
کیونکہ پاکستانی آئین میں مقتدرِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کو بتلایا گیا ہے، اور قرآن اور حدیث سے متصادم دستور سازی کو ممنوع قرار دیا گیاہے ان وجوہ سے اسے ایک نظریاتی مملکت قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن پچھلے دنوں روزنامہ ڈان میں ایک سینئر صحافی اور قائداعظم اکیڈمی کے سابق سربراہ جناب شریف المجاہد کا ایک طویل مضمون شائع ہوا ہے جس میں اس امر کی نفی کرتے ہوئے اسے نظریاتی کے بجائے ایک نظریہ بردار یا حامل نظریہ مملکت قرر دیا گیاہے۔راقم کو اس مضمون کا اردو ترجمہ ’’معارف فیچر سروس‘‘ کے شمارے (نمبر۱۵۱) میں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس مضمون میں نظریاتی مملکت قرار دینے والوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ اسے (پاکستان کو) سوویت یونین اور اسرائیل کے خوں آشام نقشے کے مطابق چلانا چاہتے ہیں۔ میری کوشش ہوگی کہ موصوف کے تحریر کردہ دلائل کا جائزہ لے کر اثباتی انداز سے ان کے موقف کی تردید اور پاکستان کے نظریاتی مملکت ہونے کے تصور کا دفاع کروں۔
موصوف نے اپنی طویل تمہید میں اعترا ف کیا ہے کہ کوئی قوم نظریاتی اساس کے بغیر قوم نہیں بنتی۔ دنیا میں برپا ہونے والی ہر قومی تحریک کی پشت پر کوئی نظریہ (Idealogy) ضرور ہوتا ہے۔ اس ضمن میں موصوف نے سوویت یونین اور چین کی انقلابی تحریکوں کو لینن کے نظریے، فرانس کی تحریک کو جان آف آرک ، جرمنی کی تحریک کو ہٹلر کے نظریے نازی ازم ، صیہونیت کو بن گوریان اور یورپی یونین کو چرچل کے تصور ہی کا ثمرہ بتلایا ہے۔ ان نظائر کی تفصیل کے بعد وہ رقم طرازہیں۔
’’مختصر یہ کہ نظریہ ایک ایسا طاقت ورعنصر ہے جو قوم کے پوشیدہ اور مخفی سرچشموں میں وہ شدت اور جوش پیدا کرتا ہے جو کسی اور چیز سے ممکن نہیں۔ کسی قوم میں عقائد ، مقاصد اور اعیان کی تحریک و تحریص سے جو نصب العین سامنے آتا ہے اسی کا نام نظریہ ہے۔ یوں لوگوں اور نظریے کے درمیان جو زندہ تعلق پیدا ہو جاتا ہے وہ فی الحقیقت لوگوں کے مزاج کا لازمی حصہ بن جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ نظریہ لوگوں کوان کے نصب العین اور ان مقاصد کے حصول میں فعال عمل کو تحریک دیتا اورحصول مقصد کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے آمادہ کرتا ہے‘‘
اس ضمن میں موصوف نے تحریک تشکیل پاکستان کا محرک یہ بتلایا ہے’’یہ حقیقت تھی کہ اسلام نے مسلمانانِ ہند کو نہ صرف وہ بنیادی جذبات اور وفاداریاں فراہم کی تھیں جو منتشر افراد اور جماعتوں میں اتحاد پیدا کرتی ہیں بلکہ ایک قوم ساز قوت بھی عطا کی تھی جس نے بتدریج ان کو ایک واضح قوم کی شکل میں ڈھال دیا تھا۔‘‘ اس خیال کی تائید میں موصوف نے معروف مستشرق ریناں کے تصور قومیت کا بھی حوالہ دیا ہے کہ وہ بھی ایک ’’قومی عزم‘‘ کو قومیت کے خاکے کا بنیادی عنصر قرار دیتا ہے اور منٹگرمی واٹ کے یہ الفاظ بھی دہرائے ہیں کہ ’’پاکستان ایک کرشمہ ساز قوم کے فعال تصور، خیال یا نظریے کا ثمرہ ہے۔‘‘
آگے چل کر لکھتے ہیں’’چونکہ اسلام اور اس کے منظم تصورِ کائنات نے مسلمانان ہند میں ایک قوم کی حیثیت سے زندہ رہنے کی خواہش پیدا کردی تھی لہذا ہندوستان میں مسلم قومیت جوہری اعتبار سے مذہب کی بنیاد پر پروان چڑھی۔ اگر چہ اسے بعض دیگربنیادی عوامل مثلاًمقصد، زبان، تاریخ، ثقافت، تہذیب ومعیشت سے بھی تقویت ملی۔ عام طور پرکہا جاتا ہے کہ مطالبہ پاکستان بنیادی طور پر کسی نسلی، لسانی یا علاقائی قومیت کا نتیجہ نہ تھا۔ مگر ان عوامل کی موجودگی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن جیساکہ ڈبلیو اسمتھ نے کہا ہے’’مطالبہ پاکستان کا بڑا سبب مذہب تھا اور قومیت کے دیگر عوامل و اسباب مذہب کے ماتحت ہو کر رہ گئے تھے۔‘‘
قارئین خط کشیدہ الفاظ پر ادنیٰ غور کریں تو پتہ چل جائے گا کہ موصوف نے نظریاتی مملکت کی تردید کا ڈول انہی الفاظ سے ڈالا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان الفاظ سے بحث کی ابتدا ء کی جائے۔موصوف نے اپنے مذکورہ دعوے کے ثبوت میں قائداعظم کی آل پاکستان مسلم لیگ میں کی گئی تقریر پیش کی ہے۔ جس سے ہم آگے چل کر بحث کریں گے۔
تہذیب کو تشکیلِ پاکستان کا عامل ثابت کرنے کے لیے موصوف نے سکندر مرزا کے اس خط کا حوالہ دیا ہے جو انہوں نے تقسیمِ ہند سے قبل اس وقت لیا قت علی خان کو لکھا تھا جب مرزا صاحب اڑیسہ میں پولیٹیکل ایجنٹ کی حیثیت سے متعین تھے۔ خط کی عبارت جسے وہ دلیل کے طور پر پیش کر رہے ہیں یہ ہے۔
