
روسی اقدامات
روس نے پاکستان سے تزویراتی سطح کے تعلقات بہتر بنانے کی خاطر جو اقدامات کیے ہیں، اُن کا جائزہ لینے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ پاکستان کی طرف اس قدر ملتفت کیوں ہو رہا ہے۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ روس نے پاکستان سے تزویراتی تعلقات کو مزید بڑھانے کے لیے کون سے اقدامات کیے ہیں۔ جون ۲۰۱۴ء میں روسی قیادت نے پاکستان کو منشیات کے اسمگلروں سے مقابلہ کرنے کی خاطر جدید ترین اٹیک ہیلی کاپٹر فراہم کرنے کے حوالے سے مذاکرات کا آغاز کیا۔ بڑی قوتوں کے لیے یہ تبدیلی بہت حیرت انگیز تھی اور یقیناً ایسی نہیں تھی کہ آسانی سے نظر انداز کی جاسکتی۔ امریکا اور یورپ بالخصوص پریشانی سے دوچار ہوئے۔ چند ایک ماہرین کے ذہن میں یہ نکتہ ابھرا کہ روس کو اندازہ ہے کہ نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں عدم استحکام بڑھے گا اور ایسے میں پاکستان کو مضبوط کرنا لازم ہوگا تاکہ وہ صورتحال کا بہتر انداز سے سامنا کرسکے۔ چند ایک ماہرین کا خیال یہ تھا کہ روس اب کسی ایک ملک کی طرف واضح جھکاؤ رکھ کر معاملات کو یک طرفہ نوعیت کا نہیں بنانا چاہتا۔ اس نے بھارت پر غیر معمولی توجہ دی ہے اور پاکستان کو نظر انداز کیا ہے۔ ان ماہرین کا خیال تھا کہ روس اب پاکستان سے اشتراکِ عمل کے ذریعے خطے میں طاقت کا توازن پیدا کرنا چاہتا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ ایک سے زائد بڑی طاقتوں والی دنیا میں کسی ایک ملک پر زیادہ عنایات نہ کی جائیں۔
اور معاملات صرف عسکری سطح پر تعاون تک محدود نہیں رہے۔ روس نے پاکستان، ایران اور چین کے درمیان ایک بڑی گیس پائپ لائن کی تعمیر میں تکنیکی تعاون کی پیشکش بھی کی ہے۔
پاکستان کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ جب سی پیک مکمل ہو جائے گی، تب کتنے بڑے معاشی مواقع اور امکانات پیدا ہوں گے۔ پیش بینی کرتے ہوئے پاکستان نے یوریشین یونین سے آزاد تجارت کا معاہدہ کرنے کو ترجیح دی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں یوریشیا اور دیگر خطوں کو کس قدر اہمیت دیتا ہے۔ دونوں ممالک ثقافتی سطح پر بھی ایک دوسرے کے نزدیک آنا چاہتے ہیں۔ روس کا ایک اعلیٰ سطحی ثقافتی وفد جلد پاکستان کا دورہ کرے گا اور پاکستان کے فوجی بینڈ نے ماسکو کے انٹرنیشنل میوزک فیسٹیول میں فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان تمام باتوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ روس اور پاکستان تعلقات بہتر بنانے کے معاملے میں کتنے سنجیدہ ہیں اور یہ کہ تعلقات میں رونما ہونے والی تبدیلیاں وقتی نوعیت کی نہیں۔ دونوں ممالک جو کچھ بھی کر رہے ہیں، اُس کے اثرات کا انہیں بخوبی اندازہ ہے۔ دونوں ہی ممالک کی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ ایک سے زائد طاقتوں کے ذریعے چلائی جانے والی دنیا میں پاکستان یوریشیا اور دوسرے خطوں کو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کرسکتا۔
اب آئیے اس سوال کی طرف کہ سی پیک کی راہ میں کون کون سی رکاوٹیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ سب کچھ ویسا آسان نہیں جیسا ہمیں دکھائی دے رہا ہے۔ کوئی بھی بڑی پیچیدگی پاکستان اور بھارت دونوں کے یا دونوں میں سے کسی ایک کے امکانات کو خاک میں ملا سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر معاشی اور معاشرتی نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔
سفارتی سطح کی الجھنیں
