
اگلے دن ایک دوست سے ملاقات ہوئی جو بہت عرصہ پہلے اسلام آباد میں رہتے تھے۔ وہ یہ جاننے کے خواہش مند تھے کہ کیا یہ شہر تبدیل ہوچکا یا ویسا ہی ہے۔ شہر کے نئے خدوخال کو (جیسا کہ ٹریفک کا بڑھتا ہوا بہاؤ، بڑھتی ہوئی افراتفری اور بلند و بالا عمارتیں) یاد کرتے ہوئے میں نے انہیں بتایا کہ دارالحکومت کا ایک نیا فیچر چینی باشندوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے۔ شہر میں اتنے آم کے درخت نہیں ہیں جتنے چینی دوست۔ اور پھر اہم بات یہ کہ وہ کسی ہنگامی دورے پر نہیں بلکہ شہر میں قیام کرنے آئے ہیں۔ کم از کم اس وقت تک، جب تک کوئی اور ان کی جگہ نہیں لے لیتا۔ ان کا قیام اس لیے بھی مستقل بنیادوں پر دکھائی دیتا ہے کیونکہ پاکستان کے سیاسی جغرافیائی معروضات میں امریکا اپنی اہمیت تیزی سے کھو رہا ہے۔
دفترِ خارجہ کی ترجمان نے بالکل درست کہا کہ چینی صدر شی جن پنگ (Xi Jinping) کا بھارت کا دورہ پاک چین تعلقات پر مطلق اثر انداز نہ ہو گا۔ یہ بات بریفنگ میں تو نہیں کہی گئی لیکن حقیقت یہی ہے کہ بیجنگ کو پاکستان کے بارے میں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ کہیں نہیں جائے گا۔ اسلام آباد میں فوجی حکومت ہو یا سول، اس کے پاس چین کے سوا دیگر آپشنز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس لیے چینی سرمایہ کار پاکستان میں ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کی بھی زحمت نہیں کرتے کیونکہ اسلام آباد چین پر ایسا کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں نہیں۔ بیجنگ کو غالباً پاکستان کی اس عادت کی بہت اچھی طرح سمجھ ہے کہ اسے دنیا میں کوئی نہ کوئی سرپرست درکار ہوتا ہے۔ اس کا نظریہ یہ ہے کہ یا تو آپ دنیا میں کسی کے سرپرست بنیں یا کسی کی سرپرستی میں رہیں۔
پاکستان میں چین کو کچھ بھی کرنے کی اس قدر آزادی ہے کہ ہمارے مغربی سرپرست اس کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ آپ کراچی سے خیبر تک سفر کریں تو آپ کو ہر جگہ چینی دکھائی دیں گے۔ اکثر اوقات وہ مقامی رسوم و رواج کی اتنی پابندی بھی نہیں کرتے جتنی ہم دیگر غیر ملکی افراد سے توقع کرتے ہیں۔ وہ دونوں ریاستوں کے درمیان مضبوط روابط کا پورے اعتماد سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہم اپنے ہاں چین کے ساتھ FTA (فری ٹریڈ ایگری منٹ) کے منفی اثرات پر کوئی بات نہیں سنتے اور نہ ہی یہ بات کی جاتی ہے کہ چین ہمارے ساتھ کی جانے والی بزنس ڈیل میں ان تعلقات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے نرمی اور فیاضی سے کام کیوں نہیں لیتا۔ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک، جیسا کہ سری لنکا کے ساتھ بھی چین کا رویہ ایسا ہی ہے۔ پاکستان اور سری لنکا جیسے ممالک کے ساتھ ڈیل کرنے کے لیے چین کا اصول یہ ہے کہ وہ ان کی ضرورت کا فائدہ اٹھانے کے لیے سرمایہ کاری اور انفرا اسٹرکچر کی تعمیر کرتا ہے۔ کولمبو بندرگاہ، پاور پلانٹ اور سڑکوں کی تعمیر جیسے بہت سے عظیم الشان منصوبے ہیں جن کی وجہ سے سری لنکا ایک جدید ملک دکھائی دے گا لیکن اسے ان کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ چین نہ تو سری لنکا اور نہ ہی پاکستان کو مالی امداد فراہم کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ نرم شرائط پر قرضہ مہیا کردے لیکن قرض بہرحال واپس کرنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر نئی کولمبو پورٹ بہت کم منافع کما رہی ہے لیکن چینی حکومت اس پر رقم لگا رہی ہے کیونکہ وہ سری لنکن عوام سے یہ رقم وصول کر لے گی۔
