
پاکستان میں مسلم اکثریت کے لیے شراب شرعی اعتبار سے ممنوع ہے، مگر اس کے باوجود ملک بھر میں شراب نوشی ایک بڑے مسئلے کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ بہت سی زندگیاں شراب کے ہاتھوں برباد ہوکر رہ گئی ہیں اور بہت سے کلینکس اور تھیراپی سینٹر اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے سرگرم ہیں۔
کراچی کے بہت سے علاقوں میں رات گئے ایسی پارٹیوں کا انعقاد عام ہوگیا ہے، جن میں ناچ گانا اور ہَلّہ گُلّہ ہوتا ہے اور ساتھ ہی جام و مینا کا دور بھی چلتا رہتا ہے۔ ایسی پارٹیاں غیر معمولی حد تک عام تو نہیں ہوئیں مگر ان کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور اس پورے ماحول سے لطف اندوز ہونے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔
پاکستان میں شراب اُن اسٹوروں پر فروخت ہوتی ہے جنہیں حکومت نے صرف غیر مسلموں کو شراب فروخت کرنے کا لائسنس دے رکھا ہے۔ انہی دکانوں سے مسلمان بھی بڑی تعداد میں شراب خریدتے ہیں۔ پاکستان میں بھی شراب تیار کرنے کے کارخانے ہیں، جن میں یا تو غیر مسلموں کے لیے یا پھر برآمد کے لیے شراب تیار کی جاتی ہے۔
پاکستان کی ۹۶ فیصد آبادی مسلم ہے، جس کے لیے شراب حرام کا درجہ رکھتی ہے۔ عام تصور یہ ہے کہ شراب کی لَت غیر مسلموں تک محدود ہے، مگر ایسا نہیں ہے۔ یعنی مسلمانوں کی اکثریت کے باوجود پاکستانی معاشرے کو Dry قرار نہیں دیا جاسکتا! شراب پینے والے کے لیے شرعی طور پر ۸۰ کوڑوں کی سزا مقرر ہے مگر اس سزا پر شاذ و نادر ہی عمل کیا جاتا ہے۔
ملک کے طول و عرض میں بظاہر غیر ضرر رساں سماجی اجتماعات منعقد ہوتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اب شراب نوشی ایک لَت کی حیثیت اختیار کرتی جارہی ہے، جس سے معاشرے کی ساخت کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ حکام نے بتایا ہے کہ پانچ برس کے دوران شراب سے متعلق بیماریاں اور پیچیدگیاں ۱۰؍ فیصد بڑھ گئی ہیں۔
طاہر احمد کی عمر ۶۵ سال ہے۔ وہ ایک زمانے تک شراب کے رسیا رہے۔ پھر انہوں نے اپنے دو دوستوں کو شراب کے ہاتھوں جگر کے عارضے میں مبتلا ہوتے اور مرتے دیکھا اور خود وہ بھی شراب کے ہاتھوں موت کے منہ میں جاتے جاتے بچے۔ طاہر احمد نے دوسروں کے انجام اور اپنی حالت سے سبق سیکھتے ہوئے شراب ترک کی اور ایک سال تک ڈٹ کر علاج کرایا۔ اپنا بھرپور علاج کرانے کے بعد ہی انہوں نے شراب کے عادی افراد کے علاج کا ادارہ ’’تھیراپی ورکز‘‘ قائم کیا، جو برطانیہ کی کاؤنسلنگ اینڈ سائیکو تھیراپی سینٹرل ایوارڈنگ باڈی سے رجسٹرڈ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چھ برس قبل (جب انہوں نے بحالی مرکز کھولا تھا تب) شراب پینے والوں کی عمریں بیس سے تیس سال کے درمیان تھیں۔ اب ۱۴؍ سال تک کے لڑکے بھی شراب نوشی میں مبتلا پائے جارہے ہیں۔
کبھی کبھی شراب کو دیگر منشیات کے ساتھ ملا کر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ طاہر احمد کہتے ہیں: ’’پاکستان کے خوش حال گھرانوں میں اب شراب پائی جانے لگی ہے اور بالخصوص شادی کی تقریبات میں اس کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ بہت سے سیاست دانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شراب کے عادی ہیں۔ پاکستان میں جو لوگ شراب کے رسیا ہیں، وہ خاصی بڑی مقدار میں پیتے ہیں۔ اس کا ایک بنیادی سبب تو صورتِ حال کا دباؤ ہے۔ بہت سے لوگ سیاسی صورتِ حال سے پیدا ہونے والے تناؤ کو شراب کے نشے میں بہا دینا چاہتے ہیں۔ بے روزگاری بھی شراب نوشی کے فروغ کا سبب بن رہی ہے۔ لوگ معاشی مشکلات کو بھی شراب کے نشے میں غرق کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ دوسرے بہت سے ممالک کے برعکس پاکستان میں شراب نوشی تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ اِس کے ذریعے لوگ اپنی پریشانیوں اور مشکلات کا عارضی حل تلاش کرتے ہیں۔ جو شخص بوتل کھولتا ہے، وہ اُسے ختم کرنے تک پیتا رہتا ہے‘‘۔
