’’ہماری جوہری سرگرمیاں قانونی ہیں!‘‘

نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر ایران کے سخت گو وزیر خارجہ منوچہر متقی کی نشست نیوز ویک کے نمائندے لیلی ویمائوتھ کے ساتھ رہی جس کے دوران لیلی نے متقی سے امریکا ایران تعلقات اور ایران کی بڑھتی ہوئی قوت سے متعلق ان کے نقطہ نظر جاننے کی کوشش کی۔ گفتگو کا متن درج ذیل ہے۔


لیلی ویمائوتھ: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی یا امریکی حملہ ہو گا؟

منوچہر متقی: نہیں!

ویمائوتھ: اگر اس طرح کا کوئی حملہ اسرائیل کی جانب سے ہوتا ہے تو کیا آپ اسے امریکا کی جانب سے حملہ تصور کریں گے؟

متقی: مشرقِ وسطیٰ میں کوئی بھی شخص امریکا اور اسرائیل کے مابین کوئی فرق و امتیاز نہیں کر سکتا ہے۔

ویمائوتھ: رپورٹ کے مطابق آپ کی انتظامیہ میں بہتیرے افسران نے حملے کی صورت میں آبنائے ہرمز بند کر دینے کی بات کی ہے۔

متقی: متعدد امریکی اور اسرائیلی حکام نے اپنی فوجی زبان میں موقف کا اظہار کیا ہے تو پھر یہ عین فطری ہے کہ انھیں فوجی زبان میں جواب بھی سننا پڑے گا۔

ویمائوتھ: صدر بش نے ایران کو بدی کا محور قرار دیا تھا۔ پھر گزشتہ جولائی میں انھوں نے اپنی وزارتِ خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر ویلیم برنس کو ایران کے ساتھ مذاکرات میں شرکت کے لیے بھیجا تھا۔ اسے ایک بڑی تبدیلی کہنا چاہیے۔

متقی: میں جنیوا میں جناب برنس کی شرکت کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ میرا احساس ہے کہ اگر یہ حقیقی مؤقف ہے جو امریکا نے اس وقت جوہری مسئلے کے حوالے سے اپنایا ہے تو اسے اپنی ان کوششوں کو جاری رکھنا چاہیے۔

ویمائوتھ: لہٰذا آپ امریکی مؤقف سے خوش ہیں۔

متقی: امریکی انتظامیہ نے کوئی پہلا حقیقت پسند اقدام اٹھایا ہے۔

ویمائوتھ: حقیقت پسندانہ قدم محض برنس کا بھیجنا ہے یا وہ بیانات ہیں جو برنس نے وہاں دیے؟

متقی: مذاکرات میں موجودگی کے حوالے سے امریکی انتظامیہ نے پہلے کئی شرائط عائد کر رکھی تھیں۔ برنس کی جنیوا موجودگی کا مطلب یہی ہے کہ اب وہ شرائط باقی نہیں رہی تھیں۔ کوشش کی ابتداء ہو چکی اور اب اگر اسے جوہری مسئلے کے حل میں کامیاب ہونا ہے تو ہمیں اگلے مرحلے میں داخل ہونا ہو گا۔

ویمائوتھ: لیکن آپ تو اپنا جوہری پروگرام ترک کرنے نہیں جا رہے ہیں؟

متقی: جو کچھ ہم انجام دے رہے ہیں وہ مکمل طور سے قانونی ہے۔ اعتماد باہمی کے نکتے پر پہنچنے کے لیے ہمیں گفتگو کی ضرورت ہے۔

ویمائوتھ: لیکن ایران اقوام متحدہ کا وہ واحد رکن ہے جس نے اقوام متحدہ کے ایک دوسرے رکن اسرائیل کو نقشۂ عالم سے محو کرنے کی بات ہے۔ پاکستان کے پاس بم ہے، بھارت کے پاس بم ہے لیکن ان میں سے کسی نے کسی دوسرے ملک کو تباہ کرنے کی دھمکی نہیں دی ہے۔ آپ کسی ملک میں اعتماد کس طرح حاصل کریں گے اگر آپ دوسرے ملک کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بات کریں گے۔

متقی: ہم سرکاری طور پر اس مملکت کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ہم پھر جوہری مسئلے کی جانب واپس آتے ہیں ہم پھر یہی کہیں گے کہ ہماری سرگرمیاں مکمل طور سے قانونی ہیں۔

ویمائوتھ: بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی آئی اے ای اے کا کہنا ہے کہ ایران نے بہتیرے سوالات کے جوابات نہیں دیے جو اس سے پوچھے گئے تھے اور یہ ایٹم کی افزودگی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

متقی: ہم ایٹم کی افزودگی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں جس کا ہمیں پورا حق حاصل ہے۔