اگر روس اپنے مخصوص مفادات کے لیے پاکستان سے مزید قریب ہونے کی کوشش کرتا ہے تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھارت اپنے لیے عالمی سطح پر بہتر امکانات تلاش کرنے کے لیے امریکا کی طرف زیادہ جھک جائے۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان اور روس دونوں ہی کے لیے شدید مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ امریکا خطے میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے اور سفارت کاری و عسکری صلاحیت کے دامن پر لگے ہوئے بہت سے داغ دھونے کی خاطر بھارت کی غیر معمولی معاونت کرکے پاکستان کے لیے پریشان کن صورتحال پیدا کرسکتا ہے۔ ایسی کوئی بھی صورتحال ابھرنے کی صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امریکا اور اس کے مغربی حاشیہ بردار خطے میں سکیورٹی کا نیا مسئلہ کھڑا کردیں اور بھارت کو یقین دلایا جائے کہ روس کی بدلتی ہوئی سفارتی اور اسٹریٹجک ترجیحات اس کی سکیورٹی کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔ امریکا اور اس کے مغربی حاشیہ بردار اگر بھارت کو سکیورٹی کے حوالے سے خطرات کا کچھ زیادہ ہی یقین دلانے میں کامیاب ہوجائیں تو خطے میں شدید عدم استحکام کی راہ ہموار ہوتے دیر نہیں لگے گی۔ حاصل کلام یہ ہے کہ روس اور چین دونوں ہی کو خطے میں قدم مضبوطی سے گاڑنے کے لیے بہت احتیاط سے کام کرنا ہوگا۔ ان کی طرف سے کسی بھی طرح کا غیر معمولی اقدام معاملات کو کچھ کا کچھ کر دکھائے گا۔ ایسے میں روس کے لیے لازم ہوجائے گا کہ بھارت کے تمام تحفظات دور کرے اور ساتھ ہی ساتھ اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان معاملات کو زیادہ سے زیادہ متوازن رکھنے کی کوشش کرے تاکہ اس کے لیے وسیع تر معاشی امکانات کو بارآور بنانا ممکن ہو۔
اگر روسی قیادت معاملات کو بہتر انداز سے سلجھانے میں ناکام رہتی ہے اور امریکا اپنے مخصوس میکینزم سے چین اور روس کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے میں کامیاب رہتا ہے تو سوچا جاسکتا ہے کہ پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے سے پہلے روس کی جو پوزیشن تھی، اس سے بھی بُری پوزیشن میں وہ آجائے گا۔ اگر روسی قیادت نے بھارت جیسے دوست کو ہاتھ سے جانے دیا تو اُس کے ہاتھ اِس سے کہیں چھوٹا اور کم اہم پاکستان آئے گا اور یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ روس سے دوستی خواہ کسی سطح پر پہنچ جائے، پاکستان اسے چین سے تعلقات پر کبھی ترجیح نہیں دے سکتا۔ اب روسی قیادت کے لیے اصل امتحان یہ ہے کہ معاملات کو انتہائی توازن کے ساتھ چلایا جائے تاکہ نئی دہلی میں اسٹیبلشمنٹ پاکستان سے روس کے بڑھتے ہوئے تعلقات سے زیادہ متنفر نہ ہو اور روس سے تعلقات کا دائرہ چھوٹا کرنے کو ترجیح نہ دے۔ اس امکان کو کسی بھی طور مسترد یا نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ امریکا نے جس طور روس اور یورپی یونین کے درمیان دراڑ ڈالنے کے لیے یوکرین کو استعمال کیا، بالکل اُسی طرح وہ روس اور بھارت کی راہیں الگ کرنے کے لیے پاکستان کو بھی استعمال کرسکتا ہے۔ امریکا جس طور انفارمیشن وارفیئر کے ذریعے روس کو نشانہ بناتا رہا ہے، اُس کا تقاضا ہے کہ روسی قیادت ضرورت سے زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کرے اور بھارتی قیادت سے قریبی رابطے میں رہے تاکہ کسی بھی غیر مطلوب صورتحال سے بہتر طور پر نمٹنا اس کے لیے آسان ہو۔ روسی قیادت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بھارت سے سات آٹھ عشروں پر محیط دوستی کو بچانا ہے۔
