پاکستان کوئی نا کام ملک نہیں ہے البتہ اس کو ایک غیر یقینی مملکت کہا جا سکتا ہے جو نظریاتی، خاندانی، نیم جمہوری یا پھر مکمل بحرانی کیفیت سے گزر سکتا ہے۔ جب میں نے کچھ دن پہلے لاہوراور کراچی کا دورہ کیا تھا تب مجھے وہاں پاکستان کے مستقبل کے بارے میں رجائی نقطہ نظر رکھنے والا کوئی شخص نہیں ملا۔ اس کے باوجود میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کوئی ایسا ملک نہیں ہے جو ٹوٹ پھوٹ جائے گا حالانکہ عام طور پر یہی تاثر پایا جا تا ہے۔ پاکستان میں مختلف طاقتیں جیسے مذہبی، سیاسی اور مجرمانہ طاقتیں ایک دوسرے سے مسابقت کر رہی ہیں اور ہر طاقت اپنے لیے جگہ بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔مختصر یہ کہ ان حالات کی وجہ سے خدشات بڑھ رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ آگے چل کر پاکستان کی یکجہتی کے لیے ان ہی عناصر کے باعث خطرۂ حالات کی وجہ سے خدشات بڑھ رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ آگے چل کر پاکستان کی یکجہتی کے لیے ان ہی عناصر کی وجہ سے خطرہ پیدا ہو جائے۔ آخر کار پاکستان میں جوتصادم ہو گا وہ وہاں کی سیاسی طاقتوں اور پاکستان کے انتہا پسندوں کے درمیان ہو گا اور اس ملک کی تقدیر کا انحصار اسی تصادم کے نتیجہ پر ہو گا۔ مرحومہ بے نظیر بھٹو نے اپنا سیاسی قد اپنے مقتول والد ذولفقار علی بھٹو سے اونچا کر لیا تھا بے نظیر نے یہ بڑی پتے کی بات کہی تھی۔ ان کی تحریر کے مطابق بے نظیر بھٹو کو یہ خدشہ لاحق تھا کہ پاکستان میں اگر انتہا پسندی اور آمریت کے درمیان رسہ کشی جاری رہی تو اس ملک کے احوال بدل جائیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ اس وقت پاکستان کے بڑے شہروں لاہور، کراچی، اسلام آباد سمیت دیگر شہروں میں انتہا پسند عناصر موجود ہیں لیکن ان کی وجہ سے پاکستان میں روزمرہ کی زندگی متاثر نہیںہو رہی ہے۔ کہیں بم دھماکہ یا قتل و غارت گری کا واقعہ روز انہ رونما ہوتا ہے لیکن ان واقعات کے لیے ہمیشہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ افغان طالبان کی کارستانی ہے۔ افغان طالبان نے پاکستانی حکومت کے ساتھ جنگ بندی کا یہ مشروط معاہدہ کیا تھا کہ انہیں اگر سوات کی وادی اور وزیرستان کے علاقہ میں نہ چھیڑا گیا تو وہ جنگ نہیں کریںگے۔موجودہ حالات میں پاکستان میں اصل مجرمین پاکستانی طالبان ہیں جو پاکستان کی مختلف حکومتوں کی پیداوار ہیں یہ وہی حکومتیں تھیں جنہوں نے خواب دیکھا تھا کہ افغانستان ان کے لیے ایک سیٹلائٹ بن جائے گا اور انہیں طاقت حاصل ہو گی۔ پاکستانی طالبان کو آج بھی آئی ایس آئی کی تائید حاصل ہے۔ پاکستانی فوج کے ۳۵ فیصد سپاہی مبینہ طور پر جہادی بن چکے ہیں۔ یہ بھی خبر ملی ہے کہ ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے محض اس خیال سے جوابی فائرنگ نہیں کی تھی کہ وزیرستان میں پاکستان کے فوجی اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف کارروائی میں نرمی سے کام کر رہے ہیں۔ پشاور کے قریب ایک پاکستانی سفارت کار کے اغواء کے واقعہ میں افغان طالبان ملوث نہیں ہے پاکستانی طالبان نے محض اپنی طاقت کے مظاہرے کے لیے ایسا کیا تھا۔ میرا یہ احساس ہے کہ وہ پاکستانی طالبان جو شمال مغربی صوبہ سرحد سے لے کر اب ملک کے مختلف علاقوں تک پھیل چکے ہیں وہی پاکستانی قوم کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں یہ لوگ سخت انتہا پسند ہیں اور ان مدرسوں کی پیداوار ہیں جہاں انہیں ایک مخصوص اندازہ فکر دیا گیا تھا اور ایک مخصوص ذہن بنایا گیا تھا۔ پاکستانی طالبان بشمول حزب اللہ جیسی انتہا پسند تنظیموں کی جانب بڑی امید سے دیکھ رہے ہیں جو کبھی ساری دنیا کے لیے خطرہ بن گئے تھے اس سے بھی زیادہ خوفناک بات یہ ہے کہ یہ لوگ مذہبی جذبات کو اکساتے ہیں اور ان کی یہ کوشش کامیاب بھی ہو رہی ہے۔ پاکستانی سیاست دانوں کی صفوں میں ایساکوئی لیڈر نہیں ہے جو ان پاکستانی طالبان کو چیلنج کر سکے۔ کیونکہ سیاست دانوں پر یہ خوف طاری ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں مذہبی انتہا پسند طبقہ میں انہیں برا بھلا کہنے لگے گا۔ عام طور پر پاکستانی میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ ہم نے جو بویا تھا اسی کی فصل کاٹ رہے ہیں یہ بات در اصل سابق جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی ان کوششوں کی جانب اشارہ ہے جس کے تحت دونوں نے پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے کی کوشش کی تھی یا جنہوں نے انتہا پسند عناصر کی حوصلہ افزائی کی تھی تاکہ پاکستانی میں اعتدال پسندی اور جمہوریت کی آواز اٹھانے والی طاقتیں کمزور ہو جائیں۔ انتہا پسندوں کے برعکس ایسے تمام عناصر میں اتحاد پایا جا تا ہے جب کہ پاکستانی سیاست داں گروہوں میں منقسم ہیں۔ تمام سیاست داں ایک دوسرے سے دست و گر یباں ہیں یہ صحیح ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں جنرل مشرف کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے احتجاج کر رہی ہیں۔ اس مشترکہ مقصد کے باوجود ان کے درمیان اتحاد نہیں ہے صرف جمہوریت کے لیے نعرہ بازی سیاست دانوں کو متحد نہیں کر سکتی کیونکہ یہ بہت کم باہمی ملاقاتیں کرتے ہیں اور کبھی بھی ملک کو فوجی حکمرانی سے نجات دلانے کے لیے کوئی حکمت عملی تیار نہیں کرتے ہیں۔یہ وہ سیاست داں ہیں جو ضرورت پڑنے پر مشرف کی قیادت کو بھی تسلیم کر لیتے ہیں ان کے اپنے علیحدہ دربار بھی ہوتے ہیں ہر سیاست داں اپنی انا کے حصاروں میں بند ہیں جبکہ دوسری جانب پاکستان میں جاگیرداروں کا ایک الگ نظام بھی کام کر رہا ہے۔ ان کی اپنی محفلوں میں جمہوریت کا مذاق اڑایا جاتا ہے جاگیر دارانہ ذہنیت پاکستان میں کچھ اتنی گہری ہو گئی ہے کہ اب وہاں مساوات کا خیال بھی پیش کرنا مشکل ہو گیا ہے اگر مساوات کی بات کی جائے تو بھی اس کا تحفظ نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کا عام آدمی گھٹتی ہوئی آمدنی، ضروری اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی تکلیف سہہ رہا ہے وہ ان تمام واقعات کا ایک خاموش تماشائی بنا ہوا ہے جو کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا ہر شہری مساوات کے لیے جدو جہد میں سڑکوں پر نہیں آتا۔ عام پاکستانی کو معلوم ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں قیادت کی باگ دوڑ ہے وہ کبھی اپنا ذہن نہیں بد لیں گے۔ مذہب پرستی ایسے ہی ماحول میں پرورش پاتی ہے پاکستان کے عام شہری کو آج تک صرف بہتر مستقبل کا خواب دکھایا جا رہا ہے جس کی تعبیر کا کوئی سامان نہیں ہے۔ لیکن عام پاکستانی بھی چاہتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف عہدہ ترک کر دیں اس لیے نہیں کہ وہ ایک ڈکٹیٹر ہیں بلکہ اس لیے کہ جنرل مشرف نے بھی عام پاکستانی کی زندگی کو بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس کو یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ فوجی حکومت بھی ان کو زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم نہیں کر سکتی فوجی حکومت میںبھی عام شہری اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھجوا سکتا ہے اور نہ ہی اپنے خاندان کی پرورش کر سکتا ہے۔بات ایسی بھی نہیں ہے کہ پاکستان کا عام شہری برہم ہے بلکہ اس پر مایوسی چھائی ہوئی ہے اس کے باوجود کراچی کے پریس کلب میںجب میں نے لوگوں کو مشرف کی تعریف کرتے ہوئے سنا تو مجھے بے حد تعجب ہوا اس کے باوجود پاکستان کا یہی عام شہری بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد صوبہ سندھ میں بہت زیادہ برہم ہو گیا تھا ان مظاہروں کے دوران ریلوے اسٹیشنوں کو آگ لگا دی گئی جس سے پاکستان کے سرکاری خزانے کو ۲۰ بلین ڈالر کا نقصان ہوا، دکانیں لوٹ لی گئیں، پولیس اسٹیشنوں پر بھی حملے ہوئے۔ بے نظیر کے قتل کے بعد پاکستان میں کوئی لاء اینڈ آرڈر نہیں رہا تھا تین دن تک یہ کیفیت جاری رہی بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف زرداری سے جو پاکستان پیپلز پارٹی کے عارضی صدر بھی ہیں یہ کہتے ہوئے تشدد کو حق بجانب قرار دیا تھا کہ یہ بے نظیر کے قتل کے بعد ہونے والاایک مناسب رد عمل ہے۔ پیپلز پارٹی بلاشبہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے زرداری نے کہا تھا کہ بے نظیر کے قتل کے بعد جو ہلاکتیں ہوئیں ان کی نوعیت ایسی ہی تھیں جیسے اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہونے والے واقعات کی تھی جن میں تین ہزار سکھ ہلاک کر دیئے گئے تھے۔بے نظیر بھٹو کے قتل نے پاکستان میں ایک ایسا خلاء پیدا کر دیا ہے جس کو پر نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ ہم آہنگی سے یہ مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی بے نظیر بھٹو کا کوئی نعم البدل پیش کر سکتی ہے۔ اعتزاز حسن جیسے لوگ موجود ہیں جنہیں جنرل مشرف نے نظر بند کر دیا تھا اعتزاز حسن پیپلز پارٹی میں اعتدال پسندی لا سکتے ہیںوہ شاید نواز شریف کے لیے قابل قبول ہوں گے جو پاکستان کی دوسری سب سے بڑی جماعت ہے مسلم لیگ نواز شریف گروپ نے ایک مرحلہ پر پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی دوبارہ بحالی کے لیے با قاعدہ تحریک چلائی اور اس میں حصہ لیا تھا۔ یہی افتخار چودھری تھے جنہوںنے عدلیہ کے وقار کو بحال کروایا تھا میری اپنی رائے میں آگے چل کر وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے دوڑیا مقابلہ آرائی انہی اعتزاز حسن اور آصف علی زرداری میں ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں انتخابات کے بعد کے حالات بھی بہت زیادہ حوصلہ افزاء نہیں تھے لیکن اب انتخابی نتائج آ چکے ہیں اس لیے پاکستان میں سیاسی سطح پر نئی دوستیاں اور نئی دشمنیاں بھی ہو سکتی ہیں بہر حال یہاں مخلوط حکومت بنانے کے علاوہ سیاست دانوں کے لیے اور کوئی چارہ کار نہیں ہے۔
(بحوالہ: روزنامہ ’ المنصف‘ حیدر آؓباد دکن)
Leave a Reply