سعودی عرب: بے فکری کے دن ختم ہوئے!

سعودی عرب میں ایک طرف بیروزگاری بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ صورت حال ملک کی معیشت پر بھی بری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔ معاشرتی اور سیاسی تبدیلیاں حکومت پر اصلاحات کے لیے دباؤ بڑھا رہی ہیں۔

سعودی عرب میں مرد و زن کا سر عام اختلاط ممنوع ہے۔ نئی نسل سے تعلق رکھنے والوں کو ملنا ہو تو چھپ کر ملتے ہیں اور وہ بھی کسی نہ کسی جواز کی آڑ میں۔ چوبیس گھنٹے کھلنے والی سپر مارکیٹس اور ان کی پارکنگ میں بھی لڑکے اور لڑکیاں ملتے ہیں۔ سعودی عرب کے بڑے شہروں میں سماجی تبدیلیاں تیزی سے رونما ہو رہی ہیں۔ یہ معاملہ سیاسی نوعیت کی کشیدگی کا تو نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ سطح کے نیچے طوفان پنپ رہا ہے جو ناقابل یقین حد تک تبدیلیاں لاسکتا ہے۔ سعودی شہریوں میں بھی سیاسی شعور تیزی سے بیدار ہو رہا ہے۔ تیونس اور مصر میں جو کچھ ہوا اس کا اچھا خاصا اثر سعودی معاشرے میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ ملک کی ڈھائی کروڑ کی آبادی میں اب سیاسی اصلاحات کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔

اب تک سعودی حکمران عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر کے اثرات سے بہت حد تک محفوظ رہے ہیں۔ گزشتہ برس مارچ میں حزب اختلاف نے سیاسی اصلاحات کے لیے احتجاج کیا، جسے حکومت نے سختی سے کچلا تھا۔ تب سے اب تک حزب اختلاف نے احتجاج کا کوئی نیا پروگرام ترتیب نہیں دیا۔ ایسا نہیں ہے کہ حکمراں خاندان کو حالات کی تبدیلی کا اندازہ نہیں۔ شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے شہزادہ عبدالعزیز بن ستام کہتے ہیں ’’لوگوں کی توقعات بدل گئی ہیں اور ہمیں بدلتی ہوئی توقعات کے مطابق تبدیل ہونا پڑے گا۔ ہمیں مسائل کا اندازہ ہے اور وسائل کی بھی کمی نہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں مسائل حل کرنے کے لیے وسائل خرچ کرنے کا طریقہ نہیں معلوم۔ یہی سبب ہے کہ تعلیم، صحت عامہ، انصاف اور روزگار کے ذرائع کی فراہمی اور دیگر بہت سے معاملات میں کچھ کرنے کی تحریک نہیں مل رہی‘‘۔

شاہی خاندان کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو صرف اپنے معیار زندگی کی بلندی سے غرض ہے۔ وہ تیل کی دولت میں بڑا حصہ چاہتے ہیں۔ سعودی عرب میں کبھی کبھار ہونے والے رائے عامہ کے جائزوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے نزدیک بیروزگاری اور افراط زر سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔

بیروزگاری کی سرکاری شرح دس اعشاریہ چھ ہے۔ مگر غیر سرکاری اندازوں سے معلوم ہوا ہے کہ ۲۱ سال تک کے افراد میں بیروزگاری کی شرح ۳۵ فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ ملک کی آبادی کا ۶۰ فیصد ۲۱ سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو جلد از جلد کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔ حکومت اب تک وعدے کر رہی ہے۔ عملی اقدامات ناگزیر ہیں۔ حکومت نے گزشتہ برس اعلان کیا تھا کہ تین برسوں میں روزگار کے تیس لاکھ مواقع پیدا کیے جائیں گے۔ اور ۲۰۳۰ء تک مزید تیس لاکھ مواقع عوام کو فراہم کیے جاسکیں گے۔ ملازمت کے مواقع اتنی بڑی تعداد میں پیدا کرنا کسی بڑے صنعتی ملک کے لیے بھی ممکن نہیں تو پھر سعودی عرب کے لیے کیسے ممکن ہوسکتا ہے جس کی کوئی ٹھوس صنعتی بنیاد بھی نہیں۔

سعودی عرب میں ملازمتیں پیدا کرنے سے متعلق سابق قوانین ناکامی سے دوچار ہوچکے ہیں اس لیے نئے مواقع پیدا کرنا بہت پیچیدہ عمل ہے۔ غیر ملکی ملازمین اور بالخصوص مزدور خاصی کم اجرت پر کام کرتے ہیں۔ بڑے اداروں کو اس روش سے دور کرنے کے لیے حکومت نے انہیں پابند کیا کہ وہ اپنے ہاں ملازمتوں کا تیس فیصد مقامی افراد کے لیے مختص کریں۔ آجروں کا شکوہ ہے کہ مقامی نوجوانوں میں مہارت کی کمی ہے اور وہ تعلیم و تربیت کی کمی کے باعث کام میں بھرپور دلچسپی بھی نہیں لیتے۔ مقامی کوٹہ اب ختم کرکے زیادہ لچکدار نظام متعارف کرایا گیا ہے۔

حکومت چاہتی ہے کہ ملک میں بڑھتے ہوئے معاشی مسائل کے بارے میں لوگ باتیں نہ کریں۔ گزشتہ برس تین نوجوان سعودی فلم سازوں کو گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے ملک میں بڑھتے ہوئے افلاس کے حوالے سے فلم بناکر انٹرنیٹ پر جاری کرنے کی کوشش کی تھی۔ ایک سعودی نے اہل خانہ کو پالنے کے لیے اپنا ایک بیٹا فروخت کے لیے فیس بک پر پیش کیا۔ اس واقعے کی رپورٹنگ سے ایجنسیوں کو روکا گیا۔