امریکا کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ اس تیزی سے بدلتی ہوئی علاقائی صورتحال میں نچلا بیٹھا رہے۔ وہ چاہے گا کہ بھارت اور روس کے درمیان ویسی ہی دوریاں ہوجائیں جیسی روس اور یورپی یونین کے درمیان واقع ہوچکی ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے تو امریکا خیر جو کرے گا سو کرے گا، یہ حقیقت کسی طور نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ امریکا اس وقت دفاعی امور کے حوالے سے بھارت کا سب سے بڑا سپلائر ہے۔ بھارتی فوج اب امریکی فوجی ساز و سامان پر انحصار کرنے لگی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت میں اس وقت بھی ۷۰ فیصد فوجی ساز و سامان (بشمول ہتھیار اور طیارے وغیرہ) روسی ساخت کا اور سابق سوویت یونین کے دور کا ہے مگر یہ حقیقت بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ بھارتی قیادت اب جدید ترین امریکی اور یورپی اسلحے اور ساز و سامان پر انحصار کر رہی ہے۔ سوویت دور کا از کارِ رفتہ فوجی ساز و سامان اب بھارتی فوج سے الگ کیا جارہا ہے۔ اسرائیل بھی بھارت کو جدید ترین اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ اس وقت بھارت اسرائیلی ہتھیاروں اور دیگر فوجی ساز و سامان کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ یہ صورتحال روس کے لیے کسی بھی اعتبار سے بہت اچھی اور پسندیدہ نہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی مرحلے پر روس کو پاکستان کے لیے فوجی برآمدات سے متعلق فیصلے پر نظرثانی کرنا پڑے۔ یہ حقیقت بھی قابلِ غور ہے کہ بھارت کو اب امریکا نے چین کے خلاف استعمال کرنے کا آغاز کردیا ہے۔ بھارت کی سلامتی کا معاملہ امریکا کے ہاتھوں میں جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ اب معاملہ کچھ یوں ہے کہ جس قدر بھی بھارتی قیادت روس سے نالاں رہے گی اور دور ہوتی جائے گی، اُسی قدر امریکی قیادت بھارت کی جڑوں میں بیٹھتی جائے گی اور ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ واضح منفی اثرات کے بغیر نہ ہوگا۔ امریکی خارجہ پالیسیوں کے منفی اثرات بالآخر ہر اس ملک کو بھگتنا پڑیں گے جس کی طرف امریکا جھکے گا۔
امریکی صدر اوباما اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان انفرادی سطح پر بھی تعلقات بہت اچھے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ امریکی صدر نے بھارتی وزیراعظم کے لیے گزشتہ موسم بہار میں معروف جریدے ’’ٹائم‘‘ میں ایک مختصر تحریر لکھی تھی۔ دونوں رہنما اگر مل کر چلنے پر متفق ہوجائیں تو کہا جاسکتا ہے کہ امریکا اور بھارت کو ایک دوسرے کے مزید قریب ہونے کا موقع ملے گا اور دونوں ممالک مل کر بہت سے معاملات میں خطے کی مجموعی صورتحال بدلنے کی کوشش کریں گے۔ نریندر مودی اور اوباما میں ذاتی سطح پر جو تال میل پایا جاتا ہے، وہ دو طرفہ تعلقات کے لیے انتہائی خوشگوار ہے اور اس کے نتیجے میں دونوں کو مختلف شعبوں میں ایک دوسرے کی طاقت اور کمزوریاں سمجھنے میں مدد ملے گی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سیاسی مقاصد کے لیے اوباما اور مودی کی دوستی کو کچھ زیادہ بیان کیا جارہا ہو۔ مگر بہرحال کسی نہ کسی تبدیلی کی راہ تو ہموار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اوباما چاہتے ہیں کہ بھارت اور روس کے درمیان معاملات کسی حد تک بہتر ہوجائیں تاکہ پاکستان اور روس کے درمیان اسٹریٹجک پارٹنر شپ کے پنپنے کی زیادہ گنجائش نہ رہے۔ روس کے لیے یہ سب کچھ انتہائی پریشان کن ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ روسی قیادت کو بھی اندازہ ہے کہ امریکا جو کچھ بھی کر رہا ہے، وہ محض اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے نہیں ہے، اس کا ایک بنیادی مقصد روس کے مفادات کو ضرب لگانا بھی ہے۔ روس نے بیشتر معاملات میں مشرق کی طرف دیکھنے کی جو پالیسی اپنائی ہے، وہ اب امریکا، یورپ اور کینیڈا سے ہضم نہیں ہو پارہی۔ اب ولادیمیر پوٹن کی صلاحیت کا امتحان ہے کہ وہ بھارت کو اس بات کا یقین دلاتے رہیں کہ روس اب بھی بھارت سے دوستی کو انتہائی اہمیت دیتا ہے۔ اس حوالے سے کامیاب کوشش ہی بھارت کو امریکا کی باتوں میں آنے سے روک سکتی ہے۔ اگر پوٹن ناکام رہے تو امریکی صدر کے لیے بھارت کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنا آسان ہوجائے گا۔