شراب بہتوں کو کہیں کا نہیں رہنے دیتی۔ حال ہی میں کراچی اور چند دوسرے شہروں میں گھریلو ساختہ، کچی شراب پینے سے مجموعی طور پر تیس سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ چند ایک خواتین بھی شراب کی عادی ہیں۔ لاہور کی سارہ (جس کا نام تبدیل کرکے پیش کیا جارہا ہے) ۳۳ سال کی عمر میں دو بچوں کے ساتھ طلاق ہونے پر شراب میں سہارا ڈھونڈنے لگی اور پھر اس کی عادی ہوگئی۔ سارہ بتاتی ہے کہ وہ اس قدر شراب پیتی تھی کہ دو تین دن کے واقعات تک بھول جایا کرتی تھی۔ کبھی کبھی اسے اپنی اس حالت سے شدید خوف بھی محسوس ہوتا تھا۔
جب سارہ کی شراب نوشی کی بات عام ہوئی اور بچوں کے لیے بھی یہ صورتِ حال پریشان کن ثابت ہونے لگی تو وہ فکرمند ہوئی اور شراب ترک کرنے کے لیے کسی بحالی مرکز سے رابطہ کرنے کے بارے میں سوچا۔ مگر پاکستان جیسے معاشرے میں یہ سب کچھ کسی عورت کے لیے انتہائی دشوار ہے۔ ۹ ماہ قبل اس نے تھیراپی ورکز کے تحت علاج شروع کیا۔ اب وہ شراب ترک کرنے کے بعد اپنی صحت بحال کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔
تھیراپی ورکز اور دیگر بحالی مراکز میں کسی بھی شخص کو علاج کے لیے اس کے اہل خانہ کی مرضی سے رکھا جاتا ہے۔ کبھی کبھی تین ماہ تک اسے اس حالت میں رکھا جاتا ہے کہ کوئی بھی نشہ آور چیز نہیں دی جاتی اور کسی بیرونی شخص سے گفتگو کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ چند ایک افراد نے بحالی مرکز کے ماحول کو ڈریکونین قرار دیا مگر بزنس مین یوسف عمر سمیت بہت سے دوسرے افراد کا کہنا تھا کہ اس سخت ماحول ہی نے انہیں شراب ترک کرنے کی راہ سُجھائی اور آج وہ بہتر زندگی بسر کر رہے ہیں۔
شراب اور دیگر نشوں سے جان چھڑانے میں بحالی مراکز کے علاوہ اب میڈیا آؤٹ لیٹس بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ پرائیویٹ ریڈیو چینل ون، ایف ایم ۹۱ پر ہر جمعرات اور جمعہ کی رات کو ماہرِ نفسیات براڈ کاسٹر ڈاکٹر فیصل ممسا ایسی کالز لیتے ہیں جن میں معاشرے کے لیے بری سمجھی جانے والی خصلتوں میں مبتلا افراد اپنے علاج کے لیے مشورہ طلب کرتے ہیں، ان میں شراب کے عادی افراد بھی شامل ہیں۔ گفتگو انگریزی اور اردو میں ہوتی ہے۔ کال کرنے والوں کو اجازت ہوتی ہے کہ اپنا مسئلہ پوری تفصیل کے ساتھ بیان کریں۔ جو لوگ نشے کے عادی ہیں، ان کے اہل خانہ بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔ ایک عورت نے بتایا کہ اس کا شوہر ۱۳ سال سے شراب کا عادی ہے۔ کئی بار سمجھایا گیا مگر وہ شراب ترک کرنے کو تیار نہیں۔ اسے مشورہ دیا گیا کہ شراب کی لَت چُھڑانے والے ادارے ’’الکوہولکس اینونیمس‘‘ سے رابطہ کرے۔
ڈاکٹر فیصل ممسا کے نزدیک اس بات کی اہمیت نہیں کہ کسی بھی کال سے کس کو فائدہ پہنچے گا۔ اور یہ کہ کون سنے گا اور کون نہیں سنے گا۔ سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ شراب نوشی جیسے مسئلے پر کھل کر بحث تو ہو رہی ہے۔
مستقبل قریب میں اس امر کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا کہ پاکستان شراب سے پاک یعنی ’’خشک‘‘ ملک بن سکے گا۔ لوگ اب بھی شراب پی رہے ہیں بلکہ شراب پینے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ لوگ اب اپنے مسائل کھل کر بیان کرنے لگے ہیں۔ شراب کے عادی افراد بھی اب اپنی لَت کے بارے میں بولنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔
(“Pakistan Battles Growing Alcohol Addiction”. “bbc.co.uk”. Sept. 16, 2013)
Leave a Reply