چینی سرمایہ کاری کا ماڈل کسی ملک کی ضروریات کو دو سطحوں پر دیکھتا ہے۔ پہلی یہ کہ وہ جانتا ہے کہ جنوبی اور مشرقی ایشیا کے ممالک میں لالچی حکمرانوں اور عوام کو ایک ایسا سرپرست درکار ہے جو اُن کو رقم مہیا کرسکے۔ امریکا اس خطے میں ابھی تک اپنی موجودگی رکھتا ہے لیکن واشنگٹن یہاں جنگ یا امن کے لیے براہِ راست سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں۔ دوسری طرف چین یہاں سے رقم کمانے کے لیے زیادہ ذرائع رکھتا ہے۔ چاہے میانمار کے فوجی حکمران اور راہب ہوں، سری لنکا کا حکمران خاندان ہو یا پاکستان کے امور چلانے والے سیاسی یا فوجی رہنما، چین حکمرانوں اور عوام پر مناسب سرمایہ کاری کرتے ہوئے منافع کمانے کا گُر جانتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کس کو کس چیز کی ضرورت ہے۔ اس کے پاس ایسا سرمایہ موجود ہے جو ایسے علاقوں میں انویسٹ کر کے بھاری نفع حاصل کرنے کا موجب بنتا ہے۔
اس خطے میں ترقی کا چینی ماڈل بھی قدرے مختلف ہے کیونکہ یہ اپنے ’’گاہکوں‘‘ کو ابتدائی طور پر بہت آزادی اور منصفانہ سلوک کا احساس دلاتا ہے۔ اگر آپ جنوبی ایشیا کے لوگوں سے پوچھیں تو وہ بیجنگ کی تعریف کرتے ہوئے کہیں گے کہ وہ ان کی خارجہ پالیسی میں مداخلت نہیں کرتا۔ کم ازکم وہ اس کے لیے براہِ راست یا جارحانہ طریقِ کار اختیار نہیں کرتا۔ وہ آپ کو یہ بھی نہیں بتاتا کہ دنیا میں کس سے بات کریں یا کیا طرزِ عمل اپنائیں۔ تاہم یہ حکمتِ عملی اس حقیقت پر پردہ ڈال دیتی ہے کہ آپ کسی اشتراکی یا روایتی سوشلسٹ ملک سے ڈیل نہیں کر رہے بلکہ چین ایک نئی اور جدید ریاست ہے جس کا مرکزی ایجنڈا منافع کمانا ہے اور اس کی سرمایہ کاری کا مقصد اس ریاست کی فلاح ہرگز نہیں جس میں سرمایہ کاری کی بظاہر مہربانی کی جارہی ہو۔ مزید یہ کہ ایسے تمام معاہدے کسی ریاست کے عوام کے مفاد کے بجائے وہاں کی حکمران جماعت (فوج یا سول) اور چین کی حکومت کے مفاد میں ہوتے ہیں۔ یقیناً چینی صدر نے اسلام آباد دھرنوں کی وجہ سے پاکستان کا دورہ موخر کر دیا لیکن اس کی وجہ یہ نہیں کہ چین نے اپنے پرانے اتحادی کو نظرانداز کر دیا۔ چینی صدر غالباً ایک ایسی حکومت کے ساتھ ڈیل نہیں کرنا چاہتے تھے جس کی گرفت حالات پر ڈھیلی پڑتی جارہی ہو۔ بیجنگ کو ایک بات کا یقین ہے کہ اسلام آباد میں جس کی مرضی حکومت بنے، اگلے کئی عشروں تک پاکستان کا مستقبل چین کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔
یہاں معاملہ بیجنگ کی خطے کی سیاسی جغرافیائی بالادستی سے زیادہ جنوبی ایشیا کی ان ریاستوں کی کمزوری اور اپنے حقوق کا تحفظ نہ کرنے کی اہلیت کا ہے۔ اگرچہ ہم امریکی سرپرستی سے نکل کر چینی سرپرستی میں جارہے ہیں، اسلام آباد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے نئے سرپرست کے اصل مقاصد اور اپنے مفاد کو پہچانے۔ اس وقت تک ہمارا چین کے ساتھ عوامی رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم غالباً امریکا اور یورپی ممالک کو چین سے زیادہ جانتے ہیں (کم از کم یہی سمجھتے ہیں)۔ اہم بات یہ کہ اس وقت ہماری پوری توجہ اس بات پر ہے کہ کوئی ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کرے لیکن ہم اپنے اور سرمایہ کاری کرنے والے ملک کے مفادات میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دینے کی پوزیشن میں نہیں۔ ہم یہ لازمی توازن صرف اُسی صورت میں پیدا کرسکتے ہیں جب ہم ’’پاک چین دوستی جو سمندرسے گہری اور ہمالیہ سے اونچی ہے‘‘ کا روایتی تصور ایک طرف رکھتے ہوئے حقیقی اور عملی پیمانے اپنائیں اور ایسا تعلق قائم کرنے کی کوشش کریں جس میں دونوں کا مفاد ہو۔ اگر ایسا نہ ہوا تو بہت جلد یہ تعلق ہمارے حلق میں اٹک جائے گا۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’دنیا‘‘۔ ۹؍اکتوبر ۲۰۱۴ء)
Leave a Reply