یہ مرحلہ گندی سیاست کے فعال ہونے کا ہے۔ امریکا اس کھیل کا ماہر ہے۔ وہ یقیناً یہ نہیں چاہے گا یا کسی بھی صورت برداشت نہیں کرے گا کہ پاکستان اس کے دائرے سے نکل کر روس اور چین کے دائرے میں داخل ہو۔ چین کی حد تک تو معاملات کچھ گوارا بھی ہیں مگر روس کی طرف پاکستان کا جھکاؤ امریکا کے لیے انتہائی اشتعال انگیز ہے۔ اگر روس اور پاکستان کے درمیان تزویراتی شراکت داری عملی شکل اختیار کرگئی تو بھارت کی پوزیشن بہت عجیب ہوجائے گی۔ اس کے تحفظات بڑھ جائیں گے اور ہر لحظہ یہ احساس پروان چڑھتا رہے گا کہ اسے گھیرے میں لیا جارہا ہے۔ ایسے میں بھارت کے لیے چین، روس اور پاکستان، تینوں کے ساتھ مل کر چلنا ناگزیر ہوجائے گا۔ یہ مجبوری اس کے معاشی مفادات کو غیر معمولی حد تک نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ امریکا کسی طور نہیں چاہے گا کہ بھارت کے لیے اس نوعیت کی کوئی بڑی الجھن پیدا ہو۔
بلوچستان کا معاملہ انتہائی پریشان کن ہے۔ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب بڑا صوبہ بلوچستان بہت ہی کم آبادی رکھتا ہے۔ اس کی اسٹریٹجک اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ایک طرف تو یہ افغانستان اور ایران سے جڑا ہوا ہے اور دوسری طرف یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ گوادر پورٹ بھی اسی صوبے میں ہے۔ گوادر پورٹ کے کامیاب ہونے پر پورے خطے میں غیر معمولی معاشی تبدیلی کا مدار ہے۔ روس کے لیے بھی گوادر پورٹ کی اہمیت کم نہیں۔ افغانستان بھی اس سے کماحقہٗ مستفید ہوسکتا ہے۔ گوادر پورٹ کو ناکام بناکر روس، چین، پاکستان، وسط ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے درمیان تزویراتی شراکت داری کو ناکام بنانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ پاکستان کو پہلے ہی یہ شکوہ ہے کہ بھارت نے بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصر کی پشت پناہی کے ذریعے خطے میں عدم توازن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس معاملے میں امریکا کے ملوث ہونے کے امکان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ امریکا کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ گوادر پورٹ کامیاب نہ ہو۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ بلوچستان میں حالات خراب کرنے کی خاطر کسی بھی ملک کو استعمال کرسکتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ امریکا کسی چھوٹے سے مفاد کے لیے بلوچستان کے معاملات میں دلچسپی لے رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں علیحدگی پسندی سے پاکستان کی قیادت کے لیے مشکلات بڑھیں گی اور سی پیک منصوبے کی بہتر انداز سے تکمیل اور اس سے استفادہ ممکن بنانا انتہائی مشکل ہوجائے گا۔ ساتھ ہی ساتھ ایک منتشر اور اندرونی طور پر بٹا ہوا پاکستان امریکی مفادات کے لیے زیادہ کارگر ثابت ہوگا۔ مگر ان تمام باتوں سے بڑھ کر یہ کہ بلوچستان کے حالات کی خرابی سے پاکستان کے ساتھ ساتھ ایران اور افغانستان میں بھی مشکلات پیدا ہوں گی۔ یوں ایک خطے کو عدم استحکام کا شکار کرکے وسیع تر مفادات کا حصول یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
