امریکا میں صدارتی انتخاب کا موسم ہے۔ ایسے میں صدارتی امیدوار زیادہ سے زیادہ ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے کوئی بھی وعدہ کرسکتے ہیں، انہیں کوئی بھی لالی پاپ دے سکتے ہیں۔ جو ممالک امریکا سے تعلقات کی بحالی کے خواہاں ہیں انہیں اس صورت حال میں محتاط رہنا چاہیے۔
پاک امریکا تعلقات کو بہت جلد مکمل بحالی کی حالت میں لانے کے حوالے سے بہت سے دعوے کیے جارہے ہیں مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ مفاہمت کی چند یاد داشتیں برسوں تک پروان چڑھنے والی بدگمانیوں کو دور نہیں کرسکتیں۔ پاک امریکا تعلقات کی مکمل بحالی کے بارے میں پُرامید ہونے سے قبل ہمیں یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ اس معاملے میں فریق کون ہیں۔ ایک طرف صدر اوباما کی زیر قیادت کام کرنے والی حکومت ہے اور دوسری طرف صدر زرداری کی قیادت میں سرگرم حکومت ہے۔ پھر ایک طرف ۳۲کروڑ افراد ہیں تو دوسری طرف ۱۸؍کروڑ۔
امریکی حکومت پاکستان کو ایک کرپٹ، بے وقعت اور ہر اعتبار سے ناقابل اعتبار ملک گردانتی ہے۔ امریکیوں کی نظر میں پاکستان اس کی طفیلی ریاست ہے۔ پاکستان کے جو حالات ہیں ان کی روشنی میں اس پر بھروسا کرنے کو کون تیار ہوگا۔ سیاست دانوں کی کرپشن ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ افراطِ زر کی شرح خطرناک رفتار سے بلند ہو رہی ہے۔ بجٹ خسارہ ہے کہ کسی بھی صورت کم ہونے کا تو خیر ذکر ہی کیا، بڑھنے کی رفتار کم کرنے کا بھی نام نہیں لے رہا۔ غیر ملکی قرضوں پر سود ادا کرنا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بھیجی ہوئی رقوم سے بیرونی قرضوں پر سود کا ادا کرنا اور ادائیگیوں کے توازن کو کسی حد تک کنٹرول میں رکھنا ممکن ہو پاتا ہے۔ برآمدات توانائی کے بحران کے باعث شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ اندرونی قرضوں کی حالت کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ اسٹیٹ بینک سے لیے جانے والے قرضے حکومت کے گلے میں شدید ناکامی اور بدنامی کا طوق ہیں۔ حکومت روزمرہ اخراجات کے لیے بھی اتنے بڑے پیمانے پر قرضے لیتی رہی ہے (یعنی کرنسی نوٹ چھپواتی رہی ہے) کہ اب افراطِ زر کی سطح نیچے آنے کا نام نہیں لے رہی۔ ایسے میں معیشت کی بحالی بہت دور کی بات لگتی ہے۔ حکمرانوں کی طرف سے حالات کو درست کرنے کا کہیں بہت دور کا بھی کوئی اشارہ نہیں مل رہا۔ ایسی حالت میں امریکا اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ پاکستان کو سفارتی سطح پر لالی پاپ دے کر اور عملی دنیا میں سخت تر اقدامات کے ذریعے قابو میں رکھ سکتا ہے۔
امریکا عالمی طاقت ہے اور تمام بڑے بین الاقوامی اداروں پر اس کا غیر معمولی کنٹرول ہے۔ عالمی سطح پر تمام بڑے فیصلے امریکا ہی کی مرضی سے ہوتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے لیے امریکا سے کوئی بھی بات منوانا انتہائی دشوار بلکہ ناممکن ہے۔ یہ تو وہی دیہی معاشرے میں کسان اور زمیندار والا معاملہ ہے۔ زمیندار دیہی معاشرے کا ساہوکار ہوتا ہے اور کسی بھی کسان کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ اس سے اپنی بات منواسکے۔ جی بھر کے کرپشن کرنا اور پُرتعیش زندگی بسر کرنا پاکستانی سیاست دانوں کا وتیرہ ہے۔ ایسے میں وہ امریکی قیادت سے برابری کی بنیاد پر کس طرح بات کرسکتے ہیں؟ اگر پاکستانی سیاست دان ملک اور قوم کی خاطر کوئی قربانی دینے کو تیار ہی نہیں تو پھر امریکی قیادت انہیں برابر کا درجہ کیوں دینے لگی؟
