ترکی کا ’’عثمانیہ‘‘ خواب

ترکی اب افریقا میں اپنے اثرات کا دائرہ وسیع کرنے کا خواہش مند ہے اوراس مقصد کے لیے تجارت کا سہارا لیا جا رہا ہے۔

کیمرون میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والے مرکز کے سربراہ اور عالم دین بومبو ابراہیم مبارک کی آنکھوں میں ایک خواب ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ترکی کو ایک بار پھر اسلامی دنیا کی سربراہی سنبھالنی چاہیے‘‘۔ یہ بات انہوں نے ۱۷ مارچ کو کیمرون اور کانگو میں ترک صدر عبداللہ گل کی آمد پر کہی۔ ان ممالک کا دورہ کرنے والے وہ پہلے ترک صدر ہیں۔ بومبو ابراہیم کا خیال یہ ہے کہ مذہبی معاملات میں ترکی کی اعتدال پسندی اور مغربی اطوار سے وابستگی، لبرل جمہوریت اور آزاد منڈی کی معیشت اسے اسلامی دنیا میں اہم مقام دلا سکتی ہیں۔ ترکی افریقی مسلمانوں کے لیے ایک قابلِ عمل نمونہ ہے۔ وہ افریقا میں سنی ترکوں کے ہاتھوں مساجد، مدارس اور عام اسکولوں کی تعمیر اور نظم و نسق میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔

عبداللہ گل کے ساتھ ۱۴۰ سرکردہ کاروباری شخصیات افریقا آئیں۔ اس سے اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ ترکی کو مذہبی حوالے سے اپنے اثرات کا دائرہ وسیع کرنے اور مزید غیر مسلموں کو حلقۂ بگوشِ اسلام کرنے سے زیادہ کاروبار کا دائرہ وسیع کرنے سے غرض ہے۔

ترکی اب تک یورپ کے مختلف ممالک سے تجارتی روابط کو فروغ دیتا آیا ہے۔ مگر عالمگیر معاشی بحران نے یورپ میں ترکی کے لیے معاشی یا کاروباری امکانات کی دنیا محدود کر دی ہے۔ ترکی کے چھوٹے اور درمیانے آجر اب افریقا کی معاشی سکت سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔ کیمرون میں بھی ترکی کے لیے امکانات کی کمی نہیں۔ افریقا میں خام مال کی کمی نہیں۔ مثلاً بہت سے افریقی تاجر ترکی کو عمارتی لکڑی فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ جواب میں ترکی انہیں واشنگ پائوڈر سے جینز تک بہت سی اشیائے صارفین فراہم کرے گا۔ ترک کنٹریکٹر افریقا میں ایئرپورٹ، سڑکیں اور ڈیم تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ رہائشی منصوبوں میں بھی ترکی غیر معمولی دلچسپی لے رہا ہے۔ عدیس ابابا، نیروبی، جوہانسبرگ، ڈاکار اور لاگوس کے لیے ترکش ایئرلائنز کی پروازیں باقاعدگی سے آپریٹ کر رہی ہیں۔ترکی کے برآمد کنندگان کی انجمن کے سربراہ محمد بویوککسی کہتے ہیں کہ افریقی ممالک کے لیے ترک برآمدات ۲۰۰۱ء میں ایک ارب ۵۰ کروڑ ڈالر تھیں۔ اب یہ ۱۰ ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی کو افریقا کے مستقبل پر پورا یقین ہے۔