اگر بلوچستان میں معاملات خراب رہے تو ایران کا صوبہ سیستان بلوچستان بھی عدم استحکام کا شکار رہے گا۔ ایسے میں بھارت کے لیے ایران کے ساتھ مل کر چاہ بہار کا منصوبہ بہتر ڈھنگ سے مکمل کرنا اور اس بندر گاہ کو وسط ایشیا اور روس سے جوڑنا ممکن نہ رہے گا۔ محتاط الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ بلوچستان کا عدم استحکام خود بھارت کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ بلوچستان کی خرابی ایران پر بھی اثر انداز ہوگی اور اس کے نتیجے میں بھارت کے لیے ایران کے ساتھ مل کر بہت سے تزویراتی منصوبوں پر عمل انتہائی دشوار ہوجائے گا۔ چاہ بہار کا منصوبہ کامیابی سے مکمل ہونے کی صورت میں ریل روڈ کے ذریعے ایران کو قازقستان، ترکمانستان اور روس سے جوڑنا ممکن ہوسکتا ہے۔ امریکا یقیناً ایسا نہیں چاہے گا۔ ایران اور روس کے لیے بھارت کی طرف سے بنیادی ڈھانچے میں کی جانے والی سرمایہ کاری کو داؤ پر لگانے والے حالات پیدا کرکے امریکا رفتہ رفتہ بھارت پر دباؤ بڑھاکر اس سے اپنی ہر بات منوانے کی پوزیشن میں آسکتا ہے۔ ایسا ہی دباؤ تہران پر بھی ڈالا جاسکتا ہے۔ یہاں رالف پیٹرسن کے بدنام زمانہ ’’خونیں سرحدوں‘‘ والے نقشے کا ذکر ناگزیر سا ہے جس میں بلوچستان کو آزاد ریاست دکھایا گیا ہے۔ یہ ریاست پاکستان اور ایران کے علاقوں پر مشتمل ہے۔
پاکستان کے لیے دہشت گردی کم و بیش دو عشروں سے انتہائی سنگین مسئلہ رہی ہے۔ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) اور سرحد پار افغانستان میں ٹھکانوں سے دہشت گرد پاکستانی مفادات کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔ یہ مسئلہ پورے ملک کے لیے انتہائی پریشان کن رہا ہے۔ بلوچستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے سیاسی اور عسکری قیادت کے لیے مزید چیلنج پیدا کیے ہیں۔ فاٹا میں انتہا پسندوں نے جو اندھیر مچا رکھا ہے، اس سے نمٹنا بھی پاکستانی فورسز کے لیے ناگزیر ہے۔ یہی سبب ہے کہ اب تک بلوچستان کی صورتحال پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاسکی اور علیحدگی پسندوں کو ختم کرنا ممکن نہیں ہوسکا ہے۔
دہشت گردی ایسا مسئلہ نہیں جسے نظر انداز کرکے آگے بڑھا جائے۔ پاک افغان سرحدی علاقے کی صورتحال ذہن نشین رکھی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایک اشو بہت سے معاشی اور اسٹریٹجک امکانات کو ملیا میٹ کرسکتا ہے۔ پاکستان کے لیے دہشت گردی سے نمٹنا انتہائی ضروری ہے۔ چین اور روس دونوں ہی اس بات کو سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف بھارت ہے جس کا مفاد یقینی طور پر امریکا ہی کے مفادات سے جڑا ہوا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بھی عدم استحکام رہے اور پاک ایران سرحدی علاقہ بھی بہت حد تک ڈانوا ڈول رہے۔ افغانستان میں خلافت کے احیا کے عَلم بردار اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور انہوں نے ممکنہ طور پر ننگرہار کو اپنا مرکز بنایا ہے۔ وہ بحال کی جانے والی خلافت میں پاکستان، بھارت، بنگلا دیش، میانمار اور دیگر علاقوں کو شامل کرنے کے دعویدار ہیں! خلافت کے یہ دعویدار اپنے غیر حقیقت پسندانہ اہداف کے حصول کے لیے دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کرسکتے ہیں۔ اگر پاکستانی علاقوں میں موجود انتہا پسند خلافت کے دعویداروں کے ساتھ مل جاتے ہیں تو وہ افغانستان کے سرحدی علاقوں سے فاٹا تک چھوٹی سی خلافت قائم کرکے وہی کیفیت پیدا کرسکتے ہیں جو عراق اور شام کے سرحدی علاقوں میں داعش نے پیدا کر رکھی ہے۔