بیشتر امریکی اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو دہشت گردی کی آماجگاہ ہے اور القاعدہ و طالبان کی پناہ گاہ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ عام امریکیوں کا تاثر یہ بھی ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا کھل کر ساتھ نہیں دیا۔ افغان جنگ نے امریکیوں کو غیر معمولی طور پر متاثر کیا ہے۔ انہیں اس بات کی زیادہ فکر لاحق رہتی ہے کہ امریکی معیشت کا اور ان کی ذاتی آمدنی کا کیا ہوگا۔ کسی دوسرے ملک کے مفادات سے انہیں زیادہ غرض نہیں۔ امریکا میں صدارتی انتخابات سر پر ہیں۔ افغان جنگ کے حوالے سے امریکی مقاصد حاصل نہیں ہوسکے ہیں اور مستقبل قریب میں حاصل ہوتے دکھائی بھی نہیں دیتے۔
دوسری طرف پاکستان کے معاملے میں یہ تصور بھی محال ہے کہ اِس کے بیشتر شہری امریکا سے زیادہ کسی ملک سے نفرت کرتے ہوں گے۔ چند ہی لوگوں نے امریکا کی دی ہوئی مراعات سے استفادہ کیا ہے یا مزے لوٹے ہیں۔ عوام کا مجموعی تاثر یہ ہے کہ امریکا نے عراق اور افغانستان کے خلاف بلا جواز جنگ چھیڑی اور پاکستان پر ایک جنگ کسی سبب کے بغیر مسلط کی۔ پاکستان میں بزدلانہ طریقے سے اقتدار پر قبضہ کرنے والے جنرل پرویز مشرف کو امریکا سے آدھی رات کے وقت ایک کال آئی اور اس نے افغانستان پر مسلط کی جانے والی جنگ میں امریکا کی بھرپور حمایت اور مدد پر آمادگی ظاہر کردی۔ اس جنگ نے پاکستان کو تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ڈرون حملے امریکا کے لیے بہترین آپشن بن گئے ہیں۔ کسی بھی امریکی کی زندگی خطرے میں نہیں پڑتی اور ہزاروں میل دور بیٹھ کر کوئی بھی ڈرونز کو آپریٹ کرکے بے قصور پاکستانی مردوں، خواتین اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ اب تک ہزاروں بے قصور پاکستانی ڈرون حملوں کی نذر ہوچکے ہیں اور اِس خون ناحق کے حساب کتاب کا کوئی امکان بھی نہیں۔ ڈرون حملوں کو امریکا اس لیے ترجیح دے رہا ہے کہ اس میں صرف مسلمانوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوتی ہیں اور کسی بھی امریکی کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ امریکی یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ڈرون حملوں میں جب بھی کوئی بے گناہ مارا جاتا ہے تو انتقام لینے کی خاطر مزید کئی نوجوان ان لوگوں سے جا ملتے ہیں جو ہر قیمت پر امریکا کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ امریکا سے انتقام لینے کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کرنا ان لوگوں کے نزدیک بہت معمولی قیمت ہے۔
امریکا ویسے تو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا چمپئن بنا پھرتا ہے مگر جب کشمیر کا معاملہ آتا ہے تو اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ بھارت کے سات لاکھ سے زائد فوجی مقبوضہ کشمیر میں تعینات ہیں۔ حق خود ارادیت کے لیے اب کشمیریوں کی تیسری نسل میدان میں ہے۔ ہزاروں کشمیری شہید کیے جاچکے ہیں مگر اس کے باوجود امریکا بھارت سے دوستی اور اسرائیل کی غلامی کے باعث اس معاملے میں کچھ بھی کہنے سے یکسر گریز کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے اور کشمیریوں کو کس طور موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے، اس سے بظاہر امریکیوں کو کوئی غرض نہیں۔ دوسری طرف اسرائیل نے فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضہ کر رکھا ہے اور اس قبضے کو امریکا اور یورپ کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے۔ یہ بھی مسلمانوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔ اسرائیل کی غیر مشروط اور غلامانہ طرز کی حمایت ہی کے باعث امریکا کو مسلم دنیا میں وقعت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ امریکی سیاست پر یہودیوں کے اثرات اس قدر مستحکم ہیں کہ کوئی بھی امریکی سیاست دان فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت نہیں کر پاتا۔ سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے جب اپنی کتاب ’’فلسطین: امن نہ کہ نسل پرستی‘‘ میں فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کو جنوبی افریقا کی نسل پرست پالیسی سے مشابہ قرار دیا تو پوری یہودی لابی ان کے پیچھے پڑگئی۔
امریکا پر اسرائیل کے اثرات اس قدر گہرے اور مستحکم ہیں کہ اب تک یہ بات بھی کسی کی سمجھ میں نہیں آسکی کہ اسرائیل کیا ہے؟ امریکیوں کا پارٹنر یا کنٹرولر؟ امریکی صدر براک اوباما، صدارتی انتخاب میں ان کے ری پبلکن حریف مٹ رومنی اور وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اسرائیل کا دورہ کرکے تل ابیب کی قیادت کو یقین دلایا ہے کہ امریکا ہر معاملے میں اسرائیلیوں کے ساتھ ہے۔ یہ سب کچھ انتخابات میں کامیابی یقینی بنانے کی خاطر ہے۔ اقوام متحدہ نے غزہ کی پٹی کے محاصرے کو غیر قانونی قرار دیا ہے مگر امریکی قیادت میں ہمت پیدا نہیں ہوئی کہ اس اقدام کو درست قرار دے۔ یہی حال ایران کے ایٹمی پروگرام کا ہے۔ اسرائیل نے ایران پر الزام لگایا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکا اس کا ہم نوا ہے۔ اسرائیل نے ایران کے حوالے سے جو کچھ بھی کہا ہے اس پر امریکا نے امنّا و صدقنا کہنے سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ ایران پر پابندیاں عائد کرنے سے کہیں آگے بڑھ کر اب اسرائیل نے ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملے کا پروگرام بنایا ہے اور امریکا ہر قدم پر اس کی ہم نوائی اور حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ اسرائیل اور امریکا روزانہ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کے امکان کی بات کرتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ خود امریکا اور اسرائیل میں ایٹمی ہتھیاروں کے ڈھیر لگے ہیں۔ پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ اگر ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ ہوا تو اگلا ہدف پاکستان ہوگا۔ یا تو پاکستان کو بے حد کمزور کردیا جائے گا یا پھر براہِ راست حملے کے ذریعے ایٹمی اثاثوں کو تباہ کردیا جائے گا۔ یہ خدشہ گہری جڑیں رکھتا ہے اور اِس کی منطقی بنیاد بھی ہے۔
جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ حوصلہ افزا نہیں۔ اسرائیل کے زیر اثر کام کرنے والی امریکی قیادت اور پاکستان پر حکمرانی کرنے والے جاگیرداروں کے درمیان معاملات طے ہوتے یا زیادہ دن چلتے دکھائی نہیں دیتے۔
(“Pak-US Relations will not ‘Reset’ in the Short-term!”. “Business Recorder”. July 31st, 2012)
Leave a Reply