ویمائوتھ: آئی اے ای اے کی رپور ٹ میں موجود دوسرے الزامات سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟

متقی: ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی قرار دادیں ناجائز اور غیر قانونی ہیں۔ گزشتہ سال ہم نے اُن تمام سوالات کے جوابات دے دیے تھے جو ایجنسی کی طرف سے ہمیں دیے گئے تھے۔ بعد میں یہ بالکل واضح ہو گیا کہ یہ تمام سوالات ایجنسی کو امریکیوں کی طرف سے دیے گئے تھے۔ جب ہم نے سوالات کے ایک سیٹ کا جواب دے دیا تو امریکی کچھ نئے دعوئوں کے ساتھ واپس لوٹے تاکہ ایجنسی ان کی چھان بین کرے۔

ویمائوتھ: عراق میں امریکی سفیر ریان کروکر نے کہا ہے کہ ایران عراقی وزیراعظم نورالمالکی پر بھاری دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ SOFA معاہدہ پر دستخط نہ کریں (اس معاہدے کا تعلق عراق میں امریکی افواج کی موجودگی سے ہے) کیا یہ حقیقت ہے؟

متقی: جب کبھی امریکا اپنی پالیسیوں کو مسلط کرنے میں ناکام ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ اس کا الزام ایران کو دینا چاہیے۔

ویمائوتھ: لہٰذا آپ SOFA معاہدہ کے مخالف ہیں؟

متقی: ایک نہ ایک دن مقامی لوگوں کے نقطہ ہائے نظر اور خواہشات کا احترام حتماً کیا جانا ہے۔

ویمائوتھ: کیا آ پ کے خیال میں ایران اور امریکا کے عراق و افغانستان میں کچھ مشترکہ مفادات ہیں اور کیا آپ ان علاقوں میں دونوں ممالک کے مل کر کام کرنے کی کوئی بنیاد دیکھتے ہیں؟

متقی: جب عراق اور افغانستان کا معاملہ آتا ہے تو ہمارا مؤقف یہ ہے کہ ہم ان ممالک میں سیکوریٹی اور استحکام دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ان دونوں ممالک کی تقدیر کے تعین کا معاملہ ان ممالک کے عوام اور ان کی حکومتوں کے حوالے کیا جانا چاہیے۔ اگر امریکا کا بھی یہی نقطۂ نظر ہوتا ۔۔۔۔۔ لیکن امریکا نے اس معاملے میں غلط پالیسی اپنا رکھی ہے۔ اس لیے کہ چھ سال عراق میں اور سات سال افغانستان میں امریکا کی موجودگی اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکا اپنی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی۔ لائے ہمارا کہنا ہے کہ امریکی انتظامیہ اب کچھ ٹھوس فیصلے کرے اور ان ٹھوس فیصلوں میں ایک یہ ہے کہ امریکا اپنی افواج کی واپسی کا کوئی ٹائم ٹیبل متعین کرے۔

ویمائوتھ: کیا آپ کے خیال میں سینیٹر اوباما ایران کے لیے بہتر رہیں گے جبکہ انھوں نے عراق سے امریکی افواج کی واپسی کی بات کی ہے؟

متقی: جو امیدوار بھی امریکا کا صدر منتخب ہوتا ہے اسے مشرق وسطیٰ سمیت دنیا کے مختلف ممالک سے متعلق امریکی پالیسی میں بنیادی تبدیلی لانی ہو گی۔

ویمائوتھ: مجھے یہ تاثر ملتا ہے کہ ایران امریکا کی ایک بڑی حمایت کا ممنون ہے اور وہ اس وجہ سے کہ ایران کی طاقت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور اس کا سہرا عراق میں امریکی جارحیت کے سر جاتا ہے۔

متقی: ہمارے اور کچھ دوسروں کے مابین فرق یہ ہے کہ دوسرے ہر چیز کی تعبیر زور اور قوت کی عینک سے کرتے ہیں۔ ہماری جو کوشش ہوتی ہے وہ یہ کہ ہم مسئلے کو عدل، اپنے اصولی نظریات اور مواقف کے تناظر میں دیکھیں۔ ہمارا احساس ہے کہ موہوم طاقت آج کی دنیا میں واحد آلہ نہیں ہے جسے بااثر ہونے اور اپنا کردار ادا کرنے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ امریکا کی فوجی طاقت کمزور نہیں ہوئی ہے۔ امریکی انتظامیہ جس چیز سے محروم ہو گئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ منطقیت سے اپنا ناطہ توڑ چکی ہے۔ وہ عالمی رائے عامہ کو چیزوں کو اپنے تناظر میں دکھانے میں ناکام ہو گئی ہے۔

(بشکریہ: ہفتہ روزہ’’ نیو ویک‘‘۔ ۱۳ اکتوبر ۲۰۰۸ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*