رائل سوسائٹی نے ۲۶؍ اپریل کو آبادی میں غیر معمولی رفتار سے اضافے کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک بار پھر وسائل پر دباؤ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ “People and the Planet” کی اشاعت کے ساتھ ہی اس پر تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں اس پر بحث ہو رہی ہے۔ پال ارلچ (Paul Ehrlich) اور اس کی سی ذہنیت رکھنے والے دوسرے بہت سے لوگوں نے آبادی کا رونا پھر شروع کردیا ہے۔ پال ارلچ کو تو یہ کہتے بھی سنا گیا ہے کہ عالمی آبادی کو مستحکم کرنے کے لیے کم و بیش پانچ ارب افراد کو دنیا چھوڑنا پڑے گی!
دکھ کی بات یہ ہے کہ آبادی کے حوالے سے لوگ اب بھی پال ارلچ کی بات سن رہے ہیں، جو ۴۵ سال سے ایسی پیش گوئیاں کرتا آیا ہے جن کے نصیب میں درست ثابت ہونا لکھا ہی نہیں گیا۔ ۱۹۶۸ء میں اس نے پیش گوئی کی تھی کہ امریکا سمیت دنیا بھر میں کروڑوں افراد ۱۹۷۰ء کے عشرے میں فاقہ کشی کا شکار ہوں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔ ۱۹۶۹ء میں پال ارلچ نے پیش گوئی کی کہ ۱۹۷۰ء کے عشرے کے وسط تک نیویارک، شکاگو اور دیگر بڑے شہروں میں ہر سال دو لاکھ سے زائد افراد غیر معمولی آلودگی سے موت کے منہ میں چلے جائیں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔ ۱۹۶۹ء ہی میں پال ارلچ نے تو اس بات پر شرط لگانے کی پیشکش کی کہ ۲۰۰۰ء تک انگلینڈ کا وجود ہی نہیں رہے گا۔ ۱۹۷۵ء میں پال ارلچ نے پیش گوئی کی کہ ۱۹۸۰ء کے عشرے کے وسط تک امریکا میں خوراک کے مسئلے پر فسادات ہوں گے اور کانگریس شکست و ریخت سے دوچار ہو جائے گی۔ مگر ایسا بھی کچھ نہ ہوا۔ اگلے ہی سال یعنی ۱۹۷۰ء میں ارلچ نے کہا کہ ڈیڑھ دو عشروں کے بعد دنیا کو شدید ترین قلت کے دور سے گزرنا پڑے گا اور بالخصوص معدنی وسائل کی قلت نمایاں ہوگی جو بہت سی خرابیوں کو راہ دے گی۔ یہ پیش گوئی بھی بالکل غلط نکلی۔
۱۹۸۰ء میں ماہر معاشیات جولین سائمن اور اس کے ہم نوا اس بات پر زور دینے لگے کہ ہمیں ہر معاملے میں ضرورت سے زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس سے مایوس کن سوچ پنپتی ہے۔ پال ارلچ نے جولین سائمن سے ایک شرط لگائی۔ جولین کا کہنا تھا کہ ۱۹۹۰ء میں کئی دھاتوں کی قیمتیں ۱۹۸۰ء سے کم ہوں گی۔ تانبا، نکل، ٹن اور دوسری کئی دھاتوں کی قیمتیں ۱۹۹۰ء میں اس قدر گر گئیں کہ ۱۹۸۰ء میں جتنی دھاتوں کے لیے ایک ہزار ڈالر خرچ کرنا پڑے تھے اتنی دھاتیں خریدنے کے لیے ۱۹۹۰ء میں پال ارلچ کو ۵۷۶ ڈالر کا چیک کاٹنا پڑا۔ سائمن مزید بیس ہزار ڈالر کی شرط لگانا چاہتا تھا اور اس نے ارلچ کو یہ سہولت بھی دی کہ وہ اپنی مرضی کی دھاتیں اور اپنی مرضی کا ٹائم فریم منتخب کرلے مگر ارلچ بہت چالاک نکلا اور اپنی ہی پیش گوئیوں پر بھروسا کرنے سے گریز کیا۔
