
رواں برس جنوری میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو روز کے لیے قطر کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی اورفوجی عہدیداروں کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ اطلاعات کے مطابق جنرل باجوہ اور امیر قطر نے دفاع، سلامتی اور جیو پولیٹیکل امور پر تبادلہ خیال کیا۔ یہ دورہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کی جانب سے تین سال سے قطر پر عائد پابندیاں ختم ہونے کے چند ہفتوں بعد عمل میں آیا ہے۔ پاکستانی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ کا دورہ کچھ عرصے سے طے شدہ تھا،لیکن قطر اور عرب ممالک کے درمیان خراب تعلقات کی وجہ سے یہ دورہ تعطل کا شکار تھا۔ آنے والے دنوں میں وزیراعظم عمران خان کا بھی دورۂ قطر متوقع ہے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے عمران خان کا چوتھا دورہ قطر ہوگا۔ گزشتہ پورا برس پاکستان اور عرب ممالک کے تعلقات میں تناؤ قائم رہا، خاص کر پاکستان کے سب سے اہم اتحادی سعودی عرب سے تعلقات تلخ رہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کے خلیج میں کم ہوتے سکیورٹی کردار کے تناظر میں یہ دورہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔
پاکستان اور قطر کے درمیان سیاسی، معاشی اور دفاعی تعلقات موجود ہیں۔ دونوں ممالک نے تجارتی تبادلے، سرمایہ کاری، ثقافت اور تعلیم سے متعلق معاہدوں پر دستخط کررکھے ہیں۔ ۲۰۱۶ء میں دونوں ممالک نے ایک ۱۵ سالہ معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت قطر سالانہ ۷۵ء۳ ملین ٹن قدرتی گیس فراہم کرے گا، جبکہ نیشنل گرڈ میں ۲ ہزار میگاواٹ بجلی شامل کرنے میں بھی مدد کی جائے گی۔ پاکستان کو بجلی کی شدید قلت کاسامنا ہے، اس معاہدے سے پاکستان کو توانائی کی کمی پوری کرنے میں بڑی مدد ملی۔
جون ۲۰۱۷ء میں قطر اور عرب ممالک کے درمیان شدید تناؤ اور خراب تعلقات کے دوران پاکستان غیر جانبدار رہا اور قطر کے ساتھ تجارتی تعلقات برقرار رہے۔ مثال کے طور پر اگست ۲۰۱۷ء میں کراچی اور حمد کی بندرگاہوں کے درمیان پاکستان قطر ایکسپریس سروس شروع کی گئی۔ جس کا مقصد دونوں ممالک کے مابین تجارت کو فروغ دینا تھا۔ ۲۰۱۹ء میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں ۶۳ فیصد (قطر کے حق میں) اضافہ ہوا۔ قطر سے پاکستانیوں کی جانب سے بھیجا جانے والا ترسیلاتِ زر بھی اہم ہے۔ دسمبر ۲۰۲۰ء میں قطر سے پاکستان بھیجا جانے والا ترسیلات زر خلیجی ممالک کے ترسیلات زر کا ۲۷ فیصد تھا۔
پاکستان اور قطر افغان امن عمل میں بھی گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ پاکستان نے دوحہ مذاکرات کے دوران قطر کے اہم کردار کی تعریف کی ہے۔ پچھلے کئی برسوں کے درمیان پاکستان اور قطر کے تعلقات مستحکم ہوئے ہیں۔ جس کی بڑی وجہ اعلیٰ سطح کے ریاستی دورے ہیں۔ عمران خان نے جنوری ۲۰۱۹ء میں قطر کا پہلا دورہ کیا تھا، جس کے جواب میں اسی برس جون میں قطری وفد نے بھی دورہ کیا۔ ان دوروں میں دونوں ممالک کے درمیان سیاحت، کاروبار اور مالیاتی معاونت سے متعلق مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے۔ ۲۰۱۹ء میں ہی پاکستان نے فیفا ۲۰۲۲ء کے ورلڈ کپ کے لیے سکیورٹی فراہم کرنے کی پیش کش کی۔ اس وقت قطر میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ پاکستانی کام کر رہے ہیں، ان میں سے بیشتر فیفا سے متعلق منصوبوں پر تعینات ہیں۔ اگرچہ ملازمین کی تنخواہوں سے متعلق مسائل رہے ہیں، لیکن پاکستانی حکام کو اعتماد ہے کہ جلد ہی تمام معاملات حل کرلیے جائیں گے۔
سلامتی اور دفاعی میدان میں پاکستان اور قطر کے درمیان ۱۹۸۳ء سے معاہدے موجود ہیں۔ اس وقت سے ہی دونوں ممالک مشترکہ تربیت، مشقیں اور فوجی افسران کے تبادلوں میں مصروف ہیں۔ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد قطری مسلح افواج میں موجود ہونے کے ساتھ اہم امور پر مشاورتی کردار بھی ادا کررہی ہے۔ حال ہی میں دونوں ممالک نے فضائی اور بحری امور پر تعاون میں اضافے پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ اگرچہ ماضی میں دونوں ممالک نے دفاعی معاملات پر بات چیت کی ہے، لیکن جنرل باجوہ کا حالیہ دورہ اس وقت سامنے آیا ہے جب خلیج میں طویل مدتی اثرات کی حامل تبدیلیاں جاری ہیں۔ جس میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے تعلقات کا قائم ہونا قبل ذکر ہے۔ اسرائیل کے ساتھ غیر سرکاری تعلقات رکھنے کے باوجود سعودی عرب خلیج میں تل ابیب کا بڑھتا کردار قبول نہیں کرے گا۔ کیوں کہ وہ اس کی حکومت کے لیے براہ راست چیلنج ہوگا۔ سب کو پتا ہے کہ خلیج کے تمام ممالک اسرائیل کے ساتھ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر روابط رکھتے ہیں۔ اس سے خلیج میں پاکستان کی اہمیت کم ہوجائے گی، کیونکہ اسرائیل کے خلاف پاکستان کا مؤقف خلیجی ممالک کے لیے غیر ضروری رکاوٹ پیدا کرے گا۔ خلیجی ممالک کے ساتھ پاکستان کے خراب تعلقات کی ایک حالیہ مثال متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستانیوں کے لیے وزٹنگ ویزوں کا اجرا بند کرنا ہے۔ اسرائیل کو تسلیم نہ کرکے پاکستان پر سعودی عرب اور ایران کی دشمنی کے زیادہ اثرات پڑ سکتے ہیں۔ کیوں کہ خلیجی ممالک کے لیے خطے میں بھارت بہتر اتحادی نظر آتا ہے، بھارت اقتصادی اور تزویراتی طور پر بہت اہمیت رکھتا ہے۔ خلیجی ممالک اور جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان تعلقات بدل رہے ہیں، ۲۰۱۵ء میں پاکستان نے یمن جنگ میں فوج بھیجنے سے انکار کردیاتھا، جس کانتیجہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ کشیدگی کی شکل میں نکلا۔ حالیہ برسوں میں بھارت نے خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری کو اہمیت دی ہے۔ سعودی عرب بھارت میں بنیادی ڈھانچے اور تیل کے منصوبوں پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کررہا ہے، دہلی اور ریاض نے انسدادِ دہشت گردی میں تعاون اور مشترکہ بحری مشقیں بھی کی ہیں۔ یہاں تک کہ بھارتی آرمی چیف نے دسمبر ۲۰۲۰ء میں خلیج کے اپنے پہلے دورے کو انتہائی تاریخی قرار دیا ہے۔ خلیجی ممالک کے لیے بھی بھارت اور اسرائیل کے تعلقات کوئی مسئلہ نہیں ہیں۔
بھارت اور اسرائیل متعدد خلیجی ریاستوں خاص طور پر متحدہ عرب امارات کے ساتھ ایک بہترین اتحاد بنارہے ہیں۔ پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے بھارت کو خلیجی ممالک سے تعلقات بہتر کرنے کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے درمیان دفاعی اور انٹیلی جنس تعاون بھی کافی مضبوط ہے۔ پہلے ہی کہا جارہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت اسرائیلی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ پاکستان طویل عرصے سے مختلف خلیجی ممالک کے لیے بنیادی تحفظ فراہم کرنے والے ملک کا کردار ادا کررہا ہے۔ درحقیقت پاکستان نے بہت سے خلیجی ممالک میں ہوابازی کی صنعت کے قیام میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستانی حکومتوں اور خلیج میں حکمران خاندانوں کے درمیان قریبی تعلقات رہے ہیں۔ اس وجہ سے ہی خلیجی ممالک کے مفادات کے دفاع کے لیے پاکستان کو قابل اعتماد سمجھا جاتا رہا ہے۔ لیکن اب اسرائیل سے تعلقات کی روشنی میں پاکستان کے پاس خلیجی ممالک کو دینے کے لیے کچھ زیادہ موجود نہیں ہے۔ خلیجی ممالک کو افرادی قوت کی فراہمی میں پہلے ہی بھارت پاکستان کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ بھارتی آرمی چیف کے خلیج کے دورے کی روشنی میں مستقبل قریب میں بھارت خلیجی ممالک کو فوجی تربیت بھی فراہم کرسکتا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تاحال خلیجی ممالک کے ساتھ معاشی تعلقات مضبوط بنانے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا اور موجودہ جیو پولیٹیکل صورتحال ماضی کے مقابلے میں بالکل الٹ چکی ہے۔ خلیج میں مسابقت کی جگہ تیزی سے ختم ہورہی ہے اور پاکستانی حکام کو اس کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔ قطر اس وقت اپنے دفاع کے لیے زیادہ تر ترکی پر انحصار کرتا ہے اور پاکستان کو ایک قابل اعتبار دفاعی حلیف سمجھتا ہے۔ قطر کے ساتھ بہتر تعلقات بھی پاکستان کو خلیج میں وسیع تر کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کرسکتے ہیں اور پاکستان پھر سے خلیج میں سکیورٹی امور میں اہم کردار حاصل کرسکتا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری اس سلسلے میں ایک زبردست راستہ فراہم کرتی ہے۔
۲۰۱۹ء میں قطر نے سی پیک میں منجمد کھانے کی صنعت میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ سی پیک پاک قطر بہتر تعلقات کو نئی طاقت فراہم کرسکتا ہے۔ قطری سرمایہ کاری سے دوسرے خلیجی ممالک کو بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کا اعتماد حاصل ہوگا۔ جس کی موجودہ معاشی صورتحال میں پاکستان کو اشد ضرورت ہے۔
موجودہ بدلتی صورتحال میں خلیجی ممالک کی جانب سے پاکستان کو پرانی عینک سے دیکھنے کا امکان کم ہی ہے۔ بنیادی طور پر ان کے اپنے اسٹریٹجک اور معاشی مفادات ہیں اور خلیجی ممالک اس کو ہی اہمیت دیں گے۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“Pakistan and the Gulf security architecture”. (“middleeastmonitor.com”. February 11, 2021)
Leave a Reply