
مجھ سے اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ میری زندگی کا دل گداز ترین واقعہ کون سا ہے؟ اس کا مستقل جواب یہی ہوتا ہے کہ وہ لمحہ جب میں نے وزارتِ دفاع کو حسبِ ذیل برقیہ ارسال کیا تھا:
’’میں فوج سے سبکدوش ہو رہا ہوں، چارج دے چکا ہوں۔ ’’شادباد پاکستان‘‘ میں اسے اپنی زندگی کا انتہائی جذبات آفریں واقعہ تصور کرتا ہوں، کیوں؟ اس لیے کہ اس موڑ پر ایک عہد، یعنی میری سپاہیانہ زندگی کا دَور ختم ہوا‘‘۔
عزمِ پاکستان
۲؍اگست ۱۹۴۷ء کو صبح کے وقت سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل کلاڈ آکنلیک کے فوجی سیکرٹری کرنل شاہد حمید نے (جو اس وقت میجر جنرل ہیں) ڈیرہ دون میں مجھے ٹیلی فون کیا اور کہا کہ آکنلیک کی خواہش ہے کہ آپ فوراً دہلی پہنچ جائیں۔ چنانچہ میں کار کے ذریعہ تیزی سے دارالحکومت روانہ ہوگیا، چائے کے وقت قائداعظم سے میری ملاقات ہوئی۔ آکلنیک بھی وہاں موجود تھے۔
قائداعظم نے دوٹوک انداز میں مجھ سے دریافت کیا:
کیا یہ درست ہے کہ آپ کو ہندوستان میں ہی رہنے کے لیے کہا گیا ہے اور ترقی کا بھی یقین دلایا گیا ہے۔
اس کا جواب اثبات میں تھا، لیکن اس کے ساتھ ہی میں نے کہا کہ میں نے ہندوستان کی پیشکش ٹھکرا دی ہے اور پاکستان کی خدمت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
’’قائداعظم نے مجھے حکم دیا کہ فوراً کراچی روانہ ہوجائو‘‘۔
اس پر میں نے عرض کیا کہ میں جلد از جلد کراچی روانہ ہونے کی ہرممکن کوشش کروں گا، اس کے بعد دوپہر کے کھانے کے وقت پھر ہماری ملاقات ہوئی اور قائداعظم نے مجھے حکم دیا کہ آج رات ہی تم عازمِ کراچی ہوجائو۔
یہ بڑا ٹیڑھا معاملہ تھا۔ میرے پاس تبدیل کرنے کے لیے کپڑوں کا ایک آدھ جوڑا بھی نہیں تھا اور میرے بال بچوں کو اس نئے معاملے کی اطلاع تک نہیں تھی، لیکن قائداعظم ذرّہ بھر تاخیر کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ آکنلیک نے مجھے کہا کہ ہوائی جہاز پر میری نشست مخصوص ہوچکی ہے اور طیارہ اگلی صبح کو روانہ ہونے والا تھا، انہوں نے کہا کہ مجھے چارج دینے کی ضرورت نہیں اور وہ بذاتِ خود اس بات کا خیال کریں گے کہ میرے افرادِ خاندان بھاری اسباب کے ساتھ خیر و عافیت سے میرے پاس کراچی پہنچا دیے جائیں، افرادِ خاندان میں میرا ایک لڑکا بھی تھا جو ڈیرہ دون کے ملٹری کالج میں زیرِ تربیت تھا۔
انوکھی کمان
۳؍اگست ۱۹۴۷ء کو صبح کے وقت میں کراچی پہنچا، جہاں مجھے ابتدائی کوروں کی کمان سنبھالنی تھی۔ سندھ اور بلوچستان کے ایریا کمانڈر کے فرائض بھی میرے سپرد ہونے والے تھے۔ ایک مقامی درزی سے چند جوڑے وردی کے اور سلیپنگ سوٹ حاصل کرنے کا آرڈر دے کر میں ہوٹل سے کور ہیڈ کوارٹر کی طرف روانہ ہوا، جہاں جاکر مجھے معلوم ہوا کہ دو پلٹنیں چھوڑ کر تمام برطانوی اور ہندوستانی (ہندو) فوجیں روانہ ہو چکی تھیں یا ان کو فوراً روانہ ہونے کے احکامات مل چکے تھے اور میری کمان میں ساتویں بلوچ بٹالین کی صرف دو کمپنیاں تھیں جو لیفٹیننٹ کرنل گلزار احمد (جو اس وقت بریگیڈیئر ہیں) کی کمان میں ۱۲؍ستمبر کو کراچی پہنچی تھیں۔ سندھ اور بلوچستان میں پولیس کی تعداد بہت کم تھی، البتہ افغانستان کی سرحد پر متعین ملیشیا اور اسکائوٹ یونٹوں کی تعداد خاصی تھی۔ ساتویں بلوچ بٹالین کو امن و امان قائم رکھنے اور عموماً حفاظتی ڈیوٹی کے لیے کراچی سے ملتان اور ملتان سے ڈیرہ غازی خان تک ریلوے سیکشن سونپا گیا۔ سکھوں اور ہندوئوں کے ترکِ وطن کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور ہندوستان میں ہمہ گیر پیمانے پر مسلمانوں کے خلاف قتل، آتش زنی، آبروریزی اور لوٹ مار شروع ہو چکی تھی اور پاکستان میں اس کا ردعمل ناگزیر تھا۔ خوش قسمتی سے سندھ، بلوچستان اور ریاست قلات، مکران، لسبیلہ اور خیرپور کے مسلمان پُرامن رہے۔
۱۰؍اگست ۱۹۴۷ء کو یا اس کے لگ بھگ جنرل میرومی نے دہلی میں سپریم کمانڈر کے ہیڈ کوارٹر پر پرواز کی اور اسکیم ’’ہیٹ‘‘ کے تحت برطانوی افسروں اور شہریوں کے خاندانوں کے انخلا کے لیے مجھ سے مدد طلب کی، اس لیے کہ ہندوستان کی حکومت کوئی مدد نہیں دے رہی تھی۔ میں نے ان کو مقامی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ میرے ساتھ کس قدر افسر اور اسٹاف موجود ہیں۔ لیکن چونکہ وہ مدد حاصل کرنے پر زور دے رہے تھے، اس لیے میں نے ہر ممکن امداد دینے کا وعدہ کیا۔ مجھے خوشی ہے کہ میرے افسروں اور اسٹاف نے جان توڑ کوشش کی اور یہ مرحلہ بخیر و خوبی طے ہوگیا۔