’’میں یہاں چار ماہ سے مقیم ہوں اور جب تک آپ عنقریب پاکستان قائم نہ کریں گے، میری روحانی اور اخلاقی زندگی کے لیے زبردست خطرہ ہے۔ تئیس برس تک میں اسلامی ماحول میں رہ رہا تھا ور اب اچانک تقدیر نے یہ تماشہ دکھایا کہ میں ایسی جگہ پر رہنے پر مجبور ہوں جہاں مسلمانوں کی تعداد بہ مشکل ایک فی صد ہے تاکہ میری آنکھیں جو مساجد دیکھنے کی عادی تھیں اب مندر دیکھیں اور کان جو اذان کی آوازیں سنا کرتے تھے اب مندروں سے نکلنے والے بھجنوں کی آوازیں سنا کریں۔‘‘
پھر رائی کا پہاڑ بنانے کے انداز میں اس تحریر سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’یہ حقیقت ہے کہ تہذیب اور ثقافت کا عنصر بنیادی اور مرکزی مسئلہ تھا۔ بلکہ اسے مسائل کی جڑ سمجھنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مطالبہ پاکستان سے علاقائی مسائل کا جو حل سامنے آیا تھا اس میں دنیاوی (غیر مذہبی ) عوامل کا بڑا ہاتھ تھا۔‘‘ لیجئے جو اب تک ’’دیگر عوامل بھی‘‘ تھے وہ اب علاقائی اور دنیاوی ہو کر مطالبۂ پاکستان کی جڑ بن گئے۔ مطالبۂ پاکستان نہ ہوا برگد کا درخت ہو گیا جس کے ریشے زمین دوز ہو کر جڑ بن جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر اسکندر مرزا ایک فی صد ہندوئوں کے علاقے میں کسی روحانی اور اخلاقی خطرات سے دو چار تھے اور مندروں سے آنے والے بھجنوں کے بجائے مسجدوں کی اذانیں سننے کے متمنی جو انہیں پاکستان میں میسر آنے والی تھیں توقطع نظر اس کے کہ موصوف نے صدر پاکستان کی حیثیت سے اپنے مزعومہ جذبۂ اسلامی کی کتنی آبیاری کی ، مندروں کے بھجن اور مساجد کی اذانیں تہذیبی عناصر ہیں یا مذہبی شعائر،مذہبی شعائر کو تہذیبی عناصر بیان کرنا اور ان عناصر کو تشکیل پاکستان کے مطالبے کی ’’جڑ‘‘ قرار دینا مغالطہ خیزی نہیں تو کیا ہے
پھر وہ لکھتے ہیں’’ قائداعظم کے مارچ ۱۹۴۰ء کے خطاب کی تائید میں ان کے اور بھی کئی بیانات پیش کیے جا سکتے ہیں مثلاً جون ۱۹۴۵ء کو مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن صوبۂ سرحد کے نام اپنے پیغام میں قائد نے کہا۔
’’پاکستان کا مطلب نہ صرف آزادی اور خود مختاری ہے بلکہ مسلم نظریہ بھی ہے جس کا ہمیں تحفظ کرنا ہے۔ جو ایک بیش قیمت تحفے اور اثاثے کے طور پر ہمیں ملا ہے اور ہمیں امید ہے کہ دوسرے لوگ بھی اس کا م میں ہمارے شریک ہوں گے۔‘‘
ہم اس بیان کو ان معنوں پر محمول کریں گے کہ آزادی اور خود مختاری اسلام کے بیش قیمت اثاثے اور تحفے کے تحفظ کے لیے درکار ہے اور ’’دوسرے لوگ‘‘ یعنی غیر مسلم بھی اس کام یعنی اثاثے اور تحفے کے تحفظ میں مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوں گے۔ واضح رہے کہ یہ بیان صوبۂ سرحدمیں ریفرنڈم سے قبل دیا گیا تھا۔ لیکن دوسرے لوگوں سے مراد عبدالغفار خان کی سرخپوش تحریک کے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو گو مسلم لیگ میں شامل نہیں تھے لیکن تھے تو مسلمان اور اس لحاظ سے ان سے بھی مذہب کے اشتراک کے حوالے سے آزادی، خود مختاری اور اسلامی اثاثے کے تحفظ میں شرکت کی توقع تھی۔ اس کا یہ مطلب کیسے ہوا کہ یہ ایک کثیر القومی قومیت کا اظہار تھا۔
یوں ہی موصوف نے اپنے موقف کی تائید میں قائداعظم کے اہل ہند کو دیئے گئے پیغام کا حوالہ دیا ہے جو یہ ہے۔
’’ہمیں ماضی کو یکسر فراموش کر دینا چاہیے اور ہمیں چاہیے کہ دو آزاد اور خود مختار مملکتوں کی حیثیت سے از سر نو زندگی کا آغاز کریں۔‘‘
یہ اقتباس موصوف کے موقف کی دلیل اسی صورت میں بن سکتا ہے جب ’’ماضی کو فراموش کرنے‘‘ کے معنی اس مقصد سے دست برداری کے لیے جائیں جس کے تحت ملک تقسیم ہوا تھا ورنہ دو آزاد خود مختار مملکتوں کی حیثیت کے معنی تو اپنے اختیارات کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے ہی کے ہوں گے۔
پاکستان کو ایک نظریاتی مملکت تسلیم نہ کرنے والے ’’دانش ور‘‘ اپنے موقف کی تائید میں قائداعظم کی جس۱۱ اگست والی تقریر کا حوالہ دیتے ہیں شریف المجاہد صاحب نے بھی وہی کیا ہے لیکن تقریر کا صرف مفید مطلب اقتباس ہی پیش کیا ہے جو یہ ہے۔
’’ اب آپ آزاد ہیں۔ اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں۔ اپنے مندروں میں جائیں ، اپنی مساجد میں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔آپ کا کسی مذہب،ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو۔ کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو،ہندو رہے گا اور نہ مسلمان مسلمان، مذہبی اعتبار سے نہیں کیونکہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے۔بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے۔‘‘