جنوب مشرقی خطے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مئی میں تاجکستان کی اسپیشل فورسز کے سربراہ کرنل گل مرود کلیموف کا منحرف ہوکر مجاہدین سے جا ملنا اس بات کا غمّاز ہے کہ انتہا پسندوں نے وہاں بھی ایسے امکانات کی راہ ہموار کردی ہے جن کے نتیجے میں اسلامی شریعت نافذ کی جاسکتی ہے۔ تاجکستان میں انتہا پسند بہتر پوزیشن میں ہیں اور کسی بھی وقت کچھ بھی کیا جاسکتا ہے۔ سابق وزیر دفاع عبدالحلیم نظر زادہ کے حامیوں پر مشتمل ایک مضبوط گروپ ملک میں شریعت نافذ کرنے کے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے میدان میں آسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کرنل گل مرود کلیموف کے علم میں یہ بات ہو کہ ریاستی مشینری سے ٹکرانے والوں کی طاقت اس قدر ہوچکی ہے کہ وہ اپنی بات منواسکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ملک کا رنگ روپ تبدیل ہوسکتا ہے۔ اگر ایسی کوئی صورتحال ابھرتی ہے تو گل مرود کلیموف جیسے لوگوں کے لیے گورنو اور بدخشاں کے درمیان نیم خودمختار علاقہ اچھا میدان عمل بن سکتا ہے۔ کرغیزستان کی صورتحال بھی بدل رہی ہے۔ جنوبی کرغیزستان میں عدم استحکام کا فائدہ اٹھاکر امریکا بھی کوئی انتقامی کارروائی کرسکتا ہے۔ کرغیزستان نے امریکا سے تمام معاہدے ختم کردیے ہیں، جس کے نتیجے میں امریکی قیادت کرغیزستان کو سخت ناپسند کرتی ہے۔ موقع ملتے ہی امریکا وسط ایشیا کے اس ملک کو سبق سکھانے سے گریز نہیں کرے گا۔ حالات اس امر کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ وسط ایشیا سے جنوبی ایشیا تک نسبتاً چھوٹے پیمانے پر خلافت ابھر سکتی ہے، جس میں جنوبی حصے کے طور پر پاکستان کے بعض علاقے بھی شامل ہوسکتے ہیں۔
اگر پاکستان میں خلافت کی بات تیزی سے کی جانے لگی اور اس حوالے سے لوگ میدان میں اترتے گئے تو وزیراعظم نواز شریف کے لیے مشکلات بڑھیں گی۔ گزشتہ برس جب پارلیمان کا گھیراؤ کیا گیا تھا، تب بہت سے بین الاقوامی میڈیا آؤٹ لیٹس نے غلط اندازے قائم کرتے ہوئے انہیں تقریباً بے تخت قرار دے ہی دیا تھا۔ ’’بی بی سی‘‘ جیسے ادارے نے ان کے لیے ’’گِھرا ہوا‘‘ کا لفظ استعمال کیا تھا اور ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ جیسے موقر امریکی اخبار نے بھی لکھ مارا تھا کہ وہ اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں! تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے مل کر اسلام آباد میں جو دھرنا دیا تھا اس کے نتیجے میں حکومت گئی تو خیر نہیں مگر دنیا کو اتنا ضرور معلوم ہوگیا کہ پاکستان میں بھی کوئی رنگین انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔
پاکستان جیسے ممالک کسی بھی بڑی تبدیلی کے امکان سے مکمل محفوظ نہیں۔ شریعت نافذ کرنے کا مطالبہ بہت سوں کو انتہائی خطرناک معلوم ہوتا ہے۔ شریعت کا نام آتے ہی سخت ترین سزاؤں کا تصور ذہن کے پردے پر ابھرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اسلامی انتہا پسندوں کو چند مخصوص علاقوں سے ہٹ کر زیادہ مقبولیت نہیں ملتی۔ ہوسکتا ہے کہ اس بار انقلاب کے داعی اپنی طرزِ فکر و عمل تبدیل کرلیں۔ بدعنوانی کے خلاف بڑے پیمانے پر لڑائی چھیڑ کر بعد میں اس لڑائی کا رخ اسلامی اصولوں کے نفاذ کی طرف موڑ دیا جائے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ سب کچھ انتہا پسند گروپ براہ راست اپنی چھتری تلے نہ کریں بلکہ نام نہاد ’’سول سوسائٹی‘‘ کا سہارا لیں۔ اس صورت میں ایک عام آدمی تبدیلی سے متاثر ضرور ہوگا مگر خوف زدہ ہرگز نہ ہوگا۔ ایسی صورت میں انقلاب لانے کے دعویداروں کو حالات سے مطابقت پیدا کرنے میں زیادہ آسانی رہے گی۔ وہ اپنا اندرونی ڈھانچا آسانی سے تبدیل کرسکیں گے۔ عام طور پر کوئی بھی انتہا پسند گروپ جب بے نقاب ہوکر سامنے آتا ہے تو لوگ خوف محسوس کرتے ہیں۔ اگر وہ خود کو زیر نقاب رکھیں تو یقینی طور پر تبدیلی لانا آسان بھی ہوجائے گا اور کوئی بڑی الجھن بھی پیدا نہیں ہوگی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ معاشرے میں حقیقی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنے کے لیے نسبتاً کم معروف سیاسی جماعتوں کا سہارا لیا جائے اور کمتر حیثیت کی حامل سیاسی شخصیات کے ہاتھ میں بہت کچھ رکھا جائے تاکہ عوام زیادہ شکوک میں مبتلا نہ ہوں۔