آزادی کی پہلی پریڈ
۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو ہم نے آزادی کی پہلی پریڈ کی، ساتویں بلوچ بٹالین صرف ایک کمپنی پیش کرسکی۔ رائل پاکستان نیوی (جو اَب پاکستانی بحریہ ہے) صرف چند نوجوان پیش کرسکی۔ اور یہی حال رائل پاکستان ایئرفورس کا تھا (جو اَب پاک فضائیہ ہے) ہم انتہائی مشکلوں سے سلامی دینے کے لیے ضروری چھوٹے اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کرسکے۔ لیکن ہمارے ساتھ کوئی توپ خانہ نہیں تھا، اور بحریہ کے پاس بلینک گولے موجود نہیں تھے۔ چنانچہ بلینک گولوں کی بجائے دیسی ساخت کے پٹاخوں سے سلامی دی گئی۔ اس کارروائی کو کس قدر لوگوں نے بھانپا، یہ ہمیں معلوم نہیں تھا لیکن کسی شخص نے کوئی رائے ظاہر نہیں کی۔
میں نے ایک استقبالیہ کیمپ قائم کردیا، جہاں سمندر پار اور ہندوستان سے افسر اور جوان آئے۔ وہ اس نازک وقت میں بہت گراں قدر ثابت ہوئے۔ یہ دستے اسلحہ کے بغیر آئے تھے، یہاں تک کہ ان کے پاس ذاتی ساز و سامان بھی ناکافی تھا۔ میرے پیش رو ایک انگریز جنرل کے اسٹاف کی بداعمالی کے باعث تمام آرڈیننس ڈپو یکسر خالی پڑے ہوئے تھے، اس لیے کہ اس نے تمام گولہ بارود، جنگی اسٹور اور موٹر گاڑیاں وغیرہ ہندوستان منتقل کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ انہوں نے ملیر کینٹ میں بارکیں توڑنے کا سلسلہ بند کرا دیا۔ غیر مسلم ٹھیکہ داروں نے اپنے احتجاجوں سے آسمان سر پراٹھا لیا۔ اس طرح کس قدر مفید اور قیمتی عمارات ضائع ہوگئیں۔ اس کا اعلان تقسیم کے بعد ہوا۔ یہ ایسا حکم دینے والوں کی انتظامی کوتاہ اندیشی کا ایک بدترین نمونہ تھا۔ کیا یہ دیدہ و دانستہ تخریبی کارروائی تھی؟ فوجی اسپتالوں سے سب کچھ نکال لیا گیا تھا۔ عمارات اپنی جگہ پر تھیں اور یہ پتا چلتا تھا کہ وہ عمارات، اس وقت جب ان سے کام لیا جارہا تھا، کس قدر عظیم الشان اداروں کی حیثیت رکھتی ہوں گی۔
کور ہیڈ کوارٹر اپنی جگہ موجود تھا، لیکن عملہ غائب تھا۔ میں نے لیفٹیننٹ کرنل کے ایم شیخ کو (جو اس وقت لیفٹیننٹ جنرل ہیں) اپنا جی اے اور چند روز بعد لیفٹیننٹ کرنل محمد اعظم خاں (جو لیفٹیننٹ جنرل ہیں) کو جب یہاں آئے، اپنا اے کیو مقرر کیا۔
ہماری کور کے پاس کافی اسٹاف فوجی یونٹ اور نقل و حمل کے ذرائع موجود نہیں تھے۔ اس کے باوجود ہم نے وقار اور کامیابی کے ساتھ پرچم سربلند رکھا۔ ان یکسر محدود وسائل کے ساتھ ہم نے ہزارہا برطانوی خاندانوں کا خیرمقدم کیا اور ان کی دیکھ بھال بھی کی اور بلاشبہ بڑے فخر کے ساتھ ہندوستان سے آنے والے مسلمان مہاجرین اور سندھ بلوچستان اور بلوچستانی ریاستوں سے آئے ہوئے ہزارہا غیر مسلم پناہ گزینوں کی خدمت بھی کی۔ یہ کٹھن کام تھا لیکن پاکستانی افسروں کی بے لوث جدوجہد نے اسے بطریقِ احسن سرانجام دیا۔ ہندوستان جس کام میں ناکام رہا، ہم اس کام میں کامیاب ثابت ہوئے۔ ہندوستان نے حیدرآباد کو جودھ پور کے راستہ دہلی اور احمد آباد سے ملانے والی ریلوے لائن توڑ دی۔ حالانکہ یہ اقدام کراچی میں غیر مسلموں کے اکٹھا کرنے اور ان کو یہاں سے روانہ کرنے کے یکسر منافی تھا۔ سمہ سٹہ سے بھٹنڈا کے راستہ دہلی جانے والی مین لائن پر بہت سے دھماکے ہوئے اور لوٹ مار کے سلسلے جاری رہے، اس لیے ان ریلوے لائنوں پر آمد و رفت بند تھی۔
حالات پُرامن تھے، لیکن ہزارہا کھتری سکھ ایک گوردوارہ میں جمع ہو گئے اور انہوں نے اشتعال انگیزیوں کا سلسلہ شروع کر دیا، یہ بھی اتفاق تھا کہ گرومندر کے علاقہ میں ایک مکان میں بم پھٹ گیا، جب حفاظتی دستہ وہاں پہنچا تو بہت بڑی مقدار میں تیزاب اور آتش گیر مادہ برآمد ہوا۔ اس گھر میں رہنے والا شخص دیسی ساخت کے بم بنا رہا تھا کہ ان میں سے ایک بم پھٹ گیا، بم تیار کرنے والے کے ٹکڑے اُڑ گئے اور اس کے ساتھ کام کرنے والے بہت سے بری طرح مجروح ہوئے۔ میں ایک میٹنگ میں شریک ہونے کے لیے گورنمنٹ ہائوس جارہا تھا کہ ایک ہجوم امریکی سفارتخانہ پر حملہ کرتے ہوئے نظر آیا۔ میرا پرانا ڈرائیور حوالدار محمد انور خان ہندوستان میں اس قسم کے حالات کی پوری تربیت حاصل کرچکا تھا، اس نے ۱۹۴۶ء کے دوران ہندوستان کے فساد زدہ علاقوں میں مجھے دو لاکھ میل سے زیادہ طویل فاصلہ تک کار میں پھرایا تھا۔ اس نے کار کے بریک لگالیے اور ہجوم کی توجہ منعطف کرنے کی خاطر ہارن بجانا شروع کر دیا اور اس کے بعد کار روک کر بھاگا اور چلّا چلّا کر کہنے لگا، بھاگو۔ بھاگو۔ جنرل فوج لے کر آگیا ہے، ان الفاظ نے لوگوں پر جادو کا کام کیا۔ اس وقت کچھ بلوائی سفارتخانہ میں زبردستی گھسنے کی کوشش کررہے تھے اور کچھ دکانوں کے تالے توڑنے میں مصروف تھے، لیکن یہ آواز سنتے ہی وہ اپنی کلہاڑیاں اور لاٹھیاں وغیرہ پھینک کر مختلف اطراف کو بھاگ گئے، وہ بھاگ رہے تھے اور میں کھڑا ہوا دیکھ رہا تھا۔ جب میدان بالکل صاف ہوگیا تو میں کار کی طرف واپس آگیا۔ امریکی سفیر مجھے ملے، انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا۔ بہرحال میں تیزی کے ساتھ روانہ ہوگیا، اس لیے کہ میٹنگ میں شرکت کے لیے بہت زیادہ تاخیر ہو چکی تھی، امریکی سفیر نے قائداعظم سے میرا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس عفریت کو دیکھتے ہی بلوائیوں کے اوسان خطا ہوگئے اور وہ دم زدن میں وہاں سے غائب ہوگئے۔
جب میں گورنمنٹ ہائوس پہنچا تو سندھ کے گورنر سر غلام حسین ہدایت اللہ مرحوم قائداعظم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، وہ یہ کہنے آئے تھے کہ شہر میں فسادات نے سنگین صورت اختیار کرلی ہے، اس لیے امن و امان قائم کرنے کی خاطر فوج طلب کی جائے۔ قائداعظم نے اس کی منظوری دے دی اور مجھے مناسب انتظام کرنے کا حکم دیا، میرے پاس بلوچ بٹالین کی ۱۲۰؍رائفلیں تھیں، میں نے بلوچ بٹالین کو شہر کے گارڈن پولیس اسٹیشن میں پہنچنے کا حکم دیا، اس بٹالین کے کمان افسر کرنل گلزار گارڈن پولیس اسٹیشن میں مجھ سے آکر ملے، اس پولیس اسٹیشن کو فسادات کے دوران فوجی کارروائیوں کا صدر مقام منتخب کیا گیا تھا۔ میں نے بحریہ اور فضائیہ کے اعلیٰ کمانڈروں سے کہا کہ وہ حتی الامکان زیادہ سے زیادہ دستے بھیجیں تاکہ بلوچ بٹالین کے جوانوں کو گورنمنٹ ہائوس، گورنر ہائوس اور وزیروں کی حفاظت کے لیے بھیجا جاسکے۔ ان کے علاوہ تمام اہم اداروں پر بھی ان کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی۔ ریلوے اسٹیشنوں کی حفاظت اور ریلوے گاڑیوں سے متعلق تمام ڈیوٹیاں رائل پاکستان ایئرفورس اور رائل پاکستان نیوی کے سپرد کی گئیں۔
میں ایک بار پھر جذباتِ تشکر کا اظہار کرتا ہوں کہ تمام بیٹروں نے دلی تعاون سے کام لیا۔ رائل پاکستان نیوی اور رائل پاکستان ایئرفورس کے برطانوی کماندارانِ اعلیٰ نے مجھے ہر ممکن مدد دی۔ یہاں یہ ذکر بھی مناسب ہوگا کہ اگرچہ میرے تحت ایک برطانوی انفنٹری بریگیڈ اور ایک برطانوی بریگیڈ بھی تھا۔ لیکن میں ان کو شہری حکام کی امداد کے لیے استعمال نہیں کرسکتا تھا۔
بہرحال رائل اسکائوٹس اور رائل اسکاٹ فیوزیلیٹرس کے کمان افسروں نے مجھے امداد دینے کی پیشکش کی تھی اور مجھے ہر ممکن مدد دی۔ تقسیم کے بعد برطانوی فوجوں کو شہری حکام کی امداد کے لیے استعمال کرنے میں بھی بعض تکنیکی مواقع موجود تھے۔ بہرحال میں نے ان کی پیشکش کا شکریہ ادا کیا اور مکرر اظہارِ تشکر کرتا ہوں۔
مجھے یہ دیکھ کر (شاید ایک ہی مرتبہ) بہت رنج ہوا کہ فرسٹ کور ہیڈ کوارٹر اور سروسوں کے بیشتر برطانوی افسر بدمزاج تھے۔ ان میں بہت کچھ اچھے بھی تھے۔ ان کو تو میں نے اپنے پاس رکھا اور باقی سب کو کوچ کرنے کا حکم دے دیا اور سب سے پہلے بحری جہاز پر سوار کردیا۔
اگر میرا پیشرو (ایک برطانوی جرنیل) پاکستان میں رکھے جانے والے برطانوی افسروں کا انتخاب زیادہ انصاف پسندانہ طور پر کرتا تو یہ بدمزگی پیدا نہ ہوتی، اس ناقص انتخاب کی وجہ سے بہت سے ناخوشگوار تاثرات پیدا ہوئے جن سے کچھ عرصہ تک ہمارے اور برطانیہ کے باہمی تعلقات بھی متاثر رہے، اس کے نتیجے میں رائے عامہ نے حکومت کو مجبور کر دیا کہ پاکستان کے دفاعی بیڑوں سے برطانوی افسروں کو نکال دے۔
یاد رہے کہ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان کی حکومت اور دفاعی افواج ملک کے باقی حصوں میں تو کیا، خود دہلی میں کئی ہفتے تک امن و امان برقرار رکھنے سے یکسر قاصر رہیں۔ یہاں تک کہ ہندوستان کے وزیراعظم بذاتِ خود کمانڈر انچیف کے ہمراہ نئی دہلی جایا کرتے تھے۔ اور یہ محسوس کرچکے تھے کہ صورت حال ان کے قابو سے باہر ہو چکی ہے۔ پاکستان کی دفاعی افواج نے جس عجلت سے پُرامن فضا پیدا کی، اسے قائداعظم نے اپنی ایک تقریر میں ان الفاظ کے ساتھ سراہا:
’’اگر کوئی حکومت چاہے تو امن و امان برقرار رکھ سکتی ہے‘‘۔