کیا ترکی معاشی اعتبار سے چین اور بھارت کا مقابلہ کر سکتا ہے؟ یقینا نہیں۔ ترک صدر کو بھی معلوم ہے کہ ترکی کی اپنی حدود ہیں مگر ساتھ ہی وہ اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ ترکی بعض معاملات میں برتری رکھتا ہے۔ مثلاً یہ کہ اس کا دامن صاف ہے اور وہ انسانی پہلو کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ مصر، الجزائر، لیبیا اور سوڈان کبھی سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھے۔ ترکوں کے دلوں میں نوآبادیاتی دور کی تلخ یادیں بھی اب تک زندہ ہیں۔ غلاموں کی تجارت کرنے والے عرب سوداگروں سے بھی وہ اب تک نالاں ہیں۔اسلام کے حوالے سے ترکی کی ساکھ قابلِ اعتبار ہے۔ اعتدال پسندی ترک مزاج کا حصہ ہے۔ یہی حال مذہبی عقائد کا ہے یہ خصوصیت کاروباری معاملات میں بھی معاون ثابت ہو سکتی ہے۔

ابوبکر کسیکن ۳۷ سالہ ترک تاجر ہے جس نے تین سال قبل کیمرون کے شہر ڈولا میں رہائش اختیار کی ہے۔ وہ عمارتی اور آرائشی لکڑی کے لیے پاستا فراہم کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کا پورا کاروبار مقامی مسلمانوں سے اشتراکِ عمل پر مشتمل ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسلم ہونے کا بڑا فائدہ ہے۔ بہت جلد اطالوی تاجروں کے ہاتھ سے مارکیٹ نکل جائے گی، ترکی سے تعلق رکھنے والے عالمِ دین فتح اللہ گلین اب امریکا میں مقیم ہیں اور ان کا نیٹ ورک ۳۰ افریقی ممالک میں ۶۰ اسلامی اسکول چلا رہا ہے ۔ ان اسکولوں میں مقامی اور ترک اساتذہ ساتھ کام کرتے ہیں۔ مغربی اقدار کو پسند کرنے والی اشرافیہ اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں پڑھاتی ہے۔

ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب ترکی افریقا میں غیر معمولی سیاسی اثرات کا بھی حامل ہو گا۔ ترکی نے ۲۰۰۵ء کو افریقا کا سال قرار دیا تھا۔ اس اقدام کا بنیادی مقصد اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں نشست پانے کے لیے افریقی ممالک کی حمایت کا حصول تھا اور اس نے اس مقصد میں کامیابی حاصل کر لی۔ صرف ایک افریقی ملک نے اس کی مخالفت کی۔ ترکی اب افریقا میں مزید ۱۲ سفارت خانے قائم کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ نوجوان افریقی سفارتکاروں کو انقرہ میں تربیت دی جا رہی ہے۔ عبداللہ گل کے حالیہ دورے میں افریقی طلبہ کے لیے بڑے پیمانے پر اسکالر شپ کا اعلان بھی کیا گیا۔

ترکی یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے بھی کوشاں ہے۔ افریقا میں وہ جو کچھ کرنا چاہتا ہے اس سے یورپی یونین میں شمولیت کا معاملہ بھی کبھی کبھی دائو پر لگتا دکھائی دیتا ہے۔ ترکی نے حال ہی میں سوڈان کے صدر عمر البشیر کو دیا جانے والا دعوت نامہ آخری لمحات میں منسوخ کیا۔ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ نے دارفر میں جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزام میں عمر البشیر کے وارنٹ جاری کر رکھے ہیں۔ چند دوسرے افریقی ممالک میں بھی انسانی حقوق کا خراب ریکارڈ ترکی کے لیے یورپ میں مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔

ترکی کو افریقا میں ممکنہ مشکلات کا اندازا ہے۔ افریقا میں لبنانی بھی ہیں اور آرمینیا و یونان کے لوگ بھی ہیں۔ یہ عیسائی ہیں۔ سلطنتِ عثمانیہ کے سقوط پرآرمینیا سے نکلنے والوں نے افریقا کے مختلف شہروں میں سکونت اختیار کی ترک صدر عبداللہ گل تسلیم کرتے ہیں کہ یہ لوگ ترکوں کا خندہ پیشانی سے استقبال نہیں کریں گے۔

(بشکریہ: ’’دی اکنامسٹ‘‘ ۲۷ مارچ ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*