امریکا نے مشرقی یورپ میں جس نوعیت کی عوامی تبدیلیوں کی راہ ہموار کی ہے، اسے پاکستان کی سرزمین پر بھی دہرایا جاسکتا ہے۔ یوکرین، جارجیا اور دیگر ممالک میں جس نوعیت کی انقلابی تبدیلیاں لائی گئی ہیں، ان کے لیے پاکستان بھی ایک اچھا میدان بن سکتا ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے معاملے میں اعتدال کی راہ اپنائی جائے گی۔ یہاں کوئی ایسا انقلاب لایا جاسکتا ہے جو بہت سخت گیر بھی نہ ہو اور ایسا نرم بھی نہ ہو کہ سبھی کچھ ڈانوا ڈول سا دکھائی دے۔ کوئی بیچ کی راہ نکال کر پاکستان کو بیشتر تزویراتی امور میں آگے بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں آرمینیا کی طرز پر قدرے نرم انقلاب لاکر کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا اور شام کی طرز پر انتہائی سخت نوعیت کی تبدیلیاں لاکر بھی کچھ نہیں پایا جاسکتا۔ ایسے میں بہتر یہی ہے کہ دونوں کو ملاکر قدرے معتدل ورژن اپنایا جائے۔
اکیسویں صدی میں یوریشین خطے کو بڑے معاشی امکانات کی سرزمین بنانے کے لیے بھرپور انداز سے کام ہو رہا ہے۔ طاقت کا مرکز مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ ایسے میں امریکا کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہیں اور اس کی بدحواسی بھی۔ یورپی یونین نے اس عمل سے خود کو الگ کر رکھا ہے۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ اسے اس میں کچھ زیادہ چارم دکھائی نہیں دیتا اور دوسرا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ اب تک امریکا کے دباؤ میں ہے۔ یورپ کے بیشتر ممالک اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا معاشی اور اسٹریٹجک مفاد بحرِ اوقیانوس کے پار دیکھنے میں ہے نہ کہ یوریشیا، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کی طرف دیکھنے میں۔ یوریشین یونین، ایران، سارک اور چین مل کر ایک ایسا عظیم معاشی خطہ قائم کرنا چاہتے ہیں جس میں سب کے لیے امکانات بھرے ہوں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرانے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے روس نے پاکستان سے اسٹریٹجک تعلقات کی سطح بلند کرنے کی طرف جس تیزی سے قدم بڑھائے ہیں، اسے دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ روسی قیادت کی نظر میں پاکستان کس قدر اہم ہے۔ دوسری طرف امریکا ہے جو اس جیو پولیٹیکل صورتحال میں اپنے مفادات کو داؤ پر لگتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔ وہ دہشت گردی، سبوتاژ، دھمکی، دباؤ اور ’’انقلابات‘‘ کے ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم رکھنا چاہے گا تاکہ یوریشین خطہ سارک اور چین سے مل کر بہتر معاشی امکانات پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ ان تمام خطرات کا سامنا کرنے کے لیے روس، ایران، پاکستان اور چین کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
[اس مضمون کی تیاری میں ’’برکس‘‘ کانفرنس اور اوفا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوران طیب بلوچ سے کی جانے والی گفتگو سے غیر معمولی مدد لی گئی ہے۔]
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Pakistan is the ‘Zipper’ of Pan-Eurasian integration”. (“en.riss.ru”. Sept. 15, 2015)
Leave a Reply