
پاکستان افغانستان نہیں ہے۔ دو ملکوں کو ایک ساتھ جوڑ کر اور انہیں ’’افپاک‘‘ کا نام دے کر امریکا کا ارادہ یہی تھا کہ پالیسی سازی کو آسان بنا دیا جائے۔ لیکن یہ نہیں سوچا گیا کہ اس کا الٹا اثر بھی پڑ سکتا ہے۔
آئیڈیا یہ تھا کہ افغانستان اور پاکستان کو ایک ہی تجزیاتی فریم ورک میں آدھے تیتر آدھے بٹیر کی طرح جوڑ کر واشنگٹن اور اس کے اتحادی ایک ہی جغرافیائی علاقے پر اپنی توجہ مرکوز کر پائیں گے اور بڑھتی ہوئی اسلامی انتہا پسندی کی طرف سے مغرب کو درپیش خطرے کا تدارک کرنے کے لیے ایک ہی اسٹریٹجی استعمال کر پائیں گے۔
اس خطرے کو گیارہ ستمبر کے نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہوئے واشنگٹن اور دوسرے مغربی دارالحکومتوں کو یہ پریشانی کھائے جاتی تھی کہ اب اگر حملہ ہوا تو وہ شاید گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء سے کہیں زیادہ شدید ہو گا۔ لیکن افغانستان اور پاکستان پر مشتمل اس خطے کے لیے اب جو اسٹریٹجی سامنے آ رہی ہے وہ بہت سے نقائص کا شکار ہے۔
سب سے پہلا فرق تو ظاہر ہے کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے سے بے پناہ مختلف ہیں۔ افغانستان کبھی نوآبادیات نہیں رہا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ایسی کسی چیز کی ترویج نہیں کر پایا جسے مغرب والے ’’ریاست‘‘ کہتے ہیں۔ اس نے ایسی کوئی مرکزی اتھارٹی تشکیل نہیں دی جو اس ملک کے اندر موجود ایک دوسرے سے مختلف خطوں اور ان میں رہنے والے لوگوں کو منظم کر سکتی۔ یہاں اس وقت قدرے امن تھا جب کابل پرزیادہ تر بادشاہوں کی حکمرانی تھی لیکن حالیہ تاریخ میں جب معاملات صدور کے ہاتھ آ گئے تو مقامی سردار اور جنگی سردار تنہا ہو گئے۔
ان مقامی سرداروں اور جنگی سرداروں نے اپنے زیرِ حکمرانی لوگوں سے جمع ہونے والے وسائل کا ایک چھوٹا سا حصہ کابل کو فراہم کرنے کی اجازت دی تاکہ مرکزی اتھارٹی کے پاس اپنی بنیادی ضروریات کی ادائیگیوں کے لیے کچھ فنڈز موجود رہیں جن میں بادشاہ یا صدر کے محلات کاانتظام چلانا، ایک چھوٹی سی وفاقی بیورو کریسی کے لیے فنڈز فراہم کرنا اور ایک چھوٹی سی فوج کی ضروریات پوری کرنا شامل تھا۔ اس ملک میں سرد جنگ کے حریفین کی دلچسپی پیدا ہونے سے پہلے جو دو چار شہری مراکز یعنی کابل، قندھار، ہرات، جلال آباد اور مزار شریف تھے، ان کے درمیان باہمی روابط انتہائی ناقص تھے۔
افغانی کوئی زیادہ گھومنے پھرنے والے لوگ نہ تھے۔ وہ زیادہ تر اپنے دیہات میں ہی رہتے اور انہی تک ہی محدود رہنا ان کا خاصہ تھا۔ یہ سب کچھ اس وقت بدلا جب امریکا نے یہاں جنوب میں ہر موسم میں کھلی رہنے والی جدید شاہراہیں بنائیں اور پھر اس کے بعد سوویت یونین نے شمال میں سڑکیں بنائیں۔ ریاست نے انسانی وسائل پر برائے نام سرمایہ کاری کی اور اس کے علاوہ تو شاید ہی کسی چیز پر سرمایہ کاری کی گئی۔ نتیجہ یہ تھا کہ ۱۹۷۹ء میں جس وقت سوویت یونین نے یہاں اپنی ایک بغل بچہ ریاست بنانے کی کوشش میں فوج بھیجی تو یہ دنیا کے پسماندہ ترین معاشروں میں سے ایک تھا۔
ماسکو کی عمر رسیدہ قیادت نے ایک بار پھر تاریخ سے غلط پیغام لیا۔ سوویت یونین سمجھتا تھا کہ جو تدبیر وسطی ایشیا کی دوسری مسلم ریاستوں میں کارگر ثابت ہوئی تھی وہی افغانستان میں بھی چلے گی۔ لیکن ماسکو والے کامیاب نہ ہوئے اور جنگی سرداروں کے ایک بے ترتیب سے اتحاد نے امریکا اور سعودی عرب کی مدد سے جس میں پاکستان ضروری لاجسٹک سپورٹ فراہم کر رہا تھا، انہیں اپنے ملک سے نکال باہر کر دیا۔
