۔ حتیٰ کہ ہم توانائی کے حصول کے لیے مغربی ایشیائی ممالک سے رجوع کرتے رہے، وہ بھی کسی پالیسی کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف عالمی منڈی کے نقطہ نظر سے۔ پھر انھوں نے بھارت کی ’’تھنک ویسٹ‘‘ پالیسی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس پالیسی کے تحت دنیا کے مختلف ممالک سے تعلقات قائم کرکے اپنے مفادات کا حصول یقینی بنائیں گے۔
جیسا کہ مودی اپنی تقاریر میں ’’لنک ویسٹ‘‘ کے الفاظ کا استعمال کثرت سے کر رہے تھے، اس کا مقصد ہی یہ تھا کہ مغرب میں موجود تمام ممالک سے تعلقات، یعنی اس میں یورپ اور شمالی امریکا بھی شامل ہے۔ ۲۰۱۶ء کے اختتامی دور میں سرکاری بیانات میں ان الفاظ کا استعمال کثرت سے کیا جانے لگا۔ مئی ۲۰۱۷ء میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے اسے ’’گوویسٹ‘‘ کا نام دیا، جس کا مقصدمغربی ایشیائی ممالک سے تعلقات کو فروغ دینا تھا۔
تہران سے تعلقات:
بھارت کی ایران کے ساتھ تزویراتی معاملات میں ہم آہنگی کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ وہ پاکستانی حمایت یافتہ طالبان کی مزاحمت روکنے کے لیے کابل حکومت کا ساتھ دے گا۔ اس باہمی تعاون سے بھارت نے چاہ بہار، ایران سے ہرات، افغانستان تک تجارتی راہداری کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی بھرپور کوشش کی۔
بھارت اور ایران ایک اور تجارتی راہداری پر بھی باہمی تعاون سے کام کر رہے ہیں، جو ایرانی بندرگاہ بندرعباس کو وسطی ایشیا، قفقاز اورروس سے ملائے گی اور بھارت اس منصوبے کو چین کے پورے براعظم پر پھیلے ہوئے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا مقابلہ کرنے کے لیے انتہائی اہمیت دیتا ہے۔ بھارت چاہ بہار کوبھی اس شمال جنوبی راہداری سے ملانا چاہتا ہے۔
بھارت سمجھتا ہے کہ چاہ بہار راہداری کی تعمیر کے ذریعے وہ افغانستان کا پاکستان پر جغرافیائی انحصار کم کر سکتا ہے۔لیکن اس راہداری پر کنٹینروں کی پہلی نقل وحمل ۲۰۱۴ء میں۱۲ سال کے عرصے میں ممکن ہو سکی۔چاہ بہار پر دو اضافی برتھوں کی تعمیر کے ٹھیکے کے لیے ایرانی اور بھارتی تعمیراتی اداروں کے درمیان کشمکش جاری رہی۔ذرائع ابلاغ پر تہران اور نئی دہلی اس تاخیر کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالتے رہتے ہیں۔ بھارتی اور ایرانی حکام نجی ملاقاتوں میں اپنے اپنے ممالک کی بیورو کریسی اور سیاسی مفادات میں تضادات کو اس تاخیر کا سبب قرار دیتے ہیں۔
اور یہ مودی کی خوش قسمتی ہے کہ جب انھوں نے اقتدار سنبھالا تو راہداری تقریباً مکمل ہونے والی تھی۔ مئی ۲۰۱۶ء میں وہ ایران کے دورے پر گئے، جہاں انھوں نے بھارت، ایران اور افغانستان کے درمیان نقل و حمل اور تجارتی راہداری کے معاہدے پر دستخط کیے۔ افغانستان میں امریکا کے فوجی کردار میں کمی، طالبان کے دوبارہ سر اٹھانے کے امکانات اور پاکستان کے ساتھ خراب ہوتے ہوئے تعلقات نے ایران کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ اس راہداری پر کام تیز کرے۔ ۲۰۱۷ء میں وسطی ایشیا اور روس کی دلچسپی نے شمال جنوب راہداری منصوبے میں بھی پھر سے جان ڈال دی ہے۔ یہ باہمی تعاون ایک طرف، لیکن ایران اور بھارت کے درمیان چند مسائل بھی ہیں۔مودی حکومت اس بات پر یقین کیے ہوئے تھی کہ تہران سے اقوام متحدہ کی پابندیوں کے خاتمے کے بعد،تہران ’’فرضادبی گیس فیلڈ‘‘کے حصے کی رقم دینے کا اپنا وعدہ پورا کرے گا،لیکن تہران کی جانب سے ٹال مٹول پر بھارت نے جوابی اقدام کے طور پر ایران سے خام تیل کی خرید میں کمی کر دی اور یہ جوابی قدم مودی کی رضامندی سے اٹھایا گیا۔
