
گھر ٹوٹنے اور بکھرنے کا عمل بہت تکلیف دہ ہوتا ہے مگر جب رنجشیں،کدورتیں اور گلے شکوے نفرتوں کا روپ دھارنے لگیں تو الگ ہوجانے اور نیا گھر بسا لینے میں ہی عقلمندی ہوا کرتی ہے۔جب کوئی گھر تقسیم ہوتا ہے اور اس کی کوکھ سے نیا گھر جنم لیتا ہے تو اہل خانہ کے درد کی شدت وہی ہوتی ہے جو عملِ زچگی کے دوران خاتون کے حصے میں آتا ہے۔ علیحدگی کا یہ عمل کتنا ہی ناگوار اور ناپسندیدہ کیوں نہ ہو، وقت کے مرہم سے زخم بھرنے لگتے ہیں تو سب کو احساس ہوتا ہے کہ یہ بٹوارہ تو ایک دن ہونا ہی تھا تو اس پر کڑھنے، جلنے اور ایک دوسرے کو کوسنے دینے کے بجائے کیوں نہ ہنسی خوشی مل جل کر اچھے ہمسائیوں کی طرح وقت بسر کیا جائے۔ ملک بھی گھر جیسے ہوتا ہے اور اس میں رہنے والوں کے درمیان بھی ویسے ہی تلخیاں پیدا ہوتی ہیں جیسے گھروں میں بہن بھائی کی لڑائی یا ساس بہو کا جھگڑا۔ جیسے گھروں میں ہونے والی لڑائی کے دوران ہمسائے اور رشتہ دار جنہیں ہم ’’شریکے‘‘ کہتے ہیں، لگائی بجھائی کا کام کرتے ہیں، ویسے ہی جب کسی ملک کے شہریوں میں رنجشیں بڑھتی ہیں تو موقع کی تاک میں بیٹھے ہمسایہ ممالک جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کرتے ہیں۔ اس المناک گھڑی میں وہ لوگ غنیمت ہوا کرتے ہیں جو منہ زور ہواؤں کا رُخ موڑ کر آشیانے کوبکھرنے سے بچانے کی تگ و دوکرتے ہیں۔ اگر کوشش کامیاب رہے تو یہ لوگ وفادار کہلاتے ہیں اور اگر گھر ٹوٹ جائے تو غدار قرار پاتے ہیں۔ گزشتہ چالیس سال کے دوران ۴۵ نئے ممالک وجود میں آئے۔ ۱۹۷۵ء میں انڈونیشیا نے پرتگالی کالونی مشرقی تیمور کو اپنے ملک میں شامل کر کے ۲۷واں صوبہ قرار دے دیا۔ مگر یہاں کے مکینوں نے اس نئی حد بندی کو قبول نہ کیا اور علیحدگی کی تحریک شروع کر دی۔ ۲۷سالہ جدوجہد کے بعد اقوام متحدہ کے زیرانتظام ریفرنڈم ہوا، جس کے نتیجے میں مشرقی تیمور انڈونیشیا سے الگ ہو گیا۔ اب اس نوزائیدہ ملک کے پاس ایک راستہ تو یہ تھا کہ پرانے زخموں کے کھرنڈ کھرچ کر اپنا بدن لہو لہان کر لیا جائے، جن لوگوں نے ملک کو متحد رکھنے کی کوشش کی انہیں چُن چُن کر پھانسی کے پھندوں پر لٹکایا جائے، انڈونیشیا سے قطع تعلقی کر لی جائے اور نفرتوں کی فصیلیں گرانے کی بجائے مزید پختہ کر دی جائیں۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر ایک نئے دور کا آغاز کیا جائے، انڈونیشیا سے بھی اسی طرح تجارتی اور سفارتی تعلقات قائم کیے جائیں جس طرح باقی ممالک کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا جارہا ہے۔مشرقی تیمور نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا اور آج انڈونیشیا اس کا سب سے بڑا تجارتی سانجھے دار ہے۔ انڈونیشیا نے Dili میں سب سے پہلے سفارتخانہ بنایا اور مشرقی تیمور نے جکارتہ میں سفارتخانہ اور کوپانگ میں قونصلیٹ قائم کیا۔ Velvet Revolution ۱۹۸۹ کے نتیجے میں چیکو سلواکیہ بکھر گیا اور اس سے دو نئے ممالک سلواکیہ اور چیک ری پبلک نے جنم لیا مگر ان کے تعلقات انتہائی خوشگوار ہیں۔سوویت یونین کاشیرازہ بکھرا تو وسطی ایشیائی ریاستیں وجود میں آئیں۔ نہ جانے کتنے ممالک نے آزادی حاصل کی لیکن ان میں سے کسی ایک کو بھی یہ خیال نہیں آیا کہ ٹریبونل قائم کر کے ان لوگوں کو سزائیں دی جائیں جنہوں نے علیحدگی کی مخالفت کی اور ملک کو متحد رکھنے کی کوشش کی۔ ۱۹۷۱ء میں بنگلا دیش پاکستان سے الگ ہو گیا۔ہم اسے اپنا بایاں بازو سمجھتے ہیں اور اس سانحہ کو سقوط ڈھاکا کے نام سے یاد کرتے ہیں مگر بنگالی اس دن کو یوم آزادی کے طور پر مناتے ہیں۔جب مشرقی پاکستان سے علیحدگی کی آوازیں اٹھ رہی تھیں توبھارت کی ملی بھگت سے مکتی باہنی کے نام سے مسلح جدوجہد شروع ہوئی۔
