
جنوبی ایشیا امور کے لیے امریکا کی نائب خارجہ کرسٹینا روکا نے ۲۲ جون کو ایوانِ نمائندگان کی بین الاقوامی تعلقات کی کمیٹی میں ایک بیان دیا‘ جس میں انہوں نے پاکستان‘ بھارت‘ بنگلا دیش‘ سری لنکا‘ مالدیپ‘ نیپال اور بھوٹان کے بارے میں پالیسی پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کے بیان کے اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں۔
ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد جنوبی ایشیا‘ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ یہ خطہ‘ جو گوناگوں تنازعات اور مسائل کا شکار تھا‘ امریکی عوام‘ کانگریس اور امریکی انتظامیہ کی تائید و حمایت سے اب شاندار کامیابیوں کی دہلیز پر پہنچ چکا ہے۔ اگلے چند برس امریکا کو ایک بڑا اہم موقع فراہم کریں گے کہ وہ جنوبی ایشیا کو خوشحال‘ پرامن اور جمہوری علاقہ بنانے اور اسے دہشت گردی اور ایٹمی خطرات سے پاک بنانے میں مدد دے۔ ہم افغانستان میں قیامِ امن کے سلسلے میں کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔ اگرچہ آج کا میرا بیان براہِ راست افغانستان سے تعلق نہیں رکھتا لیکن افغانستان میں ہماری کامیابی پورے علاقے کے استحکام کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری طویل المیعاد حکمتِ عملی کا ایک بنیادی ستون یہ ہے کہ پاکستان کو ایک جدید اور اعتدال پسند اسلامی جمہوری ملک بنانے میں اس کی مدد جاری رکھی جائے۔ بھارت عالمی سطح پر اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے۔ ہم اس کے ساتھ موثر دفاعی شراکت داری قائم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح بنگلا دیش میں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ وہ دوبارہ غربت اور انتہا پسندی کا شکار نہ ہو جائے‘ بنگلا دیش سے گہرا رابطہ رکھنا بھی ضروری ہے۔ سری لنکا اپنے محلِ وقوع اور صلاحیتوں کی بنا پر بڑا شاندار مستقبل رکھتا ہے بشرطیکہ وہاں پائیدار امن قائم ہو جائے۔ نیپال میں جمہوریت بہت کمزور ہے اور مائو نواز باغیوں کی تحریک کی وجہ سے سیاسی اور اقتصادی نظام دگرگوں ہے۔
پاکستان: دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صفِ اول کا ملک
گزشتہ سال کے دوران اور خصوصاً حالیہ مہینوں میں پاکستان میں مثبت تبدیلیوں کی رفتار تیز ہوئی ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بدستور ہمارا ایک بڑا اتحادی ملک ہے۔ وہ القاعدہ اور طالبان جنگجوئوں کو گرفتار کر رہا ہے۔ اس نے ملک بھر میں اور خصوصاً مغربی سرحد پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی تیز کر دی ہے۔ پاکستان کی معیشت بحران سے نکل آئی ہے اور اب اس میں استحکام پیدا ہو چکا ہے۔ صدر مشرف اور مقننہ کے درمیان محاذ آرائی ختم ہو چکی ہے۔ اے کیو خان کی سرگرمیاں بے نقاب ہو چکی ہیں اور مختلف حکومتوں کی کوششوں سے ایٹمی ٹیکنالوجی اور ایٹمی مواد کے پھیلائو کا نیٹ ورک ختم کیا جارہا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں حالیہ بہتری کے نتیجے میں ان کے درمیان جامع مذاکرات کی راہ ہموار ہو گئی ہے جب کہ ۲۰۰۲ء میں دونوں ملک ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔
پاکستان میں ہماری تمام پالیسیوں اور پروگراموں کا مقصد یہ ہے کہ اسے ایک اعتدال پسند اور خوشحال ملک بنانے میں مدد دی جائے۔ ہم سکیورٹی کے شعبے میں تعاون اور فروغِ جمہوریت اور ترقی و خوشحالی کے اپنے پروگراموں کے ذریعے پاکستان کی مدد کر رہے ہیں۔ یہ ایسے پروگرام ہیں‘ جو انتہا پسندی اور عدم استحکام کی روک تھام میں مدد دیتے ہیں۔ ہم مالی سال ۲۰۰۵ء میں پاکستان کی مدد کے لیے کانگریس سے جس رقم کی درخواست کر رہے ہیں اس سے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ اور قیامِ امن کی کوششوں میں خود امریکا کو فائدہ پہنچے گا۔ ہمارے ان پروگراموں سے القاعدہ اور طالبان کی باقیات کو گرفتار کرنے میں مدد مل رہی ہے۔ پاکستان سے ہمارے فوجی تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں اور ہم ان حالات پر قابو پانے میں مدد دے رہے ہیں جو دہشت گردی کو جنم دیتے ہیں۔ ہم پاکستان کے اقتصادی استحکام اور سماجی پروگراموں کے لیے بھی مدد دے رہے ہیں۔
حکومتِ پاکستان‘ بنیادی اصلاحات‘ دانشمندانہ اقتصادی پالیسیوں اور مالی نظم و ضبط کے جس پروگرام پر عمل کر رہی ہے‘ آئی ایم ایف اور امداد دینے والے دوسرے اور ملکوں نے اس کا اعتراف کیا ہے۔ ہم وسیع تر اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ یو ایس ایڈ کے ذریعے نچلی سطح پر اقتصادی ترقی اور صحت کے پروگراموں کے لیے بھی مدد دے رہے ہیں‘ جس سے عام پاکستانی کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ہم حکومت پاکستان کی تعلیمی اصلاحات کی کوششوں میں بھی نمایاں مدد دے رہے ہیں۔ ان میں مدارس کی اصلاح شامل ہے تاکہ پاکستانی نوجوان روزگار حاصل کر سکیں اور عالمی منڈی میں مقابلہ کر سکیں۔
پاکستان میں مکمل جمہوریت کی بحالی‘ طویل المیعاد استحکام کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ پاکستان میں اکتوبر ۲۰۰۲ء میں عام انتخابات ہوئے۔ اگرچہ ان میں بعض بے ضابطگیاں بھی ہوئیں تاہم ان کے نتیجے میں وزیراعظم کا تقرر ہوا اور قومی اسمبلی اور چاروں صوبوں کی اسمبلیاں وجود میں آئیں۔ صدر مشرف نے کہا ہے کہ میں ۲۰۰۴ء کے اختتام تک فوج کے سربراہ کا عہدہ چھوڑ دوں گا۔ ایک طویل تعطل کے بعد پارلیمنٹ نے آہستہ آہستہ کام شروع کر دیا ہے اور تقسیم اختیارات کے پروگرام سے مقامی حکومتوں کو اختیارات مل رہے ہیں۔
امریکا کے فروغِ جمہوریت پروگراموں سے پاکستان میں ذمہ دار اور جوابدہ جمہوری اداروں اور جمہوری روایات کے قیام میں مدد مل رہی ہے۔ ان اداروں میں مقننہ اور لوکل کونسلیں شامل ہیں‘ جو عوام کی ضروریات کا خیال رکھتی ہیں اور اچھے نظم و نسق کے قیام میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ ہمارے پروگراموں سے سیاسی جماعتوں کی اصلاح میں بھی مدد ملے گی اور ایسے آزاد ذرائع ابلاغ وجود میں آئیں گے‘ جو متوازن اطلاعات اور خبریں دیں گے اور سول سوسائٹی کی ترجمانی کریں گے۔ ہم اساتذہ‘ میڈیا اور سول سوسائٹی کے لیڈروں‘ نوجوانوں اور متوسط طبقے کے ان پاکستانیوں پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔ جن کی طرف سے جمہوری اقدار کی مزاحمت ہو سکتی ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات‘ جن میں صدر مشرف پر قاتلانہ حملے بھی شامل ہیں‘ اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ اصلاحِ احوال کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گرد تنظیموں اور ان کی مدد کرنے والے نیٹ ورک کو ختم کرنا ہو گا۔ اس سال کے آغاز سے اب تک پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے دوران ۷۷ پاکستانی فوجی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ کراچی اور دوسرے مقامات پر بھی کئی سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔ بہت سے عام پاکستانی شہری بھی دہشت گردی کی نذر ہو چلے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے پاکستانی محاذ پر جو لوگ ہلاک ہوئے ہیں‘ ہم ان کے خاندانوں اور عزیز و اقارب سے دلی تعزیت کرتے ہیں۔
علاقائی استحکام: ایٹمی ہتھیاروں کا عدم پھیلاؤ اور پاک بھارت تعلقات
جنوبی ایشیا میں زمینی حقائق کے پیشِ نظر ہم ان وجوہات کو دور کرنے پر بھی توجہ دے رہے ہیں‘ جن سے ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلائو روکنے اور علاقائی استحکام پیدا کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ہم علاقے میں ایٹمی اور میزائل ہتھیاروں کی دوڑ روکنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ یہ کوششیں ان ذمہ داریوں کے عین مطابق ہیں جو NPT معاہدے کے تحت ہم پر عائد ہوتی ہیں۔ ہم پاکستان اور بھارت میں برآمدی کنٹرول اور سرحدی نگرانی سخت کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ پاکستان میں حکومت نے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا ہے‘ جس کی منظوری سے برآمدی کنٹرول مزید موثر ہو جائے گا۔
مستحکم جنوبی ایشیا نہ صرف علاقے کے بلکہ خود ہمارے مفاد میں ہے۔ پاکستان اور بھارت نے جامع مذاکرات شروع کرنے کے لیے حال ہی میں جو سمجھوتہ کیا ہے اور جس کا مقصد کشمیر سمیت تمام دو طرفہ مسائل پُرامن طور پر حل کرنا ہے‘ وہ ایک بڑی اہم اور حقیقی پیش رفت رہا ہے۔ دونوں ملک اعتماد کی بحالی کے لیے جو اقدامات کر رہے ہیں وہ بھی بہت حوصلہ افزا ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ان اقدامات کو جلد از جلد عملی شکل دی جائے گی۔ بھارت‘ کشمیریوں کی تنظیم کُل جماعتی حریت کانفرنس سے بھی مذاکرات کر رہا ہے۔ ہم ان تمام اقدامات کا بغور مشاہدہ کر رہے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ ہم دونوں ملکوں میں مفاہمت پیدا کرنے کے لیے سفارتی ذرائع بھی استعمال کر رہے ہیں۔
بھارت کے ساتھ تعلقات میں مسلسل اضافہ
بھارت میں نئی منتخب حکومت اقتدار سنبھال چکی ہے۔ ہم بھارت سے علاقائی اور دو طرفہ سطح پر تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جنوری ۲۰۰۴ء میں ہم نے ’’دفاعی شراکت کے نئے اقدامات‘ NSSP کا اعلان کیا۔ اس پروگرام کا مقصد امریکا اور بھارت کے تعلقات کو گہرا کرنا ہے۔ NSSP کے تحت پُرامن مقاصد کے لیے ایٹمی سرگرمیوں‘ فلاحی پروگراموں‘ اعلیٰ ٹیکنالوجی کی منتقلی اور میزائل دفاعی پروگرام میں تعاون سے دونوں ملکوں کو خاطر خواہ اقتصادی فائدے حاصل ہوں گے اور جنوبی ایشیا اور اس سے باہر کے علاقے میں سکیورٹی بہتر ہو گی۔ امریکا اور بھارت‘ دونوں‘ جمہوریت سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ جمہوریت کے فروغ خاص طور پر برما جیسے ملکوں میں جمہوریت کی نشوونما کے لیے امریکا اور بھارت زیادہ سے زیادہ مل جل کر کام کریں گے۔ امریکا اور بھارت میں دو طرفہ منصوبہ بندی گروپ کے قیام‘ مشترکہ فوجی مشقوں اور فوجی وفود کے تبادلوں سے سکیورٹی کے شعبے میں تعاون می نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح اعلیٰ ٹیکنالوجی میں تعاون کا گروپ‘ تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے کام کر رہا ہے۔ امریکی امدادی پروگراموں سے جن میں بھارتی حکومت کی دلچسپی کے خصوصی شعبے شامل ہیں‘ بھارت کو معیشت‘ تجارت‘ آبی وسائل‘ زراعت اور توانائی کے شعبوں میں اصلاحات پر عمل کرنے میں مدد مل رہی ہے۔ اس سے معیشت مستحکم ہو گی اور غربت کم ہو گی۔ ہمارے پروگراموں سے بھارت میں تعلیمی سہولیات‘ انصاف تک بہتر رسائی اور خواتین اور دوسرے پسماندہ طبقوں کی بہتری کے لیے بھی مدد مل رہی ہے۔ ان پروگراموں سے بھارت میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت بھی بہتر ہو رہی ہے۔ اسی طرح ایچ آئی وی/ایڈز‘ تپِ دق اور دوسرے امراض کی روک تھام‘ بچوں کی بقا اور نشوونما‘ انسانوں کی اسمگلنگ کی روک تھام‘ انسانی حقوق کے احترام‘ تحفظِ ماحول اور سائنس اور صحت جیسے شعبوں میں بھی کام ہو رہا ہے۔ ہم اقتصادی اور تجارتی تعلقات بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان تعلقات میں اضافہ ہوا ہے‘ لیکن ابھی بہتری کی گنجائش موجود ہے۔
اعتدال پسند بنگلا دیش کی مدد
جمہوریہ بنگلا دیش‘ جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا بڑا مسلم ملک ہے‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اچھا ساتھی ہے۔ یہ ملک علاقے میں اور بین الاقوامی سطح پر ایک اعتدال پسند آواز ہے اور اقوامِ متحدہ کی امن کارروائیوں کے لیے خاصی تعداد میں فوجی فراہم کرتا ہے۔ بنگلا دیش کی معیشت مستحکم ہے تاہم سیاسی محاذ آرائی اور کرپشن کی سنگین صورتحال کی وجہ سے جمہوری استحکام کے لیے خطرہ موجود ہے۔ اس سے اقتصادی ترقی میں بھی رکاوٹ پڑ رہی ہے۔ غربت‘ جہالت‘ کرپشن‘ سرحدی نگرانی میں خامیاں اور منتخب حکومت پر عوام کی بد اعتمادی‘ ایسے عوامل ہیں جو خطرناک رجحانات کو جنم دے رہے ہیں۔
ہم کرپشن کی روک تھام اور نفاذِ قانون کی صلاحیت میں اضافے کے لیے بنگلا دیش کی مدد کر رہے ہیں۔ فروغ جمہوریت کے ہمارے پروگراموں کا مقصد یہ ہے کہ جمہوری اداروں کو شفاف اور جوابدہ بنایا جائے‘ سیاسی محاذ آرائی ختم کرائی جائے اور ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل سمیت سول سوسائٹی کی تنظیموں کی مدد کی جائے۔ پائیدار ترقی کے لیے ہمارے پروگرام‘ بنگلا دیش میں بنیادی تعلیم‘ سائنسی تعاون‘ ترقی‘ تجارت‘ انسانی اسمگلنگ کے انسداد اور عورتوں اور بچوں کے علاج معالجے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔
سری لنکا اور مالدیپ
سری لنکا کی حکومت اور تامل باغیوں کی تنظیم ایل ٹی ٹی ای کے درمیان امن مذاکرات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا‘ وہ ۲۰۰۳ء میں معطل ہو گیا۔ اکتوبر ۲۰۰۳ء میں ایل ٹی ٹی ای نے تجویز پیش کی کہ امن کا عمل بحال کرنے کے لیے تامل اکثریت والے علاقوں میں ایک عبوری انتظامیہ قائم کی جائے لیکن سری لنکا کی صدر اور وزیراعظم کے درمیان تنازع کی وجہ سے اس تجویز پر غور نہ ہو سکا۔