اس حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’’قیام پاکستان کے موقعہ پر ان دو تقاریر سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انہوں نے براعظم میں جس جداگانہ قوم کی نمائندگی کا دعویٰ کیا تھا اس کے مفہوم میں ایک لفظی تبدیلی کا اظہار کیا تھا۔ جداگانہ قوم کے نظریے کی بنیاد پر منزل مقصود یعنی پاکستان کی صورت میں ایک مملکت حاصل ہو گئی تھی۔ ’’قائداعظم نے اپنی ۲۲ مارچ ۱۹۴۰ ء والی اس تقریر میں مسلم قومیت اور اس کی بنیاد پر قائم ہونے والی مسلم ریاست کے پانچ عوامل گنوائے ہیں۔ تاہم انہوں نے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد و منظم کرنے کے لیے تہذیبی مماثلت کو اپنے اعلانات و بیانات میں دانستہ طور پر نظریے کے تحت رکھا۔ نظریے کی تشہیر اور تبلیغ کے لیے مختصر ترین استعارہ مذہب کا تھا حالانکہ مذہب کے نیچے اور بھی کئی عوامل اور متعدد سوال مخفی تھے جن کو قائداعظم نے مختلف موقعوں پر بیان کرنے سے احتراز کیا۔ گویا پاکستان کا مطالبہ اپنی بنیادی تشکیل میں مختلف مراحل میں ایک سمتی نہیں تھا۔ اس کے باوجود تہذیبی یا ثقافتی عنصر کا حوالہ پورے قصے میں مرکزی حیثیت رکھتا تھا‘‘۔
آگے چل کر انہوں نے قائداعظم کی تقریر کا جو اقتباس دیا ہے اس میں اسلام اور ہندو ازم کے متصادم تاریخی اور معاشرتی نظریات و کردار کو علیحدہ قومیں ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ ہم ان کے خط کشیدہ الفاظ کے حوالے سے جرح کریں گے کہ قائداعظم نے مذہب کے علاوہ جن ’’متعدد عوامل اور سوالات‘‘ کو بیان کرنے سے احتراز کیا وہ کیا تھے اور بیان ناکردہ ’’عوامل وسوالات‘‘ کا کشف موصوف کو کس طرح ہوا۔ رہی قائداعظم کی مذکور تقریر جس میں بیان کردہ پانچ عوامل کا موصوف نے حوالہ دیا ہے اور انہیں مسلم قومیت کی اساس بتلایا ہے وہ پانچ عوامل یا اختلاف کے مظاہر یہ ہیں۔ روحانی (Spiritual) اور تہذیبی (Cultuaral)، اقتصادی (Economic)، معاشرتی (Social) اور سیاسی (Political)۔ ادنیٰ غور سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ قائد اعظم کا ان پانچ امور کا حوالہ کانگریس کے اس دعوے کی تردید میں تھا جو تہذیبی اعتبار سے ہندوئوں اور مسلمانوں کو ایک بتلاتا تھا۔ انہوں نے دونوں قوموں کے ان مذہبی مظاہر کے بیان سے دونوں کے علیحدہ قوم ہونے کو ظاہرکیا تھا نہ کہ قومی اساس یعنی نظریے کے طور پر۔ واضح ہو کہ کلچر (Culture) کا صحیح ترجمہ تمدن ہے نہ کہ تہذیب اور تمدن تہذیب سے زیادہ قومی مزاج کا مظہر ہے۔ یہ مظاہر پورے قصے کا مرکز کیسے بن گئے؟
تقریر کا اقتباس دینے کے بعد موصوف نے لکھا ہے۔ ’’ ۱۹۴۰ میں قائداعظم کا استدلال علامہ اقبال کے ۱۹۳۰ء کے خطبۂ الہ آباد کی صدائے باز گشت تھا۔ نظریہ دینے والے اور اس کی بنیاد پر تعمیر کرنے والوں کے درمیان کیسی عجیب و نادر ہم آہنگی تھی۔ کیا غضب کا حسن اتفاق تھا‘‘ گو اس بیان سے موصوف کے استدلال کا کوئی ربط ظاہر نہیں لیکن موصوف کی حیرت خود حیرت خیز ہے۔حیرت تو اس بات پر ہوتی کہ ایک ہی تحریک کے دوزعما کے خیالات اور بیانات میں مغائرت ہوتی۔
موصوف کا یہ دعویٰ ہے کہ ’’قائداعظم نے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد و منظم کرنے کے لیے تہذیبی مماثلت کو اپنے اعلانات و بیانات میں دانستہ طور پر نظریے کے تحت رکھا تھا اور نظریے کی تشہیر و تبلیغ کے لیے مختصر ترین استعارہ مذہب تھا حالانکہ مذہب کے نیچے اور بھی عوامل اور متعدد سوالات تھے جن کو قائداعظم نے مختلف موقعوں پر بیان کرنے سے احتراز کیا تھا۔ گو یاپاکستان کا مطالبہ اپنی بنیادی تشکیل میں مختلف ارتقائی مراحل میں یک سمتی نہیں تھا۔
ملاحظہ کیجئے قائداعظم کے بیان نا کردہ عوامل اور سوالات کو پورے قصے کا مرکز اوریک سمتی مملکت کے بجائے کثیر الجہتی ثابت کیا جا رہا ہے۔قارئین اس استدلال پر غورکریں۔
اگر ان عوامل سے موصوف کی مراد وہ پانچ چیزیں ہیں جن کا اوپر ذکر گیا گیا ہے تو جیسا کہ بیان کیا گیا وہ تشکیلِ قوم کے عناصر نہیں مظاہر تھے اور اسی تناظر میں ان کا بیان بھی آیا تھا۔
