
حالانکہ ۱۹۵۰ء میں بھارت اور پاکستان نے عوامی جمہوریہ چین کی کمیونسٹ حکومت کو یکے بعد دیگرے تسلیم کر لیا تھا مگر چین مغرب نواز جاگیردارانہ طبقے اور نوکر شاہی کے چنگل میں پھنسے پاکستان کے بجائے نہرو کے سوشلسٹ، غیر جانبدار، سامراج مخالف بھارت سے خود کو زیادہ قریب سمجھتا تھا۔
جون ۱۹۵۰ء میں جنوبی کوریا پر شمالی کوریا کے حملے کے خلاف مسلح بین الاقوامی ایکشن کی جو امریکی قرارداد اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک ویٹو پاور سوویت یونین کی غیر حاضری کے نتیجے میں منظور کی اس کی بھارت اور پاکستان نے بھی حمایت کی، مگر نہرو نے بعدازاں یہ بھی کہا کہ چین کو تائیوان کی جگہ اقوامِ متحدہ کا رکن بنانا چاہیے تاکہ کوریا کی جنگ کا کوئی معقول حل نکلنے میں مدد مل سکے (چین شمالی کوریا کی جانب سے جنگ میں شریک تھا۔)
نہرو کی اس تجویز کا امریکا نے تو خیر برا منایا ہی ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے روزنامہ ڈان نے بھی اپنے اداریے میں اس تجویز کو بے وقت کی راگنی قرار دیا۔
لیاقت علی خان حکومت نے اگرچہ کوریا میں فوج بھیجنے سے تو پاک بھارت کشیدگی کا عذر پیش کر کے معذرت کر لی مگر اتحادی فوجوں کے لیے پانچ ہزار ٹن گندم کی مدد بھیجنے کی پیشکش ضرور کی حالانکہ پاکستان خود غذائی قلت کا شکار تھا۔ تاہم جنگِ کوریا سے پاکستان کی پٹ سن کی صنعت کو خاصا فائدہ ہوا اور قیمتی زرِ مبادلہ حاصل ہوا۔
مئی ۱۹۵۱ء میں امریکا نے شمالی کوریا کے اتحادی چین کے خلاف جنرل اسمبلی میں قرار داد پیش کی، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ چین کو ایسی اشیا کی برآمدات روکی جائیں جن کا فوجی استعمال ہو سکتا ہو۔ پاکستان اس موقع پر غیر حاضر رہا مگر دو ماہ بعد اس نے اس قرارداد پر رضاکارانہ عملدرآمد کا فیصلہ کر لیا۔
اس تناظر میں جب پاکستانی ڈومینین کے پہلے سفیر برائے چین میجر جنرل این اے ایم رضا نے پیکنگ میں چیئرمین ماؤزے تنگ کو اسنادِ سفارت پیش کیں تو چیئرمین نے پاکستان کا نام لیے بغیر کہا: ’مجھے شاہِ برطانیہ کی جانب سے پیش کردہ کاغذات وصول کرتے ہوئے نہایت مسرت ہے‘۔
برٹش انڈیا اور تبت کے درمیان کھنچی سرحدی لکیر میکموہن لائن کی بابت چین کبھی بھی مطمئن نہیں تھا۔ یہ سرحدی تنازعہ برٹش انڈیا سے انڈیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی منتقل ہوا کیونکہ چین لداخ سے ہنزہ تک کی پٹی کو اپنا حلقہِ اثر سمجھتا تھا۔ ۱۹۵۳ء میں چین کی جانب سے متعدد بار ہنزہ سے ملنے والی سرحد کی خلاف ورزی کی گئی۔ چنانچہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان نے خبردار کیا کہ چینی دراندازی جاری رہی تو اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔
جولائی ۱۹۵۳ء میں کوریا میں عارضی جنگ بندی ہو گئی۔ پاکستان کو غذائی قلت پر قابو پانے کے لیے امریکی گندم کی فراہمی شروع ہو گئی۔ ۱۹۵۴ء میں پاکستان سیٹو اور اگلے برس سینٹو کے مغربی اتحاد میں شامل ہوگیا تاکہ کمیونسٹ پیش قدمی روکی جا سکے۔
پاکستان کو امریکی اسلحے کی فراہمی شروع ہوگئی جس کی مدد سے چار نئے فوجی ڈویژن وجود میں آئے اور فضائیہ و بحریہ کی بھی جدید کاری کا آغاز ہوا۔
