افغانستان میں پاک بھارت ’’پراکسی وار‘‘

Soldiers

افغانستان میں ایک طرف تو عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ ہو رہی ہے۔ اس جنگ کی بھٹی میں وسائل جی بھر کے پھونکے جارہے ہیں اور دوسری طرف ایک ڈھکی چھپی جنگ بھی جاری ہے جس میں فریقین کروڑوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔ یہ ڈھکی چھپی جنگ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما نے افغانستان سے امریکی انخلا کے آغاز کے لیے جولائی ۲۰۱۱ء کی ڈیڈ لائن دے دی ہے۔ یہ ڈیڈ لائن جوں جوں قریب آرہی ہے، پاکستان اور بھارت کی ڈھکی چھپی جنگ میں شدت آتی جارہی ہے۔ اس حوالے سے چند خونریز واقعات ہو بھی چکے ہیں۔ ۲۰۰۸ء میں کابل میں بھارتی سفارت خانے پر حملے میں ۷۶ افراد موت کے گھاٹ اتر گئے تھے۔ فروری ۲۰۱۰ء میں کابل کے ایک گیسٹ ہائوس پر حملے میں ۶ بھارتی باشندے مارے گئے تھے اور ان میں بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ کا ایک مبینہ انڈر کور ایجنٹ بھی شامل تھا۔ امریکی حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اس ڈھکی چھپی یا سرد جنگ سے افغانستان اور خطے میں عدم استحکام بڑھے گا۔ پاکستان نے طالبان سے رسم و راہ سلامت رکھی ہے اور اسے اپنا اثاثہ سمجھتا ہے جبکہ بھارت اس بات پر تلا ہوا ہے کہ اگر طالبان کی حکومت قائم ہونے کے آثار دکھائی دیے تو ایران، روس اور وسط ایشیا کی ریاستوں کے اشتراک سے اپنی پوزیشن مستحکم کرے گا۔

افغان حکام اس بات کے خواہش مند نہیں کہ ان پر دبائو ڈالا جائے کہ پاکستان اور بھارت میں سے کسی کو منتخب کریں۔ افغان وزارت خارجہ کے مشیر دائود مرادیان کہتے ہیں کہ افغانستان کے لیے کسی ایک ملک کا انتخاب کرکے اسی پر منحصر رہنا ممکن نہیں۔

پاکستان اور بھارت دونوں کے لیے افغانستان ایک نعمت کا درجہ رکھتا ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ اسے توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے وسط ایشیا تک راہ ملے جہاں قدرتی وسائل بے حساب ہیں۔ دوسری جانب وہ افغانستان کو کنٹرول کرکے اسلامی عسکریت پسندی کے جن کو بھی بوتل میں رکھنے کے قابل ہوسکے گا۔ بھارت علاقائی سپر پاور بننے کی کوشش میں مصروف ہے۔ افغانستان کو مٹھی میں رکھنے کی صورت میں وہ پاکستان کے لیے بھی مشکلات پیدا کرنے کی پوزیشن میں ہوگا۔

پاکستان کو بھی توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے نئے راستوں کی تلاش ہے جو افغانستان سے ہوکر گزرتے ہیں۔ پاکستان کی افغان پالیسی اس نکتے پر مرکوز ہے کہ افغانستان اس کا فطری اتحادی ہے۔ دونوں ممالک کی سرحدیں ہی نہیں ملتیں، مذہب بھی مشترک ہے اور زبان و ثقافت میں بھی فرق نہیں۔ پاکستان کی فوجی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ ایک طرف بھارت اور دوسری طرف بھارت نواز افغان حکومت پاکستان کی ناکہ بندی کرسکتی ہے۔ اس ممکنہ ناکہ بندی کو ٹالنے ہی پر ساری محنت کرنی پڑ رہی ہے۔ افغانستان میں پاکستان کے سفیر محمد صادق کہتے ہیں کہ پاکستان کسی بھی طور افغانستان میں غیر دوستانہ حکومت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

افغانستان میں پاک بھارت سرد جنگ ۲۰۰۱ء میں شروع ہوئی تھی جب دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد حامد کرزئی کی حکومت کا قیام بھارت کے حق میں تھا۔ کرزئی نے بھارت میں تعلیم پائی اور ان کی پالیسیاں واضح طور پر بھارت نواز رہی ہیں۔ بھارت کو افغانستان میں اپنے اثرات کا دائرہ وسیع کرنے کا بھرپور موقع ملا ہے۔ مغربی صحرائی علاقوں میں اس نے شاہ راہیں تعمیر کی ہیں۔ کابل تک بجلی پہنچانے میں بھی بھارت ہی کامیاب ہوا ہے۔ پارلیمنٹ کی نئی عمارت ایک بھارتی کمپنی بنا رہی ہے۔ بھارت نے افغانستان کے بیشتر حصوں میں علاج کی سہولتیں عام کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اب تک بھارت افغانستان میں مجموعی طور پر ۳ ارب ۱۰ کروڑ ڈالر امداد کی مد میں خرچ کرچکا ہے۔ دوسری طرف پاکستان نے بھی بچوں میں اسکول کی کتابیں اور دیگر سہولتیں فراہم کرنے کی مد میں ۳۵ کروڑ ڈالر خرچ کیے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ محض انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نہیں ہو رہا۔ معاملہ اس سے آگے کا ہے۔

افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے سپریم کمانڈر جنرل اسٹینلے میک کرسٹل نے گزشتہ سال کے اواخر میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ افغانستان میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثرات سے پاکستان پریشان ہے۔ بھارتی اثرات گھٹانے کی پاکستانی کوششیں کشیدگی پیدا کرسکتی ہیں۔ امریکا افغانستان میں کسی بھی سطح پر کشیدگی نہیں چاہتا۔ افغان جنگ میں اب تک ۱۸۰۰ اتحادی فوجی مارے جاچکے ہیں جن میں سے ۱۱۰۰ امریکی ہیں۔ گزشتہ سال تشدد کی سطح بلند ہوئی اور افغانستان بھر میں ۲۴۰۰ شہری مارے گئے جس پر امریکا میں بہت شور مچا تھا۔ اب امریکی حکومت چاہتی ہے کہ جولائی ۲۰۱۱ء تک کوئی خرابی پیدا نہ ہو۔

افغانستان کے لیے مسابقت کئی مسائل کی بنیاد پر ہے جن میں سے بیشتر کا تعلق طالبان سے ہے۔ ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۱ء تک طالبان کی حکومت رہی تھی۔ اس دوران افغانستان میں بھارت کے لیے پنپنے کی گنجائش برائے نام بھی نہیں تھی۔ بھارت کا الزام یہ ہے کہ پاکستان نے افغان سرزمین کو بھارت کے خلاف استعمال کیا ہے۔ بھارتی طیارے کو ہائی جیک کرکے افغانستان کے شہر قندھار لے جانے والے ہائی جیکروں کو ہیرو کا درجہ ملا۔

بھارت کسی بھی طور افغانستان میں ایک اور اسلامی حکومت دیکھنے کا روادار نہیں۔ کابل میں بھارتی سفیر جینت پرساد کہتے ہیں کہ مستحکم افغانستان بھارت کی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے۔ بھارت کو افغانستان میں اثرات کا دائرہ وسیع کرنے کی بھاری قیمت چکانی پڑی ہے۔ جینت پرساد کہتے ہیں کہ پاکستان نے پراکسی وار میں بھارت کو نشانے پر لے رکھا ہے۔ اس الزام کو پاکستان نے ہر قدم پر مسترد کیا ہے۔ کابل میں پاکستان کے سفیر محمد صادق کہتے ہیں کہ بھارت نے افغانستان کو ہمیشہ پاکستان کے خلاف استعمال کیا ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے بھارت نواز رویے کو کسی بھی مرحلے پر نہیں چھپایا۔ انہوں نے بھارت سے ملنے والی امداد کو سراہا ہے اور پاکستان سے ملنے والی امداد کے ذکر میں بخل سے کام لیا ہے۔ دائود مرادیان کہتے ہیں کہ پاکستان کی خواہش افغانستان میں ایسی کٹھ پتلی حکومت قائم کرنے کی ہے جو اس کے اشاروں پر ناچتی رہے۔

بھارت سفارت کاری کے میدان میں جنگ لڑنا چاہتا ہے۔ بھارت نواز حلقے بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ افغانستان میں بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ کے ایجنٹ اور افسران بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ فروری میں کابل کے گیسٹ ہائوس میں دھماکے سے ’’را‘‘ کے ایک ایجنٹ کی ہلاکت سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کا الزام یہ ہے کہ بھارت نے افغانستان میں موجود اپنے ایجنٹوں کو بلوچستان میں علاحدگی پسند عناصر کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ افغانستان میں متعین مغربی سفارت کار بھی تسلیم کرتے ہیں کہ بھارتی ایجنٹوں کے بلوچستان کے علاحدگی پسندوں سے رابطے ہیں۔ بھارت نے، ظاہر ہے، اس الزام کو ہمیشہ مسترد کیا ہے۔

امریکیوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں دوبارہ تشدد پھیل سکتا ہے۔ بھارت نے اسی خدشے کے پیش نظر شمالی افغانستان کے جنگجو سرداروں سے اپنے رابطے برقرار رکھے ہیں۔ شمالی اتحاد کے جنگجو سرداروں کے زیر اثر علاقوں میں بھارت نے ترقیاتی کام بھی کیے ہیں اور طبی سہولتیں بھی بڑے پیمانے پر فراہم کی ہیں۔ ان علاقوں کے لوگوں کو تعلیم دینے میں بھارت پیچھے نہیں رہا۔ سابق جنگجو سرداروں سے بھارت نے رابطے اس لیے برقرار رکھے ہیں کہ امریکیوں کے انخلا کے بعد اگر طالبان نواز حکومت قائم ہوتی دکھائی دی تو وہ ایران، روس، وسط ایشیا کے ممالک اور جنگجو سرداروں کو ساتھ لے کر پاکستان اور طالبان کے خلاف محاذ کھڑا کرسکتا ہے۔ مکمل امریکی انخلا بہت دور کی بات ہے تاہم امریکیوں نے یہ عندیہ دیکر بھارت کو ناراض اور پریشان کردیا ہے کہ حامد کرزئی کی حکومت میں چند طالبان لیڈروں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ اگر طالبان اقتدار میں آئے تو علاقے میں بھارتی بالا دستی کا خواب چکناچور ہو جائے گا۔

(بشکریہ: ’’ایسوسی ایٹڈ پریس‘‘۔ ۲۵ اپریل ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*