آگے چل کر موصوف لکھتے ہیں ’’یقین تو نہیں آئے گا لیکن ہے یہ یقینی بات (جملے میں استعمال کی گئی صنعت تضاد کی داد دیجئے ) کہ تہذیبی عنصر کی یہ ناگزیریت اسکندر مرزا کے ہاتھوں روزمرہ زندگی کی ایک مثال بن گئی۔ ریناں کے فریم ورک کے مطابق مذہب کے نیچے دبی ہوئی دوسری اہم چیزیں (مثلاً میدانِ جنگ اور روزمرہ کی عملی زندگی کے معمولات روز شب ) یکسر بدل گئیں۔ تقسیم سے قبل کا نظریہ اب غیر متعلق اور متروک ہوگیا۔ چنانچہ قائد نے اب پاکستان کو ناقابل تقسیم قرار دیا جو پوری آبادی پر مشتمل ہے خواہ کوئی کسی بھی مذہب، رنگ یا نسل سے تعلق رکھتا ہو۔ سب کے حقوق یکساں ہوں گے، سب کے لیے مراعات یکساں ہوں گی۔ سب کے فرائض یکساں ہوں گے۔ قائد اعظم جب اسلامی جمہوریت کہتے تھے تو اس کے مفہوم میں ایک ناقابلِ تقسیم قوم کا تصور شامل تھا جو میثاق مدینہ سے بالکل ہم آہنگ تھا۔ اس وقت مدینے میں بھی مختلف مذاہب، نسلوں، مختلف ثقافتوں اور مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے افراد آباد تھے۔
میثاق مدینہ کی بات تو ہم بعد میں کریں گے پہلے ’’دو اہم تقاریر‘‘ میں سے دوسری کو دیکھتے ہیں کہ وہ کہاں تک مصنف کے موقف کی دلیل بن سکتی ہے اور اس طرح قائداعظم کی ان ماقبل اور ما بعد کی جانے والی تقاریر کی تکذیب کرتی ہے جن میں انہوں نے قرآن کو اپنا دستور العمل اور پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ مغالطہ آرائی کا یک معروف حربہ یہ ہے کہ کسی بیان سے حسب منشانتیجہ نکالنے کے لیے اس کے کسی ایک حصے کو سیاق و سباق اور تناظر سے الگ کر کے پیش کر دیا جائے۔ اس تقریر کے معاملے میں بھی وہی طریقہ اختیار کیا گیاہے اور تقریر کا ابتدائی حصہ حذف کر کے جو تقریر کا بنیادی حصہ ہے اپنے مفید مطلب عبارت کا حوالہ دیا گیا ہے۔
قائداعظم کی اس تقریرکا پس منظر یہ ہے کہ اس وقت سرحد کے دونوں جانب (دوسری جانب زیادہ) آگ اور خون کی وہ ہولی کھیلی جارہی تھی جس کا تصور بھی رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ تقریر کی تو دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں گئی تھی لیکن اس میں کسی دستوری خاکے کے بجائے ایک ہی امر کی تکرار تھی اور وہ امر تھا اس بھڑکتی ہوئی آگ کو بجھانے کے لیے جملہ مذاہب کے ماننے والے شہریوں کو مساوی شہری حقوق کی ضمانت دینا۔ یہی بات انہوں نے ہندوستانیوں کے لیے دیئے گئے پیغام میں بھی کہی تھی۔ قارئین تقریرکا متن ملاحظہ فرمائیں۔
’’ آپ بلاشبہ میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ حکومت کا پہلا فریضہ یہ ہے کہ امن ومان اور انتظام قائم رکھے تاکہ مملکت کے باشندوں کے جان و مال اور مذہبی عقائد مکمل طور پر مملکت ہی کے ذریعے محفوظ ہو جائیں۔
آگے چل کر اسی بات کو دوسرے پیرائے میں اس طرح کہا گیا تھا:
’’ اگر آپ ماضی کو بھول کر اورعداوتوں کو دفن کر کے باہمی تعاون سے کام کریں گے تو لازماً آپ کو کامیابی حاصل ہوگی۔ اگر آپ ماضی کو بدل ڈالیں اور اس جذبے کے ساتھ ملک جل کر کام کریں کہ آپ میں کا ہر فرد خواہ وہ کسی فرقے سے تعلق رکھتا ہو، ماضی میں اس کے آپ کے تعلقات کیسے ہی رہے ہوں اور اس کا کوئی مذہب ہو وہ اول آخر اسی مملکت کا شہری ہے۔ مساوی حقوق، آزادی اور سہولتوں اور پابندیوں کے ساتھ ، تو آپ کی ترقی کی کوئی انتہا نہ رہے۔‘‘
اس تسلسل میں مصنف موصوف کا دیا ہوا اقتباس آتا ہے جو ان حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو کسی طور پر بھی ’’ناقابل تقسیم قوم‘‘ کے تصور اور جداگانہ قومیت کے موقف سے انحراف کی دلیل نہیں بن سکتا۔ اور نہ اس ضمانت کو پاکستان کے آئین کی اساس سے انحراف کہا جا سکتا ہے۔ کیا اس تقریر کے مقابلے میں وہ تقاریر مملکت کی اساس کے حوالے سے زیادہ واضح اور وقیع نہیں جن میں دو ٹوک الفاظ میں شریعت اسلامی کو مملکت کی اساس بتا یا گیا ہے۔ مثلاً ۱۴ فروری کو سبّی دربار میں کی جانے والی تقریر کے الفاظ دیکھئے۔
’’میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا دارومدار اسی زرّین اصولوں پر مشتمل ضابطہ حیات پرہے جو ہمارے عظیم واضع قانون پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے ہمارے لیے قائم کر کھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیاد سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی ہے‘‘
۱۳ جنوری ۱۹۴۸ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کے دوران فرمایا۔ ’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ محض ایک خطہ زمین حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کو آزما سکیں۔‘‘
۲۵ جنوری کو ماہرینِ قانون کی مجلس (بار ایسوسی ایشن) سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا۔