اگر چہ بھارت اور ایران افغانستان میں باہمی تعاون سے کام لے رہے ہیں، لیکن ان دونوں کے تجارتی تعلقات بہت زیادہ مستحکم نہیں ہو سکے۔بھارت تہران کو تزویراتی طور پر اپنے لیے بہت اہم سمجھتا ہے،لیکن ایران بھارتی راہنماؤں کے داخلی ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے کسی قسم کی مدد فراہم کرنے سے گریز کرتا ہے۔جس کی وجہ سے تعلقات تزویراتی طورپر بہتر نہیں ہو پارہے۔بھارت توانائی کے متبادل ذرائع کی تلاش اور خلیج فارس سے توانائی کے انحصار میں کمی کے لیے بھی تگ و دو کر رہا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ایران میں موجود بھارتی شہریوں میں بھی مستقل کمی آرہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مودی حکومت کے نزدیک تہران کی اہمیت میں کمی واقع ہو رہی ہے۔اسی طرح ایران کے نئی دہلی کے حوالے سے اپنے خدشات ہیں۔بھارتی بینک اور کمپنیاں امریکی پابندیوں کی وجہ سے ابھی بھی ایران سے کاروبار کرنے سے کتراتی ہیں۔ اس کے علاوہ تہران بھارت کے امریکا اور اسرائیل سے بڑھتے ہوئے تعلقات کی وجہ سے بھی پریشان ہے۔
خلیج کی طرف سفر:
گزشتہ دو سالوں میں خلیج فارس نے نریندر مودی کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں اہم مقام حاصل کیا ہے۔ تعلقات کے اس دور میں متحدہ عرب امارات کا مرکزی کردار ہے۔لیکن بھارت کو ان تعلقات کے معاشی فوائد سمیٹنے کے لیے صبر سے کام لینا ہوگا۔
دونوں حکومتوں کے درمیان ہونے والی سرمایہ کاری کی نگرانی متحدہ عرب امارات کے مرکزی فنڈ ’’ابو ظہبی انوسٹمنٹ اتھارٹی‘‘ (ADIA) کے سپرد کی گئی ہے۔اور یہ ادارہ بھارت میں سرمایہ کاری کے حوالے سے محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہے، کیونکہ ماضی میں بھارت میں سیاسی عدم استحکام اور قوانین کی تبدیلیوں کی وجہ سے اس کا سرمایہ کاری کا تجربہ اچھا نہیں رہا۔
مودی حکومت نے غیرملکی سرمایہ کاری کی بہتر نگرانی اور ان کے اداروں سے بہتر اور موثر روابط کے لیے ’’نیشنل انفرااسٹرکچر انوسٹمنٹ فنڈ‘‘ کے نام سے ایک الگ ادارہ قائم کر دیا ہے۔تاکہ غیر ملکی شراکت سے جاری منصوبوں پر بغیر کسی رکاوٹ کے کام کیا جاسکے۔
بھارت خلیجی ممالک میں اپنے فوجی کردار کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے۔خطے کی بیشتر حکومتیں نہ صرف ایک دوسرے کی مخالف ہیں، بلکہ کسی نہ کسی مقامی گروہ یا فرقے کی حمایت کرکے یمن،عراق اور شام کی خانہ جنگی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔بھارت کی طرف سے کسی بھی قسم کی فوجی سرگرمی کو کسی خاص ملک کی حمایت کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ بھارت اس حوالے بہت محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔
اس وقت بھارت کی بنیادی توجہ افغان تنازعہ پر ہے۔وہ براستہ ایران،افغانستان تک تجارتی راہداری بنانے کے لیے کوشاں ہے اور اس کے ساتھ عرب ممالک سے پاکستان کے تعلقات کو کمزور کرنا بھی اہم اہداف میں شامل ہے۔بھارت چاہتا ہے کہ خلیجی ممالک سے پاکستانی حمایت یافتہ دہشت گردوں کی موجودگی ختم کی جائے،تاکہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی سے بچا جا سکے۔اس خطے میں بھارت کے فوجی کردار کا انحصار صرف اور صرف اس بات پر ہے کہ پہلے پاکستان کا فوجی اثرورسوخ کم کیا جائے۔
جہاں تک داعش کا تعلق ہے تو بھارت اس کے اثرات سے بچا ہوا ہے۔ابھی تک درجن بھر کے قریب بھارتی مسلمان ہیں، جنھوں نے داعش میں شمولیت اختیار کی۔ویسے بھی اس خطے میں صرف اسرائیل سے ہی بھارت کے تعلقات ہیں اور وہ تعلقات بھی تزویراتی نہیں ہیں،بلکہ بھارت اسرائیل سے اسلحہ خریدتا ہے اور فوجی تربیت میں اسرائیل اس کی مدد کرتا ہے۔مودی نے،جو اسرائیل کا دورہ کرنے والے بھارت کے پہلے وزیر اعظم بن چکے ہیں،اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو ایران اور عرب ممالک سے تعلقات سے یکسر الگ کر کے آگے بڑھایا ہے۔جو کہ ان کی ایک بڑی کامیابی ہے اور خوش قسمتی سے خطے کے حالات نے عرب اسرائیل دشمنی کی شدت کو بھی پہلے سے کہیں کم کر دیا ہے۔
بھار ت ان خلیجی ممالک کے ساتھ فوجی مشقوں کا بھی ارادہ رکھتا ہے،جن کے ساتھ اس کے سیکورٹی معاہدے ہیں۔اس طرح کی رپورٹیں بھی آرہی ہیں کہ بھارت اس خطے میں اپنی مستقل موجودگی کے لیے کوشاں ہے اور اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس کے خلیجی ممالک سے تعلقات کس سمت میں آگے بڑھتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ وہ چاہ بہار میں بھی اپنی بحریہ کی موجودگی یقینی بنانے کے لیے تگ و دو کر رہا ہے۔اور اس حکمت عملی پر مودی حکومت میں تیزی سے کام ہوا ہے۔ اس کی وجہ خطے میں امریکا کی عدم دلچسپی اور چین کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ بھی ہے۔
جہاں تک بات ہے بھارت اور متحدہ عرب امارات کے مابین معاہدوں کی،جن کے تحت دونوں مما لک مل کر اسلحہ کی پیداوار کریں گے،تو ان معاہدوں پر عملدرآمد شاید اتنا آسان نہ ہو۔کیوں کہ دونوں ممالک بنیادی طور پر اسلحہ کی اسمبلنگ وغیرہ تو کرتے ہیں لیکن جدید اسلحہ خود بنانے کی مہارت نہیں رکھتے۔
نریندر مودی کے تین سالہ دور حکومت میں مغربی ایشیا کے حوالے سے بھارت کی روایتی خارجہ پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے۔ آج سے پہلے تک بھارت کے نزدیک خلیجی ممالک کی اہمیت یہ تھی کہ اسے تیل اور گیس کی سپلائی جاری رہے اور قیمتوں میں استحکام رہے۔اور بھارت سمجھتا تھا کہ اس خطے کی سلامتی کی ذمہ داری امریکا کی ہے اور ان سنی عرب ممالک سے پاکستان کے قریبی فوجی تعلقات ہیں۔اس کے علاوہ ان ممالک کو ملکی اشیا برآمد کی جاتی تھیں اور یہ محصولات کا بھی ایک بڑا ذریعہ تھے۔ لیکن اب مودی حکومت اپنی گلف پالیسی کو ایک طویل المدت تزویراتی پالیسی کے طور پر دیکھتی ہے۔ اگرچہ خلیجی ممالک اب بھی بھارت کی توانائی کی ضروریات پورا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔لیکن اب بھارت تیل اور گیس کے حصول کے لیے دیگرذرائع پر بھی غور کرتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بھارت کی داخلی طور پر پالیسی یہ ہے کہ وہ قابل تجدید توانائی کی پیداوار پر بھر پور توجہ دیے ہوئے ہے۔
امریکا کی خطے کے ساتھ کمٹمنٹ کی غیر یقینی صورتحال اور پاکستان کے سیکورٹی فراہم کرنے والے ملک کی حیثیت کھو دینے سے خلیجی ممالک کے لیے بھارت کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔مغربی ایشیا کی تیل اور گیس پر انحصار کرنے والی معیشت جب سے بحران کا شکار ہوئی ہے تو بھارتی لیبر کی مانگ میں بھی خاصی کمی آئی ہے۔اگرچہ بھارتی وزیراعظم ان ممالک میں موجود بھارتیوں کو ملکی ایجنڈے کی تکمیل میں مددگار سمجھتے ہیں، لیکن یہ اب ان کی توجہ کا مرکز ی نکتہ نہیں ہے، جیسا کہ پہلے ہوا کرتا تھا۔اس وقت بھارتی حکومت کی زیادہ توجہ اس بات پر ہے کہ اس کے شہریوں سے بہتر سلوک روا رکھا جائے اور ان کو کسی غیر یقینی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
بھارت اس وقت مغربی ایشیا میں سیاسی حکومتوں کے حوالے سے اپنی سوچ پر نظر ثانی کر رہا ہے۔ماضی میں بھارت صدام حسین اور حافظ اسد جیسے حکمرانوں کے ساتھ کام کرنے میں آسانی محسوس کرتا تھا۔اسی طرح ۷۰؍ اور ۸۰ کی دہائی میں بھارت نے فلسطین کے قومی مسئلے پر ان کی حمایت کی لیکن وہ اسلام پسندگروہوں سے دور رہی رہا۔
نجی ملاقاتوں میں بھارتی حکام عموماً عراق پر امریکی حملے، عرب بہار اور شام میں اسد حکومت کے خلاف غیر ملکی مداخلت پر تنقید کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے اس طرح کے کاموں سے پر امن ممالک کو نہ صرف دہشت گردی کا گھر بنا دیا گیا ہے بلکہ ان کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا گیا ہے۔
لیبیا، شام،عراق کی حکومتوں کے خاتمے اور کمزورہونے کی وجہ سے بھارت نے خلیجی ممالک اور مصر سے تعلقات بڑھائے ہیں۔لیکن یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ زیادہ تر موقعوں پر ان ممالک کی طرف سے پہلا قدم اٹھایا گیا ہے۔ اس کا ثبوت ۲۰۰۶ء میں سعودی بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیزکا دورہ بھارت ہے۔خلیجی ممالک کی اہمیت اب بھارت کی نظر میں بھی بڑھتی جا رہی ہے اوروہ اب ان ممالک کو مستقبل کے معاشی اورتزویراتی شراکت دار کے طور پر دیکھتا ہے۔بھارت نے مصر کی سیسی حکومت کو کافی امداد دی،جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔لیکن عرب کے امراء اور شیوخ پر بھارت نے اس سے کہیں زیادہ مہربانیاں کی ہیں۔اس کی وجہ یہ تھی کہ مودی نے خارجہ تعلقات کے بارے میں بڑی واضح حکمت عملی اپنائی،اس حکمت عملی کے تحت اس ملک کی طرف زیادہ توجہ دی گئی جو بھارتی منصوبوں کو مکمل کرنے میں زیادہ معاون ثابت ہو۔ان سب معاملات میں بھارت کو ایک اور فائدہ یہ بھی رہا کہ بھارتی مسلمانوں نے کبھی بھی انتہاپسندی کی طرف اپنے قدم نہیں بڑھائے۔
عمومی طور پر مغربی ایشیا اور خاص طور پرخلیجِ فارس مودی حکومت کی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ بن چکے ہیں۔لیکن اب تعلقات کی نوعیت تبدیل ہو چکی ہے ماضی میں ان حکومتوں سے تعلقات کی وجہ محصولات اور تیل و گیس کی سپلائی تھی اور اب ان تعلقات کی بڑی وجہ بڑے پیمانے پر کی جانے والی سرمایہ کاری اور سمندری سیکورٹی ہے۔
(ترجمہ:حافظ محمد نوید نون)
“Think west to go west: Origins and implications of India’s West Asia policy under Modi (Part II)”. (“mei.edu”. Sep. 26, 2017)
Leave a Reply