بعد میں بھارتی فوج نے باقاعدہ حملہ کیا تو اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں نے البدر اور الشمس کے نام سے اس جارحیت کا مقابلہ کیا۔یہ بھی بنگال کے ہی نوجوان تھے جن کی خواہش تھی کہ پاکستان قائم و دائم رہے اور بھارت کا دم چھلا بن کر رہنے سے بہتر ہے کہ پاکستان میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کی جنگ لڑی جائے۔جب تنخواہ دار سپاہی اپنی قیادت کی نااہلی کے باعث سرنڈر کر رہے تھے تو ان بے لوث مجاہدین نے پاکستانیت کا جھنڈا بلند رکھنے کے لیے اپنا تن من دھن سب وار دیا۔مگر یہ کاوشیں بار آور ثابت نہ ہوئیں اور ملک ٹوٹ گیا۔ ۷؍اپریل ۱۹۷۴ء میں پاکستان،بنگلا دیش اور بھارت کے وزرائے خارجہ نے ایک سہ فریقی معاہدے پر دستخط کیے جس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ماضی کی تلخیاں بھلا کر ایک نئے دور کا آغاز ہو گا،جنگی جرائم پر سزائیں دینے کے لیے قائم ٹریبونل تحلیل کر دیے جائیں گے اور آئندہ کوئی ملک کسی شہری کے خلاف کارروائی نہیں کرے گا۔ اس معاہدے کے تحت ہی شیخ مجیب اور دیگر افراد کے خلاف قائم مقدمات ختم ہو گئے اور ۱۹۷۹ء میں جماعت اسلامی پر پابندی کا فیصلہ واپس لے لیا گیا۔
رفتہ رفتہ جماعت اسلامی بنگلا دیشی سیاست کے مرکزی دھارے میں شامل ہو گئی،بی این پی اور عوامی لیگ نے جنرل ارشادکی آمریت کے خلاف مل کر تحریک چلائی۔بعد ازاں جمہوریت بحال ہوئی تو بی این پی اور عوامی لیگ دونوں نے جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر حکومتیں بنائیں۔ ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات میں بی این پی اور جماعت اسلامی سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کے بائیکاٹ کے سبب عوامی لیگ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تو حسینہ واجد نے شیخ مجیب کے ختم کیے گئے جنگی جرائم ٹریبونل کو بحال کر دیا اور موقع غنیمت جانتے ہوئے اپنے سیاسی مخالفین کا قلع قمع کرنے کی ٹھان لی۔اب تک جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل علی احسن مجاہد،نائب امیر قمر الزماں،نائب قیم اظہر الاسلام،قاسم علی اور امیر جماعت اسلامی مطیع الرحمان نظامی سمیت ۱۳؍افراد کو موت کی سزا دی جا چکی ہے۔دلاور حسین سعیدی کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کر دی گئی جبکہ سابق امیر جماعت اسلامی مولانا غلام اعظم پیرانہ سالی کے دوران جیل میں ہی انتقال کر گئے۔الزام یہ ہے کہ ان افراد نے جدوجہد آزادی کے دوران اپنی قوم سے غداری کی اور پاکستان کا ساتھ دیا۔مگر سوال یہ ہے کہ اگر آج بنگلا دیش کے کسی علاقے میں علیحدگی کی تحریک سر اٹھائے تو وہاں آباد بنگالیوں کو کیا کرنا چاہیے؟ کیا بندوق اٹھانا اور ریاست کے خلاف لڑنا غداری ہو گی یا پھر ملک کو مستحکم رکھنا وفاداری ہو گی؟ اس وقت بنگلا دیش کا کوئی وجود نہ تھا، یہ سب پاکستان کے شہری تھے اور ان کافرض تھا کہ ملک کو متحد رکھنے کی کوشش کرتے۔ علی احسن مجاہد اور مطیع الرحمان جیسے لوگوں نے تو وفاداری کا حق ادا کیا۔ ہاں اگر بنگلا دیش بننے کے بعد بھی ان کی وفاداری پاکستان کے ساتھ ہو تو اسے غداری قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان افراد کا عدالتی قتل بھی افسوسناک ہے مگر اس سے کہیں زیادہ افسوسناک ہے حکومت پاکستان کی مجرمانہ خاموشی۔ توجہ دلانے پر حکام کفِ افسوس ملتے ہوئے کہتے ہیں، ہم کر بھی کیا سکتے ہیں؟ اور نہیں تو آپ نے علامتی طور پر بنگلا دیش کے سفیر کو ہی ملک بدر کر دیا ہوتاتاکہ وفاداری پر سرشاری برقرار رہتی اور وطن کی حرمت پر مر مٹنے کا جذبہ زندہ رہتا۔ پھانسی تو مطیع الرحمان نظامی کو دی گئی لیکن ہماری خاموشی نے پاکستانیت کا بھی گلا گھونٹ دیا اور وفاداری بھی مطیع الرحمان نظامی کے ساتھ منوں مٹی تلے دفن ہو گئی۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی۔ ۱۳؍مئی ۲۰۱۶ء)
Leave a Reply