’’میں ان لوگوں کی بات سمجھنے سے قاصر ہوں جو دانستہ شرارت کے طور پر یہ پروپیگنڈا کرتے رہے ہیں کہ پاکستانی دستور شریعت کی بنیادوں پرنہیں بنایا جائے گا۔ اسلام کے اصول آج بھی عام زندگی میں ویسے ہی قابل عمل ہیں جس طرح تیرہ سو سال قبل تھے۔ میں ایسے لوگوں کو جو بد قسمتی سے اس بہکاوے میں آگئے ہیں صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کو بھی یہاں کوئی خوف وہراس نہیں ہونا چاہیے۔ اسلام اور اس کے نظریات نے ہمیں جمہوریت کاسبق دے رکھا ہے۔ ہر شخص سے انصاف ، رواداری اور مساوات کا برتائو اسلام کا اصول ہے۔ پھر کسی کو ایسی جمہوریت سے کیوں خوف لاحق ہو جو انصاف ورواداری کے اعلیٰ ترین معیارپر قائم کی جائے۔ ایسے لوگوں کو جو چاہیں کہنے دیجئے۔ ہم دستورِ پاکستان بنائیں گے اور دنیا کو دکھلائیں گے کہ دیکھو! یہ ہے آئین کا یک ارفع و اعلیٰ نمونہ۔
صاحب مضمون کہتے ہیں کہ ’’ تقسیم سے پہلے کا دو قومی نظریہ اب متروک اور غیر متعلق ہو گیا چنانچہ قائد نے اب پاکستانی قوم کو ناقابل تقسیم قرار دیا جو پوری آبادی پر مشتمل ہے خواہ کوئی کسی مذہب نسل یا رنگ کا ہو۔ سب کے حقوق یکساں ہوں گے ، سب کے فرائض یکساں ہوں گے۔ قائداعظم جب اسلامی جمہوریت کہتے تھے تو اس کے مفہوم میں ناقابل تقسیم قوم کا تصور شامل تھا جو میثاق مدینہ سے بالکل ہم آہنگ تھا۔ اس وقت مدینے میں بھی مختلف مذہب ، مختلف نسلوں ، ثقافتوں اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ آباد تھے۔
جب قائداعظم مسلمانوں کو مسلمانوں کی حیثیت سے مخاطب کرتے ہیں اور ہندوئوں کو ہندوں کے نام سے یکساں شہری حقوق کی ضمانت دیتے ہیں تو یہ دو قومی نظریے کی توثیق ہے یا تردید؟ اور جب وہ اسلامی جمہوریت کو قابل دید، اعلیٰ وارفع دستور کی بنا پر قرار دیتے ہیں تو کیا وہ مغربی جمہوریت سے مختلف جمہوریت کی بات نہیں کر تے۔
تشکیلِ پاکستان کے بعد دو قومی نظریے سے دست برداری تو قرآن میں دی گئی ا س بڑھیا کی تمثیل کے مصداق ہے جس نے بڑی محنت و مشقت سے سوت کا تا اور پھر فوری اس کے ٹکڑے کر دیئے۔ یا یہ کہ کوئی پیاسا کنواں کھو دے اور اس کا پانی استعمال کرنے کے بجائے فوراً اسے پات دے۔ کم و بیش نصف صدی کی جان لیوا مشقت کے بعد جس کا یک حرفی اظہار ’’ پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ‘‘ تھا اور جسے ’’اسلام کی تجربہ گاہ‘‘ اور ’’قرآنی دستور‘‘ کا نمونہ ہونا تھا اور جو اس دعوے کے جواب میں معجزاتی طور پر نزول قرآن ہی کی مبارک ساعتوں میں عطا کیا گیا تھا، کیا اسے دوبارہ اسی مسترد کر دہ قومی نظریے کا مرکز بننا تھا؟
رہی حصولِ پاکستان کی میثاقِ مدینہ سے ’’ بالکل ہم آہنگی‘‘ کی بات تو یہاں بھی مصنف محترم نے میثاق کو مختلف رنگ و نسل اور زبان سے تعلق رکھنے والوں کے میثاق کا نام دیا ہے جب کہ یہ معاہدہ مسلمانوں کے سربراہ اور حاکم مدینہ نبی اکرمﷺ کے اور اس کے قرب وجوار میں بسنے والے یہود کے درمیان ایک وقتی معاہدہ تھا نہ کہ دونوں کو ایک ’’ امت بنا دینے کا دستور۔ اس کی ایک شق جس کا ذکر خود صاحب مضمون نے بھی کیا ہے یہ تھی کہ مذہبی جنگ مشترکہ دفاع سے مشتثنیٰ ہو گی جو خود دونوں کے مذہبی تشخص کو ظاہر کرتی ہے۔ اس معاہدے کو موجودہ دور میں ہونے والے دو قوموں کے درمیان دفاعی معاہدوں کے مماثل تو قرار کر دہ جا سکتا ہے یا زیادہ سے زیادہ کانگریس اور مسلم کے نتیجے میں جنگ خندق کے موقع پر فسخ سے گیا تھا۔ اور دوسرے فریق کو اسی کے مذہب قانون کے تحت قتل اور خارج البلد کیا گیاتھا اور پرامن یہود ذمی بن کے مدینے میں رہے تھے نہ کہ مساوی حیثیت سے اس پر مستزادیہ کہ دی گئی مہلت کے بعد یہودیوں کو مکہ مکرمہ سے یکسر نکال دیا گیا تھا۔ عدم مماثلت کو مماثلت قرار دینا کہاں کی منطق ہے۔
اس کے بعد مصنف محترم نے قرار داد مقاصد کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’قائداعظم پُر یقین تھے کہ پاکستان کا آئین جمہوری طرز کا اور اسلام کے بنیادی اور لازمی اصولوں پر مشتمل ہوگا۔ اس کے باوجود انہوں نے بڑی صداقت سے واشگاف الفاظ میں اس امر کی طرف بھی توجہ دلوائی تھی کہ بہر حال پاکستان ایک ایسی مذہبی مملکت نہیں ہوگا جس پر آسمانی مشن رکھنے والے پاپائوں کی حکومت ہو۔‘‘
موصوف کے اس بیان میں پُر یقینی کو جمہوری طرز اور اسلام کے بنیادی اور لازمی اصولوں پر نہیں بتلایا گیا گویا آئین ہو گا تو جمہوری طرز کا لیکن اس میں شریعت کو نہیں محض بنیادی اور لازمی اصولوں کو شامل کیا جائے گا یا پُر یقین کے معنی جیسا کہ قبل ازیں قائداعظم کے الفاظ میں جمہوریت کی اعلیٰ وارفع شکل اسلامی جمہوریت اور شریعت کے تھے؟ جسے پاپائیت جیسے طرز حکومت سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔
آگے چل کر لکھتے ہیں کہ اس بات کو مولانا شبیر احمد عثمانی نے بھی تسلیم کیا تھا کہ پاکستان کلیسائی طرز کی حکومت نہیں ہو گا۔اقتباس ہے۔’’ اسلام میں دینی حکومت کے معنی پاپائیت یا کلیسائی حکومت نہیں۔بھلاجس بت کو قرآن نے ’’اتخزو احبارھم و رھبانھم اربابا من دون اللہ‘‘ (انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے۔ ) کہہ کر توڑا ہے کا وہ اس کی پرستش روارکھ سکتا ہے۔
قارئین کے ذہن میں بات مستحضر رہنی چاہیے کہ نفس مضمون پاکستان کے نظریاتی مملکت ہونے کی نفی ہے۔ موصوف اپنی دانست میں قائداعظم اور مولانا شبیر احمد عثمانی کے پاپائیت اور کلیسائی حکومت کی نفی کواگر نظریاتی حکومت کی نفی قرار دے رہے ہیں تو اسے بھی ہم مغالطہ آرائی نہیں تو کم فہمی پر ضرور محمول کر یں گے۔ اول تو عیسائیت کی فی نفسہ کوئی شریعت ہی نہیں کہ اسلامی حکومت اس کے مصداق قرار دی جائے پھر عیسائیت اور پاپائیت میں سیاہ سپید کا فرق ہے۔ عیسائیت قرآن کے الفاظ میں اگر رافت و رحمت کا مذہب ہے ( بحوالہ سورۃ الحدید) تو پاپائیت ظلم واستحصال تو ہمات اور جہالت کا انسانیت سوز نظام ہے۔ لیکن ہمارے مرعوب مغرب ’’ دانش ور‘‘ دانستہ یا نا دانستہ اسلامی نظریاتی حکومت اور پاپائیت کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہوئے نظریاتی اسلامی حکومت کو پاپائیت کہہ کر قارئین کے ذہن کو بھٹکاتے ہیں تاکہ ان کی’’ دانشوری‘‘ سے مرعوب ہو کر لوگ اسلامی حکومت سے متنفر ہو جائیں۔ شریعت اسلامی جس کی بنا پر یہ مملکت نظریاتی کہلاتی ہے پادریوں جیسے پر خود غلط مذہبی پیشوائوں کی بد لگائی اور بدچلنی کہاں گورا کرے گی جب کہ اس الٰہی قانون سے انحراف کا تو خود اسے نافذ کرنے والی مقدس ترین ہستی کو بھی نہ تھا۔
موصوف کو اعتراف ہے کہ ’’ قرار داد کے علاوہ ۱۹۵۴ء ، ۱۹۶۲، اور ۱۹۷۳ء کے دساتیر میں بھی اسلام سے ہم آہنگ ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔‘‘لیکن گریز کی راہ نکالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ چونکہ اسلام نے نظام حکومت کے خدو خال صراحت کے ساتھ واضح نہیں کیے ہیں لہذا نظام حکومت معاشرت اور عوامی زندگی کے لیے اسلام ایک اخلاقی بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘یہ بیان پھر اسی نفسیاتی کیفیت کی نشاندہی کر رہا ہے کہ موصوف اسلام کو جامع ضابطہ حیات کے بجائے محض تلقین اخلاق سمجھتے ہیں۔ پوچھا جائے کہ ’’ معاشرت اور عوامی زندگی‘‘کاکونساگوشہ ہے جہاں اسلامی شریعت رہنمائی سے قاصر ہے۔
آگے چل کر مغرب کے ناقص نظریہ جمہوریت کے تتبع میں قانون سازی کا اختیار خدا سے لے کر عوام کے نمائندوں کو تفویض کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں۔’’ قرار داد مقاصد نے پاکستان کے نظریاتی خدو خال حدود اور مقاصد تو متعین کردیئے ہیں اور اس کے لیے اسلام کو بنیاد قرار دیا ہے لیکن صر ف لوگوں کی مرضی کی حد تک کہ وہ براہ راست (چہ معنی؟) یا اپنے نمائندوں کے ذریعے کس حد تک ان حدود مقاصد کی پاسداری کرتے ہیں پس اسلام قوم کے نظریے کا تو سرچشمہ اور اخلاق عامہ کا منبع تو ہو سکتا ہے لیکن برسر عمل وہ اہل پاکستان (بقول ان کے بشومل غیر مسلم اہل پاکستان ) کی عمومی رائے ہی سے آسکتا ہے۔ گویا ’’ گوتھی کوٹھے سے دور رہو ویسے گھر تمہارا ہے۔‘‘ جس دستور میں پیغمبر کی رائے کو بھی دخل نہ ہواسے عامتہ الناس کے لیے بازیچہ اطفال بنا کر بھی اسلامی حدود مقاصد کی پاسداری ممکن ہے۔
صاحب مضمون کے خیال میں ممکن ہی نہیں لازم ہے۔ یوں تو اگر آئین کے مطابق عامی نمائندوں کا انتخاب ہو تو ا ن کے کردار کا اسلامی ہونا یقینی ہے۔ لیکن دستور پاکستان میں ملکی قوانین کو مطابق شریعت بنانے کے لیے ایک اسلامی نظریاتی کونسل کے قیام کو ابھی فیصلہ کیا گا ہے۔
مذکورہ اوصاف کے عوامی نمائندے کونسل کی سفارشات کے مطابق قانون سازی کریں گے تو لازماً آئین میں تحریری کردہ اس شق کی تکمیل ہو گی کہ کوئی قانون قرآن اور سنت کے منافی نہ بنایا جائے۔
پاکستان کو نظریاتی مملکت کہنے والوں کو جہالت کا طعنہ دینے کے بعد وہ ’’ نظریاتی‘‘ اور ’’ حامل نظریہ‘‘ کا فرق اس طرح بیان کرتے ہیں۔
’’ان دونوں مملکتوں کے درمیان کا جو گہرا فرق ہے اس کی تفصیل میں جانے کے لیے جگہ مناسب نہیں ( تو کیا وہ فرق موسمی حالات کے ضمن میں بیان ہوگا۔) یہ کہنا کافی ہوگا کہ نظریے کی حامل مملکت کو اپنا کوئی نظریہ اپنانے کے لیے بحث و مباحثہ ، صلاح و مشورے ، گفتگو اور مذکرات اوراس کے اچھے اور برے پہلوئوں پر غور کرنے کے لیے قد م قدم پر طویل طول عمل کے پر مشقت مراحل سے گزرنا پرتا ہے۔ اس کے برعکس نظریتی مملکت میں نظریہ اوپر سے ناز کیا جاتاہے۔ نافاز کرنے والی ہمہ مقتدر حکمراں پارٹی بھی ہو سکتی ہے۔ اور مطلق العنان آمر بھی۔ ابرسر اقتدار طبقہ عوام کی ترجیحات و مفادات کی ذرا پرواہ نہیں کرتا۔ نظریہ رکھنے والی مملکت جمہوری ہو سکتی ہے۔ لیکن نظریاتی مملکت اپنی فطرت میں آمرانہ فسطائی ظالم و جابر اور مطلق العنان ہوتی ہے۔
