
افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے جس کے ساتھ ہمارے صدیوں پرانے تاریخی،سماجی،ثقافتی،تجارتی رابطے ہیں اور سب سے مضبوط تعلق اسلامی بھائی چارے کا ہے۔ ۱۹۷۹ء میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے اسلامی اخوت وہمسائیگی کے جذبے ہی سے اپنے دروازے افغان مہاجرین کے لیے کھول دیے۔ پاکستان گزشتہ ۴۰سال سے ۴۰لاکھ افغانیوں کی میزبانی کررہا ہے۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران مغربی سرحد کے دونوں اطراف سے شدت پسندوں کی مسلسل آمد و رفت کو روکنے کے لیے مشترکہ باڑ لگانے کا فیصلہ کیاگیا۔
یاد رہے کہ پاک افغان سرحد پر ۲۳۵ ؍ایسے مقامات ہیں جہاں سے اکثر اوقات آمدورفت ہورہی تھی، پاکستان نے ان سمیت بے شمار ایسے ممکنہ مقامات پر حفاظتی چوکیاں قائم کردی ہیں جہاں سے آمد ورفت اب پہلے کی طرح نہیں بلکہ باقاعدہ دستاویزات کے ساتھ باضابطہ طور پر بارڈر کنٹرول کے ساتھ ہوگی۔باڑ اور خندق کے ساتھ کیمرے اور حرکت کرتی اشیا کو چیک کرنے کے ڈیٹیکٹر نصب ہیں۔ محافظوں کی پٹرولنگ کے لیے پورے بارڈر پر راستے بنا دیے گئے ہیں۔ پاکستان نے ہمسائیگی کا احترام اور انسانیت کی مدد اب بھی ترک نہیں کی۔افغان طلبہ جو پاکستانی اداروں میں زیر تعلیم ہیں ان کو خصوصی کارڈ دیے گئے ہیں جبکہ ایمرجنسی مریضوں کو بھی داخلے کی اجازت ہوگی۔
پاکستان کی مسلح افواج کے زیر انتظام ہمارے جوانوں، مزدوروں، انجینئر نے صرف ۴ سال میں اتنی بڑی اور تقریباً ناممکن ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوکر امریکا، یورپ، وسطی ایشیا، روس سمیت پوری دنیا کو حیران کردیا ہے کیونکہ پاک افغان سرحد کو جاننے والوں کو علم ہے کہ اس کو مکمل طور پر کور کرنا کتنا مشکل اور بڑا کام ہے۔ یہ کوئی سیدھا سادا بارڈر نہیں۔ یہاں ایک جگہ سنگلاخ پہاڑ ہیں تو دوسری جگہ گھنے جنگل، ایک جگہ انتہائی دشوار گزار گھاٹیاں ہیں تو دوسری جگہ تنگ وتاریک درّے۔ پاکستان جیسے کم وسائل کے ملک کی طرف سے مکمل طور پر اپنے ذرائع پر انحصار کرتے ہوئے اتنے بڑے اور مشکل ترین بارڈر کو محفوظ بنانا بلاشبہ دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا اور بڑا کارنامہ ہے۔ یہ کارنامہ ایک طرف پاکستان کو کئی اعتبار سے فائدہ پہنچا رہا ہے تو دوسری طرف اس نے پاکستان کا افغانستان سے متعلق موقف درست ثابت کرکے تمام تر پروپیگنڈا غلط ثابت کردیا ہے۔ افغان عمل پر ہونے والی حالیہ پیشرفت کو بھی اس باڑ کی تعمیر کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
یاد رہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں پاک افغان سرحد کی کل لمبائی ۱۲۲۹ کلومیٹر ہے۔ جس میں سے ۶۶ء۷۹۲ کلومیٹر سرحد پر باڑ کا کام مکمل ہوگیا ہے جبکہ باڑ کا کل کام ۸۲۳ کلومیٹر ہے۔ جبکہ صوبہ بلوچستان میں کل بارڈر ۱۴۵۰ کلومیٹر ہے، جس میں سے ۱۴۰۰ کلومیٹر پر باڑ لگانے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے اور اب تک ۱۲۵۰ کلومیٹر باڑ لگانے کا کام مکمل ہو چکا ہے۔ اسی طرح پاک ایران کل ۱۱۰۰ کلو میٹر بارڈر میں سے ۹۰۹ کلومیٹر پر باڑ لگانے کا منصوبہ تیار کیاگیا ہے۔ جس سے ۵۸۰ کلومیٹر پر باڑ لگانے کا کام مکمل ہوگیا ہے۔
