
پاکستان اور بھارت ایک بار پھر تعلقات بہتر بنانے کی راہ پر گامزن ہیں۔ رابطوں کا آغاز ہو چکا ہے اور الزامات کے تبادلے کے ساتھ وفود کے تبادلے بھی ہو رہے ہیں۔ معاملات درست کرنے کے لیے دونوں ممالک نے پہلے بھی کئی بار مذاکرات کیے ہیں مگر بات بنی نہیں۔ کشمیر کا مسئلہ تو خیر حل ہو کر ہی نہیں دیا، اب دریائی پانی کی تقسیم کا معاملہ بھی اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے الزامات کی گرد بھی بیٹھنے کا نام نہیں لے رہی۔
مذاکرات کے لیے رابطوں کا آغاز خوش آئند ہے تاہم اس معاملے میں دونوں کو محتاط رہنا پڑے گا۔ ابھی سے بہت سی توقعات وابستہ کر لینا خطرناک ثابت ہو گا۔ ماضی میں توقعات کا دبائو مذاکرات کو ناکامی سے دوچار کرتا رہا ہے۔
حال ہی میں بھوٹان میں منعقدہ سارک سربراہ کانفرنس میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم نے عہد کیا کہ بات چیت جاری رہے گی۔ اگر اس عہد پر وہ کاربند رہتے ہیں تو خطے میں حقیقی امن اور استحکام کی راہ ہموار ہو گی۔
ہر سارک سربراہ کانفرنس میں پاکستان اور بھارت کے سربراہانِ حکومت نمایاں رہتے ہیں۔ علاقے کے دیگر تمام معاملات پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے سارک کو ایسا گلاس قرار دیا ہے جو آدھا خالی ہے۔ اگر پاکستان اور بھارت کشمیر اور دریائی پانی کی تقسیم کا مسئلہ حل کریں تو خطے کے قدرتی وسائل سے مستفید ہونے اور ماحول کو پہنچنے والے نقصان میں کمی کی راہ ہموار ہو۔
بھارت نے پاکستان پر دراندازی کا الزام عائد کرنے کا سلسلہ اب تک ترک نہیں کیا ہے۔ حال ہی میں بھارتی فوج کے اعلیٰ عہدیداروں نے پاکستان پر مقبوضہ کشمیر میں دراندازی کا الزام عائد کیا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے وعدوں پر بھارت کو بظاہر یقین نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں جمہوری حکومت کی موجودگی مذاکرات کے سلسلے کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہو گی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسا لازم نہیں۔ کبھی کبھی ڈکٹیٹر سے معاملات طے کرنا خاصا آسان ہوتا ہے۔ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۷ء کے دوران جب پرویز مشرف حکمران تھے تب دونوں ممالک سرحدی معاملات پر صورت حال کو جوں کا توں رکھنے پر آمادہ ہو چکے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ماضی میں میدانِ جنگ رہنے والے علاقوں کو افواج سے پاک کرنے اور مقبوضہ و آزاد کشمیر میں انتظامی رابطے بڑھانے پر بھی آمادگی ظاہر کر دی تھی۔
جمہوری اور مضبوط پاکستان ہر اعتبار سے بھارت کے مفاد میں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آپس میں لڑ کر فوج کو اقتدار میں آنے کا موقع فراہم کرنے والے پاکستانی سیاست دان کشمیر کے معاملے میں پرویز مشرف کے اختیار کیے ہوئے مؤقف پر قائم رہیں گے؟۔ آئندہ دو برسوں کے درمیان پاکستان میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیاں طے کریں گی کہ کشمیر کے بارے میں مؤقف بدلے گا یا نہیں!
حقیقی طور پر مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے لازم ہے کہ بے اعتمادی کی فضا دور کی جائے۔ ۶ عشروں سے جاری بے اعتمادی اور مذاکرات کی چند ناکام کوششوں کے اثرات کو شکست دینا آسان نہیں۔ امن عمل آگے بڑھنے سے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ پہنچے گا۔ اس کے بعد ہی سارک جنوبی ایشیا کی تقدیر بدلنے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکے گی۔ پاک بھارت کشیدگی ختم ہونے سے عالمی امن کو مستحکم کرنے کا بھی موقع ملے گا۔
(بشکریہ: ’’گارجین‘‘ لندن۔ ۲ مئی ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply