
افغانستان پر ۲۰۰۱ء میں امریکی قبضے کے ساتھ ہی ہماری قومی سلامتی کو سخت خطرات لاحق ہو گئے تھے جو اب انتہائی خطرناک صورت اختیار کر چکے ہیں کیونکہ افغانستان پر قابض شکست خوردہ قوتیں اب ’پاکستان میں اپنی من پسندحکومت اور فوجی تعاون اور مدد کی خواہش مند ہیں تاکہ انہیں افغانستان سے پرامن طور پر نکلنے کی ضمانت مل سکے اور پسپائی کے بعد پاکستان میں محفوظ ٹھکانہ بھی مل سکے۔‘ ماضی میں امریکا کے لیے پاکستانی فوج‘ عدلیہ اور سیاسی جماعتوں کے تعاون سے پاکستان میں اپنی مرضی کے حکمران لانا آسان تھا لیکن اب ایسا ممکن نہیں رہا کیونکہ عوام اور ہمارے اداروں کے مزاج بدل چکے ہیں۔
اییٹ آباد پر حملہ اور مہران نیول بیس پر دہشت گردی جیسی پرفریب کاروائیوں کے پس پردہ مقاصد حکومت پاکستان اور عسکری قیادت پر دبائو ڈال کراور انتشار پیدا کر کے اپنے من پسند حکمران لانا تھا لیکن عوام‘ ذرائع ابلاغ‘ پارلیمنٹ اور مسلح افواج نے ان عزائم کے خلاف غم و غصے کااظہار کر کے بلند شعور کا مظاہرہ کیا ہے جس سے خصوصأواشنگٹن میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور ہیلری کلنٹن اور ایڈمرل مولن فوری طور پر پاکستان پہنچے تاکہ پاک امریکا تذویراتی تعلقات کو مزید بگڑنے سے بچایا جا سکے۔ ہمارے لیے اپنی مسلح افواج کی عزت و آبرواور یکجہتی پاک امریکا تذویراتی تعلقات سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور اس کے خلاف سازشوں کو کچلنا ضروری ہے۔ یہ سازشیں کیا ہیں اس کا اظہار معروف کتاب “Pakistan: A Hard Country” کے مصنف (Anatol Leieven) نے ان الفاظ میں کیا ہے؛ ’’کہ کس طرح امریکا پاکستانی فوج میں بغاوت کا ماحول پیدا کر کے اسے تباہ کرنا چاہتا ہے۔درحقیقت واشنگٹن درپردہ پاکستان کو تباہ کرنے کے درپے ہے جبکہ بظاہراس سازش کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا ہے۔ اس طرح پاکستان کا المیہ پوری دنیا کے لیے ایک مصیبت بن جائے گا۔‘‘
امریکا اوراس کے اتحادی افغانستان میں سخت الجھن کا شکار ہیںاور وہاں سے جلد نکلنے کے لیے پرامن راستے کی تلاش میں ہیں جو صرف طالبان ہی دے سکتے ہیں اور وہ بھی اس شر ط پر کہ قابض فوجیں افغانستان سے مکمل انخلا کا واضح نظم الاوقات مقرر کریں۔اب ۱۹۸۹ء کا زمانہ نہیںرہا جب افغانی مجاہدین کے دلوں میںپاکستان کی عزت تھی جس کی بنا پر انہوں نے روسی فوجوں کوپرامن نکلنے کا راستہ فراہم کیا تھا۔ اب افغانی طالبان پاکستان اورامریکا کو قابل اعتماد نہیںسمجھتے کیونکہ امریکا نے متعدد بار افغانو ں کے ساتھ فریب کیا ہے۔ مثلأ ۱۹۹۰ء میں طے پانے والا جینیوامعاہدے اور۲۰۰۲ء میں بون معاہدے میں طالبان کوحکومت سازی کے عمل میں ان کے جائز حق سے محروم رکھا گیا تھا اور اب بھی طالبان کو اقتدار سے باہر رکھنے کی کوشش ہے۔ان حالات میں اگر افغانستان سے پرامن انخلا ممکن نہ ہو سکا اور پاکستان میں بھی تابعدار حکومت قائم نہ ہو سکی تو پھرامریکا کیا کرے گا؟اوراس صورت حال میںپاکستان کے لیے کون سے راستے کھلے ہوں گے:
٭ پاکستان دہشت گردی کے خلاف لمبی جنگ لڑ چکاہے جس کے نتیجے میں ہماری سالمیت اور خودمختاری کو شدید اور گہرے زخم لگے اورنوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہم اپنے ہی قبائل کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں۔ہمیں چاہیئے کہ اپنے قبائل کے ساتھ خلوص دل سے قیام امن کی بات کریں اور دھوکہ دہی جیسی کاروائیوں سے اجتناب برتیں جن کی بنا پر معاہدہ ہوجانے کے باوجود ۲۰۰۵ء میں مولوی نیک محمد کو قتل کر دیاگیاتھا۔اشد ضروری ہے کہ ہم ۱۹۴۷ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کے تاریخی اقدام سے راہنمائی حاصل کریں اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری پھر سے انہیں قبائیلیوں کو سونپ دیں۔
٭ بلوچوں کے ساتھ کی گئی ناانصافیوں کا ازالہ کرتے ہوئے ان سے قیام امن کی بات چیت کی جانی چاہیئے تاکہ ہم اپنے دشمنوں کے عزائم کو ناکام بنا سکیں جوبلوچستان میںباغی عناصر کی سرپرستی کر کے انہیں ہم سے جدا کرنے کی سازشیں کر رہے ہیں۔حالات کو معمول پر لانے کے لیے کیے جانے والے حالیہ اقدامات کو وسعت دینے کی ضرورت ہے تاکہ قومی یکجہتی کے اعلی مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔
٭۲۰۰۱ء میں افغانستان کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے کے جرم کی افغانوں سے معذرت کرنا لازم ہے جس سے باہمی اعتماد کی فضا سازگار ہوگی اور سیاسی اور سفارتکاری کے نئے در کھلیں گے جو دونوں برادر اسلامی مماک کے درمیان ماضی کے دوستانہ تعلقات کوپھر سے قائم کرنے کا سبب بنیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ قابض فوجوں کے پرامن انخلا کو بھی ممکن بنایا جا سکے گا۔
٭ حکومت کی تبدیلی کے لیے انتخابات ہی درست اور آئینی طریقہ ہیںتاکہ نئی قیادت ابھر کر سامنے آئے اور جمہوری نظام کی جڑیں مضبوط ہوں۔اس نازک موقع پر اگر حکومت کو گرانے کا کوئی اور راستہ اپنایاگیا تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔
٭ملک میں آئین کی بالادستی کو یقینی بنایاجائے اور جو بھی آئین شکنی کا مرتکب ہو اسے فوری اور سخت سزا دی جائے۔
٭دنیا پر واضح کر دیا جائے کہ ہمارے ایٹمی اثاثے اتنے ہی محفوظ ہیں جتنے ہونے چاہئیںاور وہ انتہائی محفوظ ٹھکانوں پر رکھے ہوئے ہیں جن کے بارے’’صرف انہیں لوگوں کوعلم ہے جنہیں جاننا ضروری ہے۔‘‘ حتی کہ ان کے استعمال کرنے والے ادارے مثلأ فوج‘ نیوی اور ائر فورس کو بھی ان کے ٹھکانوں کاعلم نہیں‘ لیکن جب ضرورت کی گھڑی آئے گی تو انہیں یہ ہتھیارمہیا کر دئیے جائیں گے۔ ہمارا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم دنیاکے کسی نظام سے کم نہیں ہے۔اللہ تعالی کا کرم ہے کہ ہمارا نظام دنیا کا واحد نظام ہے جو آج تک کسی حادثے سے دوچار نہیں ہوا۔
ایٹمی اثاثوں کی حفاظت اور کامیاب مزاحمت (Deterrence) کو یقینی بنانا دو مشترک عناصر کو یکجا رکھنا ضروری ہے۔ ایک عنصر کا تعلق اس کی افادیت اور محفوظ رکھنے کی صلاحیت ہے اوردوسرا عنصر کسی جارحیت کی صورت میں اس صلاحیت کو استعمال کرنے کا حوصلہ اورجارحیت کو شکست دینے کی واضح صلاحیت ہے۔ اس صلاحیت کو استعمال کرنے سے مراداس مضبوط فیصلے کے پیچھے وہ فرد ہے جو اسے استعمال کرنے کے احکامات جاری کرنے کا مجاز ہے‘ جس کا صحیح مظاہرہ ۱۹۹۰ء میں کیا گیا جب’’سی آئی اے‘ موساد اور را ء‘‘ نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی مکمل کر لی تھی۔ ہمیں مشرق وسطی میں موجود ذرائع اور دوستوں کی جانب سے خطرناک اشارے ملنے شروع ہوئے تواس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ‘ جو کہ فیصلہ کرنے کی مجاز تھیں‘ انہوںنے نیوکلر کمانڈ اتھارٹی کی ایک ہنگامی میٹنگ بلائی اور بحث و تمحیص کے بعدکسی ممکنہ جارحیت سے نمٹنے کے لیے درج ذیل فیصلے صادر کیے:
٭وزیر خارجہ کوواضح پیغام دے کر فوری طور پر دہلی روانہ کیا کہ اگر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر حملہ کیا گیا تو ہم بھارت کے خلاف بھرپورجوابی کاروائی کریں گے‘ چاہے حملہ کسی بھی جانب سے ہو۔
(سابق بھارتی وزیر اعظم آئی کے گجرال نے اپنی کتاب Matters of Discretion میں ۲۳ جنوری ۱۹۹۰ء کوہمارے وزیر خارجہ کے دورہ بھارت اور خصوصی پیغام پہنچانے کا ذکر کیا ہے لیکن نہایت چالاکی سے اس پیغام کو سیز فائر لائن پر پائی جانے والی کشیدگی سے جوڑ دیا ہے جہاں ہماری فوج نے بھارتی فوج کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کر دیا تھا‘ جس کی تصدیق سابق جنرل آفیسر کمانڈنگ ۱۲ ڈویژن میجر جنرل صفدر (ستارہ جرات) سے کی جا سکتی ہے۔ بعد ازاں جب محترمہ بے نظیر بھٹو بھارت کے دورے پر گئیں تو گجرال صاحب نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے صاحبزادہ صاحب کو خصوصی پیغام دے کر بھارت بھیجا تھا تو محترمہ نے جواب دیا ’’نہیں‘‘۔ ان کا نہیں کہنا‘ سیاست کا حصہ تھا۔)
٭ایف۔۱۶ طیاروں کا ایک سکواڈرن ایٹمی ہتھیاروں سے لیس بھارت کے جنوب میں واقع اہداف (Trombay) کو نشانہ بنانے کے لیے تیار کر دیا گیا۔ ہماری تیاری کی بھنک جب امریکا کو ملی توصورت حال کو ٹھنڈا کرنے کے لیے رابرٹ گیٹس فوری طور پر پاکستان پہنچے جنہیںمرحوم صدر غلام اسحاق خان صاحب نے نہایت تدبر سے سمجھاکرو اپس بھیج دیا۔اس کے بعد کبھی بھی اس ’اتحاد ثلاثہ‘نے پاکستان کی طرف آنکھ اٹھانے کی جرأت نہیں کی۔
قدیم کہاوت ہے کہ’’توپ کے پیچھے بیٹھا شخص اہم ہے جو فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔‘‘ بے نظیر بھٹو ہی وہ شخصیت تھیں جویہ فیصلہ کرنے کی مجاز تھیںاور انہوں نے نہایت جرات اور حوصلہ سے ایسا فیصلہ کیا جس کی وجہ سے ۱۹۹۰ء میں پاکستان پر جارحیت کا ارتکاب کرنے والی قوتوں کو منہ کی کھانی پڑی۔(مجھے امید ہے کہ مرد حرجناب زرداری صاحب میری بات ضرور سن رہے ہوں گے۔) ۱۹۹۰ء میں ہمارے پاس صرف ایف۔۱۶ طیارے تھے اور اب الحمدللہ ہمارے پاس سب میرین اور میزائل بھی ہیں جن سے ہم ایک کے ٹی (KT) طاقت سے لے کربیس کے ٹی (KT) تک کی طاقت کے ایٹمی وار ہیڈ (War head) تیس کلومیٹر سے لے کر تین ہزار کلو میٹر کی دوری پر اہداف کو نشانہ بناسکتے ہیںاور ہماری اس تمام تر صلاحیت کا خصوصی ہدف صرف اور صرف بھارت ہے۔
یکم اور دو مئی کی درمیانی شب ایبٹ آباد پر ہونے والے حملے کے دوران ہمارے دو ایف۔۱۶ طیارے فضا میں بلند ہو گئے تھے لیکن سرحد پار فضائی نگرانی کو دیکھتے ہوئے کوئی کاروائی نہ کر سکے جو کہ درست قدم تھا کیونکہ ہماری برتری پیادہ فوج‘ میزائل کی طاقت اور روایتی ہتھیاروں کی برتری ہے۔ ہمارے سپاہی دنیا کے بہترین جنگجو ہیں اور ان کے ساتھ پاکستان افغان سرحدی علاقوں سے تعلق رکھنے والے جانباز ہیں جو ابھی تک ناقابل شکست رہے ہیں۔ بیرونی جارحیت اور پیشگی حملے کے خطرے سے نمٹنے کے لیے پیادہ فوج‘ قبائلی اور میزائیل کی طاقت پر مبنی ’’جنگی منصوبہ‘‘ ہمارے پاس موجود ہے اور یہ ہماری ایسی قابل عمل صلاحیت ہے جس کے بارے کسی کو کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیئے۔
اب اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں کہ اسامہ کو ۲۰۰۹ء میں مارا گیا تھا یا ۲۰۱۱ء میں۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہاجس کے لیے امریکا نے افغانستان پر چڑھائی کی تھی۔ لہٰذا اب سایوں کے تعاقب کا نہ توکوئی فائدہ ہے اورنہ ہی ضرورت ہے۔ آئیے جنگ کا باب بند کر کے امن و آشتی کا سبق پڑھیں اور افغانوں کے ساتھ قیام امن کے حوالے سے بات چیت کریں جو گذشتہ تیس سالوں سے اپنی بقا اور آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور پچیس لاکھ افغان اپنی زندگیاں قربان کر چکے ہیں جبکہ ملک کی تباہی و بربادی کا اندازہ لگانامشکل ہے۔افغانستان سے پرامن انخلا کی ضمانت اسی وقت ممکن ہو گی جب جارحیت کی مرتکب قوتیں‘ مثلاً روس‘ امریکا‘ یورپی یونین‘ بھارت اور پاکستان‘ جنگی نقصانات کا ازالہ کرنے پر تیار ہو ں۔ اس طرح افغانستان میں تعمیر نو اور بحالی کے منصوبے شروع کر کے ہم افغانوں کے دل جیت سکتے ہیں۔ یہی ابدی حقیقت ہے جو پاکستان۔افغانستان اور امریکا کے باہمی تعلقات کی سیاسی اور سفارتی مصلحتوں کی کامیابی کی ضمانت بھی ہو سکتی ہے۔خصوصاً اس وقت جبکہ افغانستان کے سخت کوہستانی صحرائوں میں امریکا کی جنگی گاڑی پھنس چکی ہے۔ انہیں سخت ترین حالات سے دوچار ہوکر ایڈمرل پیٹریاس بھی چلا اٹھے تھے کہ: ’’میں اس حقیقت سے آگاہ ہوا ہوں کہ افغان کتنے سخت جان لوگ ہیں اورافغانستان کی سرزمین کی طرح ان کی ہر چیز سخت ہے اور یہی سختی آج ہمارے لئے کتنی جانکاہ ثابت ہو رہی ہے۔‘‘
(موصولہ از ’’فرینڈز‘‘ اسلام آباد)
Leave a Reply