۱۹۵۵ء میں بھارت نے چین کو اقوامِ متحدہ کا رکن بنانے کی قرار داد پیش کی مگر پاکستان ان امریکی اتحادیوں میں شامل تھا جنہوں نے اس قرار داد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ چین کی رکنیت کے معاملے کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھا جائے۔ تاہم پاکستانی وزیرِ اعظم محمد علی بوگرہ نے بنڈونگ میں غیر جانبدار تحریک کی پہلی چوٹی کانفرنس میں چینی وزیرِ اعظم چواین لائی کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو چین کے خلاف نہ سمجھیں بلکہ اسے پاک بھارت کشیدہ تعلقات کے تناظر میں دیکھیں۔ جانے اس یقین دہانی پر بھارت دوست امریکا دشمن چواین لائی نے دل ہی دل میں کیا کہا ہوگا کیونکہ اس دور میں ’ہندی چینی بھائی بھائی‘ کے نعرے لگ رہے تھے۔
۱۹۵۹ء میں پاکستان اور امریکا کے درمیان دفاعی تعاون کا معاہدہ ہوا، جس کے تحت پشاور کے نزدیک بڈھ بیر کا ہوائی اڈہ سوویت یونین اور چین کی جاسوسی کے لیے پینٹاگون اور سی آئی اے کے حوالے کر دیا گیا۔ پاکستان میں کمیونسٹ ہمدردوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں شدت آگئی۔
دوسری جانب سوویت یونین اور چین میں نظریاتی کشیدگی رفتہ رفتہ کھل کے سامنے آ گئی۔ بھارت اور چین کا بھی ایک دوسرے سے دل میلا ہونا شروع ہو گیا کیونکہ چین نے بھارت کو بتائے بغیر شنجیانگ کو تبت سے ملانے والی ساڑھے سات سو میل طویل مغربی فوجی سڑک مکمل کر لی۔
بھارت نے کہا کہ اس سڑک کے ۱۱۲؍میل ایسے علاقے ہیں جسے وہ اپنا حصہ سمجھتا ہے۔
ستمبر ۱۹۵۹ء میں ایوب حکومت کو چین کی جانب سے سرحدی نقشے موصول ہوئے، جن میں ہنزہ کے درہ ِ شمشال تک کا علاقہ چین میں دکھایا گیا تھا۔
اکتوبر میں بھارت اور چین کے مابین پہلی سرحدی جھڑپ ہوئی۔ ایوب خان نے بھارت کو شمال کی جانب سے بحرِ ہند کے گرم پانیوں کو لاحق خطرے سے نمٹنے کے لیے مشترکہ دفاع کے معاہدے کی پیشکش کی جو بھارت نے مسترد کردی۔
بھارت چین تعلقات اس وقت اور بگڑ گئے جب نہرو نے تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ سمیت ہزاروں تبتی پناہ گزینوں کو نہ صرف اپنے ہاں رکھنے کا اعلان کیا بلکہ دلائی لامہ کو تبت کی جلا وطن حکومت قائم کرنے کی بھی اجازت دے دی۔
۱۹۶۰ء میں چواین لائی نے چین بھارت سرحدی تنازع ختم کرنے کے لیے تجویز دی کہ اگر بھارت لداخ سے متصل اکسائی چن کے علاقے پر چینی عملداری تسلیم کر لے تو اس کے عوض چین ہمالیہ کی جنوبی ترائی پر سے اپنا دعویٰ واپس لینے کو تیار ہے۔ نہرو حکومت نے یہ تجویز مسترد کر دی اور پھر بڑھتی ہوئی بدزنی کے نتیجے میں کرنا خدا کا یہ ہوا کہ چین نے ۱۹۶۲ء میں بھارت کو دو سرحدی علاقوں میں بُری طرح پیٹ ڈالا۔
بھارت کی چیخ و پکار سُن کر امریکا اور سوویت یونین دوڑے دوڑے آئے۔ پاکستان پہلے تو امریکی رویے پر ششدر رہا اور پھر چین کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا تاریخی فیصلہ کر لیا۔ فٹافٹ سرحدی حد بندی کا سمجھوتہ بھی ہوگیا اور ۱۹۶۵ء کی جنگ نے تو پاک چین دوستی کے مستقبل پر مہرِ تصدیق ثبت کردی۔ آگے کی تاریخ تو آپ کے علم میں ہے ہی۔
اب یہ صورت ہے کہ شمال کے جس خطرے سے ایوب خان بھارت سے مل کر نمٹنا چاہ رہے تھے وہی خطرہ دوستی میں ڈھل کے گوادر کے گرم پانیوں تک خوشی خوشی پہنچ چکا ہے۔ جب امریکیوں نے چینیوں سے شکوہ کیا کہ ان کی غیر مشروط حمایت کے سبب پاکستان اتنا بگڑ گیا ہے کہ کسی کی نہیں سنتا تو پیپلز لبریشن آرمی کے جنرل ژینگ کوانگ کائی نے کہاکہ ’’پاکستان چین کا اسرائیل ہے‘‘۔
(بحوالہ: ’’بی بی سی اردو ڈاٹ کام‘‘۔ ۱۰؍ستمبر ۲۰۱۷ء)
Leave a Reply