
عام انتخابات میں عمران خان اور ان کی جماعت کی جیت کا شور پاکستان سمیت پوری دنیامیں سنائی دے رہا ہے۔انتخابات میں ـــ’’میچ فکسنگ‘‘کے الزامات کے باوجود اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے ملک میں تبدیلی کے حوالے سے عوام کی امیدوں کو بڑھادیا ہے۔
اس وقت عوام بہت پُرامید ہیں، خاص طور پر شہری آبادی کا وہ متوسط طبقہ جس نے اپنی پرانی سیاسی وابستگی چھوڑ کر عمران خان کے ’’نئے پاکستان‘‘ کے لیے ووٹ دیا۔ اگرچہ پاکستانی حکمران ماضی میں باربار عوام کو مایوس کر چکے ہیں، لیکن اکثر افراد کی رائے یہ ہے کہ ملک اپنی تاریخ کے ایک اہم موڑ سے گزر رہا ہے اور موجودہ حالات زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رہیں گے۔
ملکی تجزیہ کاروں کے برخلاف غیر ملکی مبصرین عمران خان کے سخت ناقد رہے ہیں ۔ گزشتہ سالوں میں پاکستان نے اپنے کئی روایتی دوستوں کو مایوس کیا ہے ،لیکن عمران خان نے معاملات کو دوبارہ صحیح راستے پر لانے کا وعدہ کیا ہے۔
اگرچہ ایسا ناممکن نظر آتا ہے لیکن خارجہ پالیسی پر اپنے پہلے بیان میں عمرا ن خان نے افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کا اشارہ دیا ۔ گزشتہ چار دہائیوں میں افغانستان اور کشمیر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی نے بھارت اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو بگاڑ دیا ہے۔
انتخابات میں کامیابی کے بعد قوم سے خطاب میں عمران خان نے بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی بات کی۔ اس کے بعد افغان صدراشرف غنی اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے عمران خان کو فون پر مبارک باد دی اور پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے آغاز کی اُمید کا اظہار کیا۔
اشرف غنی افغانستان میں جاری کشیدگی کو کم کرنے کے لیے پاکستان کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ عمران خان اس سلسلے میں ان کی مدد کریں گے۔ عمران خان سے فون پر گفتگو کرنے کے بعد اشرف غنی نے ٹویٹ کیا کہ ’’ہم دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ دونوں ممالک کے بہتر سیاسی اور سماجی مستقبل کے لیے ماضی کو پیچھے چھوڑ کر نئی بنیادوں پر تعلقات قائم کیے جائیں‘‘۔ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ نومنتخب وزیراعظم بہت جلد افغانستان کا دورہ کریں گے۔
نریندر مودی نے وزیراعظم بننے کے بعد پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی، لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ بھارت کے دفترِ خارجہ کے مطابق عمران خان سے ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران نریندر مودی نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کی اُمید کا اظہار کیا۔ عمران خان کے ترجمان کے مطابق دونوں ممالک غربت کی روک تھام اور امن کے فروغ کے لیے مشترکہ حکمت عملی مرتب کرنے اور دوطرفہ تعلقات کا نیا دور شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔گزشتہ ادوار میں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے بھی بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔
یہاں ایک مایوس کن نقطہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی خارجہ اور دفاعی پالیسیاں بہت عرصے سے وزیر اعظم کی جگہ فوج مرتب کررہی ہے۔ عمران خان کی جماعت قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت سے محروم ہے، جس کی وجہ سے انھیں دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر اتحادی حکومت بنانی ہوگی۔ ان کو پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) جیسی روایتی جماعتوں کی جانب سے بھی شدید مخالفت کا سامنا کرنا ہوگا۔