اپنے ان دعاوی کی ثبوت میں موصوف نے اسپین کی مسیحی حکومت، ہٹلر اور سولینی کی حکومتوں اور روس اور اسرائیل کی ریاستوں کے انسانیت سوز مظالم کی تفصیل پر زور قلم صرف کیا ہے اور پھر پاکستان کو نظریاتی مملکت کہنے والوں کے بارے میں فرمایا ہے‘‘ پاکستان کو نظریاتی مملکت قرار دینے والے تشہیر باز اسے سوویت یونین اور سرائیل کے نقشے پر چلانا چاہتے ہیں۔‘‘
یہ تو نا ممکن ہے کہ مثاق مدینہ کا حوالہ دینے والے شخص نے مدینے کی اسلامی نظریاتی مملکت کے بارے میں کچھ نہ پڑھا ہو لیکن ایک ایسی نظریاتی مملکت کی مثال ان کے استد لال کے فریم ورک میں فٹ نہیں ہو سکتی تھی جو ہمہ مقتدر، عزیز (All powerful) حکیم (Utmostiwise) رحمان و رحیم (Most merciful most benevelem) کے حسب نثا بنی ہو اور اس کا دیا ہوا تفصیلی قانون ذالک الکتاب لاریب فیہ کے دعوے کے ساتھ اوپر سے اتارا گیا ہو جس کی بنیاد پر ایک بے مثال فلاحی مملکت بالفعل قائم ہو چکی ہو اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے مقابلے جس کی افادیت اظہر من الشمس ہو۔ اسے بھی تو نظریاتی مملکت کہا جائے گا۔
لیکن مغرب زدہ ذہن جو اسلام کے نام ہی سے بدکتے ہوں ایسی نظریاتی مملکت کو کس دل سے زیر بحث لائیں گے۔
اس امر کے باوجود بقول جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے وہ یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ’’ ظاہر ہے کہ کوئی مملکت جو ظالم و جابر ہو کچھ بھی ہو سکتی ہے اسلامی ہر گز نہیں ہو سکتی اور نہ آج تک تاریخ میں ایسی مملکت گزری ہے جس نے خود کو اسلامی کہا ہواور نازیت ، فساطائیت اور روسی آمریت کا سا مظاہرہ کیا ہو۔‘‘
اگر واقعی اسلامی حکومت کو آپ دیگر نظریاتی مملکتوں کے عیوب سے پاک تسلیم کرتے ہیں تو سو فی صد اسلامی مملکت مدینہ کی مثال (Pattan) پر پاکستان کو نظریاتی مملکت بنانے والوں کو تشہیر باز اور روس اور اسرائیل کے خونی نقشے پر ڈالنے والے کہنا کہاں کا انصاف ہے۔ آپ جب منفی طور پر کہتے ہیں کہ خود کو اسلامی کہلوانے والی کوئی ایسی مملکت تاریخ میں نہیں ملتی جو دیگر نظریاتی مملکتوں کی طرح ظالم جا بر اور انسان دشمن ہو تو اثباتی طور پر تسلیم کیجئے کہ یہ اسلامی نظریاتی مملکت بھی نظریاتی ہوتے ہوئے بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں بے عیب نظریے پر مبنی ہونے کے بناء پر مذکور خامیوں سے پاک ہوگی۔ اور اگر بالفعل پاکستان ایسی مملکت نہ بن سکا تو اس میں نظریے کا نہیں نظریہ گزیز حکام کا قصور تھا۔
محض ’’ نظریاتی‘‘ کے لفظ کی بنا پر سپیدو سیاہ کو ایک حکم میں رکھان ایسا ہے جیسے کسی پھل کے محض پھل ہونے پر تازہ کو بھی سڑے ہوں کے ساتھ اٹھا کر پھینک دیا جائے۔ہمارے موقف کو کہ اسلامی نظریاتی مملکت جملہ نقائص سے پاک ایک فلاحی مملکت ہوگی خود ان کے ایک بیان سے تقویت ملتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ قرار داد مقاصد کی منظوری کے موقع پر بقول مصنف بائیں بازوں کے نظریات رکھنے والے میاں افتخار ممدو ٹ نے کہا تھا’’ اگر ہم دنیا کو صحیح معنی میں اسلامی دستور دے سکیں تو یہ حقیقی جمہوریت قائم کرنے کا ایک نیا طریقہ ایک دلکش ودلآویز نظریہ تو کہا جا سکے گا کہ ہم نے ایک عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے۔
ہم اس بیان پر یہ تبصرہ ضرور کریں گے کہ یہ طریقہ عام معنی میں نیا نہیں ہوگا بلکہ چودہ سو سال قبل کامیابی کے ساتھ آزمایا جانے والا ہمیشہ جدید (Eevenew) بلکہ Evergreen نظریہ ہوگا۔
اسلامی حکومتوں کے دیگر نظریاتی مملکتوں کے مقابلے میں درست ہونے اور میاں افتخار ممدوٹ کے الفاظ میں ’’ عظیم‘‘ ہونے کے اعتراف کے بعد پھر اس فلاحی اسلامی ریاست کے مقابلے میں اسلام کی حامل کثیر القومی ریاست ثابت کرنے کے لیے وہ میثاق مدینہ کا حوالہ دیتے ہیں۔ جس کی حقیقت ہم قبل ازیں واضح کر چکے ہیں کہ اس کا انطباق تشکیل پاکستان پر نہیں ہوتا۔
بازی بازی بارشی بابا ہم بازی کے مصداق موصوف نے قرآن کی دو آیات پر بفی ہاتھ صاف کیا ہے اور اپنے موقف کے حق میں یہ آیات دی ہیں۔
(۱) لا اکرہ فی الدین
(۲) لکم دینکم ولی دین