یہ سلسلہ آگے بڑھانے سے قبل میں قارئین کے سامنے بعض واقعات کا تفصیلی خاکہ پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جن سے مجھے حقیقی اور بجاطور پر ناز ہے اور اس حقیقت پر کہ میری کمان میں خوش قسمتی سے ایسے عظیم الشان اور بے لوث سپاہی آگئے تھے۔
عظیم سپاہی
شام کا دھندلکا شروع ہونے سے قبل ہی کراچی میں امن و امان قائم کرلیا گیا تھا، غروب آفتاب کے بعد مجھے کچھ گولیاں چلنے کی آواز سنائی دی اور اس کے چند منٹ بعد مجھے ٹیلی فون پر اطلاع ملی کہ بعض صوبائی اور مرکزی وزیر عوام کو خوفزدہ کرکے اپنے گھروں میں چلے جانے پر مجبور کرنے کی غرض سے گولیاں چلا رہے تھے، اس لیے کہ میں نے کرفیو آرڈر نافذ کر دیا ہے۔ ساتویں بلوچ بٹالین کا ایک جونیئر کمیشنڈ افسر اُن وزیروں کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ وہ فائرنگ بند کرکے اپنے اپنے گھروں کو تشریف لے جائیں۔ لیکن اس کی انہوں نے کوئی پروا نہیں کی۔ مذکورہ جونیئر کمیشنڈ افسر نے اپنے چند سپاہیوں کو حکم دیا کہ ان کو حراست میں لے کر ہیڈ کوارٹر میں پہنچا دیں۔ اس نے ٹیلی فون پر یہ درخواست کی کہ اسے اپنی ڈیوٹی پر موجود رہنے دیا جائے اور ذاتی طور پر بیان دینے کے لیے حاضر ہونے سے مستثنیٰ رکھا جائے۔ میں نے اس سے کہا کہ ان کو میرے پاس بھیج دو اور تم اپنی ڈیوٹی پر رہو۔
جس وقت یہ وزراء میرے ہیڈ کوارٹر لائے گئے، قائداعظم کا پیغام موصول ہوا کہ ان کو گورنمنٹ ہائوس بھیج دو۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ قائداعظم نے ان کو معافی نامہ لکھنے پر مجبور کیا اور اس کے بعد ان کو اپنے اپنے گھر جانے کی اجازت دی گئی۔ قائداعظم نے ان کو یہ فہمائش بھی کی کہ ڈیوٹی پر موجود افراد کے فرائض میں آئندہ کوئی مداخلت نہ کریں۔
بے لوث افراد
میں گارڈن پولیس اسٹیشن میں ہندوستانی ہائی کمشنر مسٹر سری پرکاشا سے بات چیت کررہا تھا۔ ہم نے فسادات کی روک تھام میں جو کامیابی حاصل کی تھی، اس پر وہ بہت مطمئن نظر آرہے تھے۔ اتنے میں اچانک عورتوں اور مردوں کی چیخ پکار کی آوازیں سنائی دیں۔ اس پر میں نے اپنے دل سے کہا کہ کیا ہم نے یہ سب کچھ قبل از وقت کیا ہے اور فساد کی آگ پھر بھڑک اٹھی ہے؟ میں اچھل کر اپنی جیپ پر سوار ہوگیا اور کونے پر آتے ہوئے ہجوم کے پاس پہنچ گیا۔ مسٹر سری پرکاشا بھی وہاں پہنچ گئے تھے۔ ایک ضعیف العمر مسلم دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور قبل اس کے کہ میں اس سے کچھ دریافت کروں، وہ میرے قدموں پر لوٹ رہا تھا۔ وہ زمین پر گرا ہوا تھا اور کچھ عورتیں اور بچے دہاڑیں مار مار کر رو رہے تھے، میں نے اسے پکڑ کر کھڑا کیا اور دریافت کیا کہ ماجرا کیا ہے؟ اس پر اس نے کہاکہ جناب عالی ایک ہجوم ہمیں لوٹنے آیا تھا کہ اس سپاہی (بلوچ بٹالین) نے ہمارے جان و مال اور آبرو کو بچایا، اس کے بعد اس نے ہمیں اپنا مال و متاع اٹھانے کے لیے کہا اور ہماری حفاظت کے لیے خود ساتھ ہولیا۔ جب ہم پولیس اسٹیشن کے ذرا قریب آئے تو میں نے اسے ایک ہزار روپیہ پیش کیا، لیکن اس نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ میں نے یہ خیال کیا کہ شاید وہ ایک ہزار روپے پر راضی نہیں، چنانچہ میں نے نوٹوں کی ایک تھیلی اس کے ہاتھ میں تھما دی۔ اس نے میری طرف مڑ کر کہا کہ دور ہو جائو۔ تم نے میری توہین کی ہے۔ جناب عالی! میں آپ کو یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہم نے یہ سمجھا کہ وہ کوئی دیوتا ہے اور ہماری مدد کو آیا ہے۔ چنانچہ میں نے اس کے قدموں پر سر کو رکھ دیا اور رو رو کر معافی طلب کی۔ اس پر میرے خاندان کے دوسرے افراد نے بھی رونا شروع کردیا۔ غالباً یہ ہماری چیخ و پکار ہی تھی، جسے سُن کر آپ یہاں آئے ہیں۔ لیکن اس سپاہی نے ہماری ایک نہ سنی اور اصرار کے ساتھ کہا کہ آگے چلو، مجھے اور بہت سا کام ہے اور میرا حوالدار دیر سے پہنچنے پر مجھ سے باز پرس کرے گا۔ میرے پاس بہت سے زیورات اور دو لاکھ روپیہ نقد ہے۔
مسٹر سری پرکاشا نے مجھے ایک اور ناقابلِ فراموش قصہ سنایا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی ہائی کمیشن کے پہرہ دار دستہ کے حوالدار سے میں نے شکایت کی کہ ہائی کمیشن کے ملازمین کے لیے راشن نہیں بھیجا گیا۔ اس پر حوالدار نے کہا کہ جناب عالی! آپ کا راشن میرے پاس پڑا ہے۔ چنانچہ اس نے وہ راشن میرے عملے کے حوالے کر دیا۔ دوسری صبح کو وہ حوالدار ہائی کمیشن کے ٹیلی فون کے ذریعہ کسی سے بات چیت کر رہا تھا کہ اتفاقاً میں نے اس کی آواز پر کان لگائے، وہ کہہ رہا تھا ہندوستانی ہائی کمشنر کے لیے راشن نہیں پہنچا اور میں نے گارڈ کا تیرہ دن کا راشن ان کے حوالے کر دیا ہے اور میرے جوان گزشتہ رات سے بھوکے ہیں، اس لیے راشن جلد از جلد بھیجا جائے۔