سری لنکا کی صدر نے کہا ہے کہ ایل ٹی ٹی ای سے مذاکرات ان کی ترجیحات میں شامل ہیں۔ سری لنکا میں جنگ بندی پر عمل ہو رہا ہے اور غیر رسمی مذاکرات کا عمل بھی جاری ہے ہم سری لنکا کی حکومت اور ایل ٹی ٹی ای‘ دونوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کریں۔ ہمارے امدادی پروگرام قیام امن کے لیے ایک ترغیب کے طور پر اور جنگ زدہ علاقوں میں تعمیرِ نو اور مفاہمت کے لیے مفید ثابت ہو رہے ہیں۔
ہم ایل ٹی ٹی ای کو اس وقت تک دہشت گرد تنظیم کے زمرے سے نہیں نکالیں گے‘ جب تک وہ دہشت گردی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیرباد نہیں کہہ دیتی اور بچوں سے فوجی خدمات لینے کا سلسلہ بند نہیں کر دیتی۔
مالدیپ میں‘ جو جزائر پر مشتمل ایک مسلم ملک ہے‘ بڑے پیمانے پر آئینی اصلاحات ہو رہی ہیں۔ ان اصلاحات سے جمہوری ادارے مضبوط ہوں گے اور انسانی حقوق کا احترام ہو گا‘ جس سے انتہا پسندانہ رجحانات ختم ہوں گے۔
نیپال اور بھوٹان
ہم برطانیہ اور بھارت کے ساتھ مل کر نیپال میں مائو نواز باغیوں کے خلاف نیپالی جمہوریت کی مدد کر رہے ہیں۔ ہم نیپال کو فوجی سامان دے رہے ہیں‘ جس کی اسے اشد ضرورت ہی۔ ہماری اقتصادی اور ترقیاتی امداد کا مقصد بغاوت کے اسباب دور کرنا اور فوج اور پولیس کو انسداد دہشت گردی کی تربیت دینا ہے۔ حکومتِ نیپال کو بغاویوں کے مقابلے میں مدد دینے کی ضرورت ہے لیکن بغاوت کا مسئلہ محض فوجی طاقت سے حل نہیں ہو سکتا۔
۲۰۰۳ء میں مائو نواز باغیوں نے نیپال میں سات ماہ سے جاری جنگ بندی ختم کر دی اور دوبارہ فوجی حملے اور دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کر دیں۔ اس وجہ سے امریکا نے باغیوں کی تنظیم کو دہشت گرد قرار دے کر اس کے خلاف پابندیاں لگا دیں۔ امریکا‘ برطانیہ اور دوسرے ملک کی نیپالی حکومت کی حمایت کر رہے ہیں لیکن ہم اس خیال کی بھی تائید کرتے ہیں کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ ہم نیپال کی حکومت کی سکیورٹی کے شعبے میں مدد دے رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ہم انتخابی عمل کے تعطل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نیپال کی حکومت کو اپنی تشویش سے بھی آگاہ کر رہے ہیں۔
نیپال کے مشرق میں اور بھارت اور چین کے درمیان بھوٹان کا چھوٹا سا ملک واقع ہے‘ جو سنجیدگی سے آئینی جمہوریت کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔ اس عمل کی حمایت کرنا ہمارے مفاد میں ہے۔ بھوٹان میں عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ گزشتہ سال کے دوران بھوٹان کی فوج نے بھارتی مائو نواز گروپوں کے خلاف کارروائی کی۔ یہ گروپ بھارت کے شمال مشرقی صوبوں میں اپنی کارروائیوں کے لیے بھوٹان کو ایک ٹھکانے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ہم بھوٹان اور نیپال کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ وہ نیپال میں مقیم اُن ایک لاکھ پناہ گزینوں کا تنازع حل کریں‘ جو بھوٹان کے شہری ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے‘ جسے جلد از جلد حل کیا جانا چاہیے۔
(بحوالہ: پندرہ روزہ ’’خبرو نظر‘‘۔ امریکی شعبۂ تعلقاتِ عامہ)
Leave a Reply