افغانستان واپس اپنی اسی روایتی لیکن مستحکم ریاست کی طرف لَوٹ جاتا بشرطیکہ کابل کی طالبان انتظامیہ نے القاعدہ کو پناہ نہ دی ہوتی۔ القاعدہ نے واقعات کے ایک سلسلے کی راہ ہموار کر دی جس میں امریکا پرگیارہ ستمبر کے دہشت گردی حملے اور پھر امریکا کا جوابی حملہ بھی شامل تھا۔ سوویت یونین کے بعد کے دَور میں یہ ملک چھوٹی چھوٹی راج دھانیوں کی شکل اختیار کر سکتا تھا جن میں سے ہر ایک پر ان مجاہدین جنگی سرداروں کا کنٹرول ہوتا جو روسیوں کو نکال باہر کرنے کے لیے مغرب کے ساتھ مل گئے تھے۔ لیکن یہاں ایسا نہ ہوا۔ امریکا کی زیر قیادت مغرب نے یہاں ایک ایسا نظام حکومت اور معاشی نظم و نسق مسلط کرنے کی کوشش کی جو افغانستان کے لیے بالکل نیا تھا۔
تیس سال کے عدم استحکام اور جمود کی شکار معیشت نے اس ملک کو بری طرح قطبیت کا شکار بنا کر رکھ دیا ہے۔ انتہائی امیر لوگوں کا ایک چھوٹا سا طبقہ جو کرپشن، پوست اور دوسری منشیات کی پیداوار کے ذریعے دولت کما رہا ہے، اپنی وفادار نجی فوجوں یا لشکروں کی مدد سے اپنا کنٹرول قائم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہیں کوئی ایسی افغانی ریاست قائم کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں جو معاشی ترقی لانے یا عام آدمی کی فلاح کے لیے کام کرے۔ خواتین خاص طور پر جبر و استبداد کا شکار ہیں۔ طالبان کا تختہ الٹنے کے ساتھ ہی جو نظام آیا اس سے پیدا ہونے والے مواقع سے جن تھوڑے بہت لوگوں نے فائدہ اٹھایا انہیں ایک بار پھر اپنی جانیں اور اپنی سماجی حیثیت چھن جانے کا ڈر کھائے جا رہا ہے۔
لیکن پاکستان کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ ۱۹۴۷ء میں جب یہ ایک آزاد ریاست کے طور پر سامنے آیا تو یہاں ایک پہلے سے فعال ریاست موجود تھی جس کے لیے فعال ادارے طویل انگریز راج کے دوران ہی قائم کر دیے گئے تھے۔ اگرچہ آج کا پاکستان آزادی کے وقت کے پاکستان سے بہت مختلف ہے لیکن اس نے جدید ریاست کا لبادہ بھی اوڑھ رکھا ہے۔ دو چیزیں اسے افغانستان سے بالکل الگ کرتی ہیں، یہ کافی بڑا ہے۔ منظم حالت میں ہے، اس کی ساڑھے چھ لاکھ افراد پر مشتمل ایک منظم فوج ہے اور اس میں ایک تیزی سے بڑھتا ہوا کافی بڑامتوسط طبقہ موجود ہے۔
یہ متوسط طبقہ پاکستان کے معاشی اور سیاسی مستقبل کے لیے خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کی تعداد تقریباً ۵ سے ۶ کروڑ کے درمیان اور اس کی فی کس آمدنی ایک ہزار ڈالر کی قومی اوسط کا ڈھائی گنا ہے اور ملک جو بھی سمت اختیار کرتا ہے، وہ اس طبقے کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ یہ طبقہ عدلیہ کی حمایت میں چلائی گئی تحریک کے دوران پہلے ہی اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کر چکا ہے۔ یہ خاصی متاثر کن مہم تھی جو تقریباً دو سال تک جاری رہی اور جس نے پہلے صدر پرویز مشرف کو اپنا بوریا بستر گول کرنے اور پھر آصف علی زرداری کو اپنے پیشرو کی طرف سے فارغ کیے گئے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج صاحبان کو بحال کرنے پر مجبور کر دیا۔ مسلح افواج میں بھی اس متوسط طبقے کی بھرپور نمائندگی موجود ہے۔
لگتا ہے کہ جنوبی وزیرستان کی پہاڑیوں میں فوج نے جس مہم کا آغاز کیا ہے اسے اس طاقتور متوسط طبقے کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ اسے اب ادراک ہو گیا ہے کہ اس دشوار گزار علاقے میں لڑی جانے والی جنگ اس کی اپنی جنگ ہے اور یہ امریکا کے ایماء پر لڑی جانے والی پراکسی جنگ نہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغرب کو عوام کے اس طبقے کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے اور پاکستان کی معاشی لحاظ سے زرخیز لیکن سیاسی طور پر مسائل کا شکار سرزمین پر اپنے پائوں جمانے میں اس کی مدد کرنی چاہیے۔
پاکستان کو ’افپاک‘ اسٹریٹجی کے تناظر میں دیکھنا ایک بہت بڑی فاش غلطی ہو گی۔ صدر باراک اوباما کی زیر قیادت مغرب کو دو مختلف اسٹریٹجی کی ضرورت ہے ایک پاکستان کے لیے اور دوسری افغانستان کے لیے۔ ۔۔
(ترجمہ: شاہد سجاد)
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی)
Leave a Reply