مسٹر سری پرکاشا نے مزید کہا کہ میں نے اپنے آدمیوں سے دریافت کیا کہ انہوں نے کھانا پکایا ہے یا نہیں، انہوں نے بتایا کہ پوری ترکاری تیار ہے، میرے کہنے پر انہوں نے چھ جوانوں کا کھانا بھیجا لیکن پہرہ دار دستے کے حوالدار نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس پر میں نے ان سے کہا کہ آپ اگر ہمارے آدمیوں کا پکایا ہوا کھانا نہیں کھانا چاہتے تو ہم سے خشک لے کر خود کھانا تیار کرلو۔ اس کے جواب میں حوالدار نے کہا:
’’آپ ہمارے مہمان ہیں، مہمان کو پیش کی ہوئی کوئی چیز واپس نہیں لی جاتی‘‘۔
اس کے بعد مسٹر پرکاشا کار میں بیٹھ کر میرے پاس آئے۔ دریافت کرنے پر میرے اے کیو کرنل اعظم نے بتایا کہ راشن والی لاری خراب ہو گئی تھی لیکن اب وہ بھیج دی گئی ہے، اس وقت راشن کی لاری ہندوستانی چانسری میں پہنچ چکی تھی اور ٹیلی فون پر اس کی تصدیق بھی ہو گئی۔
شاہی پاکستانی فضائیہ اور بحریہ
شاہی پاکستانی فضائیہ اور بحریہ دونوں بیڑوں کا ایک ایک دستہ پناہ گزینوں کی ٹرینوں کی حفاظت پر مامور تھا۔ چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر ایک ہجوم ٹرین پر حملہ کرنے اور اسے لوٹنے کے لیے تیار ہوگیا۔ لیکن جب ان حفاظتی دستوں نے واضح کر دیا کہ وہ اپنے فرض میں کوتاہی نہیں کریں گے تو بلوائی منتشر ہوگئے۔ مسافر پناہ گزینوں نے مجھ سے اس کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ جیکب آباد سے کراچی آتے ہوئے ایک درجن مواقع ایسے آئے کہ ان کی جانوں کے لیے سنگین خطرہ پیدا ہوا لیکن ہر مرتبہ محافظ دستے کی فوری کارروائی نے ان کو موت کے منہ سے بچا لیا۔ مقامِ افسوس ہے کہ ہندوستان میں مسلمان مہاجرین کی بیشتر ٹرینیں لوٹی گئیں اور مسافروں کا قتل عام ہوا اور ہندوستانی فوج کے پہرہ دار دستے بے بسی کے عالم میں یہ خونریزی دیکھتے رہے۔ یہی وہی سپاہی تھے جنہوں نے اس سے قبل میری کمان میں انتہائی شاندار خدمات انجام دی تھیں۔ ان میں یہ تبدیلی کیوں پیدا ہوئی؟ ان بہادر سپاہیوں پر اس سے قبل میں ناز کیا کرتا تھا اور اپنے آپ کو بہت خوش قسمت تصور کرتا تھا کہ میری کمان میں ایسے بے لوث جوان موجود ہیں، ان میں اب یہ تبدیلی کس وجہ سے پیدا ہوئی؟
ایک شاندار پریڈ
برّی فوج کی دو اور پلٹنیں سمندر پار سے کراچی پہنچ گئیں۔ غیر مسلم افراد کی علیحدگی کے باعث ان کی نفری بہت کم تھی۔ چند وزیر میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہم نے قائداعظم کو اس بات پر رضامند کر لیا ہے کہ اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے ایک مظاہرے کا انتظام کیا جائے، اس لیے کہ کراچی کی ہندو اور سکھ آبادی میں پھر خوف اور بے چینی کے آثار پیدا ہونے لگے ہیں۔
میں اس پریڈ کے متعلق قائداعظم سے دریافت کرنے گیا تو انہوں نے مجھے حیرت میں ڈال دیا اور فرمایا کہ ’’تم قومی ترانے کا انتظام کیوں نہیں کرتے، کیا وجہ ہے کہ بینڈ پر انگریزی دھنوں کے بجائے پاکستانی دھنوں کا انتظام نہ کیا جائے‘‘۔
قائداعظم نے میری طرف دیکھا اور کہا ’’اچھا میرے جنرل! اس پریڈ پر پاکستانی دھنیں پیش ہونی چاہئیں۔ آئندہ جمعہ یعنی دس دن کے بعد میں نہیں چاہتا کہ ’’گاڈ سیودی کنگ‘‘ اور دوسری برطانوی دھنوں کے ساتھ مجھے سلامی پیش کی جائے‘‘۔
میں قائداعظم کو بیس سال سے جانتا تھا اور مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ ان کا مقصد کیا ہے۔ چنانچہ اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کا وعدہ کرکے میں نے ان سے رخصت طلب کی۔ میں فی الحقیقت سخت الجھن میں مبتلا تھا۔ میں نے کرنل گلزار احمد کو ٹیلی فون کیا اور فوراً بلا بھیجا۔ انہوں نے آکر بتایا کہ ان کا پائپ میجر مطلوبہ دھنیں ایجاد نہیں کرسکے گا، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ دوسری پلٹن بھی اس معاملہ میں قاصر ہے۔ ہم لان پر بیٹھے ہوئے چائے پی رہے تھے اور مختلف منصوبے سوچ رہے تھے کہ ایک فرشتے کی طرح سابق صوبیدار میجر محمد مظفر خاں مجھ سے ملنے آگئے، وہ ایک پرانے بینڈ ماسٹر تھے۔ میں نے ان کو ریاست رام پور میں زمین دلوائی تھی اور وہ وہیں آباد ہو گئے تھے لیکن اب مہاجر کی حیثیت سے پاکستان آئے ہوئے تھے۔ جب میں نے یہ مسئلہ ان کے سامنے پیش کیا تو کہنے لگے کہ ’’جنرل صاحب ایک بینڈ میری تحویل میں دے دیجیے، اقبال یا کسی شخص کی کوئی غزل یا نظم منتخب کیجیے۔ میرا خیال ہے کہ میں اس کے لیے مناسب دھن پیش کرسکوں گا۔ گلزار نے، جو بہت سی زبانوں پر عبور رکھتے ہیں، ایک عظیم اسکالر اور علی گڑھ یونیورسٹی کے ایک قابل گریجویٹ ہیں، اس سلسلہ میں میری مدد کرنے کا وعدہ کیا۔ چنانچہ اب یہ معاملہ ایک بینڈ ماسٹر اور ایک کمانڈنگ آفیسر کے ہاتھ میں تھا جس کے تحت بینڈ بھی تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اب تمام اسباب غیب سے فراہم ہو گئے ہیں اور شاندار طور پر باہم متوازن بھی ہوئے ہیں۔ جب ساتویں بلوچ بٹالین کا بینڈ تربیت پاچکا تو دوسرے بینڈ بھی اس میں شریک ہوگئے اور دس روز کے اندر اندر یہ مشکل حل ہوگئی اور پریڈ کے لیے جملہ تیاریاں مکمل تھیں۔
پریڈ کا دن
سمندر پار اور ہندوستان سے توپچیوں کے مزید دستے کراچی پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے ہندوستان کی ساحلی دفاعی یونٹوں کے برطانوی عملے سے ۷۵ سے زیادہ ایم ایم اور لائیٹ ایک ایک طیارہ شکن توپیں حاصل کی تھیں۔ حیرت ناک امر یہ تھا کہ مائونٹین بیٹریوں اور میڈیم گنوں کے ان توپچیوں نے اپنے نئے کردار میں اس قدر جلد کس طرح مہارت حاصل کرلی۔ فیصلہ کیا گیا کہ پریڈ گنر لائن کے قریب ہو۔ اب ٹرانزٹ کیمپ میں انفنٹری، ٹینکو اے ۔ایس ۔سی اور دوسرے بیٹریوں کے کئی ہزار جوان جمع ہو چکے تھے۔ انہوں نے بھی پریڈ میں شریک ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ چنانچہ ان کو بھی پریڈ میں شرکت کی اجازت دے دی گئی۔ یہ ایک بہت بڑی پریڈ تھی اور وزارتِ خارجہ نے اس میں شرکت کے لیے غیر ملکی سفارتی نمائندوں کو بھی مدعو کیا تھا۔
ملیر کینٹ کے سپاہیوں نے ازراہِ عقیدت اس سڑک کا نام ’’جناح ایونیو‘‘ تجویز کیا۔ جو جرنیلی سڑک سے ملیر کینٹ کو جاتی ہے۔ جب قائداعظم تشریف لائے تو توپوں کو سر کرکے سلامی پیش کی (اب کے دیسی پٹاخے استعمال نہیں کیے گئے) اور بینڈ نے علامہ اقبال کے کلام کی بنیاد پر تیار کی گئی دھنوں سے ان کا خیر مقدم کیا۔
جب فوج کے دستے قائداعظم کے سامنے سے سلامی پیش کرتے ہوئے گزرے اور انہوں نے ایک مربع کی شکل اختیار کرلی تو قائداعظم نے مجھ سے فرمایا کہ میں تقریر کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن تقریر کرنے کے بجائے انہوں نے دوبارہ پریڈ کرنے کی اچانک خواہش ظاہر کی۔ جب فوجی دستے دوسری مرتبہ سلامی پیش کرتے ہوئے ایک مربع کی صورت میں تبدیل ہو گئے تو قائداعظم نے خواہش ظاہر کی کہ نئی پاکستانی دھنوں کے ساتھ بینڈ بجتا رہے اور وہ اسی حالت میں پریڈ کا معائنہ کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ کیا کوئی ایسا بھی شخص ہے کہ معائنہ کے دوران بینڈ کی دھن کے ساتھ مائیکروفون پر اصل نظم بھی گا کر سنائے۔ اس پر میں نے کہا کہ معلوم کرتا ہوں۔ اس کے بعد میں سلامی کے چبوترے سے نیچے اترا اور ایک اسٹاف آفیسر کو کرنل گلزار احمد سے دریافت کرنے بھیجا۔ چنانچہ سابق صوبے دار اور میجر مظفر خاں نے جو اس دھن کے موجد تھے، رضاکارانہ طور پر بینڈ کے ساتھ ساتھ اصل نظم گا کر سنانے کے لیے اپنی خدمت پیش کی۔ میں نے ان کو دھن کے موجد کی حیثیت سے قائداعظم سے متعارف کرایا اور قائداعظم نے ان سے مصافحہ کیا۔ اس کے بعد معائنہ شروع کیا۔ اِدھر بینڈ بج رہا تھا اور اُدھر مظفر گارہے تھے۔ قائداعظم نے مجھ سے کہا کہ فوج کو بتادو کہ میں اس کی پریڈ کو دیکھ کر بہت خوش ہوا ہوں اور ایک بار پھر معائنہ کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد فوج نے دوبارہ مارچ پاسٹ شروع کر دیا، بینڈ بجتا رہا اور مظفر گاتے رہے۔ جب پریڈ نے مربع شکل اختیار کی تو قائداعظم نے فوج کو تحسین و آفریں سے نوازتے ہوئے کہاکہ فوج نے فسادات کے زمانے میں کارکردگی کا بہت اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے اپنی پیشکش ایک بار پھر دہراتے ہوئے کہا کہ:
’’میں کبھی نہیں چاہتا کہ غیر مسلم پاکستان سے کوچ کرجائیں، لیکن جو لوگ جانا چاہتے ہیں ان کو روکوں کا بھی نہیں۔ جو غیر مسلم پاکستان میں رہیں گے، ان کو انصاف اور مساویانہ حقوق حاصل ہوں گے۔ جو لوگ پاکستان سے جانا چاہیں گے، اُن کی حفاظت کی جائے گی اور جانے کے لیے سہولتیں بہم پہنچائی جائیں گی‘‘۔