>سعودی حکام اس بات کو خاص طور پر بیان کرتے ہیں کہ ریاست میں انفرادی آمدنی بڑھ رہی ہے۔ امریکا کے تھنک ٹینک بروکنگ انسٹی ٹیوشن نے دنیا بھر کے شہروں کا تجزیہ کرکے بتایا ہے کہ سعودی عرب کے دو بڑے شہروں کو آمدنی کے اعتبار سے پیچھے چھوڑنے کا والا صرف ایک شہر ہے اور وہ چین کا شنگھائی ہے۔ گزشتہ برس سعودی دارالحکومت ریاض کی آمدنی میں سات اعشاریہ آٹھ فیصد اضافہ ہوا۔

سعودی عرب کے تمام مسائل معاشی نوعیت کے نہیں۔ عوام کا بنیادی شکوہ یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح پر مامور پولیس نجی معاملات میں کچھ زیادہ دخل دے رہی ہے۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں چاہتی ہیں کہ حکومت نجی معاملات میں مداخلت بند کرے۔ انٹرنیٹ کے استعمال پر بھی قدغن ہے۔ لوگ اپنی رائے کا کھل کر اظہار نہیں کرسکتے۔ اوامر و نواہی سے متعلق کمیشن نے چند ایک معاملات میں نرمی برتنے کا عندیہ دیا ہے۔ کمیشن کے نئے سربراہ عبدالطیف الشیخ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اصلاحات پر یقین رکھتے ہیں اور انہوں نے چند ایک معاملات میں رعایتیں دینے کا اشارہ دیا ہے۔ کام کے مقامات پر خواتین کو تھوڑی بہت آزادی ملی ہے۔ محنت کے نائب وزیر مفرج الحقبانی (Mofarrej al-Hoqubani) کا کہنا ہے کہ خواتین کی استعداد بھی بڑھتی جارہی ہے جس کی روشنی میں انہیں ملازمت کے مواقع دینے والے اداروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ایک مثبت اشارہ ہے جس سے معاشرے میں رونما ہونے والی خوشگوار تبدیلی کا پتا چلتا ہے۔

خواتین کو اب بھی تنہا ڈرائیونگ کی اجازت نہیں تاہم حکام نجی طور پر کہتے ہیں کہ اس پابندی پر پوری طرح عمل کرنا ممکن نہیں۔ اگر مرد روزانہ اپنی بیویوں اور گھر کی دیگر خواتین کو لانے لے جانے میں گھنٹوں مصروف رہیں گے تو سعودی معیشت کبھی ترقی نہیں کر پائے گی۔ فروری میں ایک شاہی فرمان جاری ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جو خواتین تنہا ڈرائیونگ کرتی پائی جائیں ان پر عدالتوں میں مقدمہ نہ چلایا جائے۔

ویسے سعودی عرب میں عمومی رجحان قوانین کو سخت تر کرنے کا ہے۔ ولی عہد نائف بن عبدالعزیز تمام اہم حکومتی امور کی پشت پر ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ یہ وقت کمزوری دکھانے کا نہیں۔ حکومت سے اختلاف رکھنے والوں کے سفر پر پابندی عام ہے۔ ان کی سرگرمیوں پر سخت نظر رکھی جاتی ہے۔ انہیں حراست میں بھی رکھا جاتا ہے۔ یہی حال میڈیا کا ہے۔ میڈیا پر غیر معمولی پابندیاں عائد ہیں۔

سفر پر پابندی کا اطلاق عموماً ہو نہیں پاتا۔ بلاگر حمزہ کاشغری نے حضور نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی کے ارتکاب پر مبنی چند ریمارکس پوسٹ کیے اور ملائیشیا بھاگ گیا۔ حکومت نے اس کی حوالگی کے لیے تمام ممکنہ سفارتی کوششیں کیں۔ کئی سعودی علماء نے فتویٰ دیا ہے کہ توہین رسالت پر حمزہ کاشغری کے خلاف مقدمہ چلایا جائے۔

سعودی عرب کے بیشتر اندرونی قضیوں میں مذہب و مسلک ہی بنیاد ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال ریاست کے مشرقی حصے میں شیعہ اکثریت میں ہیں اور وہاں گزشتہ برس کئی پرتشدد واقعات رونما ہوئے ہیں۔ فروری میں پولیس نے جب مظاہرین پر فائر کھولا تو دو افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔ صوبائی دارالحکومت قطیف کی دیواروں پر شاہی خاندان کے افراد کے خلاف توہین آمیز نعرے لکھے ہیں اور ان سے سوال کیا گیا ہے کہ تیل کی کمائی کہاں ہے؟

حکومت الزام لگاتی ہے کہ مخالفین کو ایران سے مدد مل رہی ہے۔ شیعہ لیڈر کہتے ہیں کہ یہ الزام دراصل انہیں سیاست سے دور رکھنے کا آسان بہانہ ہے۔ معروف شیعہ رہنما توفیق السیف کہتے ہیںکہ سرکاری بیانات ہمیشہ اسی نوعیت کے ہوتے ہیں اور اس سے مسائل حل کرنے میں حکومت کی ناکامی کا پتا چلتا ہے۔ فریقین ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی میں خاصے زہریلے ہوتے جارہے ہیں۔ جب سعودی حکومت نے شام میں قتل عام پر احتجاج کیا تو شیعہ عالم حسن الصفار نے کہا کہ سعودی حکومت اپنے لوگوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہے، بحرین میں قتل عام میں مدد دے رہی ہے اور شام میں ہونے والے قتل عام کی مذمت کر رہی ہے۔

(“Out of Comfort Zone”. “The Economist” London. March 3rd, 2012)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*