پاکستان نے بارڈر کنٹرول کرکے دنیا پر ثابت کردیا کہ وہ افغانستان میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا۔ پاکستان نے جیو اور جینے دو، بقائے باہمی، اچھی ہمسائیگی کی مخلصانہ نیت اور پختہ عزم کے ساتھ اس کٹھن اور مشکل ٹاسک کو کامیابی سے پورا کیا ہے، پاکستان افغانستان میں امن چاہتا ہے بلاشبہ افغانستان میں امن پاکستان میں امن کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ کابل حکومت اور طالبان کے مذاکرات کی میز پربیٹھنے کے عمل کو سراہا اور ہر ممکن تعاون بھی کیا تاکہ اپنے مسائل وہ خود آپس میں بات کرکے حل کریں۔
حالیہ ہفتوں میں امریکی خصوصی نمائندہ زلمے خلیل زاد،افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ،افغان پارلیمانی وفد، ملا برادر کے ساتھ طالبان وفد کے اسلام آباد اور راولپنڈی کے دورے پاکستان کی افغان پالیسی پر اعتماد کے عکاس ہیں اور بارڈر کنٹرول اس پالیسی کا بہت اہم حصہ ہے۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ افغانستان میں آٹا،چینی، گھی اور ادویات سمیت روزمرہ استعمال کی اکثر اشیا پاکستان سے فراہم ہوتی ہیں۔ پاکستان یقینا یہ اشیا فراہم کرتا رہے گا، مگر اب یہ اسمگلنگ یا غیر قانونی طریقے سے نہیں بلکہ قانونی طور پر ایک نظام کے تحت فراہم ہوں گی۔
اس کے علاوہ بارڈر کنٹرول کے جو فوائد ہیں ان پر تفصیل سے نظر ڈالتے ہیں۔
امن، استحکام، تحفظ، سلامتی، دہشت گردی کا خاتمہ
اس لحاظ سے بارڈرکنٹرول دونوں ملکوں کے لیے انتہائی مفید ہے اور پاکستان نے اپنی جیب سے کم وبیش ۵۰کروڑ ڈالر خرچ کرکے افغانستان کے بھی فائدے والا کام کیا ہے۔ افغانستان کی حکومت اگر عالمی قواعد و ضوابط کو مانتی ہے تو اسے بارڈر کنٹرول پر اعتراض نہیں بلکہ اسے ممنون ہونا چاہیے۔ اب وہ (بقول اس کے) پاکستان سے گھسنے والے لوگوں سے مکمل طور پر محفوظ ہوگیا ہے۔اب اس طرف جو لوگ ہیں وہ اس کے اپنے ہیں لہٰذا ان سے خود نمٹے۔پاکستان میں اس انتظام کے خوشگوار اثرات ۲۰۱۸ء کے بعد سے مسلسل محسوس کیے جارہے ہیں۔ ۲۰۱۴ء میں یہاں ۳۵۲ حملے ہوئے جو ۲۰۱۸ء میں کم ہو کر ۸۲ رہ گئے۔ ۲۰۲۰ء میں ان کی تعداد میں مزید کمی ہوئی اور ۱۱ حملے ہوئے۔ یہ ختم نہیں ہوئے۔ ۵ مئی ۲۰۲۱ء کو ژوب میں بارڈر باڑ پر کام کرنے والے ایف سی کے جوانوں پر افغان سائیڈ سے حملہ کیاگیا جس میں ۴ جوان شہید ہوگئے۔اس سے پہلے بھی افغان سائیڈ سے ہر سال چھوٹے پیمانے کے متعدد اور بڑے پیمانے کے تین چار حملے ہوتے رہے ہیں۔ہمارے کئی افسروں،جوانوں اور سول کارکنوں کو شہید کیا گیا۔یقینا ہماری مسلح افواج بہت جلد ان باقیات کا بھی قلع قمع کردیں گی اور پاکستان مغربی سائیڈ سے مکمل طور پر محفوظ ہوجائے گا۔
غیر قانونی آمد