میں نے پریڈ ختم کرنے کے لیے قائداعظم سے رسمی اجازت طلب کی۔ قائداعظم نے فرمایا کہ ہاں پریڈ رخصت، بینڈ طلب کرو اور ایک کرسی منگائو کہ میں بیٹھ جائوں۔ میں چاہتا ہوں کہ بینڈ پھر وہی دھن چھیڑے اور مظفر اس سے ہم نوا ہو کر گائے۔ جب مظفر نے گانا شروع کیا تو قائداعظم اٹھ کر مائیک تک گئے اور مظفر کی پشت پر ہاتھ رکھ کر فرمانے لگے ’’میں اس دھن پر تمہیں گاتے دیکھ کر بہت خوش ہوا ہوں‘‘ قائداعظم اس وقت بہت خوش نظر آتے تھے، انہوں نے ایک مرتبہ پھر مظفر کا شکریہ ادا کیا۔
ایک غیر رواجی جنگ
کراچی میں مزید افواج پہنچ جانے کے بعد ساتویں بلوچ بٹالین کو آرام کرنے اور جوانوں کو تربیت دینے کے لیے کوئٹہ تبدیل کر دیا گیا، چونکہ ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کے خیرمقدم اور ان کو مختلف مقامات پر بھیجنے کا کام تسلی بخش طور پر منظم کیا جاچکا تھا۔ برطانوی افسروں، جوانوں اور ان کے بیوی بچوں کا انخلا مکمل ہو چکا تھا اور سندھ کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ چھاپوں کے سلسلوں پر مناسب حد تک قابو پایا جاچکا تھا۔ اس لیے میرا ہیڈ کوارٹر کوئٹہ منتقل ہوگیا، جہاں ہمارے افغانی بھائی پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ پاکستانی دیہات پر حملے کرنے اور ان کو لوٹنے اور پاکستانی باشندوں کو خوف و ہراس کا شکار بنانے میں مصروف تھے۔ مزید برآں اس وقت کا خان قلات شکار کھیل کر ہاتھ رنگنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قائداعظم نے ریاست قلات کے پاکستان میں شامل ہونے کے لیے اس کے سامنے جو فراخ دلانا شرائط پیش کی تھیں، ان سے وہ ناجائز فائدہ اٹھا رہا تھا۔ یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ خان قلات کی بیگم اور ان کے بھائی شہزادہ عبدالکریم کی بیگم، دونوں افغانستان کے حکمراں خاندان سے تعلق رکھتے تھے، کریم بہت لالچی اور سیاسی قمار باز تھا۔ چنانچہ وہ اپنی بیوی کے رشتہ داروں سے مدد حاصل کرنے کی خاطر افغانستان گیا۔ افغانستان میں اس کے ہمدردوں نے چھوٹے چھوٹے حملے شروع کردیے، جن کا مقابلہ سرحد کے ساتھ پھیلی ہوئی اسکائوٹ یونٹوں نے کامیابی کے ساتھ کیا، لیکن ان کی وجہ سے افغانستان اور پاکستان کے تعلقات پر بہت ناخوشگوار اثر پڑا، میں حتی الامکان بہت قریب سے اس صورتحال کا مطالعہ کر رہا تھا کہ مجھے معلوم ہوا کہ عبدالکریم نے ڈیڑھ ہزار افراد کا ایک لشکر تیار کرلیا ہے اور چند ہزار افغان قبائلیوں کی امداد بھی حاصل کرلی ہے جو مزل گنوں سے مسلح تھے، اس نے رسمی طور پر مسٹر فیل آئی سی ایس کو قلات کا وزیراعظم اور وزیر خارجہ مقرر کرلیا ہے اور ہندوستانی فوج کے بریگیڈیئر اینڈرسن کو اپنا کمانڈر انچیف اور وزیر دفاع بنالیا ہے۔ ان کے علاوہ کچھ وزیر بھی مقرر کیے گئے۔ ہندوستانی فوج کا ایک سابق کپتان میر حیدر اس کا انسپکٹر جنرل پولیس تھا۔ کریم نے اپنے بھائی خان قلات کے ذریعے قلات میں اپنے پائوں جمالیے تھے، لیکن اگر وہ کامیاب ہو جاتا تواپنے بھائی خان قلات کو جِلاوطن کر دیتا، اس لشکر میں کئی ہزار قبائلیوں کے بھی شریک ہونے کا خطرہ تھا، جو حکومتِ پاکستان کی طرف سے کمزور یا منفی پالیسی کے مظاہرے کی صورت میں بہت زیادہ وبالِ جان ثابت ہوئے۔ میں نے ساتوں بلوچ کے کمان افسر کو ہدایت کی کہ صورتحال پر بہت کڑی خفیہ نظر رکھے۔
مجھے پاکستان کے وزیر دفاع کی طرف سے فضائیہ پاکستان کے اس طیارے پر کراچی پہنچنے پر حکم ملا جو اس مقصد کے لیے بھیجا گیا تھا۔ کراچی پہنچنے پر ایک کانفرنس میں مجھے بتایا گیا کہ شہزادہ کریم بارہ ہزار افغانوں کے لشکر کو لے کر پاکستان پر حملہ کرنے والا ہے، جھالاوان کے ہزارہا قبائلی عبدالکریم کی مدد کرنے کے لیے اس کے لشکر میں شامل ہو جائیں گے، خان قلات خفیہ طور پر اپنے اس بھائی کی مالی اور ہر ممکن مدد کررہا ہے۔
مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ ان کی تجویز کے مطابق میری مدد کے لیے لاہور سے دسویں ڈویژن کے دو بریگیڈ بھیجے جائیں گے جو دشمن سے جھڑپ لیں گے اور کراچی میں تازہ تازہ آئی ہوئی دو پلٹنیں پسنی کے راستے پیش قدمی کریں، پاکستانی بحریہ بھی مجھ سے تعاون کرے گا اور بحری جہازوں کے ذریعے ساحل پر طلایہ گردی کردے گا اور تمام فوجیں اور ان کا سازو سامان پسنی پہنچائے گا اور فضائیہ پاکستان کا ایک دستہ بھی میرے کنٹرول میں ہوگا۔