پال ارلچ کا کیریئر مکمل ناکامی سے عبارت رہا ہے مگر اس کے باوجود اسے ایک ماہر کی حیثیت سے تسلیم کیا جاتا رہا ہے اور میکارتھر فاؤنڈیشن کی جانب سے جینیس گرانٹ بھی دی گئی ہے۔ پال ارلچ اور اس کے ہم خیال ’’ماہرین‘‘ مایوسی پر مبنی باتیں کرتے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ یہ بتانا چاہا ہے کہ آبادی بڑھے گی تو وسائل پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ یہ دراصل تھامس مالتھس کا انداز فکر ہے۔ برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم مالتھس نے ۱۷۹۸ء میں یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ دنیا کی آبادی میں ہونے والے اضافے کے مقابلے میں خوراک کی پیداوار میں اضافے کی رفتار خاصی سست رہے گی اور اس کے نتیجے میں خوراک کا بحران پیدا ہوتا رہے گا۔ مالتھس کی بات سے متفق ہونے والوں کی کمی نہ تھی کیونکہ انسانی ذہن خدشات کو بہت پسند کرتا ہے۔ مالتھس نے اس حقیقت کو نظر انداز کردیا کہ ہر نسل کے لیے آبادی اور وسائل کا تناسب الگ حیثیت رکھتا ہے۔ ہر دور میں انسان نے تکنیکی طور پر ترقی کی ہے جس کے نتیجے میں آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ وسائل میں بھی اضافہ ہوتا گیا ہے۔ دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کی ترقی نے ہر نسل کے لیے خوراک کی پیداوار میں اضافے کی راہ ہموار کی ہے۔ مالتھس کے بعد جب ٹیکنالوجی نے ترقی کی تو زیادہ زمین کو قابل کاشت بنایا جاسکا اور اس کے نتیجے میں فی ایکڑ پیداوار میں بھی اضافہ ہوا اور غذائی اجناس کی قوت یعنی غذائیت میں اضافہ بھی ممکن ہوسکا۔ اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں غیر معمولی ترقی ہوئی اور مالتھس کا نظریہ یکسر غلط ثابت ہوگیا۔ آج بھی غذائی پیداوار کی کمی نہیں۔ سوال اس کی تقسیم کو درست کرنے کا ہے۔ مالتھس کا نظریہ اس لیے کامیاب رہا ہے کہ دنیا بھر میں قنوطیت پر مبنی سوچ رکھنے والوں کی کمی نہیں۔ ہر نسل یہ مانتی آئی ہے کہ خوراک کے ذخائر کے مقابلے میں آبادی بڑھ جائے گی، تباہی آئے گی اور دنیا بھر میں آبادی تیزی سے کم ہوگی مگر ایسا نہیں ہوا۔ ہر نسل کی ترقی نے مالتھس اور اس کے نظریے سے اتفاق کرنے والوں کو غلط ثابت کیا ہے۔ مالتھس نے جو کچھ کہا تھا وہ ۲۰۰ برسوں میں نہیں ہوا۔ مالتھس کی رائے سے اتفاق کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ اب پھر آبادی اتنی زیادہ ہوچکی ہے کہ خوراک کم پڑ جائے گی اور اس کے نتیجے میں وہ خطرناک صورت حال پیدا ہوگی جس کی طرف مالتھس نے اشارہ کیا تھا۔
۱۹۶۹ء میں پال ارلچ نے کہا تھا کہ حکومتوں کو آبادی کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ اگر لوگوں نے آبادی کنٹرول کرنے پر توجہ نہ دی تو حکومتوں کو پانی میں ایسے اجزا ملانا پڑیں گے جو تولیدی صلاحیت کو متاثر کریں۔ ۱۹۷۲ء میں ماحول سے متعلق امور کے ماہر مورس اسٹرانگ نے اس بات پر زور دیا کہ حکومتیں جوڑوں کو بچے پیدا کرنے کے لیے لائسنس جاری کیا کریں یعنی آبادی کو کنٹرول کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ ۱۹۷۷ء میں اوباما کے ’’سائنس زار‘‘ (Science Czar) جان ہولڈرن نے پال ارلچ کے ساتھ مل کر ’’ایکو سائنس‘‘ لکھی جس میں اس بات پر زور دیا کہ اب حکومتوں کو مختلف طریقوں سے لوگوں کی تولیدی صلاحیت گھٹانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ ۲۰۰۲ء میں ارتھ آئی لینڈ انسٹی ٹیوٹ کے آن لائن جریدے کے ایڈیٹر نے افریقا میں بجلی متعارف کرانے کی مذمت کی! مالتھس اور اس سے متفق ہونے والے لوگ وہ ہیں جو دنیا بھر میں ترقی کے شدید مخالف ہیں اور ہمیشہ معاملات کے تاریک پہلو ہی پر نظر رکھتے ہیں۔
اقوام متحدہ کا استدلال ہے کہ دنیا کی آبادی میں اضافہ اصل مسئلہ نہیں ہے۔ بہت سے دوسرے عوامل ہیں جو آبادی کو مسئلہ بنا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں شرح پیدائش میں کمی رونما ہو رہی ہے۔ ۵۵۔۱۹۵۰ء تک فی گھرانہ بچوں کی تعداد ۹۵ء۴ ہوا کرتی تھی، مگر اب ایک سے دو بچوں والے گھرانوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ۰۵۔۲۰۰۰ء تک بچوں کا فی گھرانہ اوسط ۷۹ء۲ ہوچکا تھا۔ ۲۱۰۰۔۲۰۹۵ء تک یہ اوسط ۶۳ء۱؍ رہ جائے گا۔ اس کے نتیجے میں آبادی میں اضافے کی رفتار خود بخود کم ہوتی جائے گی۔ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں بچوں میں شرح اموات زیادہ ہونے کے باعث آبادی کو مستحکم رکھنا بھی ایک مسئلہ ہوگا۔
مالتھس کی سوچ کے برعکس بعض خطوں میں آبادی کا تیزی سے سکڑنا اس قدر بڑا مسئلہ ہے کہ اسے ڈیموگرافک ونٹر سے موسوم کیا جاتا ہے۔ کئی خطوں میں آبادی اتنی تیزی سے کم ہوئی ہے کہ اب اسے بڑھانا ایک بڑی ترجیح بن گیا ہے۔ یورپ اس معاملے میں خاص طور پر نمایاں ہے۔ دنیا کی آبادی اس لیے بڑھ رہی ہے کہ بعض خطوں کی عورتوں میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے۔ اب تولیدی صلاحیت کمزور ہوتی جارہی ہے اور کئی خطوں کی عورتوں میں تولیدی صلاحیت بھی کم ہوگئی ہے اور بچے پیدا کرنے کا جذبہ بھی ماند پڑچکا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کو بوجھ سمجھنے کی ذہنیت پنپ چکی ہے۔ یونان، روس، تائیوان، لتھوانیا، جنوبی کوریا اور کئی دوسرے ممالک میں شرح پیدائش ۵ء۱ ہوچکی ہے جو خطرناک حد تک کم ہے۔
جاپان میں معمر افراد کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ دوسری طرف شرح پیدائش گر رہی ہے۔ ایسے میں محنت کش طبقے پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔ لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی چالیس سے پچاس سال تک زندہ رہتے ہیں جس کے نتیجے میں معیشت پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ جاپان کا بجٹ ۱۱۰۰؍ ارب ڈالر سے زیادہ ہے جس کا تقریباً ۲۹ فیصد معمر افراد کی نگہداشت پر خرچ ہوتا ہے۔ ریٹائر ہونے والوں کی تعداد میں اضافے سے یہ خرچ بڑھتا ہی جائے گا۔ جاپان میں کام کرنے والوں پر معمر افراد کے لیے ادائیگی کا دباؤ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ یہ سب کچھ خطرناک ہے اور اصلاحات کا طالب بھی۔ مگر جاپان میں اس بات کی توقع کم ہی ہے کہ ریٹائر ہونے والے جن سہولتوں کے حصول کے لیے عشروں تک ادائیگی کرتے رہے ہیں ان سے دستبردار ہونے کے حق میں ووٹ دینا پسند کریں گے۔ جاپان میں سماجی بہبود کے لیے فنڈ کم ہوتے جارہے ہیں اور وزیراعظم یوشی ہیکو نوڈا (Yoshihiko Noda) کی جانب سے ٹیکسوں میں اضافے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد کی سہولتوں کے حوالے سے دنیا بھر میں معیشتوں پر دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکا جیسے ملک میں لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ وہ آج، جوانی کے دور میں، جن سہولتوں کے لیے ادائیگی کر رہے ہیں شاید وہ انہیں میسر نہ ہوسکیں۔ جو لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کے لیے زندگی بھر باقاعدگی سے ادائیگی کرتے آئے ہیں صرف انہی کو کچھ سہولت مل سکیں گی۔ ۱۹۳۰ء میں عظیم کساد بازاری کے دنوں میں سماجی بہبود کا جو نظام اپنایا گیا تھا وہ اب زیادہ کارگر نہیں رہا۔ یورپ کی صورت حال بھی خاصی پریشان کن ہے۔ یونان جیسے ملک میں لوگ سادگی کے نام پر پست معیار کی زندگی اپنانے پر موت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ کچرے سے کچھ چُن کر کھائے۔ ایسے میں خودکشی زیادہ خوش نما آپشن دکھائی دیتا ہے۔
جن معاشروں میں ریٹائرڈ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور نئی نسل پر معاشی دباؤ زیادہ ہوگا تو مکانات وغیرہ کی خریداری کے لیے بھی رقم کم رہ جائے گی۔ ایسے میں ریئل اسٹیٹ کا بحران بھی رونما ہوگا اور یہ شعبہ شدید ناکامی سے دوچار ہوگا۔ یہ بحران معیشت کی حالت کو مزید پتلا کرنے کا باعث بنے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ مالتھس کے ہم نوا اب معاملے کو یکسر الٹ چکے ہیں۔ یعنی اب آبادی کا پھیلاؤ نہیں، آبادی کا سُکڑاؤ اصل مسئلہ ہے۔ مالتھس کی سوچ کے اعتبار سے مستقبل کی دنیا ترقی پر انحصار نہیں کرے گی بلکہ آبادی اتنی متوازن ہوگی کہ استحکام خود بخود پیدا ہوگا۔ یہ گویا جمود کی حالت ہوگی۔ مشکل یہ ہے کہ شرح پیدائش میں کمی کے ماحول میں ایسے کسی بھی ماڈل کا پنپنا ممکن نہیں۔ اگر مالتھس کے ہم نوا یہ چاہتے ہیں کہ آبادی پر کنٹرول کرکے استحکام یقینی بنایا جائے تو یقیناً ایسا کرنا ممکن نہیں کیونکہ آبادی کو مستحکم رکھنے کے لیے نئی نسل کا ہونا لازم ہے۔ اگر بچوں کی پیدائش کی شرح کم ہوگی تو مسائل بڑھیں گے، گھٹیں گے نہیں۔ اگر دنیا کو چلانا ہے تو آبادی میں کمی یعنی گرتی ہوئی شرح پیدائش کو معکوس کرنا ہوگا یعنی تولیدی صلاحیت بڑھانا ہوگی اور بچوں کی پیدائش سے گریز کی روش ترک کرنا ہوگی۔
(“The Over Population Crisis”… “Global Research”. May 5th, 2012)
Leave a Reply