پاکستان کے بارڈر کنٹرول کی بدولت افغانستان سے غیر قانونی آمد ختم ہوجائے گی۔اوپر ہم نے ذکر کیا کہ آنے جانے کے ۲۳۵ راستے تھے۔صرف ایک رستہ طورخم سے سالانہ ۱۲ سو ٹرک آتے جاتے ہیں۔افراد کی تعداد ۱۰ ہزار سے زائد ہے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ۲۳۵ راستوں سے آنے والوں کی تعداد کتنی ہوگی۔افغانستان سے آنے والے سارے عام لوگ نہیں ہوتے۔ان میں جرائم پیشہ اور مشکوک افراد کی بھی بڑی تعداد شامل ہوتی ہے۔اب ان کا رستہ رک گیا ہے۔پاکستان نے دسمبر ۲۰۱۸ء تک غیر قانونی داخلے کی کوشش کرتے ہوئے ۱۹ سو افغانیوں کو پکڑ کر ڈی پورٹ کیا۔ طور خم اور دیگر داخلے کے مقامات پر اب مکمل بارڈر کنٹرول ہور ہا ہے۔ بائیو میٹرک سسٹم جنرل مشرف کے دور میں ہی شروع کردیا گیا تھا۔ افغانستان سے پاکستان داخلہ اب ویزا اور سفری دستاویزات کے بغیر ممکن نہیں رہا اور جو بھی پاکستان آئے گا وہ مکمل چھان بین سے گزر کر آئے گا اور اس کا ریکارڈ بھی موجود ہوگا۔
اسمگلنگ کا خاتمہ،معیشت میں بہتری
یہ بارڈر اسمگلروں کی جنت رہا ہے۔کون نہیں جانتا کہ پاکستان سے اشیائے خوردنی افغانستان اسمگل کرکے بھاری منافع کمایا جاتا رہا ہے۔ اس طرح جہاں ایک طرف پاکستان کو ٹیکس کی مد میں اربوں روپے کا نقصان ہورہا تھا وہاں دوسری طرف ملک میں غذائی اشیا کی قلت اور مہنگائی کے مسائل بھی درپیش رہے تھے۔ سرحد محفوظ بنانے سے یہ دونوں مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔اس وقت بھی پاکستان میں آٹا، چینی، کوکنگ آئل وغیرہ مہنگا ہونے کی شکایت ہے۔ مؤثر سرحدی کنٹرول کی بدولت آئندہ نہ صرف یہ اشیائے ضروریہ وافر موجود ہوں گی بلکہ ان کی قیمتوں میں استحکام بھی آئے گا۔
منشیات کی نقل وحمل
افغانستان میں طالبان کے زوال کے بعد پوست کی کاشت عام ہوگئی تھی۔ پوست سے بنائی گئی منشیات کی سب سے بڑی فراہمی افغانستان سے ہوتی ہے، جو پوری دنیا میں اسمگل ہوتی ہے۔ اس راہداری میں پاکستان کو بھی استعمال کیا جارہا تھا۔ ہمارے ادارہ اینٹی نارکوٹکس فورس نے کئی آپریشن کیے جن میں افغانستان سے منشیات کی اسمگلنگ کی کوشش ناکام بنادی گئی۔ پاکستان کے سرحدی کنٹرول کی بدولت یہ دھندا بھی مندا پڑجائے گا۔
سی پیک کا مشرقی روٹ بلتستان گلگت سے داخل ہوکر کے پی کے میں اور وہاں سے بلوچستان پہنچتا ہے، جس کی منزل گوادر ہے۔ یہ سارا روٹ افغان سرحد سے انتہائی کم فاصلے پر ہے جہاں افغانستان سے گھس بیٹھ کرنے والے دہشت گردوں کی رسائی آسان تھی۔ سی پیک پر کام کرنے والے چینی اور پاکستانی انجینئروں و کارکنوں پر متعدد حملے ہوئے۔ انہیں اغوا کیا گیا اور شہید بھی۔ بارڈر کنٹرول کے بعد سی پیک کی تعمیر پر اطمینان کے ساتھ پیشرفت ہوسکے گی۔
بہرطور افغانستان کی طرف سے جن مسائل کا پاکستان کو سامنا ہے ان میں دہشت گردانہ حملے، سرحدی دراندازی، اسمگلنگ، منشیات کی ترسیل، غیر قانونی آمدورفت جیسے معاملات شامل ہیں۔ یقینا پاک افغان بارڈر مکمل سیل ہوجانے کے بعد ان مسائل میں کمی آئے گی، لیکن ان مسائل کے مکمل خاتمے کے لیے افغان حکومت اور اس کے شہریوں کی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں آزاد اور خودمختار ممالک ایک دوسرے کی سرحدوں، روایات اور سب سے بڑھ کر سفارتی و اخلاقی آداب کی پاسداری یقینی بناتے ہیں۔ یہ امر یقینی ہے کہ پاک افغان بارڈر مینجمنٹ کے ثمرات جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان اور افغانستان کے لیے بہت جلد سامنے آئیں گے اور خطے میں امن و خوشحالی کا دور دورہ ہوگا۔
(بحوالہ: “hilal.gov.pk”)
Leave a Reply