میں نے اس اسکیم کو پسند نہیں کیا جو میرے نزدیک ایک مکھی کو ہلاک کرنے کے لیے بھاری ہتھوڑا استعمال کرنے کے مترادف تھی۔ مزید برآں میں لاہور، حیدرآباد اور کراچی کو خالی چھوڑنے کے خیال کا بھی حامی نہیں تھا۔ اس لیے کہ ہم نے بدقسمتی سے پہلے ہی ہندوستان اور پاکستان کی ہزارہا میل لمبی سرحد پرایک غیر سرکاری جنگ چھیڑ رکھی تھی، یہ جنگ اگرچہ غیر ضروری تھی لیکن ہندوستان نے ہمیں اس میں زبردستی الجھا دیا تھا۔ میرا چھوٹا بھائی میجر جنرل افتخار خاں مرحوم اس وقت دسویں ڈویژن کا کمانڈر تھا، اس لیے ہم دفاع پاکستان کے موضوع پر مستقلاً تبادلۂ خیالات کرتے رہتے تھے۔ ہم ہندوستان کے خلاف کوئی جارحانہ قدم اٹھانے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ منصوبہ بھی تھا کہ اگر ہم پر حملہ کیا جائے تو حملہ آوروں کو واپسی کا ٹکٹ نہیں ملے گا۔
وزارتِ دفاع اس بات پر سختی سے اڑی ہوئی تھی کہ میں اس کی تیار کردہ اسکیم پر عمل کروں۔ میرے لیے بڑی کٹھن صورت تھی۔ آخر میں نے کہا کہ غالباً یہ بہتر رہے گا کہ کوئی اور کمانڈر مقرر کیا جائے، اس لیے کہ میں اس اسکیم سے انصاف نہیں کرسکوں گا جو مجھے قطعاً پسند نہیں۔ میری یہ درخواست سننے کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ کوئٹہ واپس جائو، صورتحال پر غور کرو اور کوئٹہ پہنچنے کے بعد ۳۶ گھنٹے کے اندر اندر اپنا منصوبہ تیار کرکے بھیجو۔
جب میں کوئٹہ کے ہوائی اڈے پر پہنچا تو قائداعظم کا ایک مکتوب میرے حوالے کیا گیا، جس میں حکم دیا گیا تھا کہ میں ان سے ملاقات کے لیے فوراً زیارت پہنچوں۔ ہوائی اڈے پر کرنل گلزار بھی مجھ سے ملے اور زیارت روانہ ہونے سے قبل میں نے اس صورتحال پر ان سے بھی تبادلۂ خیال کرلیا۔ ان کے افسروں اور جنگی طلایہ گردوں نے بہت بڑا کام کیا تھا اور انہوں نے صورتحال کی مکمل تصویر میرے سامنے رکھ دی۔ حقیقت میں کریم کا لشکر پاکستان میں داخل ہوچکا تھا اور ساتویں بلوچ کی ایک کمپنی اس کی نقل و حرکت کو کڑی نگاہ سے دیکھ رہی تھی۔
میں نے قائداعظم سے ملاقات کی جن کو وزیر دفاع نے ٹیلی فون کے ذریعے کراچی کی کانفرنس کا پورا حال بتا دیا تھا۔ قائداعظم کے استفسار پر میں نے جو کچھ کہا، اس کا اختصار حسب ذیل ہے:
۱۔ میں مجوزہ اسکیم کے خلاف تھا اس لیے کہ اس سے خان قلات اور اس کے بھائی کو غیر ضروری اہمیت اور نمود حاصل ہو جائے گی، جس کے وہ اہل نہیں اور اس طرح پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔
۲۔ میں کراچی، حیدرآباد اور لاہور میں اپنا گھر دشمن کے دَر آنے کے لیے خالی چھوڑ کر ایک جنگلی بطخ کا تعاقب کرنے کے خلاف تھا۔ ہمیں انتہائی حد تک طویل سرحد کا دفاع کرنا ہے، جس پر وار کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں ضرورت سے زیادہ جذباتی نہیں ہونا چاہیے اور کسی منصوبے کے متعلق ٹھنڈے دل سے صورتحال کا سامنا کرنا چاہیے۔
۳۔ سیاسی طور پر ہمارے دشمنوں کو اپنے کوٹھوں پر چڑھ کر یہ چلانے کا موقع مل جائے گا کہ پاکستان کی نئی اسلامی مملکت اپنے بھائی اسلامی ملک افغانستان سے دوستانہ زندگی بسر کرنے سے قاصر رہی۔ یہ بھی یقینی تھا کہ مرکز میں جو اطلاعات پہنچی ہیں، وہ بہت ہی مبالغہ آمیز ہیں۔ وہ ان رپورٹوں سے ہم آہنگ نظر نہیں آتیں جو میں نے وزارتِ دفاع کو بھیجی ہیں، میں نے مزید کہا کہ کرنل گلزار بہت گہری نگاہ سے صورتِ واقعات کا مطالعہ کر رہے ہیں اور انہوں نے یقین دلایا ہے کہ ہم صورتحال سے نمٹ لیں گے۔ میں نے قائداعظم کو یہ بھی بتایا کہ کرنل گلزار ایک پختہ کار جنگی تجربہ رکھنے والے سپاہی ہیں۔ آخر میں مَیں نے یہ بھی کہا کہ اگر اس کارروائی کی کمان میرے ہاتھ میں دی جانے والی ہے تو یہ معاملہ بھی مجھ پر چھوڑ دیا جائے۔ مزید یہ کہ کریم کا لشکر پاکستان میں داخل ہو بھی چکا ہے اور اگر مجھے اس کا مقابلہ کرنے کی اجازت دی جائے تو میں نے فوجی کارروائی کے لیے اپنا منصوبہ بھی تیار کرلیا ہے۔
قائداعظم نے میرا بیان سننے کے بعد بلوچستان اور اس کی ریاستوں کو بدامنی کا علاقہ قرار دے دیا اور اسے آٹھویں ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ یعنی میرے حوالے کردیا۔ فی الحقیقت میں بھی یہ چاہتا تھا، اگرچہ میں نے قائداعظم سے اس کا اظہار نہیں کیا تھا۔
(بحوالہ: ’’برگِ گُل‘‘۔ ایوب نمبر۔ ۱۹۶۰ء۔ مجلہ اردو کالج کراچی)
Leave a Reply