اس دباؤ کے باوجود عمران خان خطے کے امن کی راہ تلاش کرنے میں سابقہ حکمرانوں سے زیادہ خوش قسمت ثابت ہو سکتے ہیں۔اس امر کے لیے ضروری ہوگا کہ فوج اور حکومت علاقائی معاملات اور پالیسیوں میں ایک دوسرے سے متفق ہوں۔
عسکری اداروں کا یہ خیال ہے کہ آصف زرداری نے پاکستان میں امریکی حملے کے نتیجے میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے واقعے کو ان کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا۔ عسکری قیادت نے نواز شریف کی جانب سے بھارت سے تعلقات بہتر کرنے پر بھی کڑی نگاہ رکھی ہوئی تھی۔ عمران خان کی فوج سے قربت کی خبریں عام ہیں اگر یہ درست ہے تو ہو سکتا ہے کہ حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات ماضی کی نسبت بہتر ہوں۔
یہ سوال کہ کیا عمران خان کو فوج کی تائید حاصل ہے شاید غلط ہے۔ان کی عوام میں مقبولیت حقیقی ہے اور اکثر لوگ اس تاثر کو رد کریں گے کہ عمران خان کو فوج کی حمایت حاصل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت عمران خان اور فوج دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں فوج کی ظاہری حالت کچھ بھی ہو،لیکن یہ حقیقت ہے کہ صاف اور ملک چلانے کے اہل افراد پر مشتمل حکومت کے بغیر فوج بھی اپنا کام بخوبی ادا نہیں کر سکتی۔اگر فوجی قیادت نواز شریف اور آصف زرداری کی بد عنوانیوں سے تنگ آچکی تھی تو ہوسکتا ہے عمران خان بہتر طور پر حکومت کر سکیں۔
پاکستان کے لیے بیرونی چیلنج پہلے سے زیادہ سنگین ہو چکے ہیں۔خارجہ پالیسی میں فوج کی مداخلت ایک حقیقت ہے اور فوج پر اس رویے کو ترک کرنے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس دباؤ کی وجوہات میں پاکستان کی جانب سے مذہبی شدت پسندی کی حمایت پر عالمی ردِعمل، امریکا اور مغربی ممالک کے ساتھ بگڑتے تعلقات، چین کی ایک مستحکم جنوبی ایشیا کی خواہش اور ایک ملک کی ڈوبتی ہوئی معیشت ہے۔
افغانستان اور بھارت کے ساتھ جاری مسلسل کشیدگی پاکستان کے کئی منصوبوں کی فوری تکمیل میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ امریکا اور چین سمیت عالمی برادری اس امر کے خواہش مند ہے کہ افغانستان میں سیاسی استحکام آئے اور پاکستان اس سلسلے میں ضروری مدد فراہم کرے۔بھارت کے ساتھ کشیدگی کے خاتمے یا اس میں کمی کا خطے پر مثبت اثر ہوسکتا ہے۔
گزشتہ دہائیوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان بنتے بگڑتے تعلقات اگرچہ کسی مثبت نکتے پر نہیں پہنچ سکے۔ تاہم اس دوران دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے عہدے داروں نے کئی تجربات حاصل کیے۔ان تجربات کو بروئے کار لاتے ہوئے کئی مثبت اقدامات کیے جاسکتے ہیں، جن میں ویزا قوانین میں نرمی، آزادانہ تجارت اور توانائی کی منتقلی شامل ہے۔
دونوں ممالک کی جانب سے جنگ بندی کی پاسداری، سرحد پار دہشت گردی میں کمی اور علاقائی تنازعات پر مذاکرات کا دوبارہ آغاز دونوں ممالک کے شہریوں کے لیے سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کا براہِ راست اثر دونوں ممالک کے حکمرانوں پر بھی ہوگا۔ جس کے بعد دیگر پیچیدہ مسائل پر بھی پیش رفت ہو سکتی ہے۔
پاکستان کی عسکری اور سول قیادت کے درمیان اختلافات بھارت اور افغانستان سے تعلقات بہتر کرنے پر نہیں، بلکہ اس کی شرائط پر تھے۔ افغانستان اور بھارت سے تعلقات بہتر کرنے میں عمران خان اپنے پیش رو حکمرانوں کی نسبت زیادہ کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ عوام میں ان کی مقبولیت اور فوج کا اعتماد ہے۔
(ترجمہ: محمد عمید فاروقی)
“Pakistan Elections 2018: Imran Khan and a new South Asia”. (“isas.nus.edu.sg”. August 2, 2018)
Leave a Reply