آیت نمبر ایک کا اگلا حصہ قد تبین الرشد من الغی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہدایت اور گمراہی کے دوٹوک واضح ہو جانے کے بعد جو شخص ہدایت پر گمراہی کو ترجیح دیتا اسے گمراہی ہی میں بھٹکے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا۔ اس پر زبردستی ہدایت انہیں لا دی جائے گی۔ اس سے آگے کی عبادت فمن یکفر البطاغوت ویو من باللہ فقد اتستمنسک بالعوۃ الوثقی لن فصام لھا و اللہ سمیع علیم۔
’’ ہاں جو طاغوت( خدائی کے مدعی) کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے اسے ایک ایسا مستحکم سہارا ملک گیا جو کبھی کمزور نہیں ہوگا اور اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔‘‘ بتلایا جائے کہ اس میں مخلوط قوم کا تصور کس زاویے سے آگیا۔ یہ آیت تو ظاہر باہر اللہ کے مقابلے خدائی کے مدعیاں سے بیزاری اور یمان پر قائم رہنے ہی کی تلقین ہے۔
رہی دوسری آیت تو محترم وہ تو اس لحاظ سے صریحاً آپ کی مخلوط قومیت کی تکذیب کر رہی ہے کہ یہ بات اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے اس وقت کہلوائی تھی جب مخالف قوم یعنی کفار مکہ نے اسلام کی روز افزوں و سعت پذیری کو دیکھتے ہوئے۔ ’’ سارا جاتا دیکھیے تو آدھا لیجئے بانٹ‘‘ کے مصداق باہمی مصالحت کے لیے تجوزی دی تھی کہ مسلمانوں اور بت پرستوں کے درمیان افتراق سے بچنے کے لیے چھ ماہ مسلمانوں کے خدا کی پرستش کی جائے اور چھ ماہ ان کے بتوں کی۔ اس تجویز کے جواب میں ارشاد ہوا’’ اے نبیﷺ ان کا فروں سے کہہ دیجئے کہ ! اے خدا کے منکرو۔ نہ تم اس کی عبادت کرو گے جس کی ہم کرتے ہیں اور نہ ہم ان کی عبادت کریں گے جن کی تم کرتے ہو۔ تمہار دین تمہارے لیے ہمارا دین ہمارے لیے۔
ملاحظہ کیجئے دونوں قوموں کو ’’عبدیت اور معبودوں کے اتعبار سے کس طرح دوٹو ک الفاط میں جدا جدا نظریات سے کے پیرو بتلایا جا رہا ہے۔ اب اس ’’افتراق‘‘ کو اتصال یا اشتراک عمل کی علیل بنانا یا کم علمی ہے یا وہی مغالطہ خیزی کی جس کی مثالیں قبل ازیں بھی سامنے آ چکی ہیں۔
مضمون کے اختتام پر موصوف صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کے مصداق رقم طراز ہیں۔
میری اس تحریر سے یہ مطلب نکالنا، صریحاً غلط ہو گا کہ میں نظریے کے خلاف ہوں۔ پہلے بھی کہہ چکا ہوں جیسا کہ خود قائداعظم نے کہا تھا۔ پاکستان کا مطلب نہ صرف آزادی و خودمختاری ہے بلکہ مسلم نظریہ (Muslim Idealogy)بھی ہے جس کا ہمیں تحفظ کرنا ہے اور ہمیں امید ہے کہ دوسرے لوگ بھی اس کام میں ہمارے شریک ہوں گے۔ ’’ بقول ان کے اس کام میں شریک‘‘ کے الفاظ قابل توجہ ہیں۔
ان الفاظ پر ایک بار نہیں دس بار توجہ سے بھی جو بات سمجھ میںآئے گی وہ اس کے سوا کیا ہو گی کہ جو لوگ ہم میں سے نہیں (مرادغیر مسلم لیگی افراد بھی ہو سکتے ہیں اور غیر مسلم بھی کیونکہ یہ تقریر تقسیم سے قبل صوبہ سرحد میں کی گئی تھی جہاں دوسروں کی شکل میں سرخ پوش بھی تھے) وہ بھی آزادی خود مختاری اور مسلم نظریے کے تحفظ کے مقاصد کے تحت تحریک پاکستان میں شریک ہون۔ غیر مسلم اس لیے کہ اسلامی نظریے کے تحفظ میں خود ان کے تحفظ کی بھی ضمانت ہے۔
لیکن موصوف نے اس کام میں دوسرے لوگ بھی شریک ہوں گے کی تادیل یوں کی ہے ’’ اس کا صاف مطلب یہ ہہے کہ ہماری مسلم آئیدیالوجی قبول کرنے میں کسی پر جبر واکراہ سے کام نہیں لیا جائے گا۔ اس طرح قائداعظم نے اکثریت کی بے لگام حکمرانی کو ہمیشہ کے لیے خارج ازمکان قرار دیا ہے۔
تو گویا آزادی و خود مختاری اور نظریہ اسلام کے تحفظ میں شرکت کے بے معنی بے لگام (بے لگامی کے معنی شاید نظریاتی مملکت کے قیام کے ہیں ) ہونے سے روکنے کا نام ہوگا۔ شرکت کے معنی مزاحمت کیسے ہوگئے؟
اسلامی نظریاتی مملکت کو چھوڑیے جس میں بے لگامی کا کوئی اندیشہ شریعت کی موجودگی میں نہیں۔ کسی بھی ’’ نظریہ‘‘ مملکت میں اکثریت اپنی لگا م اقلیت کو دے کر اس کی راہ پر چلنے کو مضحکہ خیز ہی بتلائے گی۔
ہمیں اندیشہ ہے کہ نام نہاد روشن خیالی کی سرکاری تلقین کے اس دور میں ملک کی نظریاتی اساس سے متعلق اس قسم کی تشریحات شریف المجاہد صاحب جیسے مدبرومعتبر شخص کے بارے میں بد گمانی کا سبب بن سکتی ہیں۔
چلتے چلتے نظریاتی کے بجائے حامل نظریہ مملکت کہلوانے کے اصرار پر ایک آیت بھی سن لیجئے جو بنی اسرائیل کے حامل توریت ہونے کے ادعا کے حوالے سے قرآن میں آئی ہے۔
مثل الذین حملت توراۃ ثم لم یحملوھا کمثل الحمار یحمل اسفارا
جو لوگ خود کو حامل توریت کہتے ہیں اور اس کا بوجھ نہیں اٹھاتے (یعنی خود کو اس کے احکام کا تابع نہیں کرتے ) ان کی مثال تو اس گدھے کی ہے جس کی پیٹھ پر کتابیں لدی ہوں۔ تو کیا پاکستان کے مسلمان بھی نعوذ باللہ عامل اسلام ہونے کے بجائے حامل اسلام ہو کر اسی تمثیل کے مصداق بننا پسندکریں گے؟
{}{}{}
Leave a Reply